مفتی مجاہد اشاعتی پھلمبری/استاذ جامعہ اکل کوا
حامداًومصلیاً ومسلماً امابعد!
بیس بائیس سال پہلے:
کی بات ہے ،جب بغرض تعلیم میں اپنے ماموں کے ساتھ ہندستان کی مشہورومعروف اورعظیم دینی درس گاہ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا میں حاضرہوا تو صبح سویرے طلبہ ، اساتذہ اور مہمانوں کی چہل پہل کے درمیان صرف ایک ہی آواز سنائی دے رہی تھی۔ آوازکے الفاظ کچھ اس طرح تھے:السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ،جامعہ اوررئیس جامعہ کی طرف سے آنے والے تمام جدید وقدیم طلبہ کودل کی گہرائیوں سے مبارکباد، اھلا وسھلاومرحبابکم.آپ کاآنامبارک ہو ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں ۔
پھرتھوڑی دیر بعد دوسرا اعلان کچھ اس طرح کہ جدید وقدیم طلبہ اپنے داخلہ کی کارروائی مکمل کریں اور مقام داخلہ کا اعلان ہوتا رہا۔
ناظم اجلاس کاپتانہیں چل رہاہے:
داخلہ مکمل ہوگیا ۔کلاس مل گئی، لیکن اعلان کرنے والا کون تھا؟ پتا نہ چلا۔پھرکچھ ہی دن گزرے تھے کہ 26جنوری یا15اگست کاموقع آیا تومسجد میمنی میں جلسہ کاانعقادکیاگیا،جس میں پھر ناظمِ اجلاس ایک حسین و جمیل، خوب صورت سیاہ داڑھی ،سر پر سادی پانچ کلی ٹوپی اور سفید کپڑوں میں ملبوس شخصیت نظر آئی؛جن کی آواز پر طلبہ آتے اور پروگرام پیش کرتے جاتے۔پھرمولاناطاہر خان صاحب کانام پیش کیا گیا ۔ پہلی مرتبہ مولانا طاہر صاحب کو سنا اور دیکھا تھا،پھرحضرت ناظم اجلاس کی جانب سے رئیس الجامعہ حضرت مولانا غلام محمدوستانوی صاحب کا جس انداز میں نام لیا گیا اور جس اہتمام کے ساتھ آپ کو اسٹیج کی کرسی پر جلوہ افروز کیا گیا تو حضرت وستانوی دامت برکاتہم کی عظمت میں مزید اضافہ ہوگیا۔ ناظم اجلاس کی تواضع وانکساری اور حضرت وستانوی سے ان کی بے پناہ محبت کا علم توخوب ہوا۔لیکن بدقسمتی دیکھتے چلیں کہ یہ جلسہ بھی ختم ہوگیا ،لیکن ناظم اجلاس کااب تک کوئی علم نہیں ہوسکا۔
تعارف:
پھر جمعہ کے دن نماز جمعہ کے بعد جامعہ کی عمارت قصر محمدی وقصر خدیجہ کے وسیع و عریض صحن میں بڑے طلبہ کرکٹ کھیل رہے تھے اور منظر بالکل اسٹیڈیم جیسا نظر آرہا تھا۔عصرکی نماز سے کچھ دیر قبل اچانک تمام طلبہ کسی استاذکو دیکھ کرحالاں کہ اس استاذکے ہاتھ میں نہ کوئی لکڑی تھی اور نہ ڈنڈا۔بس نگاہوں سے کچھ کہہ رہے تھے اور طلبہ مسجد کی طرف رواں دواں تھے ۔تمام طلبہ کھیل کود چھوڑ کر مسجد کی طرف چلنے لگے اورہرایک کی زبان سے یہ لفظ بے ساختہ نکلنے لگے ”فلاحی صاحب ،فلاحی صاحب“۔پہلی مرتبہ معلوم ہوا کہ یہ فلاحی صاحب ہیں۔
جمعہ کابیان:
پھر ایک دن شعبہٴ دینیات کے تمام طلبہ و اساتذہ جمعہ کے دن وقت سے بہت پہلے مسجد میں تشریف لے آئے اور جمعہ کے بیان کے لیے فلاحی صاحب کاانتظار کرنے لگے۔آپ تشریف لائے بیان ہوا،طلبہ واساتذہ نے بڑے اہتمام کے ساتھ بیان سنا ۔اس کے بعد تو دینیات کے ہر پروگرام میں آپ ہی ناظم اجلاس ہوتے۔
درجہ ٴ حفظ میں جب میرا داخلہ ہوا تو وہاں پر بھی میں نے دیکھاکہ ہر پروگرام میں آپ تشریف ضرور لاتے۔ چاہے حفظ کی مجلس ہو یا انجمن کاجلسہ یاپھرسالانہ تقسیم اسناد؛لیکن آپ کی آوازضرورگونجتی ۔اوراسی پربس نہیں تھا،بل کہ طلبہ کی بھر پور حوصلہ افزائی فرماتے۔
جب درجہٴ عا لمیت میں آئے تو یہاں آپ کے جلوے اوربھی قریب سے دیکھنے کو ملے۔
فجرسے قبل طلبہ کوبیدار کرنا،مسجد میں صفوں کی ترتیب لگانا ،ظہر اورعصر کی امامت کرنا۔ یہ معمولات آپ نے آخر وقت تک خالصاًلوجہ اللہ انجام دیے۔
درجہٴ عالمیت میں آپ کے پاس عربی پنجم تک تو کسی کتاب کے پڑھنے کاموقع نہ ملا،البتہ عربی ششم اور ہفتم میں حضرت مرحوم سے مشکوٰة شریف ،تفسیرِبیضاوی اور صحیح مسلم پڑھنے کاموقع ملا۔
اندازِ درس:
الحمدللہ! جامعہ میں تمام ہی اساتذہٴ کرام کے درس و تدریس کافی مقبول اور پسندیدہ ہیں۔ بنیادی طورپرتمام ہی اساتذہ ٴکرام جامعہ کے تیارہ کردہ طریقہ ٴتدریس کے مطابق درس و تدریس کالحاظ کرتے ہیں،لیکن ہر ایک کااندازِبیاں انوکھا اور مختلف ہیں یعنی”گلہائے رنگارنگ سے ہے زینت چمن“والی بات ہے ۔
ایک باغ میں قسمہا قسم کے خوش بودار پھول ہیں، جواپنی خوش بو سے ہرایک کو معطر کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام اساتذہٴ کرام کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
حضرت مرحوم کا نرالاانداز:
حضرت مرحوم کااندازِتدریس کچھ اس طرح تھا کہ آپ عبارت خوانی کے بعد اولاً سبق کو چند حصوں میں تقسیم کرتے ۔ہر ایک جزء کو اپنی طرف سے ایک نام دیتے۔ پھر ترتیب وار ہر ایک کومکمل تفصیل مع دلائل بیان فرماتے ۔درمیان میں لطائف ،ظرائف اورنکات کے ذریعہ طلبہ میں نشاط پیدا فرماتے، جس سے طلبہ میں اکتاہٹ پیدانہیں ہوتی۔ جیساکہ استاذِمحتر م جامعہ کے مدیرتنفیذی حضرت مولاناحذیفہ صاحب وستانوی نے اپنے بیضاوی شریف کے پہلے درس میں بیان فرمایا۔ پھر ختم درس پر خلاصہ پیش کرتے، جس کا عنوان ہوتا تھا ”سبق ایک نظر“ میں یا ”آئینہٴ سبق“ وغیرہ ۔
درس و تدریس میں آپ کا ایک عجیب و غریب کارنامہ:
آپ کایہ معمول تھا کہ دورہٴ حدیث شریف میں سال کے آخر میں کلاس کے اوائل طلبہ کو بیضاوی شریف کے سبق پڑھانے کامکلف فرماتے اور طریقہٴ تدریس سکھلاتے ۔طلبہ اپنے طورپراچھی طرح سے تیاری کرکے آتے اوردس پندرہ منٹ سبق سناتے۔ حضرت مکمل سبق سنتے، دوبارہ اپنے انداز میں سبق پڑھاتے اور غلطیوں کی اصلاح فرماتے۔ سبق پڑھانے والے طلبہ کی پوری وسعت ظرفی اورایسی دریادلی کے ساتھ حوصلہ افزائی فرماتے ، جہاں بخالت کاکوئی گذرنہیں ہوتا۔اس کے علاوہ گراں قدرتحائف اور بیش بہا کتب انعام میں دیتے۔
خلاصہٴ درس:
جب کسی بھی کتاب کی ایک بحث یا بیضاوی شریف میں سورہٴ فاتحہ مکمل ہوجاتی تو آپ طلبہ کو مکلف کرتے کہ سبق کا خلاصہ لکھ کر لائیں۔جب طلبہ لکھ کر لے آتے تو اچھا لکھنے والے طلبہ کی حوصلہ افزائی فرماتے اور ممتاز طلبہ کے اسباق کی ایک ایک کاپی اپنے پاس محفوظ رکھتے، جس سے طلبہ کو اپنی خوابیدہ صلاحیتوں کا انداز ہوتااورطلبہ لکھنے کے عادی ہوتے ۔ان کوفخربھی ہوتاکہ حضرت نے میری کاپی اپنے پاس رکھی ہے۔
تقسیم ہدایا :(علمی ومالی تحفہ)
آپ کی ایک مخصوص عادت یہ تھی کہ آپ کے پاس جو بھی ہدیہ آتا آپ اسے طلبہ میں تقسیم فرمادیتے ، لیکن ایک خاص طرز پر ؛ایسانہیں کہ جوکچھ کہیں سے آگیااُسے یوں ہی لٹادیا۔پہلے طلبہ کو کچھ لکھنے یا یاد کرنے کے لیے دیتے ،پھر جو طالب علم جیسا مستحق ہوتا ویساہی اسے انعام سے نوازتے۔ مثلاً: سردی کے موسم میں شال، چادر، رومال اور صدری وغیرہ ۔کسی موقع پر کوئی قیمتی قلم یا بیش بہا کتب وغیرہ۔
عمدہ عبارت خوانی پرآپ دس، بیس، پچاس یا سوکی بالکل نئی نوٹ بہ طور انعام میں دیتے تھے اور دینے کاانداز بڑا پیارا ہوتا تھا ۔حضرت اپنی شان کے مطابق دیتے تھے۔ یا الٰہی! تو بھی اپنی شایان شان بدلہ عطافرما۔
حضرت کے ساتھ پہلا سفر:
مشہور ہے کہ آدمی سفر میں پہچانا جاتا ہے اورحضرت مرحوم میرے استاذ ہیں۔ اور بقولِ حضرت وستانوی مدظلہ العالی:” طالب علم کتاب سمجھے یا نہ سمجھے،لیکن اپنے استاذ کو ضرور سمجھ لیتا ہے اورپہچان لیتا ہے“ اس اعتبار سے ہم اپنے استاذ سے آشنا تھے۔ ان کے اخلاق وکردار سے واقف تھے، لیکن جب بحکم حضرت مولانا حذیفہ صاحب وستانوی مسابقتی سفر میں حضرت مرحوم کے ساتھ جانا ہوا تو آپ کے اعلیٰ اخلاق وکردار اور تواضع وانکساری سے مزید واقفیت حاصل ہوئی۔
آپ سفرمیں اپنے شاگردوں کے ساتھ دوستانہ تعلق رکھتے، بل کہ کسی کام کا حکم کرنے کے بجائے خود رفیق ِسفر بن کر دوسروں کے کام میں ہاتھ بٹاتے تھے۔ سفرمیں نماز کی پابندی اوردعاوذکرکاخاص اہتمام ہوتا تھا۔ ہرایک کے آرام کا خیال فرماتے ،کوشش کرتے کہ سفرمیں کسی کو کسی طرح کی کوئی تکلیف نہ پہنچے ،سفر میں جب تک تمام ساتھی دستر خوان پر تشریف نہ لے آتے ؛اس وقت تک کھانا شروع نہ فرماتے ۔ہرایک کاخاص خیال رکھتے اورمناسب ہنسی مذاق بھی کرتے ،جس سے سفرکامزہ دوبالاہوجاتا۔
دوران ِسفر اکابرین سے ملاقات اور دینی درسگاہوں کی زیارت:
آپ جہاں کہیں سفر میں جاتے موجودہ اکابرین سے ملاقات فرماتے ،مرحومین کے لیے ایصالِ ثواب کرتے اور دینی درس گاہوں کی زیارت فرماتے۔
غازی آبادمیں:
ہندستان بھر میں جامعہ اکل کوا کے زیر نگرانی اور حضرت وستانوی کی زیر سرپرستی مسابقات قرآنیہ کاسلسلہ جاری تھا ۔ان ہی مسابقات میں سے ایک مسابقہ صوبہٴ یوپی کا”جامعہ محمودالمدارس“مسوری،ضلع غازی آبادمیں ہوناتھا۔ہم لوگ بہ حیثیت حکم وہاں پہنچے۔پہلی مرتبہ حضرت مرحوم کے ساتھ کسی صوبائی مسابقہ میں بہ حیثیت حکم شرکت ہوئی تھی ۔اس وقت آپ کو دیکھاکہ پہنچتے ہی آپ آرام کیے بغیرمسابقہ کی کارروائی میں لگ گئے۔دن بھر آپ مساہمین سے سوال کرتے رہے ۔یہ بات تو ہمیشہ ہوتی رہی ہے کہ صوبائی مسابقہ ہو یاکل ہند،ہرفرع کے حکم حضرات بدلتے رہے، لیکن ناظم اورسائل ہمیشہ حضرت فلاحی صاحب ہی ہوتے اورآپ ذرابھی نہیں تھکتے، بل کہ بالکل نشاط ووقارکے ساتھ آپ اپنی کرسی پرجلوہ افروزہوتے ۔مسابقہ سے فراغت کے بعد آپ نے وہاں کے تمام دینی اداروں کی زیارت کی اورمقامی علماسے ملاقات فرمائی ۔
پانی پت:
اسی سفرمیںآ ل ہریانہ ومیوات کامسابقہ”مدرسہ صوت القرآن“گوہانہ،مہرانہ روڈ پانی پت میں ہورہا تھا۔وہاں حضرت مولانا کلیم صدیقی صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ۔فلاحی صاحب نے حضرت مولانا کی دینی دعوتی مشن کو خوب سراہا ،خود ہاتھ پکڑ کر جلسہ گاہ لے آئے اورپھر مولانا کلیم صدیقی صاحب نے جامعہ کے اس کام کو اور فلاحی صاحب مرحوم کی خدمات کو جس انداز میں سراہاتھا وہ منظر بڑا ہی دل کش تھا۔دونوں بزرگ ایک دوسرے کاخوب احترام کررہے تھے ،فلاحی صاحب نے وہاں کے دینی مدارس کی زیارت کی اورساتھ ہی علمائے کرام سے ملاقات بھی فرمائی ۔
پپلی مزرعہ میں:
پانی پت سے قافلہٴ قرآنی آل ہماچل پردیش وپنجاب کے مسابقہ کے لیے روانہ ہوا،جو”مدرسہ بیت العلوم“پپلی مزرعہ مدرسہ میں ہونا تھایہاں بھی مسابقہ بڑاکام یاب رہا۔خاص بات اس جگہ کی یہ ذکرکرنا ہے کہ مسابقہ کی مکمل کارروائی کے بعد مدرسہ کے مہتم وبانی اوریہاں کی بز رگ شخصیت حضرت مولانا الیاس صاحب اور فلاحی صاحب دونوں کرسی لگاکرمدرسہ کے صحن میں بیٹھے تھے ۔مولاناالیاس صاحب نے آپ کوچندکلمات پڑھائے اورتحریری شکل میں ایک رقعہ دیا۔اس وقت دونوں حضرات کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی جاری تھی۔ ایک مخصوص انداز میں مصافحہ ومعانقہ ہوا اور اس طرح حضرت مولانا الیاس صاحب نے حضرت مرحوم کو خلافت سے نوازا،لیکن آپ نے کبھی بھی اور کہیں بھی اس کاتذکرہ نہیں فرمایا۔
رائے پور کے لیے روانگی :
پپلی مزرعہ کامسابقہ اس سفرکاآخری مسابقہ تھا اوراب گھرکے لیے واپس ہوناتھا۔حضرت مرحوم نے یہ فیصلہ فرمایاکہ اکابرین سے ملاقات کرلیتے ہیں۔ میوات سے اب دوگاڑیوں میں قافلہ رائے پور کے لیے روانہ ہوا۔ایک گاڑی میں حضرت فلاحی صاحب کے ساتھ مولانامستقیم صاحب رنجنی اور راقم سوار تھا،جب کہ دوسری گاڑی میں دیگر احباب سوارتھے ۔رائے پور میں کوئی مسابقہ نہیں تھا ،لیکن صرف حضرت مولانا عبدالقادر رائے پوری رحمہ اللہ کی نسبت اور مولانا عبدالقیوم صاحب رائے پوری کی ملاقات کے لیے جانا تھا۔یہ جمعہ کامبارک دن تھا۔ حضرت کاجمعہ میں بیان ہواپھرنمازجمعہ کے بعد حضرت مولانا عبدالقیوم صاحب رائے پوری سے ملاقات ہونی تھی ،اب اس کاانتظار تھا ۔
عجیب منظر:
نماز جمعہ کے بعد خانقاہ کے صحن میں ایک تخمینہ کے مطابق چھ سات سو لوگ ؛جس میں کچھ ہندوبھائی بھی تھے، کسی کاانتظارکررہے تھے۔ معلوم کرنے پرپتہ چلاکہ وہ بھی مولاناعبدالقیوم صاحب کے دیدار کے منتظر ہیں۔ کچھ ہی دیرمیں کچھ خدام حضرت مولاناعبدالقیوم صاحب رائے پوری کو وہیل چیئرپرلے کرآئے ۔آپ کو مجمع کے سامنے لاکربٹھادیاگیا ؛ لیکن آپ کی حالت ایسی نہ تھی کہ آپ کچھ بیان کرتے یا کسی سے کچھ بات کرپاتے۔اس لیے کچھ وظائف وغیرہ پڑھے گئے اور پھر حضرت فلاحی صاحب مرحوم کودعاکرنے کے لیے کہاگیا۔آپ نے ایسی رقت آمیز دعا فرمائی کہ پورے مجمع پرگریہ زاری طاری ہوگئی۔دعاکے بعدحضرت سے ملاقات کرکے یہ قافلہ آگے کے سفر پرروانہ ہوگیا۔
سہارن پور میں حضرت شیخ سے ملاقات:
اب یہاں سے سہارن پور جانا تھا۔وہاں پہنچتے ہی عصر کی نماز ادا کی گئی۔ پھر آپ نے فرمایا سب سے پہلے حضرت شیخ (حضرت مولانا یونس صاحب)سے ملاقات کرنا ہے۔یوں تو فلاحی صاحب کی یہ کوئی پہلی ملاقات نہیں تھی، لیکن اس قدر اہتمام سے ایسا لگ رہا تھا، جیسے اپنے استاذ سے فراغت کے بعد پہلی مرتبہ ملاقات کررہے ہوں۔ حضرت شیخ کے حجرہ کے پاس پہنچے تو وہاں بھی جم غفیر تھا، لیکن معمولی انتظار کے بعد مولانا عبدالرحیم صاحب کے لیے آگے جگہ مل گئی ۔آپ نے سبھی کو حجرہ میں بلالیا ۔حضرت شیخ مطالعہ میں مشغول تھے، پھر نظر اٹھائی اور حضرت مرحوم سے ملاقات کی ،ہم سب کی خیر خیریت دریافت کرنے کے بعد جامعہ ورئیس جامعہ کے احوال دریافت فرمائے اور محدث کبیروبے تاج بادشاہ کے پاس کی یہ مجلس بھی چندمنٹوں میں ختم ہوگئی ۔
حضرت شیخ سے ملاقات کے بعد دار ِجدید وقدیم دونوں اداروں کی زیارت کی اوراکابرین وذمہ داروں سے ملاقات ہوئی اوراستاذمرحوم نے فرمایا: میں جب بھی سہارن پور آتا ہوں تو دونوں اداروں میں جاتا ہوں اور اپنے تمام اساتذ ہ ٴکرام سے ملاقات کرتا ہوں۔پھراپنے بچپن کے واقعات سنانے لگے اور خود اشک بار ہو گئے۔ آپ نے یہاں درجہٴ فارسی پڑھاتھا۔حضرت مولانااسعداللہ صاحب کومکمل قرآن کریم سنایااورپھر فلاح دارین ترکیسرسے فراغت کے بعد دور ہٴ حدیث شریف کی تکمیل کے لیے دوبارہ تشریف لائے۔
دارالعلوم دیوبندکی زیارت:
مظاہر العلوم کے بعد ازہرہند دارالعلوم دیوبند کے لیے روانہ ہوئے۔وہاں بھی آپ نے خود ہم تمام لوگوں کو دارالعلوم کی سیرکرائی اورایک ایک مقام پرلے گئے۔لیکن وہاں کی تعطیلات اور رات کاوقت زیادہ ہونے کے سبب زیادہ کسی سے ملاقات نہیں ہوپائی۔ پھر دارالعلوم وقف پہنچے۔ وہاں کے مہتمم حضرت مولانا سفیان صاحب قاسمی دامت برکاتہم انتظار فرمارہے تھے۔ بڑی محبت وخندہ پیشانی سے ملاقات ہوئی۔ خطیب الاسلام حضرت مولانا سالم صاحب رحمہ اللہ سے ملاقات ہوئی۔اس کے بعد دارالعلوم وقف کی زیارت کرکے ہم لوگ دہلی کے لیے روانہ ہوئے ۔حضرت مرحوم کو کہیں اور جانا تھا ،پھر بھی آپ ہم لوگوں کو اسٹیشن تک چھوڑنے کے لیے تشریف لائے۔
دوسراسفر :
آل راجستھان مسابقہ کے لیے ”مدرسہ اشرف العلوم “موریہ،جودھپورکا ہوا۔وہاں بھی میں نے دیکھا کہ آپ دینی وعصری اداروں میں گئے۔وہاں کے ذمہ داروں سے ملاقات کی اورمفید مشوروں سے نوازا۔ اگر کوئی اچھی بات کہیں نظرآتی تو اسے اپنی ڈائری میں ضرور قلم بند فرماتے ۔
حضرت کے سفر کی کچھ خاص عادتیں:
(الف)آپ جہاں بھی سفر میں جاتے تو علاقائی علما واکابرین سے ملاقات فرماتے اورقیمتی ہدایا بالکل عاجزی وانکساری کے ساتھ پیش فرماتے۔
(ب) دینی مدارس کے حال احوال معلوم کرتے ۔
(ج) اس علاقہ کے مسلمانوں کے حال احوال معلوم کرتے اوریہ جاننے کی کوشش کرتے کہ یہاں مسجد، مدرسہ اورمکتب ہے یا نہیں ؟اگرجواب نفی میں ہوتو اس کی تعمیرکی فکرکرتے ۔
(د) جامعہ سے فارغ شدہ علمائے کرام ا ورڈاکٹرحضرات کو جمع کرنے کی کوشش کرتے یاان کی خبر گیری کرتے۔
(ھ)جامعہ میں پڑھ رہے طلبہ کے والدین سے ملاقات فرماتے۔
(و)دوران ِسفر اپنے ساتھ ایک ڈائری رکھتے اور اس میں ہراچھی بات کو قلم بند فرماتے رہتے۔
(ز)ہرجگہ کی اطلاع ،مسلمانوں کے حالات اورمسابقہ قرآنیہ کی روداد سے حضرت وستانوی دامت برکاتہم کو باخبر کرتے رہتے ۔
(ح)سفرمیں اپنے ساتھ چندکتابیں،عطرکی بوتلیں اوردیگراشیارکھتے اورعلما،حفاظ اورائمہٴ کرام؛ خصوصاً شاگردحضرات کوہدیہ میں پیش فرماتے۔
(ط)کسی دوست یاعزیزکے یہاں کوئی خوشی یاغم کاموقع ہو اورآپ اس وقت نہ پہنچ پاتے تو جب بھی پہنچ جاتے یاکسی سفرمیں قریب سے گذررہے ہوتے تو وہاں پہنچ کر خوشی کی مبارکبادی پیش کرتے یاغمی پراس کے غم میں برابر کے شریک ہوتے ۔
طلبہ کی تربیت کانرالا اور انوکھا انداز (ترغیبات فلاحی) :
یوں تو جامعہ میں الحمدللہ تمام ہی اساتذہ ٴکرام کایہ معمول رہا ہے کہ تعلیم کے ساتھ طلبہ کی مکمل تربیت کی فکر کرتے ہیں خود حضرت وستانوی بارہا اس کی تاکید بھی فرماتے ہیں،اسی طرح حضرت مولانا مرحوم بھی ہمیشہ طلبہ کی تربیت کی بہت زیادہ فکرفرماتے تھے اورآپ کی تربیت کا اندازکچھ نرالااورانوکھاتھا ،مثلاً:
۱- نمازفجرسے قبل جلدی بیدار کر کے نماز تہجد کی تلقین کرنا،فجرسے قبل کی سنتوں کا اہتمام کروانا ۔
۲- کبھی کبھار مسجد میں جلدی آنے والے طلبہ کو قلم مسواک یاعطر وغیرہ کاہدیہ پیش کرنا ۔
۳- معمولات جامعہ کے مطابق فجر سے پہلے ترجمہٴ قرآن کریم ،حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و سلم مع ترجمہ وتشریح اور دعا مع ترجمہ پیش کرنے والے طلبہ کی حوصلہ افزائی کرنانیز موقع ومناسبت کے اعتبارسے آیات واحادیث کاانتخاب کرنا۔
۴- مسجد میں آکر خالی بیٹھنے والے طلبہ کو تلاوت یاذکر واذکار کی ترغیب دینا ۔
۵- حضرت وستانوی اگر سفر میں ہوں تو عصر کے بعد طلبہ کو پندونصائح کرنا۔ آپ کایہ معمول تھاکہ آپ ہفتہ میں ایک یادودن عصر کے بعد تلاوت کلام پاک کے بعد منبر کے پاس کھڑے ہوجاتے اورفرماتے: تین باتیں ملاحظہ فرمائیں اور ترتیب وار بیان کرتے چلے جاتے کبھی سلام کے متعلق تو کبھی آداب مساجدو آداب طعام کے متعلق، مسجد میں جلدی آنے کی فضیلت ،طلب علم کے آداب، اساتذہ اوروالدین کے حقوق وغیرہ ۔
محرم الحرام کی مناسبت سے محرم کے فضائل،امتحان کی تیاری کاطریقہ اورمحنت کی ترغیب، چھٹیوں میں کیا کیاجائے کیانہیں اس کاطلبہ پراتنا اثر ہوتا کہ فورا عمل شروع کردیتے۔
۶- حضرات اساتذہ کرام سے طلبہ کاربط: آپ اس بات کہ بہت فکرمند رہتے تھے کہ کوئی طالب علم اپنے استاذ کی کسی طرح کی کوء بے ادبی کرے بل کہ اس پر وعد وعید کے کئی واقعات سناتے اور طلبہ کو رغبت دلاتے کہ اپنے مکتب کے استاذ کو خط لکھیں، فون کرنے کے لیے کہتے اور کہتے گھر جاتے وقت ان کے لیے کوئی اچھی کتاب یا عطر کی بوتل ہدیہ لے کر جانا ، درجہ حفظ سے آنے والے طلبہ کو تنبیہ کرتے کہ اپنے حفظ کے اساتذہ کے ساتھ ربط میں رہیں اور ان سے دعائیں لیتے رہنے کی تلقین کرتے اوراپنے واقعات سناکرترغیب دیتے رہتے۔
اگر کسی طالب علم کے متعلق معلوم ہوجائے کہ اس سے استاذ ناراض ہیں تو فوراً طالب علم کو معافی مانگنے کے لئے کہتے۔
۷- چھٹیوں میں گھر جاتے اور آتے وقت ملاقات کرنے کی ترغیب دلاتے رہتے اور جو طلبہ تعطیلات میں اپنے اساتذہ سے ملاقات کیے بغیر چلے جاتے توان سے ناراضگی کا اظہار کرتے اور پھر کچھ وقت کے بعد اچھے انداز میں اصلاح کرتے۔
۸- گھر جاتے وقت طلبہ کی مالی امداد اور کتابوں کاہدیہ :جو طلبہ کمزور گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ایسے طلبہ کو چپکے سے ملاقات کے وقت ان کے ہاتھ میں کچھ رقم عنایت فرماتے جس سے ان کاسفر خرچ نکل جائے یا وہ اپنے گھر والوں کے لئے کوئی چیز لے کر جائے اور کتابیں عنایت فرماتے اور فرماتے اپنے گھروں پر جا کر اس کی تعلیم کرنایا اپنے استاذ کو ہدیہ دیناوغیرہ۔
۹- ذہین اور ممتاز طلبہ کے ساتھ آپ کا تعلق :ذہین اورممتاز طلبہ کے متعلق آپ بہت فکرمند رہتے تھے اور موقع موقع پر اصلاح فرماتے ،جو طلبہ امتحانات یا مسابقات میں اعلی پوزیشن سے کامیاب ہوتے ایسے طلبہ کی بہت حوصلہ افزائی فرماتے، گراں قدر انعامات سے نوازتے ،کوئی علمی کام انہیں سپرد کرتے؛لیکن کہیں تکبر کے شکار نہ ہوجائے اس لیے اصلاح بھی کرتے رہتے بل کہ معمولی غلطی پر سرزنش فرماتے ،مقرباں را بیش بود حیرانی۔
۱۰- مضمون نگاری کی ترغیب: مضمون نگاری میں آپ کا ایک خاص تربیتی انداز تھا،مسجد میمنی کے قریب باغیچہ پر لگے جداری پرچوں کو آپ اولاً کھڑے ہوکر پڑھتے اور عصربعدطلبہ کی مجلس میں مضمون نگار طلبہ کے نام کااعلان کرتے اور انہیں کچھ انعامات سے نوازتے جس سے طلبہ کو حوصلہ ملتا،پھرخود ہی طلبہ کومکلف کرتے کہ فلاں فلاں عنوان پر جداری پرچے نکالیں ۔
۱۱- انجمنوں اورمسابقات میں شرکت کی ترغیب :آپ ہمیشہ طلبہ کو فلیتنافس المتنافسون کاعملی درس دیا کرتے تھے ،طلبہ کو انجمن یامسابقہ میں شرکت کی ترغیب دیتے ،شرکت کرنے والے طلبہ کو محنت پر ابھارتے اور کامیاب ہونے پر خصوصی مبارکبادی پیش کرتے اور ایسے طلبہ کو سالانہ جلسوں میں موقع عنایت فرماتے تھے۔
مصنفین ومرتبین کیساتھ :
علمی و عملی ہر میدان میں آپ پیش پیش تھے آپ خود ایک بہترین مصنف تھے لیکن اس کے ساتھ آپ کا ایک خاص وصف یہ تھاکہ جس کسی کی بھی کوئی نئی کتاب منظر عام پر آتی تواس کے چند نسخے خرید لیتے اور کتاب ہر جگہ پہنچ جائے اس کی فکر فرماتے اور اگر کوئی تصنیف و تالیف کے بارے میں مشورہ طلب کرتا تو امید سے بڑھ کر مفید مشوروں سے نوازتے اور ہر امکان بھر کوشش کرتے کہ جلدازجلد کتاب زیور طباعت سے آراستہ ہوکر آجائے ۔
ہم عصراساتذہ کے ساتھ تعلق :
حضرت مرحوم کی یہ عادت بھی بارہادیکھی کہ ہم عصراساتذہ کا خوب احترام فرماتے ،مجلسوں میں ان کے نام القاب اوربڑے احترام کے ساتھ پیش فرماتے ،بل کہ شاگردوں کا نام بھی بڑے احترام اورعقیدت کے ساتھ لیتے تھے ،جس سامعین پرایک اچھاتأثرجاتا۔ہرایک خوشی غمی میں آپ برابرشریک ہوتے ۔
منافسہ فی حفظ الحدیث:
الحمدللہ جامعہ میں طلبہ کی تئیں جو بھی مشن اورتحریک لے کرکھڑے ہواجائے ،طلبہ واساتذہ کااس میں بھرپورتعاون ہوتا ہے ،خاص طورپرمنتظمین اس کی بہت زیادہ فکرفرماتے ہیں ،جب حضرت رئیس جامعہ اورحضرت مولاناحذیفہ صاحب وستانوی کی زیرسرپرستی طلبہ کے لیے منافسہ فی حفظ الحدیث کاآغازکیا گیا توحضرت مرحوم نے اس پربہت خوشی کا اظہارفرمایا اوربارباراس کا تذکرہ فرماتے ،طلبہ میں اعلان کرتے ،منافسہ کے ذمہ داراساتذہ کی حوصلہ افزائی فرماتے اورمنافسہ کے ہرپروگرام میں شرکت فرماتے ،آپ کی وفات سے چندروز قبل ہی مسجد میمنی میں منافسہ فی حفظ الحدیث کاایک پروگرام رکھاگیا ،آپ نے نظامت فرمائی اورقرآن وحدیث سے مسابقہ ومنافسہ کی اہمیت وافادیت بیان فرمائی ،پھرمنافسہ کے انعامی جلسہ میں شرکت فرمائی ،یقینا آپ نے منافسہ فی حفظ الحدیث کو ایک تحریک شکل دے دی تھی ،جس کی وجہ الحمدللہ طلبہ کو تین سو،پانچ سو،سات سواورکچھ طلبہ کو ہزارہزاراحادیث یادہوگئی ۔اللہ تعالی قبول فرمائے اوراس کی برکت سے حضرت مرحوم کے درجات بلندفرمائے ۔
آخری ملاقات:
وفات سے دودن پہلے جب اطلاع ملی کہ حضرت کی طبیعت ناسازہے ،تو حضرت مولانایحیی صاحب،مفتی عبدالمقیت صاحب اورمفتی عبدالرشید صاحب کی معیت میں بغرض عیادت حضرت کے گھرتشریف لے گئے تو دیکھاکہ حضرت کی طبیعت ناسازہے ،بدن میں بہت زیادہ کمزوری ہے ،ہونٹ خشک تھے ، پھربھی بشاشت کے ساتھ ملاقات فرمائی اوراپنی بیماری کی وجہ بتلائی ،چائے شربت کی پیش کش کی جس پرہم نے حضرت کی طبیعت ناسازہونے کی وجہ سے معذرت کردی اوربہت عظمت کے ساتھ ملاقات کرکے ہم لو گ نکل گئے کہ پھرآئیں گے اور ان شاء اللہ بہت جلدآپ صحت یاب ہوجائیں گے ،لیکن دوسرے دن اطلاع ملی کہ آپ کو بغرض علاج گجرات لے جایاجارہاہے اورتیسرے دن وفات کی خبرموصول ہوئی جو یقینامجھ جیسے کئی شاگردں کے لیے ایک غمناک خبرتھی ۔
اللہ تعالی سے دعاہے کہ اللہ تعالی حضرت مرحوم کی مغفرت فرمائے درجات بلندفرمائے ،پسماندگان کو صبرجمیل عطافرمائے جامعہ کو ان کا نعم البدل عطافرمائے ،ان کی تمام اچھی خوبیاں ہم میں منتقل فرمائے ۔
آمین یارب العالمین