استقامت کرامت سے اولیٰ ہے

انوارنبوی   

ماخوذ از ہدیة المتسابقین فی کلام سید المرسلین  

 

سالار نظامت وبلبل ہند: حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی

            عن سُفْیَانَ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ الثَّقَفِیِّ قال : قلتُ : یارسولَ اللّٰہ! قُلْ لِیْ فِی الْاِسْلامِ قَوْلًا لاأَسْأَلُ عَنْہُ أَحَداً بَعْدَکَ! قال : ” قُلْ اٰمَنْتُ بِاللّٰہِ ثُمَّ اسْتَقِمْ “ !

 (أخرجہ مسلم فی کتاب الإیمان: باب جامع أوصاف الإسلام، رقم الحدیث :۳۸)

حل المفردات:

            قل: فعل امر صیغہ واحد مذکر حاضر،ازباب نصر،اجوف واوی۔”کہنا“۔ قال لہ :کسی سے کہنا، قال عنہ : کسی کے متعلق کہنا۔ازباب ضرب قیلولہ کرنا۔

            اسقتم: فعل امر صیغہ واحد مذکر حاضر،ازباب استفعال،قائم رہنا،جمے رہنا،مداومت اختیارکرنا۔

حاصل حدیث:

            حضرت سفیان نے حضورپرنورصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ کر بجذبہٴ طلب صادق کے یہ درخواست پیش کی کہ مجھے ایساجامع اور مفید کلام ارشادفرمادیجیے کہ آپ کے سواکسی اورسے رجوع کی نوبت نہ آئے۔اس پر حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جواہر پارہ ارشادفرمایا ،جوایمانیات وطاعات کاجامع ہے۔

تشریح الحدیث:

            (۱) قاضی عیاض رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ حدیث نبی ٴ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے جوامع الکلم میں سے ہے۔

            (۲) نبی ٴ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نصیحت سورہٴ احقاف آیت :۱۳/سے اخذفرمائی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ” اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَااللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلا ئِکَةُ أَلاَّ تَخَافُوْا وَلا تَحْزَنُوْا وَأَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ “ یعنی جنہوں نے عقیدہٴ توحید کونبی ٴ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے مطابق قبول کرلیااوراس پر جم گئے،توپھر انہیں کسی اور نصیحت کی ضرورت نہیں۔

            (۳) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ پورے قرآن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جو آیت سب سے زیادہ شاق اوردشوار تھی ،وہ سورہٴ ہود کی آیت نمبر۱۱/ ” فاستقم کماأمرت “ ہے۔

            (۴) استاذ ابوالقاسم قشیرینے اپنے رسالہ میں لکھاہے کہ استقامت وہ درجہ ہے ،جس سے تمام امورکامل ہوتے ہیں،کیوں کہ تمام نیکیاں اسی سے حاصل ہوتی ہیں اورجوشخص استقامت پر نہ ہو،اس کی جدوجہدضائع اوربے کار جاتی ہے۔

            (۵) ایک قول یہ ہے کہ اکابر کے سواکوئی استقامت کی طاقت نہیں رکھتا۔کیوں کہ استقامت کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے معمولات اوررسم ورواج کوترک کرکے اپنے آپ کواللہ تعالیٰ کے احکام کے تئیں کردے۔

            (۶) علامہ واسطی نے کہاکہ استقامت وہ وصف ہے ،جس کی وجہ سے نیکیوں میں حسن پیداہوتاہے اور جس کے نہ ہونے سے نیکیاں قبیح ہوجاتی ہیں۔

            (۷) امام رازی نے کہاکہ استقامت بہت مشکل چیزہے،کیوں کہ یہ تمام عقائدصحیحہ اوراعمال ِصالحہ کوشامل ہے،بایں طورکے تمام باطل عقائد سے اجتناب کرے اورتمام برے اخلاق سے احترازکرے اورہر معاملہ میں افراط وتفریط سے بچے اورطریق ِمستقیم پر گامزن رہے۔

            (۸) امام غزالینے کہاکہ دنیامیں استقامت پر قائم رہنا سخت مشکل ہے،یہ ایسے ہی مشکل ہے جس طرح پل صراط سے گذرنا،جوبال سے زیادہ باریک اورتلوار سے زیادہ تیزہے۔

            (۹) علامہ آلوسیلکھتے ہیں کہ کفر ،فسق،جہل،بدعت اورخواہش نفس کے لئے جہنم کی پشت پر بندے اوراللہ سبحانہ کے درمیان ایک پل بچھا ہواہے ، اوریہ علم ،عمل،خُلق اورحال کے اعتبارسے شریعت پر استقامت کا پل ہے اورآخرت میں یہی پل نارِجہنم کی پشت پر رکھاجائے گا۔شریعت پر استقامت کاپل بھی بال سے زیادہ باریک اورتلوارسے زیادہ تیزہے،جودنیامیں اس پل سے آسانی سے گذرگیا،وہ آخرت میں پل صراط سے بھی آسانی سے گذرجائے گا۔

            (۱۰) بعض عارفین نے کہا : اس حدیث کامطلب یہ ہے کہ جب تم توحید سے واقف ہوجاوٴ اورجلال ذات کامشاہدہ کرلو،توہر حال میں حق کے تابع رہو!اورمقام رضاکی بلندی کوچھوڑ کر نفس اورخواہش کی پستی میں نہ گرو!

            (۱۱) ایک قول یہ ہے کہ استقامت کامطلب ہے اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کوماننااوراس پر عمل کرنااورہر اس چیزسے اجتناب کرنا جس سے اللہ تعالیٰ نے منع کیاہے۔اس میں قلب اوربدن کے تما م اعمال آگئے۔کیوں کہ اگر ذراسی بھی کجی اورناہمواری ہوتواستقامت متحقق نہ ہوگی۔

            اسی لئے صوفیانے کہا: ”الإستقامة أفضل من ألف کرامة “ کہ استقامت ہزارکرامتوں سے بہترہے۔لہٰذاایمان وتوحید کے اقرار کے بعداس سے انحراف نہ کرنا،اورزندگی بھر اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات کا التزام کرتے رہنا ،اورکسی آن وکسی لحظہ بھی اس کی یاد سے غافل ، اور اس کی اطاعت سے باہر نہ رہنا، کڑے سے کڑے امتحان اورمشکل سے مشکل مرحلہ میں حرص وہوس کی آندھیوں،اورخوف و خطر کے طوفانوں میں ، خلوت، جلوت،سفر وحضر،ہر موقع اورہر جگہ پر اللہ تعالیٰ کویادرکھنا،اوراس کے حکم کی تعمیل کے مقابلہ میں کسی چیزکوخاطر میں نہ لانا،یہی استقامت ہے۔اوریہ بہت بڑامرتبہ ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی اس کاحکم دیاگیا : ”فاسْتَقِمْ کماأُمِرْتَ“۔

            (۱۲) استقامت یہ ”اِعْوِجَاج“ (بمعنی ٹیڑھاہونا)کی ضد ہے،اوریہ اعمال وقلب دونوں کی استقامت کوشامل ہے۔

            اعمال کی استقامت یہ ہے کہ اعمال متوسط ہوں ،سنت سے متجاوزنہ ہوں،اخلاص سے خارج نہ ہوں،ان میں نہ ریاہو،نہ کسی سے عوض کی طلب ہواورنہ ہی کوئی غرض ہو۔

            اورقلب کی استقامت یہ ہے کہ وہ صحیح چیزپر ثابت قدم ہواوراس کوسیر الی اللہ کے بعد سیر فی اللہ کا مرتبہ حاصل ہو۔سیر الی اللہ کامطلب ہے صفات الٰہیہ کامشاہدہ کرنا۔اورسیر فی اللہ کامطلب ہے صفات الٰہیہ سے متصف ہونا۔” فاستقم کماأمرت “میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوسیرفی اللہ میں استقامت کاحکم دیاگیاہے۔

            (۱۳) امام غزالی فرماتے ہیں کہ استقامت کی اہمیت کی وجہ سے ہرروزپانچ نمازوں میں ”اھدنا الصراط المستقیم“کے ذریعہ استقامت طلب کرنے کی دعاکاحکم دیاگیاہے ۔اللہ تعالیٰ ہم کواس مرتبہ سے حظ ِوافر عطافرمائے!…آمین!