نگارش:ابوعالیہ نازقاسمیؔ،مدہوبنی/استاذجامعہ اکل کوا
محترم قارئین : آپ عنوان دیکھ کرسوچ رہے ہوںگے کہ یہ آج ’’شاہراہ علم ‘‘کے صفحہ پرکون ساآٹھواںعجوبہ لے کرآگیاہے ؟موجودہ وقت میںاس کی کیاضرورت ہے ؟بھلایہ بھی کوئی کہنے سننے اورلکھنے پڑھنے کی بات ہے ؟ یہ محترمہ اردو؛ توہماری مادری زبان ہیں ،پدری نہیں،جس کے لیے ہمیں کسی قسم کاپاپڑ بیلنے کی ضرورت پڑے۔اِس دنیامیںآنے کے بعداِسی کی مقدس گود میںتو ہم اپنی آنکھیں کھولتے،سانسیں لیتے اورپرورش پاتے ؛ اِس دنیا سے گذر جاتے ہیں۔
لطیفہ : ایک اسکول کے ا ستاذنے بچوں سے پوچھاکہ بتاؤاردوزبان کو’’مادری زبان ‘‘کیوں کہتے ہیں؟ ایک بچہ کھڑا ہو کربڑی معصومیت کے ساتھ کہنے لگا۔جناب!اردوزبان کومادری زبان اِس لیے کہتے ہیں کہ صبح سے لے کر شام تک وہی اِس کوزیادہ استعمال کرتی اوربلاتھکان بولتی رہتی ہیںاوراِس کے علاوہ ایک دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ جب امی جان فراٹے بھرکربولنے لگتی ہیں ،توپھرابوکے بولنے کا نمبر ہی نہیں آتا ۔
ہماری خطرناک غلطی :تواِس سلسلے میںیہ بات یادرکھیں کہ ہماری اِس قسم کی منفی سوچ ہی تمام غلطیوں کے لیے بنیادکاپتھر ہے، جس کاہٹاناہمارے لیے بہت ضروری ہے ۔کیوںکہ بہت ساری باتیں ہماری زندگی میں ایسی ہوتی ہیں،جن کاتعلق سیکھنے سکھانے سے ہوتاہے ۔اُس کے حصول کے لیے کوشش اورمحنت کرنی پڑتی ہے ۔ ہم یہ بات اچھی طرح جانتے اورسمجھتے ہیںکہ جب سامنے میںرکھی ہوئی روٹی کاایک ٹکڑابھی بغیر محنت کے ہمارے منہ میںنہیں پہنچ سکتاتوپھرسوچنے کی بات ہے کہ یہ املایااردوبغیرمحنت کے کیسے درست ہوجائے گی؟یہ بات ہمیشہ یاد رکھنے کی ہے کہ تحریربھی انسان کی ایک اہم اوربنیادی ضرورت ہے ،مگرافسوس کامقام یہ ہے کہ انحطاطِ علمی کے اِس دورمیںتعلیمی اداروں میں بھی املا وتحریرمیں دن بہ دن کمزوری آتی جارہی ہے۔اِس کی اہم وجہ کچھ تو اپنوں کی مہربانی اورکچھ غیروںکی نادانی ہے ۔یہی ہماری پریشانی کی کہانی ہے ۔اس لیے طلبہ کوتوچھوڑہی دیجیے ؛اورعوام الناس کا روناکیا؟میںاپنے مشاہدہ کی بناپریہ بات افسوس کے ساتھ سپردقلم کررہاہوںکہ ہم رات دن پڑھنے پڑھانے والے اساتذۂ کرام کا بھی بہت سااملادرست نہیںہوتا۔یہ بات ہمیںکیوںیادنہیںرہتی کہ صرف ماحول میں پیدا ہو جانے اورپروان چڑھنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ وہاں صرف بولنا آ جاتاہے ،ـلکھنانہیں۔اسی لیے تواردوزبان کے مشہور شاعرحضرت داغ ؔ دہلوی (و:۲۵؍ مئی۱۸۳۱ء بروز: منگل/ م: ۱۴؍ فروری ۱۹۰۵ء بروز: منگل) نے کہاتھاکہ ؎
نہیں کھیل اے داغؔ یاروں سے کہہ دے
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
ہماری حالت: ہم دعویٰ تویہی کررہے ہیں کہ{إِنَّمَانَحْنُ مُصْلِحُوْنَ۔}کہ ہم ہی مصلحِ اعظم ہیں؛اصلاح کانعرہ خوب زوروشورسے بلندکرتے ہیں۔ہم یہ کہتے نہیںتھکتے ہیں کہ اردوہماری مادری زبان ہے، اس لیے ہمیں سیکھنے کی کوئی ضرورت نہیںہے ۔لیکن ہمیںاِس بات سے بالکل اتفاق نہیںہے۔کیوںکہ جب ہم عملی دنیامیں قدم رکھتے ہیں توپھرپتا چلتاہے کہ ہماری زبان دانی یا اردو دانی کی کہانی کا کیا حال ہے اورہم نے اس کا کیا حشرکررکھاہے؟اردوکوہم نے توکسی یتیم اولادکی طرح ایک کونے میںڈال رکھاہے۔
یہ بھی نہیںمعلوم: بڑے ہی افسوس کے ساتھ یہ لکھناپڑتاہے کہ آج کل ہمارے اردو داں طبقہ کی اکثریت کاحال یہ ہے کہ ہم جو کچھ لکھتے پڑھتے ہیںیاجس رسم الخط میںہماری یہ کتابیں؛ اخبارات اور دیگر قیمتی رسائل وجرائدہمارے سامنے شائع ہو کر آ رہے ہیں، وہ کون سے خط میںہے؟ہمیںشایدیہ بھی نہیںمعلوم کہ اِس کی ابتداکہاںسے اورکیسے ہوئی؟خیرکوئی بات نہیںہے۔
’’اپناتوکام ہے کہ جـلاتے چلیں چراغ‘‘کی روشنی میں ؛قارئین کے لیے مفیدسمجھ کرہم تھوڑی سی روشنی اِ س پرڈال دیتے ہیں۔ سب سے پہـلے اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ عربی رسم الخط ’’مادرخطوط ‘‘ہے ،لیکن ہمارایہ مروجہ خط’’خط نستعلیق ‘‘ کہلاتاہے۔ نستعلیق دراصل ’’نسخ اورتعلیق‘‘ سے مرکب ہے ۔ابتدائے اسلام میں عراق، حجاز اورعرب میں کوفی وعبرانی زبان کاڈنکا بج رہا تھا۔ ابن مُقلَہ نے ۳۱۰ھ میں خط کوفی سے ’’خط نسخ‘‘ ایجاد کیا۔ چوںکہ اس خط کی ایجادکے بعدپہلے کے رائج تمام خطوط منسوخ ہوگئے ،اس معنی کراس کو’’خط نسخ‘‘ کہاگیا۔
ابن مُقلَہ کامختصرتعارف:آپ کانام ابوعلی محمدبن علی بن حسین بن مقلہ ہے ۔آپ اصلاً شیرازی النسل تھے۔۲۱؍ شوال المکرم ۲۷۲ھ مطابق۳۱؍ مارچ ۸۸۶ء بروز: جمعرات عصرکے بعد بغداد میں پیدائش ہوئی۔وہیںسے فارغ التحصیل ہوکراپناشماروقت کے متبحرعلماکی صف میںکرایا۔تعلیم سے فراغت کے بعد اُن کی رسائی دربارخلافت تک ہوئی اوراُنھوںنے آئین حکمرانی کے وہ جوہردکھائے کہ ان کے حسن انتظام کی دور دورتک شہرت ہوگئی ۔ یوںتواُن کی ذات مجموعۂ کمالات وصفات تھی،لیکن انہوںنے خوش خطی کواپناخاص میدان بنا کراُس میںکل چھ خطوط ’’خط ثلث،خط نسخ،خط توقیع،خط ریحان،خط مُحقَّق اورخط رِقاع ایجادکیا۔اس میں سے ’’خط نسخ‘‘ ہی وہ خط ہے جوآگے چل کرہمارے مروجہ خط کی بنیاد بناہے،جس کی تفصیل اوپرآچکی ہے ۔خلیفہ ابن رائق نے کسی بات پر ناراض ہوکر جیل میںڈال دیا۔پھربعض چاپلوسوںاور حاسدین کے بھڑکانے کی وجہ سے جیل ہی میں زہردے کراُس باکمال ہستی کاچراغ ِہستی ہمیشہ کے لیے بجھادیا ۔ اس طرح موصوف نے کل ۵۶؍ برس کی عمر پاکر ۱۰؍ شوال المکرم ۳۲۸ھ مطابق ۲۰؍ جولائی ۹۴۰ء بروزاتوارکواس دارِ فانی سے دار جاودانی کا سفرکیا۔
زندگی کے تین ساتھی: انھوںنے اپنی کل ۵۶؍سالہ زندگی میں ۳؍ خلفا کی خدمت کاشرف حاصل کیا۔۳؍ بار وہ ملک فارس گئے۔۳؍دفعہ وزیراعظم کی کرسی ملی۔۳؍باربارگاہ شاہی سے معتوب بھی ہوئے۔ ۳؍ مکمل قرآن مجیداپنے ہاتھ سے تحریر کردہ بہ طورِ یادگار چھوڑے۔۳؍ مرتبہ خلیفہ الراضی کے ظلم کا شکار ہوئے۔اوریہ عجیب بات ہے (جسے پڑھ کر ممکن ہے کہ قارئین کرام بھی حیرت زدہ ہوں ) کہ مرنے کے بعد ۳؍ مرتبہ ۳؍ مختلف مقامات پردفن بھی ہوئے۔
۳۲۲ھ میںحسن نام کے ایک شخص نے خط کوفی سے تراش خراش کرکے ’’خط تعلیق ‘‘ کو وجود بخشا۔ شروعاتی دورمیںیہی دونوںخطوط’’نسخ اورتعلیق‘‘کچھ عرصے تک ایرانی دربار،گھرکے درودیواراورہرکاروبار کی زینت اورشان رہے۔ پھرآگے چل کر ساتویں صدی ہجری میں ایک ایرانی شاعرمیرعلی تبریزی نے ’’خط نسخ اور تعلیق‘‘ کوملاکر ’’خط نستعلیق‘‘ کی ایجادکی۔ اِس خط نے ایسی مقبولیت حاصل کی ؛ کہ صاحب’’ صحیفۂ خوشنویساں‘‘ احترام الدین شاغل نے ’’ احسن الخطوط‘‘ اور ’’عروس الخط‘‘ کہلانے کا مستحق قراردیاہے ۔ یوں تو حسن وجاذبیت اوردل کشی کے لیے بہت سارے خطوط اپنی اپنی جگہ پر مشہور ومعروف ہیں، لیکن خط نستعلیق کی بات ہی کچھ اورہے ۔ اِس کی انفرادیت، مقبولیت اوروسعت کے مقابلے میںدوسراکوئی بھی خط آج تک اس کی رفعت کونہ پاسکا اورآئندہ کاحال؛ توواللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم۔
آمدم بر سر مطلب: یہ چندباتیںاورمعلومات؛ درمیان میںضمنی طورپرآگئیں۔اب آگے ہم اصل موضوع کی طرف رخ کرتے ہیں اور املا کے تعلق سے کچھ معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
چندمثالیں:
(۱) ہمیں تو’’گُنا‘‘بمعنی ضرب یادوچندکرنااور’’گناہ‘‘میں فرق نہیں معلوم ہے ۔بہت سے لوگوں کو احقرنے دیکھا ہے کہ ’’گنا‘‘کی جگہ گناہ اور ’’گناہ‘‘کی جگہ گنالکھ دیتے ہیں ۔ اور بعض لوگ تو ’’گناہ‘‘ کو ’’واؤ‘‘ کے ساتھ یعنی ’’گوناہ‘‘ بھی لکھتے نظرآتے ہیں ۔
(۲)اسی طرح بعض حضرات ایسے بھی مشاہدے میں آئے ،جن کی تعلیمی لیاقت مسلّم اورتدریسی صلاحیت درس نظامی کے متوسطات تک پہنچی ہوئی ہے ۔لیکن تحریرمیں اُن سے بھی ایسی فروگذاشت دیکھی،جوکسی حدتک ناقابل معافی کی حدودتک پہنچتی ہے ۔ایسے حضرات کے قلم سے ایساجملہ سپردقرطاس ہوناکہ فلاں کی طرف سے’’ پورہ‘‘ کیاجاتاہے۔اور پوراکو’’پورہ ‘‘لکھنااملاکی دنیامیںکتنی سنگین غلطی مانی جاتی ہے؟ایسے حضرات اگرکہیںممتحن بن جائیںاورکسی طالب علم کوجوابات صحیح نہ دینے کی صورت میںناکام کردیںاوراسے فیل بتانے کے لیے ایسالکھ دیںکہ ’’یہ طالب علم فعل ہے‘‘توطالب علم فیل ہویاپاس،خودممتحن صاحب کی علمی لیاقت پرسوالیہ نشان ضرورلگ جائے گا۔یہ باتیں دُکھے دل کی آوازہیں،جن کااظہارحقیقت کااظہارہے ؎
اظہار حقیقت سے ہم باز نہ آئیں گے
ہوتا ہے تو ہونے دو شبنم سے خفا کوئی
تولیجیے ! ہم املاسے متعلق کچھ ایسے ضروری امورکی نشان دِہی کرنے کی کوشش کرتے ہیں،جن کاجاننا ہمارے لیے بہت ہی ضروری ہے ۔تو سب سے پہلے ہم یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ املاکے معنی کیاہیں؟:
املاکامعنی: پُرکرنا،یادرکھنا،بول کرلکھنایالکھوانا۔(ادبی بھول بھلیّاں)
املاکی تعریف: پروفیسررشیدحسن خان (و:۱۰؍جنوری۱۹۳۰ء بروز:جمعہ/ م: ۲۵؍ فروری ۲۰۰۶ء بروز: سنیچر)نے املاکی یہ تعریف لکھی ہے کہ’’املالفظوںکی صحیح تصویر کھینچنا ہے۔‘‘ (عبارت کیسے لکھیں؟ص/۱۲)
جب ہمیں املاکی تعریف معلوم ہوگئی ،تواب چندباتوںپردھیان دینااوریہ دیکھناہوگاکہ عمومی غلطیاں کہاں کہاں واقع ہوتی ہیں؟اوراُس پراچھی خاصی توجہ دینی اورمحنت کرنی پڑے گی۔تبھی ہمارااملاکنٹرول میں آئے گا، ورنہ تواصلاح خواب وخیال ہی رہ جائے گا۔
(۱)حرف کی تبدیلی: کسی بھی لفظ میں جن حرفوںکوآناچاہیے ،وہی حرف لکھے گئے ہوں ۔ جیسے: ’’تلاطم‘‘ ایک لفظ ہے ،جس میں پہلالفظ’’ت ‘‘ہے ،لیکن بعض لوگ اس کو’’طلاطم‘‘لکھ دیتے ہیں ۔ایسی صورت میںیہی کہا جائے گاکہ یہ املا غلط ہے ۔اسی طرح ایک لفظ’’ کارروائی ‘‘ہے،جس کوبعض اہلِ قلم حضرات بھی ’’کاروائی‘‘ لکھتے یعنی ایک ’’ر‘‘ کوہضم کرجاتے ہیں،جب کہ اردومیں کاروائی کوئی لفظ ہی نہیں ہے۔
ایک پہیلی: ہمارے املامیں گزرنا(بالزا)اورگذرنا(بالذال) بھی کسی پہیلی سے کم نہیں ہے۔ جہاں ہماشماتوکیا؛ اچھے اچھے لوگ بھی اِس کی گلیوںمیںراستہ بھٹک جاتے ہیں ،تواس سلسلے میں ایک اصول یادرکھیںکہ:
فارسی کے پانچ مصادرہیں:گذشتن،گذاشتن،گذاردن،پذیرفتن اورگزاردن ۔شروع کے چاروں مصادرمیں’’ذ‘‘ہے اورآخری مصدرمیں’’ز‘‘ہے ۔اول الذکرچاروں سے جوالفاظ بنیںگے ،اُن میں ’’ذ‘‘ ہی ہو گا۔اسی طرح چلنے ،چھوڑنے اورپارکردینے کے معنی میں تمام الفاظ گذشتن،گذاشتن،گذاردن ہی سے بنیںگے اور ’’ذ‘‘سے لکھے جائیںگے ۔مثلاً:گذشتہ،زمانۂ گذشتہ،سرگذشت،درگذر،گذرگاہ،عمرگذراں وغیرہ ۔
گزاردن’’ز‘‘ والے کلمے سے جوالفاظ مشتق ہوںگے وہ’’ز‘‘سے ہی لکھے جائیںگے۔اِس کے معنی پیش کرنا،اداکرنااورشرح کرناکے ہیں ۔جیسے:گزارش،عبادت گزار،نمازگزار،مال گزاری،شکر گزار، تہجدگزاراور خدمت گزاروغیرہ۔ (حرف شیریں:ص ۳۸،۳۹)
’’پذیرفتن‘‘سے جوالفاظ آئیںگے ’’ذ‘‘سے لکھے جائیںگے۔جیسے:پذیرائی،دل پذیر،خلل پذیراور پذیرفتہ وغیرہ۔ (حرف شیریں:ص ۳۹)
(۲)شوشے کی غلطی: ہماری تحریروں میں سب سے پہلی اوربنیادی غلطی یہیں پرواقع ہوتی ہے :جیسے کہ ہم ’’ گلستاں‘‘لکھتے ہیں،تواِس میں’’ الف‘‘ اور’’لام ‘‘کے درمیان میں چارشوشے لازمی ہیں۔تین ’’س ‘‘ کے اور ایک ’’ت‘‘ کے لیے ۔لیکن املاکرتے وقت ہم اتنے بے خبرہوتے ہیںکہ ہمیں الفاظ کے جوڑپیوندکاکچھ پتہ ہی نہیں چلتا، اس لیے کبھی تو ایک شوشے کی برکت ہوجاتی ہے یا پھرایک کم ہی ہو جاتاہے۔یعنی کبھی تین یاکبھی پانچ شوشے ڈال دیتے ہیں۔اب ظاہربات ہے کہ گلستاں کایہ املا دونوں ہی صورتوں میںشوشے کی کمی زیادتی کی بنیادپر غلط ہے ۔ اِسی ترازو اورکسوٹی پربہت سارے الفاظ کوتولااوراس کاموازنہ کیا جاسکتاہے ۔ تفصیل کی اس مختصرصفحات میں گنجائش نہیں ہے ، لہٰذا ’’العاقل تکفیہ الإشارۃ‘‘یعنی عقل مندوں کے لیے بس اشارہ ہی کافی ہے۔اوربے وقوفوںکے لیے میکسیکو کی’’لینن گریڈ اور پٹنہ کی خدابخش لائبریری‘‘ بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتی ۔ اب آگے دوسری خرابی دیکھتے ہیں ۔
(۳) نقطے: ہمارے املامیںایک ـلاپرواہی یہ بھی پائی جاتی ہے کہ کسی لفظ کا نقطہ کسی لفظ پرڈال دیتے ہیں۔ جس لفظ کانقطہ ہو،اُسی لفظ پرڈالناچاہیے ۔ورنہ توآپ ’’نبی‘‘لکھیںگے،جس میں پہـلے ن ،ب اور پھر آخر میں ی ہے۔اب تحریرکرتے وقت ہم نے’’ ن‘‘ کانقطہ’’ ب ‘‘کی جگہ اور’’ب‘‘ کانقطہ ’’ن‘‘ کے مقام پررکھ دیا،تو معلوم ہوا کہ پڑھنے والے ’’بنی‘‘پڑھ رہے ہیں،جب کہ لکھنے والے کامقصودہرگز یہ نہیں ہے ۔ یہ خرابی صرف اِس وجہ سے پیداہوئی کہ املامیں ’’نبی‘‘ کانقطہ تقدیم وتاخیرکاشکارہے ۔اگرپھربھی ہم نے اِس بات پرتوجہ نہیں دی ، تو پھر وہی بات ہوگی کہ ؎
میں پیار لکھتا رہا ، وہ پیاز پڑھتی رہی
ایک نقطے نے میرے پیار کا سالن بنا دیا
اوراس قسم کے غلطی کی دوسری مثال اِس طرح ہے کہ ؎
میں دعا لکھتا رہا ، وہ دغا پڑھتی رہی
ایک نقطے نے رحمت کو زحمت بنا دیا
لکھیں موسیٰ پڑھیں خدا: ہم اپنی کوتاہی وکاہلی اورغفلت کی بناپراملاکی اہمیت کوسمجھیں یانہ سمجھیں، لیکن حقیقت یہی ہے کہ املاکی بڑی اہمیت ہے ۔اگراِس کامکمل خیال نہ رکھاجائے تو لفظ کچھ سے کچھ بن جاتاہے ۔ بعض دفعہ یہ سمجھنابھی دشوار ہوتاہے کہ یہ لفظ کیاہے اور کس معنی میں مستعمل ہے ؟پڑھنے والے سوچ کے دریامیں غرق ہو جاتے ہیںکہ کیا پڑھیں اورکیانہ پڑھیں؟اوراِس کامطلب کیاہوسکتاہے؟ یعنی نویسندہ ایک لفظ کو اس کے املا کے برخلاف لکھ کر قاری کو ایک طرح کی الجھن اورذہنی پریشانی میں ڈال دیتاہے ،بل کہ اِس بات پرمجبورکرتا ہے کہ وہ اُسے اس لفظ کے علاوہ اٹکل سے کوئی دوسرا لفظ پڑھ لے، جوکہ خود نویسندہ کے نزدیک مقصودنہیں ہوتا ۔ جیساکہ قارئین کرام نے ’’نبی‘‘ کے املامیں محسوس کیا ہو گا۔
اس لیے بہ طورِ خلاصہ اوپرکی تحریر سے معلوم ہواکہ یہ بہت ہی ضروری ہے کہ لکھنے والے کی تحریرکاخط کم از کم ایساصاف ستھرا اورواضح ہوکہ خودپڑھ سکے۔ورنہ نقطے کی تقدیم وتاخیربھی پڑھنے والے کو کچھ اورپڑھنے پر مجبورکرے گی،جس کانقصان یہ ہو گا کہ مضمون تحریف معنوی کا شکار ہوگا۔
ہماری یہ تحریرغیراختیاری طورپرلمبی ہوتی چلی جارہی ہے۔موجودہ وقت میںطویل مضمون کے پڑھنے کے لیے وقت نکالنابھی ایک اہم مسئلہ ہے ،اس لیے قارئین سے معذرت کے ساتھ ہم رخصتی کی اجازت لیتے ہیں۔اللہ ہم سب کواملاکی اہمیت سمجھنے کی توفیق بخشے۔