اسرائیل پر حماس کا حملہ

شمعِ فروزاں: فقیہ العصر حضرت اقدس مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ

 صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ

            56/ سال پہلے عالمِ اسلام پر ایک ایسی کاری ضرب لگی، جس کا درد ہر باشعور مسلمان کو تڑپاتا ہے اور جس کی ٹیس ہر صاحب ایمان اپنے سینے میں محسوس کرتا ہے۔ یہ زخم تھا 7 جون 1967ء کو مسلمانوں کے قبلہٴ اول بیت المقدس پر اسرائیل کے قبضہ کا۔ افسوس کہ عام مسلمان یہاں تک کہ مسلم ممالک بھی اس ناقابل ِفراموش واقعہ کو فراموش کرتے جارہے ہیں۔کسی بھی قوم کے لیے سب سے بڑی محرومی کی بات یہ ہے کہ وہ لٹ جائے اور اسے لٹنے کا احساس نہ ہو۔وہ اپنے سرمایہٴ غم سے بھی محروم ہوجائے اور محرومی کا احساس بھی اس کے دل و دماغ سے رخصت ہوجائے۔ علامہ اقبال نے خوب کہا ہے:

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

            بیت المقدس وہ مقدس مقام ہے، جو مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے لیے یکساں طور پر متبرک ہے۔ یہیں معراج کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کو عالم بالا کا سفر کرایا گیا۔پیغمبر اسلام ﷺ نے نبوت کے بعد سولہ ماہ سے زیادہ عرصہ تک اسی کی طرف رُخ کرکے نماز ادا فرمائی۔ اس لیے یہ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے۔ بعض روایتوں سے معلوم ہوا ہے کہ بیت اللہ شریف کی تعمیر کے کچھ عرصہ بعد سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی نے بیت المقدس کی بھی تعمیر فرمائی تھی۔ حضرت صالح علیہ السلام، حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت داوٴد علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت زکریا علیہ السلام، حضرت یحییٰ علیہ السلام، حضرت مسیح علیہ السلام اور کتنے ہی انبیائے کرام کی حیاتِ طیبہ اس مبارک مقام سے متعلق رہی ہے۔شہر بیت المقدس کے قرب و جوار میں بھی مختلف علاقے ہیں، جو مختلف پیغمبروں سے منسوب ہیں۔ اسی لیے اسلام کی نگاہ میں اس شہر اور اس مسجد کی خاص اہمیت ہے۔

            ایک صحابی نے رسول اللہ ﷺ سے بیت المقدس کے بارے میں دریافت کیا تو فرمایا کہ: یہ حشر و نشر کی سر زمین ہے۔ یہاں آوٴاور نماز ادا کرو کہ اس مسجد میں ایک نماز ادا کرنا دوسری مسجدوں میں ایک ہزار نماز ادا کرنے کے برابر ہے۔ ان صحابی نے استفسار کیا کہ اگر میرے اندر وہاں تک جانے کی استطاعت نہ ہو؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کم سے کم تیل کا ہدیہ ہی بھیج دو،جو وہاں چراغ میں کام آئے۔(ابن ماجہ، حدیث نمبر: 1045)

             حضرت عبد اللہ بن عمر سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: جب حضرت سلیمان علیہ السلام بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو اللہ تعالیٰ سے دُعا فرمائی، اس میں ایک دُعا ایسی حکومت کی تھی جو آپ کے بعد کسی کو میسر نہ آئے اور اس میں ایک دُعایہ بھی تھی کہ جو اس مسجد میں صرف نماز کے لیے آئے تو اس کے گناہ اس طرح معاف ہو جائیں کہ گویا وہ آج ہی اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تین دُعاوٴں میں سے دو تو مقبول ہوگئی اور مجھے اُمید ہے کہ یہ تیسری دُعا جو مغفرت سے متعلق تھی، وہ بھی مقبول ہوگئی ہوگی۔ (ابن ماجہ، حدیث نمبر: 1406)

            اور یہ روایت تو حدیث کی متعدد کتابوں میں وارد ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ خاص طور پر تین ہی مسجدوں کے لیے سفر کرنا درست ہے۔مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ۔(ابن ماجہ،حدیث نمبر: 1408 – 1407)

             اس لیے مسلمانوں کو اس مقدس اور متبرک مقام سے ہمیشہ قلبی اور جذباتی تعلق رہا ہے۔

            اسلام سے پہلے یہ شہر بار بار تخت و تاراج کیا گیا۔خاص کر چھٹی صدی قبل مسیح، بابل کے حکمراں بخت نصر نے اس شہر اور اس کے مقدس مقامات کی جس طرح اینٹ سے اینٹ بجائی اور ایک لاکھ یہودیوں کو قید کرکے بابل لے گیا، وہ تاریخ کے اہم واقعات میں سے ایک ہے۔ یہودی جو اپنے آپ کو اس شہر کا اصل وارث سمجھتے ہیں، صرف تہتر 73 سال ہی اس شہر پر برسر اقتدار رہے۔حضرت عمر کے عہد میں 636ء میں بیت المقدس کا علاقہ حضرت عمرو بن العاص اور حضرت ابو عبیدہ  نے فتح کیا۔مسلمان چاہتے تھے کہ شہر میں خون ریزی نہ ہو اور صلح کی صورت نکل آئے، عیسائیوں نے یہ شرط لگائی کہ خلیفة المسلمین خود آکر دستاویز پر دستخط کریں۔ حضرت عمر  نے اسے قبول فرمالیا اور مدینہ میں حضرت علی  کو اپنا قائم مقام بنا کر رجب 16ء میں بیت المقدس تشریف لائے، بیت المقدس سے پہلے ہی ”جابیہ “نامی مقام پر اسلامی لشکر نے حضرت عمر کا استقبال کیا، وہیں عیسائی رہنما بھی آگئے اور معاہدہٴ صلح کی تحریر عمل میں آئی۔ اس معاہدہ کے تحت عیسائی باشندوں کی جان و مال، مذہبی مقامات اورحضرت مسیح کی مورتیوں وغیرہ کی حفاظت کی ضمانت دی گئی؛ بلکہ عیسائی یہودیوں کے ساتھ رہنا نہیں چاہتے تھے، حضرت عمر نے ان کی اس خواہش کو بھی قبول فرمایا اور یہودیوں کی الگ آبادی بنائی گئی۔

            اس کے بعد سے یہاں برابر مسلمان حکمراں رہے،یہاں تک کہ گیارہویں صدی عیسوی میں صلیبی جنگیں شروع ہوئیں اور 23 شعبان 492ھ کو عیسائی دوبارہ فاتحانہ بیت المقدس میں داخل ہوئے۔ انھوں نے شہر میں ایسا قتل عام مچایا کہ بچے، بوڑھے، جوان اور مرد و عورت کو بلاامتیاز تہہ تیغ کیا گیا۔شہر میں لاشوں کے انبار لگ گئے۔ خود مغربی مورخین نے اس خوں آشامی کا اعتراف کیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ صرف ایک دن میں شہر اور اس کے مضافات میں ستر ہزار افراد شہید کیے گئے۔ یہ سفا کانہ رویہ ٹھیک اس کے برعکس تھا، جو حضرت عمر اور مسلمان فاتحین نے عیسائیوں کے ساتھ روا رکھا تھا۔ سقوط بیت المقدس کے اس واقعہ نے پورے عالم اسلام کو بے چین اور بے سکون کرکے رکھ دیا، یہاں تک کہ 1169ء میں سلطان نورالدین زنگی جیسے خدا ترس بادشاہ کے ایک کمانڈر مجاہد اسلام سلطان صلاح الدین ایوبی مصر کے تخت اقتدار پر جلوہ افروز ہوئے اور شام کے علاقے کوفتح کرتے ہوئے 1187ء میں بیت المقدس کو فتح کیا۔ صلاح الدین ایوبی نے احسان فراموش عیسائیوں کے ساتھ ایسی رحم دلی کا سلوک کیا کہ تاریخ میں اس کی مثال کم ملے گی؛ چناں چہ خود عیسائی دنیا (جو اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں طرح طرح کی غلط فہمیوں میں مبتلا تھی) پر اس کا گہرا اثر پڑا۔ آخر 91 سال کے بعد قبة الصخرہ پر لگائی گئی سنہری صلیب اُتاری گئی اور اس کی جگہ ”ہلال“ نصب کیا گیا، جب ہی سے ہلال مسلم ملکوں کا شعار سمجھا جانے لگا۔ یہ 91 سال کا عرصہ مسلمانوں کے لیے ایسا تکلیف دہ اور غم انگیز عرصہ تھاکہ پورے عالم اسلام کی آنکھیں بے سکون اور دل بے قرار تھے۔

            ٍٍخلافت عثمانیہ ترکیہ کے دور میں ہی یہودیوں نے سازشیں بننی شروع کردی تھیں؛ لیکن خلیفہ نے کسی قیمت پر یہودیوں کو فلسطین میں زمین خریدنے کی اجازت نہیں دی، بالآخر مغربی سازشوں سے خلافت عثمانیہ کا سقوط ہوا اور 1948ء میں عالم اسلام کے قلب میں اسرائیل کا خنجر گھونپ دیا گیا۔یہ زخم بڑھتا رہا، یہاں تک کہ 1967ء میں مسلمانوں کا قبلہ اول ان کے ہاتھوں سے جاتا رہا۔ میرے خیال میں پہلی صلیبی جنگ کی شکست اور خلافتِ عثمانیہ کے سقوط کے بعد مسلمانوں کے لیے یہ سب سے بڑا حادثہ اور اندوہ ناک سانحہ تھا کہ اگر اس واقعہ پر آسمان خون کے آنسو بہاتا اور زمین کا سینہ شق ہوجاتا تو بھی باعث تعجب نہ تھا؛ لیکن آہ! ہم مسلمانوں کی بے حسی اور بے شعوری کہ؛ ہماری نسلوں نے تو اس واقعہ کو بھی اپنے صفحہٴ دل سے مٹا دیا ہے اور مسلمان حکمراں اسرائیل سے ایسا کٹا کاٹا اور عاجز و مجبور فلسطین مانگ رہے ہیں کہ شاید کوئی فقیر بھی ایسی الحاح و لجاجت سے دست سوال دراز نہ کرتا ہو گا اور کیوں نہ ہو کہ ”ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات“!

             فلسطین کا مسئلہ امت مسلمہ کے لیے ناموس و وقار کا مسئلہ ہے۔یہودیوں کا ایک گروہ صہیونی ہے جو قوم یہود پر اسی طرح غالب ہے، جیسے ہندوؤں پر سنگھ پریوار۔ صہیون (Zoin) بیت المقدس کے قدیم شہر کی ایک پہاڑی ہے۔ یہودیوں کا خیال ہے کہ اس پہاڑی پر حضرت داؤد علیہ السلام نے یہودیوں کے لیے ایک عبادت گاہ بنائی تھی، اس لیے اس پہاڑی سے منسوب کرکے یہودیوں نے 1897ء میں ایک خفیہ تحریک شروع کی اور اس کے لیے ڈاکٹر تھیوڈور ہرٹزل نے ”یہودی مملکت“ کے نام سے اپنی کتاب طبع کی اورایک وسیع اسرائیل کا تصور پیش کیا ،جس میں نہ صرف فلسطین؛ بلکہ مصر، اردن، مصرکا صحرائے سینا، شام، لبنان، عراق، دریائے نیل، مدینہ منورہ اور اس سے شمال میں بنوقریظہ، بنونضیر اور خیبر تک کا علاقہ شامل ہے۔یہودیوں کا یہ گھناوٴنا خواب برطانیہ کی استعماری حکومت کے ذریعہ اس وقت شرمندہٴ تعبیر ہوا،جب برطانیہ کے وزیر خارجہ آرتھر جیمز بالفور نے فلسطین کی قابض ریاست ہونے کی حیثیت سے اسرائیل کے قیام کی حمایت کی۔

            عرب حکمرانوں کی بزدلی اور نفاق کی وجہ سے جب فلسطین کا مسئلہ سرد خانہ میں چلاگیا اور پڑوس کی مسلم اور عرب حکومتوں نے فلسطین کا سودا کرنا شروع کردیا تو اس کے لیے فلسطینیوں کے اندر ایک مزاحمتی تحریک برپا ہوئی، جس کو حماس کہتے ہیں۔ شیخ احمد یاسین شہید نے 1987ء میں اس کی بنیاد رکھی۔ ان کی شہادت کے بعد بھی یہ تنظیم پوری قوت کے ساتھ سرگرم عمل رہی، اس نے اردن کو اپنی پناہ گاہ بنایا اور فلسطینیوں کے لیے رفاہی کاموں کی کوششوں سے آغاز کیا۔ اردن کے بادشاہ شاہ حسین نے بادل نخواستہ اس کو برداشت کیا؛ لیکن جب ان کے بیٹے شاہ عبداللہ دوم اقتدار پر آئے تو وہ بھلا اس کو کیسے برداشت کرتے؟کیوں کہ اردن کے اس سید زادہ حکمراں کو اپنے لیے کوئی مسلمان لڑکی نہیں مل پائی اور اس نے ایک انگریز عورت سے شادی کی۔چناں چہ عبداللہ دوم نے حماس کا ہیڈ آفس بند کرادیا اور اس کے بڑے بڑے رہنما قطر کی طرف جلا وطن کردیے گئے۔

            ظاہر ہے کہ حماس ایک ایسی تنظیم ہے کہ نہ اس کے پاس خلیج کا پٹرول ہے نہ دنیا کی کوئی اور دولت ہے۔ نہ یہودی اور عیسائی حکمرانوں کی محبت کا سرمایہ ہے، جس پر اِن دنوں عالم اسلام فدا ہے؛ البتہ وہ باہر کی طرح اندر سے بھی مسلمان ہیں اور انہوں نے اسلامی غیرت اور دینی حمیت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ہے۔ انہوں نے ترکی اور قطر ؛جن کو اس وقت عالم اسلام کا سرمایہٴ آبرو کہا جاسکتا ہے۔ میں اپنے سیاسی دفتر کے لیے پناہ گاہ حاصل کرلی ہے؛ لیکن انہوں نے فلسطین کی بودوباش کو نہیں چھوڑا۔ انہوں نے ایک معاہدہ کے تحت فلسطین میں جو مجبور و بے بس حکومت قائم ہوئی، اس میں بھی شامل ہوئے اور ۲۰۰۶ء کے انتخاب میں شاندار کامیابی حاصل کی؛ مگر امریکہ و اسرائیل کے غلام فلسطینی صدر محمود عباس نے تمام قانون کو بالائے طاق رکھ کر اس کو ماننے سے انکار کردیا اور مغربی طاقتوں نے اس کی بھرپور تائید کی۔ اس طرح مغربی کنارہ میں فتح کی اور غزہ پٹی میں حماس کی حکومتیں قائم ہوئیں۔ حماس نے سخت حصار کے باوجود اپنے شہریوں کے لیے تعلیمی اور ترقیاتی کام بھی کیے اور بہت ہی دور اندیشی کے ساتھ اپنے تحفظ کا انتظام بھی کیا، جس کی مثال اس وقت ہمارے سامنے ہے کہ اسرائیل جیسی طاقتور حکومت کو جس کی پشت پر امریکہ، برطانیہ اور یوروپ کے ممالک کھڑے ہوئے ہیں، ناکوں چنے چبوارہا ہے۔ان ہی کوششوں کا حصہ ۷/ اکتوبر۳ ۲۰۲ کو اپنے دفاع میں ہونے والاحملہ بھی ہے۔

            اس میں دو رائے ہوسکتی ہیں کہ کیا حملہ کے لیے یہ وقت مناسب تھا یا ابھی اپنی فوجی طاقت کو بڑھانے اور دنیا کے مختلف ممالک سے اپنے لیے سیاسی تائید حاصل کرنے کی ضرورت تھی؟ لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ حماس کا حملہ دہشت گردی نہیں ہے؛ بلکہ یہ ظالم کے خلاف مظلوم کی جدوجہد ہے۔یہ پوری طرح جائز قدم ہے اور ”تنگ آمد بہ جنگ آمد“ کا مصداق ہے۔ ان کے لیے کوئی راستہ باقی نہیں رہا تھا۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کے فیصلوں اور مختلف معاہدات کے باوجود فلسطینی ریاست کے قیام کی بات آگے نہیں بڑھ رہی تھی اور جو مسلمان عرب حکومتیں ہیں، وہ پوری نیازمندی کے ساتھ غلامانہ اور بزدلانہ امریکہ و اسرائیل کے دربار میں حاضر ہوتی تھیں اور جی ہاں جی ہاں کہہ کر واپس آجاتی تھیں۔اقتدار کی ہوس نے غیرت و حمیت سے ان کو اس طرح محروم کردیا تھا، جیسے سخت گرمی میں بارش کا پانی خشک ہوجاتا ہے؛ اس لیے انھوں نے مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھنے اور اس کی طرف پوری دنیا کو متوجہ کرنے کے لیے یہ قدم اٹھایا ہے، اس میں بہت سے فلسطینی بچے، بوڑھے اور عورتوں کی مظلومانہ شہادت ہوئی ہیں؛ لیکن اس کے بہت سے فائدے بھی ہوئے۔

            سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اس کی وجہ سے فلسطین کا مسئلہ دوبارہ زندہ ہوگیا۔ اس پر اقوام متحدہ، سلامتی کونسل اور او آئی سی کی متعدد میٹنگیں ہوئیں اور امریکہ و برطانیہ کی ہزار کوششوں کے باوجود حماس کو دہشت گرد قرار دینے کی سازش کام یاب نہیں ہوسکی۔

            دوسرا یہ کہ روس اور چین جیسی مشرق کی بڑی طاقتوں نے کھل کر فلسطین کی تائید کی اور فلسطین کے موقف کو صحیح ٹھہرایا۔

            تیسرایہ کہ ایشیا، افریقہ، یورپ اور مغرب کے زیادہ تر ملکوں نے اسرائیل کو ظالم قرار دیا اور مسئلہٴ فلسطین کے حل پر زور دیا۔

             چوتھافائدہ یہ کہ یہ تصور قائم کیا گیا تھا کہ اسرائیل دنیا کی چوتھی سب سے بڑی دفاعی طاقت ہے اس پروپیگنڈہ کا شیش محل چور چور ہوگیا؛کیوں کہ حماس نے فضائی وبحری طاقت اور منظم فوج سے محروم ہونے کے باوجود اسرائیل کو ناکوں چنے چبوادیے اور غزہ سے نکل کر اسرائیل کے کونے کونے میں موٴثر حملہ کرنے میں کام یاب ہوگئے۔

            پانچواں: کم و بیش ۳/ ہزار اسرائیلی فوج کو واصل جہنم کیااور۳۰۰/ سے زیادہ فوجیوں اور پولیس والوں کو قیدی بنایا، جن میں کئی اعلیٰ درجہ کے کمانڈربھی شامل تھے۔

             چھٹہ: بہت بڑی کام یابی یہ ہے کہ انہوں نے جدید ٹیکنالوجی کے نظام کو منجمد کردیا اور اس کے بدنام زمانہ جاسوسی کے ادارہ ”موساد“ کی خفیہ معلومات اور کمپیوٹر کے راز حاصل کرلیے۔

            ساتواں: ۵۰/سے زیادہ ٹینکوں کو نذرِ آتش کیا، جن میں ایسے ٹینک بھی شامل تھے جن کو دنیا کا سب سے طاقت ور ٹینک کہا جاتا ہے۔ حماس نے اپنی ٹیکنالوجی کے ذریعہ ایسے میزائل تیار کیے کہ ان کے پرخچے اڑ گئے۔

            آٹھواں: مشرق وسطیٰ میں موساد کے لیے جو کام کرنے والے تھے، ان کی فہرست حاصل کرلی۔

            نواں: اسرائیل کے ۴/ فوجی بیس پر حملہ کرکے وہاں سے ہلکے اور اوسط درجہ کے ہتھیار اپنے قبضہ میں لے لیا۔

             دسواں: اسرائیل کے کئی راڈار تباہ کردیئے اور امریکہ کا دیا ہوا میزائل شکن نظام آئرن ڈوم کی ناکامی کو ثابت کردیا۔

            گیارہواں: کئی ملکوں نے اسرائیل کے سفیروں کو نکال دیا اور اس طرح عالمی سطح پر اسرائیل کی تائید و تقویت کو نقصان پہنچایا۔

            بارہواں: اللہ تعالیٰ کا نظام ہے کہ مسلمانوں پر جو آزمائش آتی ہے، وہ مسلمانوں کی صف میں چھپے ہوئے منافقین کے چہرہ سے پردہ ہٹادیتی ہے۔

             اس جنگ نے بھی ثابت کردیا کہ عالم اسلام میں قطر، ترکی، ایران کے علاوہ کوئی ملک ایسا نہیں ،جس کا چہرہ نفاق کے داغ سے پاک ہو۔حد تو یہ ہے کہ ایک طرف فلسطین میں معصوم بچوں اور عورتوں کا قتل ناحق ہورہا ہے اور دوسری طرف بعض مسلم ممالک محفل طرب و عیش سجارہے ہیں؛ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پوری دنیا کے عام مسلمانوں کا دل تحریک فلسطین کے ساتھ ہے۔شاید ان ہی کی وجہ سے حکمرانوں کے بدبخت ٹولے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈھیل مل رہی ہے۔ عجب نہیں کہ ہم لوگ اپنی آنکھوں سے ان کا حشر دیکھ لیں، مگر ڈر یہی ہے کہ خدا نخواستہ عذاب الٰہی کے عام اصول کے مطابق گیہوں کے ساتھ گھن بھی نہ پس جائے۔

            تیرھواں: عالم عرب کو مغرب نے کچھ اس طرح غفلت اور بزدلی کا انجکشن دیا ہے کہ وہ روح جہاد سے محروم ہوگئے ہیں۔ اب تو یہ بزدلی اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ ان کو اسرائیل اور یہودیوں کے خلاف بددعا کرنے سے بھی خوف محسوس ہوتا ہے۔

            چودہواں: جیسے افغانستان کے جہاد نے پوری دنیا کے مظلوم مسلمانوں کے دل میں جذبہٴ جہاد کی حرارت بڑھادی تھی اور ان کے اندر اس یقین کو مستحضر کردیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طاقت امریکہ اور مغرب کی طاقت سے بڑھ کر ہے، اسی طرح حماس نے بھی مسلمانوں میں اس تصور کو فروغ دیا اور عالم اسلام کو سمجھایا ہے کہ کوئی طاقت ناقابل تسخیر نہیں ہے، یہ صرف مسلمانوں کو مرعوب کرنے کے لیے پھیلایا ہوا ایک پروپیگنڈہ ہے۔ ایمان و یقین کی تلوار بڑی بڑی طاقتوں کے غرور کو پاش پاش کرسکتی ہے۔

            لوگوں نے اہل غزہ کا یہ منظر بھی سوشل میڈیا پر دیکھا ہے کہ ایک شخص کے پورے خاندان نے جام شہادت نوش کرلیا اور اس نے اعلان کیا کہ کوئی شخص مجھے پُرسہ نہ دے؛ بلکہ مجھے مبارکباد دے کہ میرے خاندان کے اتنے لوگ شہادت سے مشرف ہوئے ہیں۔میں تعزیت کا نہیں ،بلکہ مبارکبار کا مستحق ہوں۔یہ منظر بھی دیکھا گیا کہ ایک شخص مٹھائی اس خوشی میں تقسیم کررہا ہے کہ اس کا پورا خاندان شہید ہوگیا ہے۔غزہ کے رہنے والے جو شعب ابی طالب کے بائیکاٹ کی سنت بھی ادا کر رہے ہیں۔ اس وقت ان کا حال یہ ہے کہ اگر کسی کو ایک لقمہ بھی ملتا ہے تو وہ اس کو اپنے ساتھیوں میں بانٹ کر کھاتا ہے اور اگر کسی کو ایک گلاس پانی ملتا ہے تو وہ اس میں بھی اپنے ساتھیوں کو شریک کرتا ہے۔ یہ واقعات عہد نبوی کے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عالی مقام رفقاکی یاد تازہ کرتے ہیں اور اس بات کا ثبوت ہیں کہ مسلمان مر تو سکتا ہے، لیکن مذہب اسلام کو موت نہیں آسکتی۔

            موجودہ دور میں ملکوں اور قوموں کی بڑی طاقت معاشی طاقت ہوتی ہے۔ یہودیوں نے بھی معاشی طاقت ہی کے واسطہ سے سیاسی اور فوجی طاقت حاصل کی ہے؛ اس لیے جو کچھ بن پڑے ان کو معاشی نقصان پہنچانے کی کوشش کرنی چاہئے۔

             اس کی ایک اہم صورت یہ ہے کہ اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے اور جو مصنوعات مارکیٹ میں مقبول ہیں، ان کا متبادل لانے کی کوشش کی جائے۔سوشل میڈیا پر اسرائیل اور اس کے ہمنواوٴں کی کثیر الاستعمال مصنوعات اور ان کے متبادل ہندوستانی مصنوعات کی فہرست آچکی ہے، یہ بہت اہم ہے۔ اگر اس سے مسلمان فائدہ اُٹھائیں اور اسرائیل اور اسرائیل نواز مصنوعات کا بائیکاٹ کریں اور ہندوستانی مصنوعات کا استعمال کریں یا خود بائیکاٹ کی جانے والی اشیا کا متبادل مارکیٹ میں لائیں تو اس سے دوہرا فائدہ ہوگا۔ ظالم طاقتوں کو اپنی طاقت کی مطابق نقصان پہنچاکر ایک شرعی فریضہ کی ادائیگی ہوگی۔

             دوسرے: اپنے ملک اور سماج میں صنعت کو فروغ ہوگا اور مسلمان بھی صنعت و حرفت کے میدان میں آگے بڑھ سکیں گے۔

            اس صورت حال کا ملت اسلامیہ کے لیے جو سبق ہے، وہ یہ ہے کہ مسلمان کسی بھی صورت میں مسئلہٴ فلسطین کو فراموش نہ کریں، جیسے یہودیوں نے میڈیا کے ذریعہ اپنی مظلومیت کا جھوٹ گڑھ گڑھ کر پوری دنیا کو سنایا ہے اور ان کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح ہمیں چاہئے کہ اپنے دستیاب وسائل کے ذریعہ مسئلہٴ فلسطین کو زیادہ سے زیادہ ملکی و عالمی سطح پر نمایاں کریں، اسرائیل کے مظالم اور فلسطینیوں کی مظلومیت کو دنیا پر واضح کریں اور اس طرح مسجد اقصیٰ کی اہمیت اور اس کے حصول کے جذبہ کو مسلمانوں کے دلوں میں تازہ رکھاجائے۔

            بارالٰہا! مسلمانان فلسطین کی مدد فرما۔ ملت اسلامیہ کو مسجد اقصیٰ واپس دلا اور مسلمان حکمرانوں کو ایسی غیرت عطا فرما کہ مسجد اقصیٰ کا زخم ان کی کروٹوں کو بے سکون کردے۔ان کو ہمت و حوصلہ عطا فرما اور اے اللہ! ہم سب کو اپنی اپنی طاقت و صلاحیت کے مطابق فلسطینی کاز کو مدد پہنچانے کا جذبہ اور اس کی صلاحیت وطاقت عطافرما۔آمین!