اداریہ:جدت پسندی کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟؟!!

حذیفہ بن غلام محمد وستانوی

            امت ِمسلمہ عصر حاضر میں بے شمار مسائل سے دوچار ہے،جامعہ اپنے مختلف پلیٹ فارم سے امت کی صحیح رہبری کے لیے کوشاں رہتاہے،اس میں سے ایک میدان عصر ِحاضر میں فکری واعتقادی (اصلاح)ہے؛حتی المقدور جامعہ کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ حدود ِشرع اور اہل سنت والجماعت کے بیان کردہ نہج ِصحیح کے دائرے میں رہ کر امت کی رہنمائی کی جائے۔ اللہ اس کی مکمل توفیق اور استقامت نصیب فرمائے۔آمین یارب العالمین

            الحمدللہ!جامعہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل ِخاص وتوفیق سے اور حضرت والد صاحب دامت برکاتہم ومدظلہ العالی کے اخلاص اور درد ِدل کی برکت سے پُرفتن دور میں اپنے اس فریضہ میں کافی حدتک کامیاب رہاہے۔

            ”جامعہ اکل کوا“ کے من جملہ خدمات کے شعبوں میں سے ایک اہم شعبہ، شعبہٴ نشرواشاعت بھی ہے، جو تحریری فکری میدان میں اپنی خدمات پیش کررہاہے۔خاص طور پر” شاہراہ ِعلم“ کے متعدد خصوصی شمارے، جو موقع بموقع امت کو درپیش مسائل اور مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے، اہم موضوعات پر فکری مضامین کو سلیقہ سے یکجاکرنے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے کامیاب ہوا ہے۔

            ”کورونا“ کے بعد مشاغل کی کثرت کی وجہ سے شمارے پابندی سے منظر عام پر نہیں آسکے، مگر اب دوبارہ اپنے معیار کے مطابق آنا شروع ہوچکے ہیں اور ان شاء اللہ آئندہ بھی اللہ تعالیٰ کی توفیق ِخاص سے یہ خدمت جاری رہے گی۔

            جامعہ کے معمول کے مطابق رمضان المبارک میں کسی نہ کسی خاص موضوع پر خصوصی شمارہ ایک عرصہ سے قارئین کے پیش ِخدمت کیا جاتاہے،اس سال بھی مولانا محمد ہلال الدین صاحب نے بندہ سے دریافت کیا کہ کس موضوع پر خصوصی شمارہ تیار کرنا ہے؟

خصوصی شمارہ:

            تو غور وخوض کے بعد اللہ تعالیٰ نے دل میں بات ڈالی کہ”امت ِمسلمہ کو درپیش فکری، اعتقادی، تعلیمی، تربیتی اوراخلاقی چیلنجز اور ان کا حل“کا عنوان حالات کے اعتبار سے زیادہ مناسب ہوگا،چند دوست واحباب نے بھی رائے کی پرزور تائید کی؛لہٰذا اس مذکورہ بالا عنوان پر خصوصی شمارہ پیش ِخدمت ہے۔

پندرہویں صدی کے فکری مسائل:

            امتِ مسلمہ پندرہویں صدی ہجری میں بے شمار مسائل کا سامناکررہی ہے،مگر خاص طور پر فکری واعتقادی ،ساتھ ہی تعلیمی، تربیتی واخلاقی مسائل ایسے پیچیدہ ہیں کہ اللہ کی پناہ” الباس حق بالباطل“ گویا عصر ِحاضر کا امتیازی پہلوہے۔

سب سے بڑا فتنہ مرعوبیت کا ہے:

            امت مغلوبیت کے اس دور میں مرعوبیت کے فتنہ سے بری طرح دوچار ہے اور اسی مرعوبیت کا نتیجہ ہے کہ عوام تو عوام خواص بھی؛ بل کہ بعضے مرتبہ تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اخص ِخواص بھی اس سے بچنے میں ناکام ہوجاتے ہیں،تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مسئلہ کتنا سنگینی اختیارکرچکا ہے۔ صالحیت اور صلاحیت میں کمی کی وجہ سے تاویل ِباطل کے جال میں پھنس جانا آسان ہوجاتاہے۔بندہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا فضل ِخاص رہاہے اور والدین وبزرگوں کی دعائیں قدم قدم پر شامل ِحال رہی ہیں، جس کی برکت سے الحمدللہ ناکارہ ؛اگر چہ علمی وعملی اعتبار سے کافی کمتر اور کمزور ہے، مگر اپنے اکابرین کی کتابوں سے وابستگی اور چند متصلب الفکردوستوں اور رفیقِ ِکار کی صحبت ورفاقت کی وجہ سے ایسے حساس موضوعات کا ادراک کرلیتا ہے؛لہٰذا کوشش کرتاہے کہ حتی المقدور امت تک صحیح فکرکو پہنچانے کی کوشش کرے۔اللہ توہی دستگیری فرما! اورہرقسم کی ضلالت وگمراہی سے محفوظ رکھ۔آمین یارب العٰلمین۔

 امت کو درپیش فکری واعتقادی چیلنجز وجوہات و حل:

            اسلام نام ہے عقیدہ،فکر،عمل اور اخلاق کو اللہ تعالیٰ کے منشا کے مطابق انجام دینے کا۔عقیدہ وفکر چوں کہ بنیادکی حیثیت رکھتے ہیں؛لہٰذا آئیے پہلے اسی پر نظر ڈالتے ہیں، اس لیے کہ آخرت کی نجات موقوف ہے عقیدہ کی درستگی پر،اس وجہ سے عقیدہ کاافراط وتفریط سے پاک صاف ہونا مسلمانوں کی سب سے پہلی اور بنیادی ضرورت ہے۔

            امت کو فکری میدان میں جو مسائل در پیش ہیں، وہ دوطرح کے ہیں:

            (۱)داخلی۔(۲)خارجی۔

            اسلام واحد دین ِبرحق ہے،لہٰذا ایک طرف تمام باطل طاقتیں ہر زمانے میں مختلف وسائل استعمال کرکے اسلام ہی کو ہدف اور نشانہ بناتی ہیں،سازشوں کا جال دشمن کی جانب سے ہمیشہ ڈالا جاتاہے،اسی کو کسی نے بڑے اچھے اور خوبصورت انداز میں آیت ِقرآنی﴿وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ أُمّةٍ رَّسُوْلاً أنِ اعْبُدُوْاللّٰہَ واجْتَنِبُوْا الطاغُوْتَ﴾(سورةالنحل:۳۶)سے ثابت کیا ہے کہ تمام انبیائے کرام علیہم الصلاة والسلام کی دعوت ”فکری واعتقادی“ اعتبار سے دو بنیادی ستون پر قائم ہیں۔

            (۱)﴿اُعْبُدُوْا اللّٰہَ﴾:اللہ تعالیٰ کی وحدانیت، یعنی عقیدہ کا صحیح ہونا، عبادت اللہ تعالیٰ ہی کی اور اطاعت رسول اللہ ہی کی کامل ہونی چاہیے۔

            (۲)﴿اِجْتَنِبُوْا الطٰغُوْتَ﴾: ہر قسم کے باطل افکار ونظریات، یعنی بدعات و خرافات،باطل تاویلات،کفر وشرک،فسق وفجور زندقہ اور عقیدہ میں خلل سے بچنا او ر دور رہنا ۔

            گویا دین وعقیدہ میں پختگی اور اہل ِسنت والجماعت کے عقیدہ سے وابستگی ،اسے جاننا اور اس پر عمل کرنا،اس کی دعوت دینا ہر مسلمان پر ضروری ہے۔ساتھ ہی صحیح عقیدہ کی حمایت اس کا دفاع اور اس پر ہورہے حملوں کا مقابلہ یہ بھی اہم ترین فریضہ ہے۔

مداہنت اور مدارات میں فرق:

            مگر افسوس! دفاع ِدین کے اس فریضہ کو امت کا بڑا طبقہ تقریباً ترک کرچکا ہے اور حکمت ومصلحت کے نام پر مداہنت کا شکار ہورہاہے۔

            علامہ ادریس کاندھلوی رحمةاللہ علیہ مدارات ومداہنت کے فرق کویوں بیان کرتے ہیں:

            مُدَاہَنَتْ: کسی دنیوی غرض کے خاطر اپنے دین کو چھوڑ دینا یا اس میں سستی کرنامداہنت ہے۔

            مُدَارَات:اپنی دنیوی راحت ومنفعت کو دوسرے کی دنیوی راحت ومنفعت کے خیال سے چھوڑ دینا مدارات ہے۔

            مدارات شریعت میں مستحسن ہے اور مداہنت مذموم ہے؛ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے﴿وَدُّوْا لَوتُدْھِنُ فَیُدْھِنُوْنَ﴾خلاصہ یہ کہ دین میں سستی اور نرمی کا نام مداہنت اور دنیوی امور میں نرمی کا نام مدارات ہے۔

(معارف القرآن ادریسی/ج:۱/ص۲۲۴)

            یہ ایک بہت ضروری مسئلہ ہے کہ امت مداہنت کی جانب تیزی سے بڑھتی جارہی ہے، اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔آمین یا رب العٰلمین۔

            قرآن ِکریم نے بہت صراحت کے ساتھ مسلمانوں کو تلقین کی ہے کہ وہ بدعات وخرافات، شرک وکفر،ضلالت وگمراہی اور شبہات وغیرہ سے کلی اجتناب کریں اور کبھی مرعوبیت کا شکار نہ ہوں۔ارشاد ِخداوندی ہے:

            ﴿وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَہُ عَنْ ذِکْرْنَا وَاتَّبَعَ ھَوٰہُ وَکَانَ أَمْرُہُ فُرُطًا﴾

(الکھف:۲۸)

            ایسے شخص کی پیروی نہ کرنا، جن کے قلب کوہم نے اپنے ذکر سے غافل کررکھا ہے اور وہ نفسانی خواہشات کا شکار ہو،اوروہ افراط وتفریط کا حامل ہو۔

ضلالت کے حاملین کا معیار:

            قرآن ِکریم کے ایک ایک لفظ پر غور وخوض کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل، اپنی نفسانی خواہشات کے پیروکار اور افراط وتفریط کے شکار افراد کی طاعت اور پیروی سے بچنا ۔گویا قرآن نے معیاربتایا کہ کیسے لوگ نا قابل ِاتباع ہیں:

            ۱۔         اللہ کے ذکر سے غافل افراد۔

            ۲۔         خواہشات کے بندے۔

            ۳۔         افراط یا تفریط سے دو چار لوگ۔

            قرآن نے صفات ِ ضالین کودریا بہ کوزہ کردیا ، اگر ہم گمراہیوں کا جائزہ لیں، تو ان میں سے سارے یاکسی ایک مرض کا وہ شکار ہوتے ہیں، اللہ حفاظت فرمائے۔

صحابہ نے افکار ِباطلہ سے اسلام کا دفاع کیسے کیا:

            اگر تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ مسعود کے بعد حضراتِ صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی ضلالت کے حامل افراد سے واسطہ پڑا اور صحابہ  نے ان سے برأت کا اعلان کیا۔ جیسے مسلم شریف کی روایت میں یحیٰ ابن عمر فرماتے ہیں: کہ حمید بن عبد الرحمن الحمیری کے ساتھ حج یا عمرہ کے لیے بصرہ سے نکلے ، ہم مدینہ منورہ پہنچے اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہماکی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے اور سوال کیا: کہ ہم جہاں سے آئے ہیں وہاں پر ایک جماعت ایسی ظاہر ہوئی ہے، جو تقدیر کا انکار کرتی ہے، تو آپ رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ کیا وہ مسلمان ہیں؟ قبلہ رخ ہوکر نماز پڑھتے ہیں؟

            ہم نے کہا ہاں! توآپ غصہ سے لال پیلے ہوگئے۔ہم نے آپ کو شدتِ غضب میں دیکھا تو سوچنے لگے، اگر نہ پوچھتے تو اچھا تھا، پھر آپ نے کہا کہ اگر تم ان سے ملو تو کہنا کہ ”میں عبد اللہ بن عمر  ان سے بری ہوں اور وہ مجھ سے بری ہیں۔ “

            اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صحابہ فکری و اعتقادی مسائل میں کتنے متصلب تھے۔ حضراتِ صحابہ کی اسی حمیت ِدینی اور غیرت ِایمانی نے دین ِاسلام کومکمل محفوظ رکھنے میں بڑا اہم رول ادا کیا۔ فجزا ہم اللہ عنا ومن امة محمد خیر الجزاء واحسن الجزاء في الدارین۔

حضرت ابوبکر کی غیرت ایمانی:

            اور دین کے بارے میں حضرت ابوبکر صدیق کا مانعین ِزکوٰة اور مرتدین کے ساتھ سختی سے نمٹنا اور ایک تاریخی جملہ کہنا” اَینْقص الدِّیْنُ وَاَنَا حَیٌّ“ کیا میرے جیتے جی بھی دین میں کمی کی جاسکتی ہے!!؟؟

            حضرت علی رضی اللہ عنہ کا خوارج اور روافض سے سختی سے پیش آنا۔ خلافتِ بنو امیہ اور بنو عباس کے دور میں باطل افکار کے حامل افراد کو قتل کیا جانا، یہ سب معاملات قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کا دینی معاملوں میں تصلب پر دلالت کرتا ہے۔

اسلام کا کمال:

            اسلام کامل ومکمل دین ہے، جس کے پاس انسان کے انفرادی واجتماعی تمام مسائل ِصحیحہ کا حل موجود ہے؛ لہٰذا جب تک ہمارے خلفا ، امرا اور حاملینِ دینِ متین رہے، وہ براہِ راست باطل افکار کی دخل اندازی کرنے والے افراد سے خوب اچھی طرح نمٹتے تھے، اسی طرح تاریخ کے مختلف ادوار میں جب جب علمائے ربانیین اور خلفا وامرا کا رشتہ مضبوط رہا، اسی طرح باطل افکار کے حاملین کا قلع قمع کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی ۔ مگر جب اعتزالی یا غیر اسلامی افکار کے حاملین وزارتوں تک پہنچے تو مسائل بڑے پر خطر ہوگئے، مگر علمائے ربانین اس میدان سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے، چاہے اس کے لیے سخت سے سخت سزا ہی سے کیوں دوچار نہ ہونا پڑا۔ جیسے امام احمد بن حنبل وغیرہ۔

            سیاسی میدان میں مسلمانوں کی گرفت جب جب کمزور ہونے لگی اور دشمنانِ حق کو تسلط حاصل ہونے لگا اور انہیں اس بات کا ادراک ہوگیا کہ ہمارے تسلط کو مسلمانوں ہی کی جانب سے خطرہ ہے، تو انہوں نے منظم انداز میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں کا جال بچھانا شروع کردیا، جس کے لیے استشراق، استبشار اور استعمار جیسی تحریکات کھڑی کیں؛ اس طرح میدانِ جنگ اور میدانِ فکر دونوں میں انہوں نے بڑی عیّاری سے کام لیا۔

یہود ونصاریٰ کا سازشی رول:

            خاص طور پر اہلِ کتاب یہود ونصاریٰ نے اسلام کے ابتدائی دور میں بھی حسد کی بنیاد پر اسلام اور مسلمانوں کو ہر اعتبار سے ختم کرنے یا کم از کم کمزورکرنے کی بھر پور کوشش کی ، کبھی میدانِ جنگ تو کبھی میدانِ فکر ونظر میں ۔

             اسی لیے ایک باحث : ”الدکتور جمیل المصری “نے بڑی عمدہ بحث لکھی ہے: ” اثر اہل الکتاب فی الحروب والفتن الداخلیة فی القرن الاولیٰ“، بڑی تفصیل کے ساتھ تقریباً چار سو سے زائد تاریخی وتراثی کتابوں سے استفادہ کرکے لکھا ہے، جو اب نیٹ پر بھی دستیاب ہے۔ دل چسپی رکھنے والوں کے لیے بڑی عمدہ کتاب ہے۔

             گویا اسلام کے دور ِغربت ِاولیٰ میں ،اہل کتاب نے مسلمانوں کے پاس اسباب کے قلت کو دیکھ کر اسے کمزور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور اب دوبارہ اسلام کی غربتِ ثانیہ میں وہ موقع کا بھر پور فائدہ اٹھانے کی کوشش میں مصروف ِعمل ہیں۔ اس وقت بھی ان کے پاس تمام وسائل اور اسباب تھے اور آج بھی ۔ فرق یہ ہے کہ اس وقت ہم سب کے آئیڈیل اور محبوب نفوسِ قدسیہ صحابہ تھے، جو انبیائے کرام علیہم السلام کے پرتو تھے اور انہوں نے بڑی دلیری ، جرأت ، ہمت ، حوصلہ ، حکمت اور جذبہٴ صادقہ کے ساتھ ایمانی غیرت اور اسلامی حمیت سے سرشار ہوکر ان کا مقابلہ کیاتھا۔

اسلام اپنوں میں اجنبیت کا شکار:

             مگر افسوس! کہ آج اسلام خود اپنوں میں اجنبیت کا شکار ہے اور بہت مختصر ایسی جماعت ہے ،جو مقابلہ پر جرأت کے ساتھ آمادہ ہے ۔ اس دور میں حکومت کی سرپرستی ہی نہیں؛ بل کہ خود حکومت دفاع ِدین کے اس اہم ترین فریضہ کو ادا کرنے پر صرف آمادہ ہی نہیں، بل کہ اپنی ساری صلاحیت اس پر خرچ کررہی تھی۔ فتنہٴ ارتداد کے دور میں سیدنا وحبیبنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جہاں تاریخی جملے کہے، وہیں اقدامی میدان میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

            موٴرخ رقم طراز ہے : ” تتحرک احد عشرة لواء من المدینة المنورة“ کہ مدینہ منورہ سے گیارہ لشکر مانعینِ زکوٰة کی اور مدعیان ِنبوت کی سرکوبی کے لیے حضرت ابو بکر صدیق  کے حکم پر کمر بستہ ہوکر پورے جزیرة العرب میں پھیل جاتے ہیں۔ دفاعِ اسلام کے لیے تاریخِ اسلام کے سب سے عظیم فوجی سپہ سالار سیدنا حضرت خالد بن ولید ، عکرمہ بن ابی جہل اور شرحبیل بن حسنہ جیسے پر جوش افراد کو میدان میں اتارا جاتا ہے، جو جان کی بازی لگاکر دفاعِ اسلام کے فریضے کو انجام دیتے ہیں اور مختصر سے عرصے میں اس مہم میں کام یاب ہوکر ” نشر اسلام “کی مہم کو شروع کرتے ہیں۔

اسلام کا دفاع بہت ضروری ہے:

            معلوم ہوا کہ دفاع کا فریضہ” نشر“ پر بھی مقدم ہے، لہٰذا اسے ہلکے میں لینا ایک سچے پکے مسلمان کے لیے ہر گز درست نہیں ۔جہاں صحابہ نے میدانِ کار ساز میں اتر کر دفاعِ اسلام کے اس فریضے کو بہ خوبی انجام دیا، وہیں فرقِ باطلہ اور افکارِ زائغہ کے حاملین سے مناظرہ کرکے بھی اس فریضے کو انجام دیا۔ ترمذی شریف کی روایت کے مطابق ایک عورت کوحالتِ حیض کی فوت شدہ نمازوں کی قضا کے سوال پر ام الموٴمنین حضرت عائشہ صدیقہ بنت الصدیق رضی اللہ عنہما نے غضبناک ہوکر کہا” أ حروریة انت؟“ کہ تو حروریہ یعنی عقل پرست ہے؟ کہیں حضرت علی نے روافض سے سوالات کیے اور انہیں سزائیں دیں، کہیں حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے خوارج سے مناظرے کیے۔

ہمارے سیاسی قائدین باطل کے باجگذار:

            غرض یہ کہ افکارِ باطلہ کا مقابلہ صحابہ نے جہاں تلوار سے کیا، وہیں زبان و قلم سے بھی کیا ۔ ہمارے اس دور میں اگر چہ حکام ِمسلمین باطل طاقتوں کے باج گزار ہیں اور ان کے اشارے پر ناچتے ہی نہیں مداہنت کے طور پر وہ دو قدم آگے بڑھ کر صحیح الفکر اسلامی تحریکات کو حتی المقدور کچلنے کی ناکام کوششیں کرتے ہیں، بل کہ افکارِ باطلہ کو فروغ دینے میں بھر پور تعاون ہی نہیں پیش رفت کرتے ہیں۔ یہی فرق ہے قرون ِاولیٰ اورقرونِ متاخرہ کے ادوار میں، دفاع کے میدان میں پنجہ آزمانے کا۔

طائفہٴ منصورہ:

             مگر خوش نصیب اور اللہ کی جانب سے اس کے فضل کے حظ وافر کے حاملین افراد،جو کسم پر سی کے اس عالم میں بھی مقدور بھر کوشش میں لگے ہیں اور یہ سلسلہ تو قیامت تک جاری رہے گا۔ ان شاء اللہ!اس لیے کہ فرمان ِرسول ہے : ” لا تزال طائفة من امتی منصورین علی الحق لا یضرہم من خذلہم “ کہ میری امت کی ایک جماعت قیامت تک دفاعِ اسلام کے اہم فریضہ کو انجام دیتی رہے گی اور انہیں کوئی نقصان بھی نہیں پہنچاسکے گا۔

            ”جس فانوس کی حفاظت خود ہوا بن کر خدا کرے ، اسے کون بجھا سکتا ہے؟“

            اللہ سے ہم دست بہ دعا ہیں کہ اللہ ہمیں اسی طائفہٴ منصورہ سے تا حین ِحیات وابستہ رکھے اور اپنے فضلِ خاص سے اپنے دین کے دفاع اور اس کی سربلندی کے لیے اخلاص کے ساتھ قبول فرمائے ۔ آمین یارب العالمین!

قرونِ متاخرہ میں اسلام کو مٹانے کی سازشیں:

            جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ اہلِ باطل نے قرونِ اولیٰ میں اسلام کو مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی، اس آخری دور میں بھی ان ظالموں اور ملعونوں نے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا، کبھی تیمور لنگ روافض کو ، تو کبھی تاتاریوں کو، کبھی قرامطہ کو ،تو کبھی فاطمیین کو اس ناپاک کام کے لیے استعمال کیا۔ کبھی صلیبیوں نے صلیبی مقدس جنگوں کے ذریعے مسلمان اور اسلام پر غالب اور حاوی ہونے کی کوشش کی، مگر جب دیکھا کہ طاقت سے اسے زیر نہیں کیا جاسکتا ۔ اس لیے کہ کبھی خالد بن ولید سینہ تان کر سامنے آتے ہیں ، کبھی نور الدین زندگی ، کبھی اسد الدین شیر کووا ، تو کبھی صلاح الدین ایوبی ، کبھی سیف الدین قطز تو کبھی محمد الفاتح کی صورت میں شیر ِخدا نمودار ہوکر انہیں زیر کردیتے ہیں۔

مسلمانوں کو اسلام سے دور کرنے کی کوششیں:

             لہٰذا ان مکاروں نے اس کا پائیدار حل تلاش کیا کہ مسلمانوں کو اسلام سے دور کردینا ہی اہم ہتھیار ہے، لہٰذا مسلمانوں سے سائنسی میدان میں کسب ِفیض کر کے پہلے سائنسی علم اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنے آپ کو مضبوط کیا اور پھر تجارتی منڈی کے نام پر عالمِ اسلام کا رخ کیا؛ جب کہ مقصد مسلمانوں کو کمزور کرنا تھا۔

             پہلے مرحلہ میں مسلمان حکام کو عیاشی میں مبتلا کیا ۔

             دوسرے مرحلے میں انہیں آپس میں لڑوایا۔

             تیسرے مرحلے میں اس کے نتیجے میں آنے والی کمزوری سے فائدہ اٹھاکر حکمرانوں کو اپنا تابع بنایا اور غداروں کو کھڑا کرکے غیور حکمرانوں کا خاتمہ کیا۔

             آہستہ آہستہ اپنا تسلط بڑھا یا اور پھر جب خود مضبوط ہوگئے، تو مقابلہ کرنے والے مسلمان حکمرانوں کو بے دخل کیا اور عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑے ۔

             انہیں ایک جانب ظلم کی چکی میں پیسنا شروع کیا۔

             دوسری جانب کلرک بنانے والا نظامِ تعلیم مرتب کیا۔

جدت پسند طبقہ:

             تیسری جانب سرسید ، جمال الدین افغانی جیسے نیم ملاوٴں کو یورپ اور انگلستان کی سیر کروائی اور اپنے پوش علاقے دکھائے، جس سے وہ ناقص عقلی اورناقص علمی کی وجہ سے متاثر ہوئے اور پھر مرعوب ہوکر اسلامی نام پر اسلام کو نقصان پہنچانے کی بھر پور سعی کی۔ اس طرح مسلمانوں پر چو طرفہ حملے کیے، انہیں ہر طرف سے گھیر لیا، روشن خیال اور مادہ پرست طبقہ کو چن چن کر اسکالر شب کے نام پر یورپ کی یونیور سٹیوں میں بھیجا، جہاں ان کی برین واشنگ کی اورماڈرن اسلام دے کر انہیں مسلمان ممالک کی طرف پر جوش اوربے شرم داعی بناکر بھیجا۔

             اخبارات اور مجلات وغیرہ میں ان کی تحریروں کو خوب عام کیا، فلموں کے ذریعے اسے ترویج دی، بس پھر کیاتھا، مسلمانوں میں بڑا طبقہ اسلام سے دور ہوگیا۔ اس کافائدہ اٹھاکر باطل فرقوں کو کھڑا کیا، قادیانی ،بہائی، گوہر شاہی ،شکیلیت ، دین ابراہیمی کے نام پر نیا فتنہ کھڑا کیا اور دین سے دوری کی وجہ سے مسلمان ان سے وابستہ ہوکر تقسیم در تقسیم کا شکار ہوگئے۔

قومیت اور وطنیت کا بت:

            اب یورپی اقوام اگرچہ مسلمان خطے سے جاچکی ہے،مگر اپنے لیے زمین ہموار کرکے گئی ہے۔ قومیت، وطنیت کے بورڈ گاڑ گئی ہے ، بس پھرکیا تھا کہ مسلمان اسلام کے بجائے قومیت اور وطنیت کے بھینٹ چڑھ گیا، وہ اسی پرنازاں ہے اور آپس میں لڑنے جھگڑنے پر آمادہ ہے ، وہ ابھی بھی غفلت کی نیند سورہا ہے اور دشمن چوکنا ہے ، مسلمان تمام تر وسائل کے باوجود پستی کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے ، دشمن وقت کے ساتھ مقابلہ کا طریقہ بھی بدلتا جارہا ہے، جس کا اندازہ مندرجہ ذیل تفصیلات سے ہوسکتا ہے۔

اسلام کے خلاف بے تحاشہ وسائل کا استعمال:

            شیخ عبد الرحمن السمیط الکویتی کے مطابق امریکہ میں قائم عیسائی مشنری کے لیے کام کرنے والی مختلف تنظیموں اوراین جی اوز کے تحت ۵۱/ ملین سے زائد مبلغین دنیا بھر میں گھوم گھوم کر عیسائیت کو فروغ دینے اورمسلمان کو عیسائی بنانے کے لیے سرگرم ہیں۔

             ۳/ لاکھ ۶۵/ ہزار کارکن ان مبلغین کا جائزہ لینے کے لیے ہمہ وقت آن لائن رہتے ہیں۔

            کتابیں اور دیگر لٹریچر وسامان ان تک پہنچانے کے لیے ہر گھنٹہ میں ۴/ منٹ کے حساب سے ۳۶۰/ سے زائد طیارے پرواز بھرتے ہیں۔

             ۴۰۵۰/ کلیسا اور ریڈیو چینلز ہیں، جو دن رات عیسائیت کے پرچار میں سرگرم ہیں۔

             سالانہ ۳۰۰/ ارب ڈالرز چرچ اور کلیسا جمع کرکے عیسائی مشنریز کو دیتے ہیں۔

            یہ صرف امریکہ کی بات ہے، باقی دنیا میں باطل نظریات پھیلانے کے لیے جو محنت ہورہی اورسرمایہ خرچ ہورہا ہے، وہ اس کے علاوہ ہے، ان کی محنت اور ہدف زیادہ تر افریقہ کے غریب قبائل ہیں۔ اس کے برعکس ہم مسلمان اس میدان میں انتہائی سستی اورغفلت کا شکار ہیں۔

             شیخ نے اپنی زندگی کا ایک انتہائی حسین واقعہ ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ”افریقہ میں ایک قبیلہ آباد ہے، ایک قبیلے میں انتہائی درجہ کی غربت اور فقرو فاقہ ہے، اس قبیلہ پر عیسائی مشنریز نے۴۰/ برسوں تک کام کیا، اس کی خدمت کی اور ۴/ ملین ڈالر سے زائد خطیر رقم خرچ کی۔ لیکن جب ہم وہاں گئے اور ہم نے انہیں دعوت دی اور اپنی استطاعت کے مطابق رفاہی کام کیا، تو اس قبیلہ کے ۹۸/ فیصد لوگوں نے ہم سے متاثر ہوکر اسلام قبول کرلیا۔

(بشکریہ مولانا ضیاء الدین چترالی)

            مذکورہ تفصیل تقریباً ۲۰/ یا ۲۵/ سال قبل کی ہے، جس سے ہم اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اسلام کو ختم کرنے اور باطل مذہب (نصرانیت) کو فروغ دینے کے لیے کیسے کیسے وسائل ،کتنی بڑی تعداد میں استعمال کیے جارہے ہیں۔

            مگر الحمدللہ! اسلام ایک بار پھر پوری طاقت وقوت کے ساتھ ابھر رہاہے اور جس ”افریقہ“ پر اربوں، کھربوں کی رقم صرف کی، اب وہ ”افریقا“ اسلام میں دوبارہ داخل ہونے لگا ہے۔

            عرب حکمراں کیسے بھی ہوں، مگر کویت کی عوام نے ”شیخ سمیط“ کا بھر پور تعاون کیا اور ماشاء اللہ ملینو ں افراد اسلام میں لوٹ آئے، اگر چہ ان کو استقامت سے اسلام پر رکھنے کے لیے مزید منظم محنت کی سخت ضرورت ہے۔

اکیسویں صدی کی نئی چالیں:

            ابھی کچھ دنوں قبل ایک عربی مضمون نظر سے گذرا”الموٴامرة أو الاستھداف الاستراتیجی“یعنی ”محض سازش یا اسلام کو ہدف بنانے کا منظم پلان“۔

            استراتیجک،پلاننگ کے اس دور میں اسلام کے خلاف اندر کے افراد کے ذریعہ اسلام کو کھوکھلا کرنے کی کوشش جاری ہے اور ”گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے“والے محاورہ کو سامنے رکھ کر ایک طرح کا کام کیا جارہاہے۔مضمون نگار کی تحقیق کے مطابق،۱۱/ستمبر سے قبل تیزی سے پھیل رہے اسلام کا رعب یورپی اقوام پرچھاگیا اور انہیں ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ اسلام ایک بار پھر غلبہ حاصل کرنے جارہاہے اور مشکل سے اگلے ۵۰/سال سے بھی کم عرصے میں اسلام قیادت کی کرسی پر براجمان(تخت نشیں) ہوجائے گا،لہٰذا جلد از جلد کچھ کرنا ہوگا۔

            یورپی، دنیا پر اپنے تسلط کو برقرار رکھنے کے لیے دسیوں سال سے امریکہ میں(R A N D) کورپریشن کام کررہاہے، اس نے یہ حربہ استعمال کیا کہ عالمِ اسلام کے قلب ہی میں مسلمان منافقوں کو پرموٹ(Promote) کرنے کے لیے اپنی نگرانی میں مختلف ادارے قائم کرنے شروع کردیے ہیں،مثلاًقاہرہ میں”مرکز ابن خلدون“ کو قائم کیا، جس کا ذمہ دار امریکن یونیورسٹی کے علومِ سیاست یعنی پولیٹکس کے پروفیسر سعدالدین ابراہیم کو بنایا۔

            اب موصوف علیہ ما علیہ نے اسلام کے خلاف محاذ کھڑا کرنا شروع کیااور”الاسلام والاصلاح“ کے عنوان سے مشرقِ وسطیٰ”ریسرچ سینٹر“کے تعاون سے کانفرس کا انعقادکیا اور معاونین میں”جمہوریت اور اسلامک اسٹڈیز“ اسی طرح منبر ”الحوار الاسلامی“ بھی شامل رہا اور اس کانفرس کی قرار دادیں مندرجہٴ ذیل ہیں:

            (۱)…سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے استغنا برتاجائے یعنی احادیث کا انکار کیا جائے۔

            (۲)… قرآن کریم کی نئی تفسیر تیار کی جائے۔

            اس کے بعد اعلان کیا گیا کہ جو لوگ ان خدمات کو انجام دیں گے، انہیں ایوارڈ اور خطیر رقم پر مشتمل انعامات سے نوازاجائے گا۔ اور کچھ ہی عرصہ بعد اس کار ِخبیث میں نمایا خدمات انجام دینے والوں کو بڑے بڑے ایوارڈ اور انعامات سے نوازا بھی گیا۔مثلاً مشہور عرب مقالہ نگار یوسف زیدان کو متعدد ایوارڈ اور انعامات سے مالامال کیاگیا۔ اس نے”القدس ومکانتھا فی الاسلام“ میں مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس پر مسلمانوں کے حق کے بارے میں شکوک وشبہات پیداکیے اور واقعہٴ اسرا ومعراج کے بارے میں شبہات گھڑلیے۔

            اسی طرح محمدشحرور کو بھی نوازا گیا،کیوں کہ اس نے اپنی ”تجدید الخطاب الدینی“نامی کتاب میں بہت ساری محرمات یعنی حرام چیزوں کو حلال قرار دیا اور ضروری کو غیر ضروری قراردے دیا، مثلاً: حجاب سے انکار وغیرہ۔

            جس طرح عالمِ عرب میں ان کے ادارے ہیں اوروہ اصلاح کے نام سے اسلام پر ہی حملہ آور ہوتے ہیں، ایسے ہی افریقہ، برصغیر، یورپ اور دیگرخطوں میں بھی ان کے ایجنٹ پائے جاتے ہیں، جو اصلاح کے نام پر مسلمانوں میں مغرب کا پسندیدہ اسلام رائج کرنے کی مکمل کوشش کرتے ہیں۔مثلاً: ترکی میں ”غول تحریک“،برصغیر میں ”راشد(ضال)شاذ، جاوید غامدی“؛یہ منافقین کا ٹولہ مفاد پرستی کے خاطر اسلام ہی کو نقصان پہنچارہاہے۔ ان کا حملہ بڑا ماکرانہ ہوتاہے،آسانی سے آدمی سمجھ نہیں سکتا، جیسے ان کے آقاوٴں کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں پر چو طرفہ حملہ ہوتاہے، بالکل اسی طرح ان کے ان غلاموں کی جانب سے بھی چوطرفہ حملہ ہوتاہے، ان میں سے کوئی انکار ِحدیث پر زور دیتاہے، کوئی فقہ پر حملہ کرتاہے، کوئی اسلامی اختلاف کو نشانہ بناتاہے، تو کوئی مغربی نظریات کی افادیت اور صحت ؛بل کہ ضر ورت کو ثابت کرنے پر تلا ہوتاہے۔ کوئی قرآنیات پر اورکوئی اسلامی نظام ِمعیشت وسیاست پر؛ غرض یہ کہ اپنے آقاوٴں کے اشارہ پر سب کچھ کرنے کے لیے وہ تیار ہوتے ہیں،کچھ لوگوں کا کام صرف علمائے حق کو ٹارگیٹ بنانا ہوتاہے؛ تاکہ امت ان پر اعتماد اور بھروسہ نہ کرے۔

ضروریات دین پرحملہ:

            ایک صاحب نے لکھا کہ اب توبڑی چابک دستی سے ایک گروہ سیدھا سیدھا ضروریات ِدین اور اسلامی عقائد پر حملہ آور ہے،اسی لیے ایک زمانہ تک ابراہیم عیسیٰ، یوسف زیدان،ایناس الدغیدی،نوال السعداوی ”طٰہٰ حسین، احمدامین اور سرسید“ وغیرہ کی تحریروں کو عام کرتے تھے،مگر اب مسلمان ان کے مکر سے واقف ہوگئے ہیں ا ور اب ان کا طریقہ غیر موٴثر ہورہاہے،لہٰذا دوسری کھیپ میدان میں اتر چکی ہے، جو بظاہر تدین کی حامل ہے اور ایک بڑا طبقہ ان کو اسلام کا داعی تصور کرتاہے،مثلا:عدنان ابراہیم،اسلام البحیری،جمال البنا وغیرہ ۔ بڑی چالاکی سے یہ لوگ وہی انکار ِسنت یاکم از کم سنت کے بارے میں تشکیک کا ماحول بناتے ہیں،اسی طرح قرآنِ کریم کی سائنسی تفسیرکرتے ہیں،جوسراسر اصول ِصحیحہ کے خلاف ہوتی ہے۔

            متون حدیث پر جدید ذہن کے اشکالات ایک تحقیقی مطالعہ کے متون نے آخری دور کے منکرین حدیث کے نام گنوائیں ہیں وہ یہ ہیں:

بر صغیر کے آخری دور کے منکرین حدیث کے ناموں کی فہرست:

            مغرب اور عالم اسلام میں فکری کشمکش کے اس دور میں جدیدیت پسند اور مغربی فکر و فلسفہ سے ذہنی مرعوبیت کا شکار بعض نام نہاد مسلمان اہلِ علم نے مغربی اصولوں کی روشنی میں اسلام کی” تشکیلِ جدید“ کا بیڑا اٹھایا۔ برصغیر میں فتنہٴ انکارِ سنت کی تحریک کو سرسید احمد خان (م ۔۱۸۹۸ء) نے بنیادیں فراہم کیں۔ سرسید کے رفیقِ کار مولوی چراغ علی (م۔۱۸۹۵ء)، فرقہٴ اہلِ قرآن کے بانی مولوی عبد اللہ چکڑالوی (م۔۱۹۱۴ء)، خواجہ احمد الدین امرتسری (م۔۱۹۳۶ء) مستری محمد رمضان گوجرانوالہ (م۔۱۹۳۹ء)، حافظ محمد اسلم جیراج پوری (م۔ ۱۹۵۵ء)، علامہ عنایت اللہ المشرقی (م۔۱۹۶۴ء)، نیاز فتح پوری (م۔ ۱۹۶۶ء)، علامہ تمنا عمادی (م۔۱۹۷۲ء)، ڈاکٹر غلام جیلانی برق (م ۱۹۸۵ء)، علامہ غلام احمد پرویز (م۔ ۱۹۸۵ء)، ڈاکٹر فضل الرحمن (م۔ ۱۹۸۸ء)، مولانا جعفر شاہ پھلواروی (م۔۱۹۸۸ء)، علامہ حبیب الرحمن کاندھلوی (م۔۱۹۹۱ء)، مولا نا عمر احمد عثمانی (م۔۱۹۹۶ء)، محبوب شاہ گوجرانوالہ، مولوی محبت الحق عظیم آبادی، قمر الدین قمر، حشمت علی لاہوری، خدا بخش، سید عمر شاہ گجراتی، سید رفیع الدین ملتانی اور سید مقبول احمد وغیرہ نے بھی حدیث وسنت کی تشریعی حیثیت کے بارے میں اپنے تحفظات کا کھل کر اظہار کیا۔ علامہ حمید الدین فراہی (م۔ ۱۹۳۰ء) کی فکر سے وابستہ اہلِ علم نے بھی حدیث کی اہمیت اور ذخیرہٴ حدیث سے استفادہ وداستدلال کے ضمن میں ایسا موقف اختیار کیا ہے، جسے بعض پہلووٴں سے منکرین حدیث اپنی تائید میں پیش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ متصلب الفکر علما نے فراہی مکتبہٴ فکر کو استخفاف ِحدیث کے لقب سے ملقب کیا ہے۔ عالم عرب بالخصوص مصر میں بھی کئی ایسے مفکرین پیدا ہوئے جنہوں نے حدیث وسنت کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان میں ڈاکٹر احمد امین مصری (م۔۱۹۵۴ء) محمود ابوریہ اور جامعہ ازہر کے استاذ شیخ محمد شلتوت خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

            عہدِ جدید کا فتنہٴ انکار سنت اس کے سوا کچھ نہیں کہ روشن خیالی اور جدیدیت کے نام پر اسلام کا ایک ایسا ایڈیشن تیار کیا جائے، جو مغرب کی نظر میں مسلمانوں کو باوقار بنا سکے۔ مغرب کی فکری اور تہذیبی یلغار کے سامنے خود سپردگی اور ذہنی مرعوبیت کا شکار ہونے والے اصحاب علم ” معروضی حالات کے تقاضوں“ کی آڑ میں فتنہٴ انکار سنت کے سب سے بڑے مبلغ اور موٴید ہیں۔ دورِ حاضر کے منکرینِ حدیث اور اہلِ تجدد کے افکار کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں پر مستشرقین (Orientalists) کے شدید فکری اثرات ہیں اور ان کے زیادہ تر اعتراضات کا سر چشمہ مستشرقین ہی کی کتابیں ہیں، اس لیے یہ کہنا درست معلوم ہوتا ہے کہ دور ِحاضر میں فتنہٴ انکارِ سنت علم وفہم کے بجائے ،جہل و عناد اور مغربی فکر و فلسفہ سے مکمل مرعوبیت کا نتیجہ ہے۔

             عالمِ اسلام کے سیاسی زوال کے بعد جب مغرب کی علمی فکری اور ثقافتی یلغار سے ہندوستان سمیت پورا عالم اسلام تہذیبی اور فکری ارتداد کا شکار ہونے لگا تو جلد ہی مسلمان اہل علم نے اس طرف توجہ کی اور مستشرقین کی علمی بددیانتی کو دلائل کے ساتھ بے نقاب کیا۔ حدیث کے بارے گولڈ زیہر کی تھیوری پر، جسے شاخت اور دیگر مستشرقین نے زیادہ منظم انداز میں پیش کیا ہے، کئی اہلِ علم نے تنقید کی اور گولڈ زیہر اور دیگر مستشرقین کی فاش غلطیوں کو واضح کیا۔ محققین نے اردو،عربی اور انگریزی زبانوں میں کئی شاندار کتا بیں تصنیف کیں۔

             گولڈ زیہر (Goldziher) کے عرب متاثرین کے مقابلے میں ڈاکٹر مصطفی السباعی کی کتاب”السنة ومکانتہا فی التشریع الاسلامی“ ایک علمی حجت ہے۔ ڈاکٹر مصطفی اعظمی نے اپنے پی۔ ایچ۔ ڈی۔ کے مقالے ”Studies in Early Hadith Literature” میں گولڈ زیہر اور شاخت کے نظریات کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ مقالہ انگریزی کے علاوہ عربی زبان میں بھی ”دراسات فی الحدیث النبوی و تاریخ تدوینہ“ کے نام سے دو جلدوں میں شائع ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر اعظمی نے اپنی ایک مستقل کتاب

 "On Schachts Origins of Muhammadan Jurisprudence”

میں جوزف شاخت Joseph Schacht)) کی کتاب

 ”The origins of Muhammadan Jurisprudence”

کاتنقیدی جائزہ لیا ہے۔ ڈاکٹر محمد زبیر صدیقی نے بھی اپنی کتاب

Hadith Literature. its Origin, Development, Special Features and

Criticism میں شناخت کے مغالطات کو بے نقاب کیا ہے۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر فواد سیزگین

(F. Seizgin) نے بھی شاخت کے نظریات پر تنقید کی ہے۔ ہندوستانی اسکالر جناب ضیاء الحسن فاروقی نے ہملٹن سب پر کام کیا ہے۔ ان کی کتاب کا نام ”Orientalism, Islam and Islamists” ہے۔ پیرمحمد کرم شاہ الازہری (م۔۱۹۹۸ء) نے ”ضیاء النبی“ کے نام سے سیرت پر سات جلدوں میں کتاب تصنیف فرمائی اور اس کی آخری دو جلدوں میں مستشرقین کے اعتراضات کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری، ڈاکٹر محمد اکرم چوہدری، ڈاکٹر حافظ محمود اختر، ڈاکٹر محمد اکرم رانا، فیروز الدین شاہ کھگہ اور بعض دیگر اہل علم نے بھی مستشرقین کے حدیث مخالف نظریات کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔

            منکرین حدیث، مستشرقین اور اہل تجدد کے رد میں عالم اسلام، خاص طور پر مصر اور بر صغیر کے علما نے کئی یاد گار کتابیں تصنیف کیں اور حدیث وسنت کی ضرورت واہمیت اور حجیت پر دلائل کے انبار لگا دیے۔ حجیت حدیث پر ان عظیم الشان کتب کے صرف نام ذکر کرنے کے لیے کئی صفحات درکار ہوں گے۔ اس کی بعض تفصیلات ماہنامہ ”محدث“ لاہور کی خصوصی اشاعت ”فتنہٴ انکار حدیث نمبر“ (اگست ستمبر ۲۰۰۲ء ،۳۴/۹۸) میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ تاہم ان کتابوں کے تعارف اور علمی قدرو قیمت کی مکمل تفصیلات ڈاکٹرمحمد عبد اللہ عابد نے اپنے پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالہ” حجیتِ حدیث پر برصغیر کے ادب کا تنقیدی جائزہ“ میں بڑی عمدگی سے بیان کی ہیں۔ یہ مقالہ ۱۹۹۴ء میں پنجاب یونیورسٹی سے شعبہٴ عربی کے صدر ڈاکٹر ظہور احمد اظہر صاحب کی زیر نگرانی تحریر کیا گیا ہے۔

            مذکورہ تفصیلات سے معلوم ہوا کہ دشمنان ِاسلام ِدینِ متین اپنا سب کچھ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جھونکے رہتے ہیں۔ بعض مفاد پرست مسلمان ،بعض نا سمجھ اوربعض کم فہم ، کم علم درمند مسلمان، بعض کبر وعجب میں مبتلا ہوکر دشمنوں کے آلہٴ کار بن کر اسلام اور مسلمانوں کونقصان پہنچانے کی فکر اور کوشش کرتے ہیں۔ ایسوں سے چوکنا رہنا از حد ضروری ہے، ورنہ انسان کسی بھی فتنہ کا کبھی بھی شکار ہوسکتا ہے۔

فتنوں سے بچاوٴ کیسے ؟!!

            اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فتنوں کی بارش ہے، ایسے میں اس سے کیسے بچا جائے ؟ تو اس کے لیے مندرجہٴ ذیل چند تدابیر بیان کی جاتی ہے۔ اللہ کرے ہم اسے اختیار کرکے اپنے آپ کو بچانے میں اللہ کے فضل سے کام یابی حاصل کرسکیں۔

(۱)-:انشراح صدر:اسلام کے بارے میں بالکل منشرح ہونا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰہُ صَدْرَہُ لِلْاِسْلَامِ فَہُوَ عَلیٰ نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّہ ﴾ کہ اللہ جس کے سینے کو منشرح کردے، وہ اللہ کی جانب سے علم و عمل سے متصف ہوجاتا ہے، پھر ضلالت اسے نہیں چھوتی، بل کہ وہ اس سے بچنے میں کام یاب ہوجاتا ہے۔

            عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: تَلَا رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم﴿فَمَنْ یُرِدِ اللہُ أَنْ یَہْدِیَہُ یَشْرَحْ صَدْرَہُ لِلِإِسْلَام﴾ِ فَقَالَ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: إِنَّ النُّوْرَاذَا دَخَلَ الصَّدْرَ انْفَسَحَ فَقِیلَ یَا رَسُوْلَ اللَّہِ! ہَلْ تِلْکَ مِنْ عَلَمٍ یُعْرَفُ بِہِ قَالَ: نَعَمْ!التَّجَافِیْ مِنْ دَارِ الْغُرُورِ وَ الْإِنَابَةُ إِلی دَارِ الْخَلُوْدِ وَالاسْتِعْدَادُ لِلْمَوْتِ قَبْلَ نُزُولِہِ (للبیہقی)

ترجمہ: حضرت عبداللہ ابن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ﴿فمن یُرِدِ اللہُ أَنْ یَہْدِیَہُ یَشْرَحْ صَدرہ لِلْإِسلام﴾۔جس کا ترجمہ ہے اللہ تعالیٰ جس شخص کو ہدایت سے نوازتا ہے تو اس کا سینہ ہدایت کے لیے کشادہ کر دیتا ہے۔

            پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب نور ِہدایت سینہ میں داخل ہوتا ہے، تو وسیع اور کشادہ ہو جاتا ہے، صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا اس حالت اور کیفیت کی کوئی علامت و نشانی ہے، جس کو دیکھ کر پہچانا جاسکے کہ اس کا سینہ نورِ ہدایت سے منور ہے؟

            حضور ِپاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ضرور ہے، اس کی نشانی یہ ہے کہ دار الغرور (یعنی دنیا) سے دور ہونا، آخرت کی طرف رجوع کرنا جو ہمیشہ ہمیش باقی رہنے والا جہاں ہے، اور مرنے سے پہلے مرنے کی تیاری کرنا ہے۔

تشریح: حدیث پاک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن ِپاک کی آیت شریفہ کے حوالہ سے ایک بیش بہا نعمت ِخداوندی کا ذکر فرمایا: ”وہ شرح ِصدر“ ہے۔ ”شرح ِصدر“ کا مطلب ہے کہ سینہ کھول دینا،قرآن وحدیث میں جب یہ لفظ استعمال ہوتا ہے، تو اس کا مطلب ہوتا ہے سینہ کو حق بات کی قبولیت کے لیے کھول دینا؟ اسی بات کو حدیث ِپاک میں اس طرح تعبیر کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ مومن کے دل میں ایک روشنی ڈال دیتا ہے، جس سے اُس کا دل حق بات کو دیکھنے، سمجھنے اور قبول کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے، اور خلاف ِحق باتوں سے اُس کا دل نفرت اور وحشت کرنے لگتا ہے، جس کا ذکر اگلی آیت میں ہے﴿وَمَنْ یُرِدْ أَنْ یُضِلَّہُ یَجْعَلْ صَدْرَہُ ضَیّقًا حَرَجًا کَانَمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَاءِ﴾ یعنی جس شخص کو اللہ گمراہی میں رکھنا چاہتے ہیں، اس کے سینے کو تنگ اور اتنا زیادہ تنگ کر دیتا ہے کہ (اسے ایمان لانا ایسا مشکل معلوم ہوتا ہے) جیسے اسے زبر دستی آسمان پر چڑھنا پڑ رہا ہو۔

             دل تنگ ہونے کا یہ مطلب ہے کہ اس میں حق اور بھلائی کے لیے کوئی راستہ نہیں رہتا، یہ مضمون حضرت فاروق اعظم سے بھی مروی ہے۔ اور حضرت عبد اللہ ابن عباس نے فرمایا کہ: جب وہ اللہ کا ذکر سنتا ہے تو اس کو وحشت ہونے لگتی ہے، اور جب کفر و شرک کی باتیں سنتا ہے تو ان میں دل لگتا ہے، صحابہ کرام کو دین میں ”شرحِ صدر“ حاصل تھا؛ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام جن کو حق تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور بلا واسطہ شاگردی کے لئے منتخب فرمایا تھا، اُن کو اسلامی احکام میں شبہات اور وساوس کم سے کم پیش آئے۔ ساری عمر میں صحابہ کرام نے جو سوالات رسول ِکریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیے وہ گنے چنے ہیں اور وجہ یہ تھی کہ رسول ِکریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض ِصحبت سے اللہ تعالیٰ کی عظمت و محبت کا گہر انقش ان کے دلوں میں بیٹھ گیا تھا، جس کے سبب ان کو ”شرحِ صدر“ کا مقام حاصل تھا، ان کے قلوب خود بہ خود حق و باطل کا معیار بن گئے تھے۔ حق کوآسانی کے ساتھ فوراً قبول کر لیتے اور باطل ان کے دلوں میں راہ نہ پاتا تھا۔

             پھر جوں جوں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد ِمبارک سے دوری ہوتی چلی گئی، شکوک و شبہات نے راہ پانی شروع کی،عقائد کے اختلافات پیدا ہونے شروع ہو گئے، اور آج پوری دنیا شکوک و شبہات کے گھیرے میں پھنسی ہوئی ہے، اور بحث و مباحثہ کی راہ سے اس کو حل کرنا چاہتی ہے، جو اس کا صحیح راستہ نہیں۔

             راستہ وہی ہے جو صحابہٴ کرام اور اسلاف امت نے اختیار کیا کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ِکاملہ اور ان کے انعام کا استحضار کر کے اس کی عظمت و محبت دلوں میں پیدا کی جائے، تو شبہات خود بخود کافور ہو جاتے ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ خود قرآن ِکریم میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعا مانگنے کی تلقین فرمائی گئی کہ ”رب اشرح لی صدری“ یعنی اے میرے پروردگار میرا سینہ کھول دیجئے۔ (معارف القرآن)

            معلوم ہوا کہ ”شرح صدر“ کا نصیب ہو جانا خداوند تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے، جس سے ایک مسلمان حق کے راستہ پر قائم اور باطل سے محفوظ رہتا ہے اور ساتھ ساتھ شکوک وشبہات کے زہر سے بچارہتا ہے، آج کا دور ہی شکوک و شبہات کا دور ہے، چوطرف سے دین ِاسلام کے احکامات و عقائد پر بے بنیا د و بے سند اعتراضات وسوالات کر کے امت ِمسلمہ کو راہِ حق سے برگشتہ اور گمراہ کرنے کی پیہم کوششیں ہورہی ہیں، اور سوشل میڈیا ان کے اس منصوبہ کی تکمیل کے لیے ایک موٴثر ذریعہ اور طاقتور ہتھیار ثابت ہو رہا ہے۔ ایسے نازک اور پرخطر حالات میں ایمان و اسلام کے لٹیروں اور مکاروں سے حفاظت اور عقائد ِحق پر استقامت و استحکام کے لیے ہر مسلمان پر ضروری ہے کہ اہل حق کی صحبت و معیت کو لازم سمجھے۔ گمراہوں کی گمراہی اور فتین کے فتنوں سے محفوظ رہنے کے لئے اُن کے ساتھ مجالست و اختلاط سے دور رہے تو ان شاء اللہ ”شرح صدر“ کی دولت عظمیٰ نصیب ہونے کے بنا پر ایمان واسلام پر استقامت حاصل ہوگی۔

            حدیثِ مذکور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”شرح صدر“ کی تین علامات بیان فرمائی ہیں:

            ا) دار الغرور سے دور رہنا: یعنی دنیا (جو کہ دھو کہ کا سامان ہے) سے ضرورت کے بقدر تعلق رہے، دنیا اور اسبابِ دنیا میں اتنا منہمک نہ ہو جائے کہ موت و آخرت مد نظر ہی نہ رہے۔

            (۲) دار الخلود کی طرف متوجہ رہنا: یعنی آخرت (جو دراصل ہمیشہ باقی رہنے والا جہاں ہے) کا استحضار ہمہ وقت رہے، اس کی فکر سے کبھی غافل نہ رہے۔

            ۳) مرنے سے پہلے مرنے کی تیاری: موت (جو کہ ایک اٹل حقیقت ہے) سے پہلے مابعد موت کے مراحل میں سکون وراحت پانے کے لیے زندگی ہی میں ایمان پر استقامت، اعمالِ صالحہ پر استدامت اور رضائے الہٰی کے حصول کے لئے ہر وقت فکر مند رہنا۔ اگر یہ تینوں باتیں حاصل ہیں تو ”شرح صدر“ کی دولت سے مالا مال ہے۔

(۲)-:ایمان میں کمال کی فکر کرنا:

             موت کاوقت طے ہے اور جہاں موت آنی ہے، اسی وقت اور اسی جگہ موت آئے گی۔ تم اپنے گھروں میں بیٹھے رہو تب بھی موت تمھیں باہر کھینچ لائے گی۔ دراصل اس واقعہ میں تمہارا امتحان ہے:

            ﴿وَلِیَبْتَلِیَ اللّٰہُ مَا فِیْ صُدُوْرِکُمْ وَلِیُمَحصَ مَا فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْر

(آل عمران:۴۵۱)

            ”یہ اس لیے ہوا) تاکہ تمہارے دلوں میں جو کچھ ہے اللہ اس کی آزمائش کرے اور جو کچھ تمہارے سینوں میں کھوٹ ہے اسے باہر نکال دے اور اللہ دلوں کا حال جانتا ہے۔“

            نازک مواقع پر اللہ تعالیٰ اہلِ ایمان کو سکونِ قلب سے نوازتا اور ان کے ایمان و یقین میں اضافہ فرماتا ہے۔ صلحِ حدیبیہ کو قرآن نے ’فتحِ مبین‘ قرار دیا ہے، اس لیے کہ اس کے بعد دین کی کامیابی کی راہیں کھل گئیں۔ یہ صلح جن حالات میں ہوئی، اس پر بعض اہلِ ایمان کو بھی تردد تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے جلد ہی انھیں سکون اور اطمینان عطا فرمایا کہ یہ صلح اللہ کے دین کے حق میں مفید ہے:

            ﴿ہُوَ الَّذِیْ اَنْزَلَ السَّکِیْنَةَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ لِیَزْدَادُوْا إِیْمَاناً مَّعَ إِیْمَانِہِمْ وَلِلّٰہِ جُنُوْدُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْماً حَکِیْماًo﴾

(الفتح:۴)

            ”وہی ذات ہے، جس نے سکون نازل فرمایا اہلِ ایمان کے قلوب میں، تاکہ ان کے اندر جو ایمان ہے اس میں مزید اضافہ ہوجائے۔ اور اللہ ہی کے لیے ہیں آسمانوں اور زمین کے لشکر۔ اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔“

(۳)-:دل پر محنت کرے:

            گمراہی سے بچنے کے لیے دل پر محنت اور اس کی نگرانی ضروری ہے:دل غلط اور صحیح افکار وجذبات کی آماج گاہ ہے، اس سے انسان کی حیاتِ جسمانی ہی نہیں حیاتِ روحانی بھی وابستہ ہے۔ قرآنِ مجید دل کا اسی رخ سے ذکر کرتا ہے۔ اس نے اس رویےّ پر تنقید کی ہے کہ آدمی دل سے صحیح کام نہ لے اور اندھا بہرا بن کر غلط راستے پر چل پڑے۔ خدا کے منکرین و مشرکین یہی رویہ اختیار کرتے ہیں۔ غفلت کی یہ زندگی جانوروں سے بدتر زندگی ہے اور آخرت کو تباہ کرنے والی ہے:﴿وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیْراً مِّنَ الْجِنِّ وَالإِنْسِ لَہُمْ قُلُوْبٌ لاَّ یَفْقَہُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ اَعْیُنٌ لاَّ یُبْصِرُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ آذَانٌ لاَّ یَسْمَعُوْنَ بِہَا اُوْلٰئِکَ کَالاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ اُوْلٰئِکَ ہُمُ الْغَافِلُوْنَ

( الاعراف: ۹۷۱)

            ”جنوں اور انسانوں میں سے بہت سے وہ ہیں، جن کو ہم نے جہنم کے لیے پیدا کیا ہے۔ ان کے دل ہیں، لیکن وہ ان سے نہیں سمجھتے۔ ان کی آنکھیں ہیں، لیکن وہ ان سے نہیں دیکھتے اور ان کے کان ہیں، لیکن ان سے وہ نہیں سنتے۔ یہ چوپایوں کی طرح ہیں، بلکہ ان سے زیادہ بھٹکے ہوئے۔ یہ وہ ہیں جو غفلت میں پڑے ہیں۔“

دل اور انسانی زندگی:

            دل انسان کے فکر وعمل کا رخ متعین کرتا ہے۔ اسی بِنا پر وہ جنت یا جہنم کا مستحق ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ جہنم میں اس وجہ سے جائیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے سوچنے سمجھنے کی جو صلاحیت دی، انھوں نے اس کا صحیح استعمال نہیں کیا۔ اسی لیے فرمایا: ”ہم نے بہت سے جنوں اور انسانوں کو جہنم کے لیے پیدا کیا ہے۔“

            اس کی وجہ یہ بیان کی: لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَہُوْنَ بِہَا۔ (اللہ نے ان کو دل دیے، لیکن اس سے وہ غوروفکر اور سوجھ بوجھ کا کام نہیں لے رہے ہیں)۔ انھوں نے یہ نہیں سوچا کہ ان کو کس نے پیدا کیا؟ اگر اللہ نے پیدا کیا ہے تو وہ ان سے کیا چاہتا ہے؟ انھیں دنیا میں کیسی زندگی گزارنی چاہیے؟ کیا یہ زندگی یوں ہی ختم ہوجائے گی یا اس کے بعد بھی کوئی زندگی ہے؟ جہاں اپنے اعمال کا حساب دینا ہے؟ انھوں نے یہ سوچ کر زندگی گزاردی کہ اس دنیا سے آگے کچھ نہیں ہے ۔ 

بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست

قرآن کہتا ہے: ﴿وَلَہُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِہَا﴾ (وہ آنکھیں رکھتے ہیں، لیکن ان سے دیکھتے نہیں ہیں)۔

            اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی آنکھیں پھوٹ گئی ہیں اور وہ اندھے ہوگئے ہیں، بل کہ وہ نگاہِ حقیقت بیں سے محروم ہیں۔وہ دنیا کو مادّی راحت و آسائش کا ذریعہ تصور کرتے ہیں، اس سے فائدہ اٹھانے، لذت یاب ہونے اور جذبات کو تسکین دینے کی تدبیریں کرتے ہیں، ان کی علم و تحقیق اور تگ و دو اسی کے لیے ہوتی ہے۔ اس کے پیچھے قدرت کی کارفرمائی انھیں نظر نہیں آتی۔ وہ دیکھنے کے باوجود حقیقت میں نہیں دیکھتے۔ ان کے بارے میں کہا گیا:

            ﴿وَکَاَیِّن مِّنْ آیَةٍ فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ یَمُرُّوْنَ عَلَیْْہَا وَہُمْ عَنْہَا مُعْرِضُوْنَ

(یوسف:۵۰۱)

            ”کتنی ہی نشانیاں ہیں آسمانوں اور زمین میں، ان پر ان کا گزر ہوتا رہتا ہے، لیکن وہ ان سے بے رخی کے ساتھ گزرجاتے ہیں۔

            جو لوگ دل و دماغ سے کام نہیں لیتے، دیکھنے میں تو جانوروں سے وہ مختلف نظر آتے ہیں۔ ان کا قد سیدھا ہے، چار پیر کی جگہ دو پیر سے چلتے ہیں، ہاتھوں سے چیزوں کو پکڑتے اور استعمال کرتے ہیں۔ بے زبان نہیں، منہ میں زبان رکھتے ہیں، لیکن ذہن و مزاج اور رویہ کے لحاظ سے جانور ہی ہیں۔ جانور کو زندہ رہنے، کھانے پینے اور جنسی خواہش کی تکمیل اور نسل کَشی سے آگے کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ یہ بھی ان ہی امور کے بارے میں سوچتے ہیں۔ اس کے بعد فرمایا: بل ہم اضل، (بلکہ وہ جانوروں سے بھی بدتر ہیں)۔ اس لیے کہ جانور کوعقل نہیں ہے، لیکن یہ باعقل و باخرد جانور ہیں۔ جانور سے قیامت میں باز پرس نہ ہوگی کہ اس نے کیا دیکھا، کیا نہیں دیکھا، قلب و دماغ سے کام لیا یا نہیں لیا، لیکن انسان کو ان سوالات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس وجہ سے کہا گیا کہ یہ غفلت کی زندگی گزار رہے ہیں۔

            دنیا میں بڑی بڑی زور آور اور طاقت ور قومیں پائی گئیں، جن قوموں نے اللہ کے رسولوں کی مخالفت کی اور ان کی تعلیمات کو ٹھکرا دیا وہ تباہ ہوگئیں۔ ان کی مادّی ترقی اور شان و شوکت انھیں بچا نہ سکی۔ قرآن کہتا ہے: جو لوگ دل و دماغ سے محروم ہیں وہ اللہ کی پکڑ کو گردشِ دوراں یا تاریخ کے لازمی تقاضوں کے طور پر دیکھتے ہیں، اس سے جو نصیحت حاصل کرنا چاہیے نہیں حاصل کرتے:

            ﴿فَکَاَیِّن مِّنْ قَرْیَةٍ اَہْلَکْنَاہَا وَہِیَ ظَالِمَةٌ فَہِیَ خَاوِیَةٌ عَلٰی عُرُوْشِہَا وَبِئْرٍ مُّعَطَّلَةٍ وَقَصْرٍ مَّشِیْدٍo اَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِیْ الْاَرْضِ فَتَکُوْنَ لَہُمْ قُلُوْبٌ یَعْقِلُْونَ بِہَا اَوْ آذَانٌ یَسْمَعُوْنَ بِہَا فَإِنَّہَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِیْ الصُّدُوْرِ

(الحج: ۵۴،۶۴)

            ”کتنی ہی بستیاں ہیں جن کو ہم نے ہلاک کردیا، اس لیے کہ انھوں نے ظلم کا راستہ اختیار کیا۔ یہ اپنی چھتوں کے ساتھ الٹی پڑی ہیں، کنویں بیکار ہیں (کوئی ان کا استعمال کرنے والا نہیں) اور مضبوط قلعے ہیں، جو کھنڈر بن گئے ہیں۔ کیا یہ زمین میں چلے پھرے نہیں کہ ان کے دل ہوتے جس سے وہ سوچتے یا کان ہوتے، جن سے سنتے۔ حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، بل کہ وہ دل اندھے ہوتے ہیں، جو سینوں میں ہیں۔“

کفر و شرک اورطبعِ قلب:

            قرآن مجید نے کفر وشرک کے رویہ اور اس کے اسباب و محرکات پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ سورئہ بقرہ کے شروع میں کہا گیا کہ یہ کتابِ ہدایت ہے، البتہ جن لوگوں نے کفر ہی پر قائم رہنے کا فیصلہ کرلیا ہے، ان کے حق میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے انذار کی سعی و جہد اور کفر کے نتائج سے آگاہ کرنا کارگر نہ ہوگا۔ وہ کسی حال میں ایمان نہیں لائیں گے:

 ﴿خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِہمْ وَعَلٰی سَمْعِہِمْ وَعَلٰی اَبْصَارِہِمْ غِشَاوَةٌ وَلَہُمْ عَذَابٌ عظِیْم﴾

(البقرة:۷)

            ”اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگادی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردے ڈال دیے ہیں، ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔“

            دل پر جب مہر لگ جاتی ہے تو آدمی حق کو سننے اور اسے سمجھنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا اور کائنات میں موجود دلائل پر غور نہیں کرتا۔ اس سے ہدایت و ضلالت کے معاملے میں قلب کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ اس آیت کے ذیل میں علامہ قرطبی نے لکھا ہے:

            ”اس میں تمام اعضاء پر قلب کی برتری کی دلیل ہے…… … قلب غوروفکر کی جگہ اور محل ہے۔“

(قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، جلد۱، جزء ۱، ص ۱۳۱)

طبعِ قلب کا مفہوم:

            قرآن مجید میں ’طبعِ قلب‘ (دل پر مہر لگانے) کا ذکر مختلف مناسبتوں سے آیاہے۔ اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی گئی ہے کہ اس نے دل پر مہرلگادی۔ اس میں اللہ کا قانون بیان ہوا ہے کہ آدمی کفر و شرک پر اصرار کرے، غلط روی سے باز نہ آئے اور اصلاحِ حال کے لیے آمادہ نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے، زبردستی اس کے دل کی دنیا نہیں بدلتا اور اپنی قوتِ قاہرہ سے کھینچ کر اسے سیدھے راستے پر نہیں لگاتا۔

            قرآنِ مجید میں یہ بات اچھی طرح واضح کی گئی ہے کہ دل پر کب مہر لگ جاتی ہے؟ یہود کے متعلق کہا گیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا رسول ماننے کے باوجود وہ انھیں اذیت دینے لگے۔ ان کی اس غلط روش کے نتیجے میں ان کے دل راہِ راست سے پھیر دیے گئے:

            ﴿فَلَمَّا زَاغُوْا اَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوْبِہِمْ وَاللّٰہُ لَا یَہْدِی القَوْمَ الْفَاسِقِیْنَ﴾

(الصف:۵)

            ”جب انھوں نے کج روی اختیار کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کردیا اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔“یعنی یہود کی کج روی کی وجہ سے اللہ نے ان کے دل راہِ راست سے پھیر دیے۔ اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا قانون بھی بیان کردیا گیا کہ جو لوگ فسق و فجور ہی کی راہ پر چلنا چاہیں ،اللہ انھیں ہدایت سے نہیں نوازتا۔

            آدمی اگر سب کچھ جاننے کے باوجود خواہشِ نفس کو خدا بنا بیٹھے اور اس کے پیچھے سرپٹ دوڑنے لگے تو حق بات سننے کے لیے کان اور اسے قبول کرنے کے لیے دل آمادہ نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ اپنے علم کی بنیاد پر اس کی سماعت پر اور دل و دماغ پر مہر لگادیتا ہے اور اس کی آنکھوں پر پردے پڑجاتے ہیں۔ کوئی اسے راہِ ہدایت نہیں دکھا سکتا:

            ﴿اَفَرَاَیْْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلٰہَہُ ہَوَاہُ وَاَضَلَّہُ اللّٰہُ عَلٰی عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَی سَمْعِہِ وَقَلْبِہِ وَجَعَلَ عَلَی بَصَرِہغِشَاوَةً فَمَن یَہْدِیْہِ مِن بَعْدِ اللّٰہِ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ

(الجاثیة: ۳۲)

            ”کیا تو نے دیکھا اس شخص کو جس نے اپنی خواہش (نفس) کو اپنا خدا بنالیا اور اللہ نے اپنے علم کی بنیاد پر اسے گم راہی میں ڈال دیااور اس کے دل پر مہر لگادی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ پھر کون ہے اللہ کے بعد جو اسے راستہ دکھائے۔ تو کیا تم نصیحت نہیں حاصل کرتے۔“

            فرعون اور آلِ فرعون کے درمیان ایک مردِ مومن کی تقریر قرآن میں تفصیل سے نقل ہوئی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ جب کبرو غرور کے نشے میں بے دلیل خدا کی ہدایت کا انکار کیا جانے لگتا ہے، تو خدا کا غضب بھڑک اٹھتا ہے اور دل پر مہر لگ جاتی ہے:﴿الَّذِیْنَ یُجَادِلُونَ فِیْ آیَاتِ اللّٰہِ بِغَیْْرِ سُلْطَانٍ اَتَاہُمْ کَبُرَ مَقْتاً عِنْدَ اللّٰہِ وَعِندَ الَّذِیْنَ آمَنُوْا کَذٰلِکَ یَطْبَعُ اللّٰہُ عَلَی کُلِّ قَلْبِ مُتَکَبِّرٍ جَبَّارٍ﴾

(المومن: ۵۳)

            ”بے شک جو لوگ اللہ کی آیتوں میں بغیر کسی دلیل اور سند کے جو ان کے پاس موجود ہو، جھگڑا کرتے ہیں، وہ اللہ کے نزدیک اور ایمان والوں کے نزدیک سخت غصہ کے مستحق ہیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ ہر متکبر اور سرکش کے دل پر مہرلگادیتا ہے۔“

            یہود کی پوری تاریخ ان کی غلط کاریوں کی تاریخ ہے۔ اس کا ایک ایک ورق اس طرح کھولا گیا ہے:

            ﴿ فَبِمَا نَقْضِہِم مِّیْثَاقَہُمْ وَکُفْرِہِم بَآیَاتِ اللّٰہِ وَقَتْلِہِمُ الاَنْبِیَاءَ بِغَیْْرِ حَقٍّ وَقَوْلِہِمْ قُلُوْبُنَا غُلْفٌ بَلْ طَبَعَ اللّٰہُ عَلَیْْہَا بِکُفْرِہِمْ فَلاَ یُؤْمِنُوْنَ إِلاَّ قَلِیْلًا

(النساء: ۵۵۱)

            ”انھوں نے جو عہدوپیمان کیا تھا، اس کو توڑنے، اللہ کی آیات کا انکار کرنے، انبیاء کو ناحق قتل کرنے اور اس وجہ سے کہ انھوں نے کہا کہ ہمارے دلوں پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں (ان پر اللہ کا عتاب ہوا) حقیقت یہ کہ ان کے کفر کی وجہ سے اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے۔ وہ کم ہی ایمان لائیں گے۔“

            قرآن مجید میں دل پر مہر لگنے کے لیے یہ تعبیر بھی اختیار کی گئی ہے کہ دل پر پردے پڑ گئے ہیں۔ سورئہ انعام میں مشرکین کے متعلق کہا گیا کہ وہ بہ ظاہر تمہاری باتیں سننے پر کبھی کان لگاتے ہیں، لیکن حقیقتاً وہ نہیں سنتے، ان کے دلوں پر پردے پڑے ہیں۔ وہ دعوتِ حق کو داستان سرائی کہہ کر رد کردیں گے:

            ﴿وَمِنْہُم مَّن یَسْتَمِعُ إِلَیْْکَ وَجَعَلْنَا عَلٰی قُلُوبِہِمْ اَکِنَّةً اَنْ یَفْقَہُوہُ وَفِیْ آذَانِہِمْ وَقْراً وَإِنْ یَرَوْاْ کُلَّ آیَةٍ لاَّ یُؤْمِنُوْا بِہَا حَتّٰی إِذَا جَآؤُوکَ یُجَادِلُوْنَکَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا إِنْ ہٰذَا إِلاَّ اَسَاطِیْرُ الاَوَّلِیْنَ﴾

(الانعام: ۵۲)

            ”ان میں سے بعض تمہاری بات کان لگا کر سنتے ہیں (لیکن حق کو قبول کرنے کے ارادے سے نہیں) ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیے ہیں کہ وہ اسے نہ سمجھیں اور ان کے کانوں میں گرانی ڈال رکھی ہے۔ وہ ہر ایک نشانی دیکھ لیں، تب بھی اس پر ایمان نہیں لائیں گے۔ یہاں تک کہ جب جھگڑا کرنے کے لیے تمہارے پاس آئیں گے تو جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے، وہ کہیں گے کہ یہ تو اگلوں کی داستانیں ہیں۔“

            حق کے دلائل واضح ہونے اور تذکیر و نصیحت کے بعد بھی آدمی انکار کی روش اختیار کرے تو دل کے دروازے بند ہوجاتے ہیں او رکان صدائے حق سننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ایسے ظالموں کے متعلق کہا گیا:

            ﴿وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّن ذُکِّرَ بِآیَاتِ رَبِّہ فَاَعْرَضَ عَنْہَا وَنَسِیَ مَا قَدَّمَتْ یَدٰہُ إِنَّا جَعَلْنَا عَلٰی قُلُوْبِہِمْ اَکِنَّةً اَنْ یَّفْقَہُوْہُ وَفِیْ آذَانِہِمْ وَقْراً وَإِن تَدْعُہُمْ إِلَی الْہُدٰی فَلَنْ یَّہْتَدُوْا إِذاً اَبَداًo﴾

(الکہف:۷۵)

            ”اس سے بڑا ظالم کون ہوگا، جسے اس کے رب کی آیات کے ذریعے نصیحت کی گئی اور اس نے ان سے اعراض کیا اور اس کے دونوں ہاتھوں نے جو کچھ آگے بھیجا ہے، اسے بھول گیا، ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیے ہیں کہ وہ اسے نہ سمجھیں اور ان کے کانوں میں گرانی ہے۔ اگر تو ان کو راہِ راست کی طرف بلائے تو وہ کبھی راہ نہیں پائیں گے۔“

۴-: قرآن سے گہرا تعلق:

            فتنوں سے بچنے کا سب سے موٴثر ذریعہ قرآن سے وابستگی ہے۔ قرآن کریم کو تدبر کے ساتھ پڑھنا، صبح وشام اس کی تلاوت کرنا، اگر عربی نہیں آتی ہے تو قرآن کریم پر لکھی گئی اردو معتبر تفاسیر کا مطالعہ اور گھر میں اس کی تعلیم کرنا از حد ضروری ہے۔

            قرآن کریم کی تفاسیر کے مطالعہ میں اس بات کا خیال ضروری ہے کہ معتبر علما کی لکھی ہوئی تفاسیر کا مطالعہ کرے مثلاً : توضیح القرآن ، آسان ترجمہ قرآن : از شیخ الاسلام مولانا محمد تقی عثمانی صاحب۔ معارف القرآن مفتی اعظم مفتی شفیع صاحب اور انوار القرآن مفتی نعیم صاحب ؛ غرض یہ کہ معتبر علما سے مشورہ کیے بغیر، کسی تفسیر کا مطالعہ یا کسی درس قرآن کو دیکھنا یا سننا مناسب نہیں۔

۵-: دعا کا اہتمام:

            حالات اسی لیے آتے ہیں کہ بندہ اللہ کی جانب رجوع کرے، مگر ہم شکوہ شکایت توکرتے ہیں؛ لیکن اللہ کی طرف رجوع نہیں کرتے ۔ دعا کا اہتمام ، توبہ استغفار بہت ضروری ہے۔ تمام مسلمان اس کا اہتمام کریں۔ ان شاء اللہ بہت فائدہ ہوگا۔

۶-: ادعیہٴ ماثورہ اور ذکر کی عادت ڈالیں:

            ہر مناسبت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعائیں سکھائی ہیں، اس کو یاد کرے اور موقع بہ موقع اسے پڑھنے کا پورا اہتمام کریں۔ ان شاء اللہ فتنوں سے محفوظ رہیں گے۔

۷-: اپنے ارد گرد سے واقفیت:

            اس میں کوئی شک نہیں کہ دشمنان ِاسلام ہمیشہ سے مسلمانوں کے خلاف سازشیں رچتے آرہے ہیں اور آج بھی رچتے ہیں۔ مندرجہ ذیل پیرگراف سے اس کا اندازہ لگاسکتے ہیں:

 فتنہٴ انکار ِسنت کا نیا ظہور

            سترہویں صدی عیسوی میں یونانی فلسفے نے مغربی فکر و فلسفہ کے روپ میں نیا جنم لیا۔ جہالت میں ڈوبی ہوئی یورپی اقوام نے غرناطہ قرطبہ اور بغداد کی جامعات سے حاصل کردہ علوم کی بدولت علم و ادب کی دنیا میں انقلاب بر پا کر دیا۔ یورپی اقوام نے علوم وفنون کے علاوہ مادی میدان میں نئی ایجادات کی بدولت حیرت انگیز ترقی کی۔ یہ وہ دور تھا جب عالم اسلام بد قسمتی سے علمی وفکری جمود کا شکار ہونے کی وجہ سے اپنے انحطاط کے آخری مراحل بڑی تیزی سے لے کر رہا تھا۔

             عالم اسلام پرمغرب کے سیاسی غلبے نے ان کے فکر وفلسفہ کے نفوذ میں اہم کردار ادا کیا، چنانچہ عالم اسلام کا کوئی ایسا خطہ نہ تھا جس کو مغربی فلسفیانہ یلغار اور مادی ترقیات نے شدید طور پر متاثر نہ کیا ہو۔ مغرب نے سیاسی میدان میں مسلمانوں کو ہزیمت سے دو چار کرنے کے بعد عربی زبان و ادب اور اسلامی لٹریچر کے مطالعہ کو خاص اہمیت دی، تاہم اسلامی سوسائٹی میں ان کے فکر و فلسفہ کے نفوذ کی رفتار قدرے سست رہی۔ ایک ڈیڑھ صدی کے تجربات کے بعد مستشرقین نے یہ محسوس کیا کہ ان کے طریقہ کار میں بنیادی غلطی تھی جس کی وجہ سے ماضی میں وہ اپنی محنت کے ثمرات سے محروم رہے ہیں۔ ماضی کے نتائج اور تجربات کی روشنی میں مستشرقین نے اپنے طریق کار میں نمایاں تبدیلی کی اور اب ان کا مقصد یہ ٹھہرا کہ مسلمانوں کو بدلنے کی بجائے اصلاح مذہب(Reformation) اور اسلام کی جدید تعبیر کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ طریق کار اور اسلوب کی تبدیلی نے تحریک استشراق (Orientalism) کی ہمہ جہت کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ مغرب کے ہمہ گیر غلبے نے مغلوب قوموں کی نفسیات کے مطابق عالم اسلام کی یہ حالت بنادی کہ وہ مغربی افکار کو بغیر کسی نقد و تبصرہ کے قبول کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار تھا۔

            مستشرقین (Orientalists) نے اسلامی فکر کے بنیادی ماخذ (Primary Sources) قرآن و سنت کو براہ راست اپنی تنقید کا نشانہ بنایا۔ ڈاکٹر اسپر نگر(Sprenger) نے تین جلدوں میں سیرت پر کتاب لکھی تو اس میں حدیث کی روایت اور اس کی حیثیت پر بھی تنقید کی۔ ولیم میور (William Muir) (م ۱۹۰۵ء) نے سیرت پر اپنی کتاب میں حدیث پر اس بحث کو مزید آگے بڑھایا، لیکن حدیث پر جس مستشرق نے سب سے پہلے تفصیلی بحث کی ہے، وہ مشہور جرمن مستشرق گولڈ زیہر (Goldziner) (م۱۹۲۱ء) ہے۔ اس نے اپنی کتاب ”Muslim Studies” کی دوسری جلد میں حدیث پر تجزیاتی انداز میں تنقید کی ہے۔ بعد کے دور میں تمام مستشرقین نے گولڈ زیہر ہی کے اصولوں کا اتباع کیا ہے۔ پروفیسر الفرڈ گیوم Alfred) (Guillaume نے اپنی کتاب ”Islam” اور ”Traditions of Islam میں گولڈ زیہر کی تحقیق کو آگے بڑھایا ہے۔

             جوزف شاخت (Joseph Schacht) نے اپنی کتاب ” The Ongins of Muhammadan Jurisprudence میں گولڈ زیہر کے اصولوں کی روشنی میں اسلامی قانون کے مصادر و منابع کا تجزیہ کیا ہے اور حدیث کے ظہور وارتقا پر بحث کرتے ہوئے حدیث کی نبوی حیثیت کو مشکوک قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ مارگولیتھ (Margoliouth) را بسن (Robson)، گب (Gibb)، دل ڈیورانٹ (Will Durant)، آرتھر جیفری Arthur) (Jeffery، منٹگمری واٹ (Montgomery Watt)، ہورو فتیش (Worowitz)، دان کر یمر (Von Kremer)، کیانی (Caetani)، اور نکلس (Nicholson) وغیرہ نے بھی اپنے حدیث مخالف نظریات پیش کیے۔

            مستشرقین نے دینی علوم و فنون کی جانچ پرکھ کے لیے آزادی فکر اور عقل کو ایک اہم ذریعہ قرار دیا۔ ان کے ہاں تحقیق کا منطقی (Logical) اور سائنٹفک (Scientific) اسلوب اسے قرار دیا جا سکتا ہے جو عقل و منطق، اعداد و شمار اور معروضیت کے تقاضوں پر پورا اترتا ہو۔ اس کے برعکس اسلامی علمی روایت میں تو اتر اور تعامل ِامت کے علاوہ علوم کی جانچ پر کھ میں اسناد کومرکزی اہمیت حاصل ہے، جبکہ عقل کی حیثیت معاون اور مددگار کی ہے۔ اس لیے مغرب کے اصول تحقیق اسلام کے علمی ورثہ کی معرفت اور جانچ پرکھ کے لیے نا قابل قبول ہیں۔

            ”استشراق“ کی فکری اور علمی تحریک کے دو مر احل تاریخ ہمارے سامنے پیش کرتی ہے۔ اس کا آغاز تو تیرھویں صدی عیسوی میں اس وقت ہوا جب تاتاریوں نے ۱۲۵۸ھ میں بغداد کو پامال کرنے کے صرف دو سال بعد ۱۲۶۰ھ میں جالوت میں”سلطان المنظفر“ کی سربراہی میں کمانڈر ظاہر بیبرس کے ہاتھوں خوف ناک شکست کھا کر ہمیشہ کے لیے پسپائی اختیار کر لی اور اس کے بعد صلیبی جنگوں میں بھی صلیبی قوتوں کو پے در پے شکستوں نے بد حواس کر دیا حتی کہ وہ ۱۲۹۱ھ میں سلطان الملک الاشرف کے ہاتھوں عکہ کی آخری اور فیصلہ کن شکست سے دوچار ہوئے تو صلیبیوں کی مذہبی قیادت کو دو باتوں نے سخت پریشان کر دیا۔ ایک یہ کہ اگر تاتاریوں نے مسلمانوں کا مذہب قبول کر لیا تو مسلمانوں کی قوت کئی گنا بڑھ جائے گی اور دوسرا ہے کہ پوپ اربن ثانی کی شروع کردہ صلیبی جنگوں کے عبرت ناک خاتمہ کے بعد مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اب کون سی مسحی قوت سامنے آسکے گی؟

            چنانچہ اس دور کے معروف مسیحی مبلغ ریمنڈس للس (Raymundus Lullus) نے، جس نے تیونس اور دیگر علاقوں میں نصف صدی تک مسیحی دعوت کے لیے مشنری خدمات سرانجام دیں،ان خدشات کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ:

            ”اگر نسطوری عیسائیوں کو اپنی صف (کیتھولک) میں شریک کر لیا جائے اور تاتاریوں کو عیسائی بنا لیا جائے تو سارے سراسین (مسلمان) بآسانی تباہ کیے جاسکتے ہیں، لیکن خوف یہ بھی ہے کہ اگر ان تاتاریوں نے ترغیب یا تحریص کے باعث شریعت محمد یہ تسلیم کر لی تو پھر عالم عیسائیت کے لیے شدید خطرہ پیدا ہو جائے گا۔“

            (بحوالہ اسلام، پیغمبر اسلام اور مستشرقین کا انداز فکر از ڈاکٹر عبد القادر جیلانی ،ص ( ۱۶۹)

            یہ خوف بالآخر سامنے آ گیا اور تاتاریوں نے نہ صرف یہ کہ اسلام قبول کر لیا بلکہ وہ اسلام کا بازوے شمشیر زن بن گئے تو عسکری میدان جنگ سے مکمل مایوس ہو کر مسلمانوں کو مسیحیت کی دعوت دینے اور ان کے ساتھ علمی و فکری مباحثوں کا راستہ اختیار کیا گیا جس کے لیے ریمنڈس للس نے کلیسا کو دعوت دی کہ:”علوم شرقیہ کے مطالعہ کو روحانی صلیبی جنگ کے طور پر استعمال کیا جائے۔“

            چنانچہ ریمنڈس للس نے تیونس کو اپنی روحانی صلیبی جنگ کا میدان بنایا، علوم شرقیہ کے مطالعہ کے مدارس قائم کیے، مسلم علما کے ساتھ مناظروں کا بازار گرم کیا اور نصف صدی کی مسلسل تگ و دو کے بعد تیونس میں ہی قتل ہو کر اس مشن کے لیے اپنی جان بھی دے دی۔

 (تفصیل کے لیے دیکھیے:-437 Philip Schaff, ”History of the Christian Church”, vol. 5. p. 433)

             اس کے ساتھ ایک اور مسیحی دانش ور بیکن کو بھی اسی فکر کا حامل قرار دیا گیا ہے۔ یہ دونوں مسیحیت کے عمومی علمی اور دینی ماحول کو تو اپنی طرف متوجہ نہ کر سکے لیکن علوم شرقیہ کے مطالعہ کی استشراقی تحریک کی بنیاد فراہم کر گئے اور ”روحانی صلیبی جنگ“ کے عنوان سے اس کا عرف بھی انھوں نے طے کر دیا۔ البتہ سولہویں صدی عیسوی میں جو بائبل کی تعمیروتشریح میں پاپائے روم کی اتھارٹی بلکہ اجارہ داری کو مارٹن لوتھر کی طرف سے چیلنج کیے جانے کی صدی ہے اور پروٹسٹنٹ فرقے کا دور آغاز ہے، تحریک استشراق نے نئی کروٹ لی اور اسے یہ امکان دکھائی دینے لگا کہ اگر مسیحیت میں اصلاح علوم اور مذہبی ڈھانچے کی ری کنسٹرکشن کے ذریعے قدیم مذہبی روایات سے بغاوت ہو سکتی ہے تو مسلمانوں میں اس تجربے کو دہرانے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں اور یہ بغاوت اگر کامیاب ہو گئی تو مسلمانوں کو ان کے علمی ماضی سے کاٹ کر نئے سانچے میں ڈھالا جا سکتا ہے اور عسکری میدان کی شکست کو فکری میدان کی فتح میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ تاریخی ترتیب کے لحاظ سے ہمیں نظر آتا ہے کہ مارٹن لوتھر کی وفات کے بعد اگلی نصف صدی کے اندر ہندوستان کے مغل بادشاہ اکبر نے دین الہی کے نام سے جو نیا دینی ڈھانچہ قوت کے زور پر متعارف کرانے کی ناکام کوشش کی، وہ اس طرح کی ری کنسٹرکشن کا نمونہ تھا جسے مارٹن لوتھر اور اس کے قائم کردہ پروٹسٹنٹ فرقہ نے یورپ میں کامیابی کے ساتھ عملی وجود دے دیا تھا، لیکن اسلام کی مضبوط علمی روایت کے سامنے اکبر با شاہ کی قوت اور اقتدار کا زور نہ چل سکا اور اکبر بادشاہ کے منظر سے ہٹتے ہی دین الہی کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔

            یہ ایک الگ بحث طلب نکتہ ہے کہ جس مقصد میں مارٹن لوتھر کو یورپ میں کامیابی حاصل ہوگئی، اس میں اکبر بادشاہ کو ہندوستان میں کامیابی کیوں حاصل نہ ہوسکی، جبکہ مارٹن لوتھر ایک عام مذہبی راہ نما تھا اور اکبر بادشاہ ہندوستان کا سب سے با جبروت بادشاہ متصور ہوتا تھا لیکن اس وقت ہمارا یہ موضوع نہیں ہے، کیونکہ ہم تحریک استشراق کے اس نئے دور کی بات کر رہے ہیں جس میں یہ پالیسی اختیار کی گئی کہ مسلمانوں کو اب مناظروں اور مباحثوں میں زیر کرنے کی کوشش میں وقت ضائع کرنے کی بجائے مسلمانوں کے اندر کوئی ایسی تحریک پیدا کر دی جائے جو ایک ہزار سے چلی آنے والی مذہبی اتھارٹی کو مشکوک بنا دے اور مسیحیت کی طرح اسلام میں بھی اصلاح علوم اور دین کی تشکیل نو از آن پیدا کر دیا جائے جس کا ایک مشاہداتی منظر ہم نے ہندوستان پر برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی کے تسلط واقدار کے بعد اس ملک کے نئے نظام تعلیم کی بنیادر کھنے والے برطانوی دانش ور لارڈ میکالے کے اس تاریخی مقولے کی صورت میں دیکھا کہ میں نے ایک ایسا نظام تعلیم ترتیب دیا ہے جس سے گزر کر مسلمان اگر مسیحی نہیں ہو گا تو مسلمان بھی نہیں رہے گا۔ تحریک استشراق کا ہدف یہی تھا اور اب بھی یہی ہے۔

             بلاشبہ مستشرقین نے علوم اسلامیہ کے مطالعہ وتحقیق میں گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں اور علمی حوالے سے ان خدمات کا اعتراف نہ کرنا، نا انصافی اور بخل ہوگا، لیکن مقاصد کے اعتبار سے مستشرقین کی علمی خدمات اور لارڈ میکالے سے تعلیمی منصوبے میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا، البتہ نتائج و ثمرات کا معاملہ اس سے مختلف ہے کہ اکبر بادشاہ کی طرح انھیں بھی مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہو پارہے اور نہ صرف برصغیر پاک و ہند بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی فیصلہ کن اکثریت اپنی قومی مذہبی روایت اور علمی تسلسل کے ساتھ اس طرح جڑی ہوتی ہے جس طرح آج سے دو صدیاں پہلے تھی اور مسلمانوں کے اعتقادی اور علمی قلعے میں شگاف ڈالنے کی مغربی کوششوں کا نتیجہ خود مغرب کو اپنا سر پھوڑنے کے سوا اب بھی کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔

             البتہ اس ضمن میں مستشرقین کے اٹھائے ہوئے مختلف اعتراضات سے بعض مسلمان اہل دانش یقیناً متاثر ہوئے ہیں اور انھوں نے اپنے خیال کے مطابق اسلام اور پیغمبر اسلام کو جدید مغربی ذہن کے اعتراضات سے بچانے کا آسان نسخہ یہ تجویز کیا ہے کہ ذخیرہٴ حدیث میں ایسے اعتراضات کی بنیاد بننے والی احادیث کا ہی سرے سے انکار کر دیا جائے۔

(متون حدیث پر جدید ذہن کے اشکالات:ص ۴۶-۴۸- ۲۲-۲۵)

            مذکورہ تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو چوکنا رہنا ضروری ہے۔ خاص طور پر اہلِ علم کو۔ اس کے لیے مندرجہ ذیل علما کی کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

            حضرت الامام قاسم نانوتوی ، حضرت تھانوی ، علامہ شبیر احمد عثمانی، علامہ یوسف بنوری ، علامہ ادریس کاندھلوی، علامہ یوسف لدھیانوی، قاری طیب صاحب اور مفتی تقی عثمانی صاحب وغیرہ کی کتابیں زیر مطالعہ رکھیں۔

            حضرت نانوتوی اور حضرت تھانوی کے افادات پر حکیم فخر الاسلام صاحب ماشاء اللہ بہت عمدہ کام کررہے ہیں ۔ ہم ان کے بے پناہ مشکور ہیں کہ ہماری فرمائش پر زیادہ تر مضامین مرتب کرکے ہمارا بھر پور تعاون کیا ۔ فجزاہم اللہ خیرا فی الدارین۔

            فکری خلفشار کے دور میں بڑے احتیاط سے مطالعہ کریں۔ عربی میں شیخ عبد الرحمن حبنکہ المیدانی، الدکتور سامی العامری ، الدکتور انور الجندی، الشیخ علی الصلابی اور شیخ الاسلام حسن آفندی کی تحریر اور کتابوں کو پڑھیں۔

آخری بات:

            جمہور اہلِ سنت کے مسلک سے مربوط رہیں! فقہ میں ائمہٴ اربعہ کی تقلید ۔ کلام میں اشاعرہ یا ماتریدیہ کی تقلید۔ تصوف میں معتبر سلاسلِ تصوف کی پیروی مثلاً: نقشبندی، چشتی، سہروردی ۔اور کبھی بھی غیر معتبر عالم یا آدمی کی پیروی ہرگز نہ کریں۔ اللہ ہماری ہر قسم کے شرور وفتن سے حفاظت فرمائے۔ آمین یارب العالمین!