اداریہ:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے !!

مولانا حذیفہ مولانا غلام محمد صاحب وستانویؔ

                ’’مفکر ِقوم وملت ،فخر گجرات حضرت مولانا عبد اللہ صاحبؒ کے ساتھ وابستہ کچھ یادیں اور حضرت کی حیات مستعار سے ہمیں جوکچھ سیکھنے ملا اس کا تذکرہ ‘‘۔

مرض الوفات میں حضرت کی آخری زیارت :

                ۲۵؍ شوال ۱۴۳۹ھ شام تقریباً ۴؍ بجے کے درمیان احقر حسبِ عادت اپنے دفتر میں مصروفِ کار تھا کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی… فون اٹھایا تو دوسری طرف سے والدِ محترم کی آواز کان میں گونجی ، کہا کہ بیٹا ابھی مولانا اسماعیل صاحب کا فون آیا ہے کہ حضرت رئیس (مولانا عبد اللہ صاحب کاپودرویؒ اہلِ گجرات کے درمیان حضرتِ رئیس سے متعارف ہیں )کی طبیعت بہت زیادہ نازک ہے اور حضرت کو ہسپتال سے گھر لایا جارہا ہے ؛ تم فوراًنیچے میرے دفتر میں آجاؤ ہمیں ابھی نکلناہے ۔ احقر کو بہت تشویش ہوئی ،ہڑ بڑاتے اور گھبراتے ہوئے فون رکھ کر فوراً اپنی کرسی چھوڑی اور والد صاحب کے دفتر میںآ پہنچا ۔ والد صاحب نے کہا : پانچ بجنے والے ہیں ، عصر کا وقت شروع ہوجائے گا ، عصر پڑھ کر چلتے ہیں ۔میں نے ڈرائیور سعید بھائی بلوچ کو فون کیا اور تیزی سے آنے کو کہا ،وہ چند ہی منٹ میں پہنچ گئے ؛تب تک ہم نے عصر کی نماز ادا کرلی اور گاڑی میں بیٹھ کر کاپودرا کے لیے روانہ ہوگئے۔ جلد بازی میں دونوں باپ بیٹے گھر پر اطلاع کرنا بھی بھول گئے ، پھر کچھ راستہ طے کرنے کے بعدبذریعۂ فون اطلاع دے دی اور ہماری گاڑی تیزی کے ساتھ کاپودرا کی سمت رواں دواں ہو گئی۔

                میں اور والد صاحب راستے میں کام کی باتیں کرتے رہے اور مغرب سے تقریباً پندرہ بیس منٹ قبل ہم کاپودرا پہنچ گئے ۔کاپودرا پہنچتے ہی فوراً حضرت کے حجرے کی طرف چل دیے ،جہاں حضرت کے صاحبزادے انتظار میں تھے … مولانا اسماعیل صاحب ، مولانا قاسم سلیم بھائی، حضرت کے پوتے مولانا عبد الرحمن اور ان کے والد۔ مولانا عبدالرحمن کے والد نے حضرت کو سرگوشی کے انداز میں والد صاحب کے آنے کی اطلاع دی تو حضرت نے آنکھیں کھولیں اوروالد صاحب کی جانب دیکھا؛ بولنے کی سکت نہیںتھی ،کچھ بولنا چاہ رہے تھے مگر بول نہ سکے اور والد صاحب حضرت کے سرہانے بیٹھ گئے ۔ دومنٹ بعد حضرت نے آنکھیں کھولیں اور بڑی مشکل سے آہستہ آواز میں اپنے بیٹوں سے کہا کہ مولانا غلام کو ناشتہ کراؤ ۔ اللہ اکبر !

                یہ تھے حضرت کے اخلاق ، بے پناہ تکلیف سے گزر رہے تھے، مگر پھر بھی آنے والے کی فکرسوارتھی ، آپ کے صاحبزادے کہنے لگے کہ کئی گھنٹوں کے بعد اب حضرت کچھ بول سکے ہیں ۔

                جہاں حضرت کے بلندیٔ اخلاق کااس سے پتا چلتا ہے، وہیں ان کی والد بزرگ وار کے تئیں بے پناہ محبت اور شفقت کا بھی پتا چلتا ہے۔ جس قدر حضرت کو والد صاحب سے محبت تھی ،اسی قدروالد صاحب کے دل میں بھی حضرت کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے ؛میں نے ایک بار نہیں باربار والد صاحب کو یہ کہتے ہوئے؛ بل کہ آبدیدہ ہوکر یہ دہراتے ہوئے سنا ہے کہ ’’ میں آج جو کچھ ہوں حضرت کی تربیت وتوجہات اور دعاؤں کی برکت سے ہوں ‘‘ کبھی فرماتے: ’’ حضرت کے مجھ پر اتنے احسانات ہیں کہ میں اسے ادا نہیں کرسکتا ‘‘ ہمیشہ جب بھی والد صاحب کاگزر انکلیشور سے ہوتا، ضرور حضرت کے دربار میں حاضری دیتے اور حضرت کو بھی جب بھی اطلاع دی جاتی کہ مولانا غلام محمد صاحب آرہے ہیں تو بے صبری سے انتظار کرتے … باربار دریافت کرتے دیکھو ، معلوم کرو ! مولوی اسماعیل ! مولانا غلام محمد صاحب کہاں پہنچے؟ اور جب والد صاحب حضرت کے پاس پہنچ جاتے تو بہت خوش ہوتے اور دونوں حضرات بے تکلفانہ خوب ہنسی مذاق کرتے ۔ حضرت والد صاحب سے اتنے بے تکلف رہتے تھے کہ دیکھنے والا یہ سمجھتا کہ ان دونوں حضرات کا دوستانہ تعلق ہے ۔

                والد صاحب جب ہمارے ساتھ گھر یا دفتر میںاکیلے بیٹھے ہوتے تو حضرت کے ساتھ اپنی طالب علمانہ زندگی کے احوال بیان کرتے اور ایک ایک بات باربار الگ الگ مجلسوں میں دہراتے رہتے ۔والدصاحب جامعہ کے اساتذہ کی میٹنگ میں بھی حضرت کی تربیت کے واقعات ذکر کرتے رہتے ہیں ؛غرض یکہ جانبین سے  ایک دوسرے کے ساتھ محبت اتنی زیادہ تھی کہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کس کو کس سے زیادہ محبت ہے !

                تو ذکر چل رہا تھا حضرت کے مرض الموت کی آخری زیارت کا ۔اس کے بعد ہم تقریباً عشا کے بعد تک حضرت کے سرہانے بیٹھے رہے ، اسی دوران مغرب بھی ہم نے وہیں حضرت کے سرہانے مصلیٰ بچھاکر ادا کی، اس کے بعد قدرے توقف کیا؛اسی دوران زائرین کی بڑی تعداد حضرت کی شدتِ بیماری کی خبر سن کر بے چینی کی حالت میں زیارت کے لیے ایک ایک دو دو کرکے کمرے میں داخل ہوکر حضرت کا دیدار کرتی رہی ۔پھر ہم نے حضرت کے اقربا کی محبت میں عشا سے پہلے کھانا تناول کیا اور پھر ایک دیڑھ گھنٹہ بیٹھے رہے ،اسی دوران ہم نے دیکھا کہ حضرت کو سینے میں تکلیف ہورہی تھی ، بلغم بہت زیادہ ہوگیا تھا تو بے چینی کے عالم میں کبھی اشارے سے پنکھا بند کرواتے پھر کچھ دیر بعد اشارے سے پنکھا چلانے کو کہتے ۔ کافی دیر بعد جب حضرت کو کچھ افاقہ ہوا تو والد صاحب نے اجازت طلب کی تو اشارے سے اجازت دی اور اس طرح یہ آخری زیارت کرکے ہم ’’اکل کوا ‘‘لوٹ آئے ۔

حضرت کی خبرو فات :

                دو یوم بعد۲۷؍شوال کو بالکل اسی وقت میں والد صاحب کے پاس ان کے دفتر میں بیٹھا ہوا تھا کہ مولانا اسماعیل صاحب کا فون آیا۔ تقریباً چار بج کر بیس منٹ ہورہے تھے اور انہوں نے یہ افسوس ناک خبر سنادی کہ حضرت کی پاکیزہ روح اپنے قفس عنصری سے پر واز کرکے اپنے مالک حقیقی سے جاملی ہے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ہمارے لیے یہ خبر کسی قیامتِ صغریٰ سے کم نہ تھی ۔ بہر حال {کل نفس ذائقۃ الموت}کے اصول اور قدرتی قانون کے زیرِ اثر ہر نفس کو اس دنیا سے رخصت ہونا ہی ہے، چاہے کوئی کتنی ہی عظیم شخصیت کیوں نہ ہو؟ اس قدرتی قانون سے کوئی مستثنیٰ نہیں ۔ قرآنِ کریم نے دوٹوک انداز میں یہ اعلان کیا : {وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَأَفَانْ مِّتَّ فَہُمُ الخٰلِدُوْنَ }(انبیا:۳۴)سیدا الخلائق، افضل البشر، امام الانبیا والمرسلین، حبیب ِکبریا صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ کہہ دیا جائے کہ آپ کو بھی موت آنی ہے، تو بھلا کون اس دنیا میں ہمیشہ ہمیشہ رہ سکتا ہے ؟!

                ویسے تو یہ دنیا آنی جانی ہے روزانہ ہزاروں بچے پیدا ہوتے ہیں اور سینکڑوں افراد دنیا سے رخصت ہوتے ہیں ؛مگر کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں ،جو اپنے کارناموں کی وجہ سے معاشرہ میں بلند مقام حاصل کر لیتے ہیںاور اپنی یادوں کو لوگوں کے درمیان چھوڑجاتے ہیں، ان میں بھی معدودِچند زمین پررہ کر بھی آسمان کے مانند آفاقیت کے حامل ہوتے ہیں،ایسے افراد کے بارے میں کسی شاعر نے کچھ یوں کہا ہے    ؎

زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے

                اس میں کوئی دورائے نہیں کہ حضرت والا علم کی گہرائی میں سمندرکے مانند تھے اور وسعت میں  آسمان ،اور علم کے ابلاغ اور ضیا پاشی میں چمکتے ہوئے سورج تھے ، آپ کا اس دنیا سے رحلت فرماجانا امتِ مسلمہ کے لیے عموماً اور خاص طور پر بر صغیر اور اخص الخاص گجرات کے مدارس ،علما ، طلبا، اور صلحا کے لیے بہت بڑا خسارہ ہے اور اس میں اخص خاص الخاص ہمارے جامعہ اور جامعہ برادری کے لیے بہت عظیم خسارہ اور بہت بڑی مصیبت ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صبرِ جمیل عطا فرمائے اور حضرت کے بعد ہم سب کو ہر طرح کے فتنے سے محفوظ رکھے ۔

حضرت ؒاپنی ذات میں انجمن تھے :

                فتنوں کے اس گھٹا ٹوپ دور میں جہاں قحط الرجال کا دور دورہ ہے ،حضرت کی ذات امتِ مسلمہ کے لیے انتہائی عظیم نعمت تھی ،اس لیے کہ پچھلے سو دوسو سال سے امت کے علما وزعما؛ رجالِ کار کے فقدان کا رونا روتے چلے آرہے ہیں ۔ ایسے پُرآشوب اورقحط الرجال کے دور میں مردم سازی کوسب سے بڑا کار نامہ کہا جاسکتا ہے ۔ ویسے تو حضرت گونا گوں صفاتِ حمیدہ کے حامل تھے ،مگر آپ کا امتیازی وصف اورخاصہ بڑی تعداد میں رجالِ کا ر کو اپنی منفرد تربیت سے وجود میں لانا ہے ۔

                میرے اپنے تاثر ات یہ ہیں کہ ہمارے خطۂ گجرات میں اس گئے گزرے دور میں تو آپ کا ہم پلہ کوئی نظر نہیں آتا؛بل کہ ہندستان میں کثرت سے مردم سازی کا یہ عظیم کارنامہ حکیم الامت ،مجدد ملت حضرت تھانویؒ نور اللہ مرقدہ کے بعد آپ ہی کے حصہ میں آتا ہے ۔

                آپ کے تیار کردہ تلامذہ کی خدمات کا دائرہ صرف ہندستان تک محدود نہیں ہے ، بل کہ یورپ، افریقہ اور دنیا کے مختلف خطوں میں وہ نمایاں کام انجام دے رہے ہیں ۔ ان کی تعداد اتنی بڑی ہے کہ سرِدست اس کا احاطہ آسان نہیں ۔

                حضرت کے ادارہ’’فلاح ِدارین‘‘ ترکیسر سے مختلف ذوق کے حامل افرادِ کار وجود میںآئے ۔ ایک طبقہ وہ ہے جو قرأت میں اپنی نمایاں خدمات امت کو پیش کررہا ہے ۔جیسے: قاری صدیق صاحب سانسرودی،قاری ایوب اسحاق جنوبی افریقہ وغیرہ ۔ ایک طبقہ وہ ہے جو ادب میں اپنا لوہا منوارہا ہے۔جیسے: مولانا اقبال صاحب دیولوی وغیرہ ۔ ایک طبقہ وہ ہے جو خدمتِ حدیث میں مثالی خدمات انجام دے رہاہے ۔ جیسے :مولانا یوسف صاحب ٹنکاروی وغیرہ؛ کہیںخدمتِ تفسیر میں ایک طبقہ لگا ہوا ہے مثلاً :مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی وغیرہ ۔ کہیں نظامت واہتمام میں جیسے: والد محترم مولانا غلام محمد صاحب وستانوی وغیرہم۔

                غرض یہ کہ مختلف النوع میدانوں میں مختلف رجالِ کار کی بڑی تعداد مصروفِ عمل ہے ۔ یہ اس لیے کہ حضرت کی ذات خود ہمہ جہت صلاحیتوں کی حامل تھی ؛آپ ایک بہترین منتظم اور مہتمم تھے ، اسی طرح آپ کا عربی ، اردو ، فارسی اور گجراتی ادب کا ذوق بھی بہت معیاری تھا۔ آپ حدیث اور فقہ سے بھی بڑی دل چسپی رکھتے تھے ؛لہٰذا آپ کے مختلف تلامذہ میں آپ کی شخصیت مختلف انداز میںجھلکتی ہے ۔

                فلاحِ دارین سے مختلف جہات کے حامل افراد کے وجود میں آنے کی ایک وجہ حضرت کا اپنے دورِاہتمام میں ہندستان کے مختلف خطوں سے فنون کے ماہرین کو  جمع کرناہے ۔مثلاً مولانا ذوالفقار صاحبؒ ، مولانا شیر علی صاحبؒ ، مولانا ابرار صاحبؒ ، مفتی بیمات صاحبؒ اور قاری انیس صاحب وغیرہم حضرات کو ؛جن کی وجہ سے افراد سازی میںبڑی مدد ملی ۔

                فلاحِ دارین سے آپ کے دور میں افرادِ کا ر کثرت سے وجود میں آنے کی ایک اور وجہ آپ کا نصاب پر خصوصی توجہ دینا بھی ہے ۔اس کے لیے کہ آپ نے ہندستان کے ماضی کے مشہور اداروں کے خصوصیات کو جمع کرنے کی کوشش کی ۔ دیوبند کے نصاب سے فقہ اور اصول فقہ کو لیا ، مظاہرِ علوم سہارن پور کے نصاب سے حدیث کو لیا ، ندوۃ العلما کے نصاب سے آپ نے ادب کو لیا ،اس طرح ایک جامع اور مؤثر نصاب تیار کیا ۔ اور اس زمانہ کے اکابر ین سے آپ نے رائے مشورے لیے ۔اور حضرت ہی کے مشورے سے یہ خصوصیات جامعہ اکل کوا کے نصاب میں بھی پائی جاتی ہے۔

                ایک اور وجہ آپ کی طلبہ پر خصوصی توجہ بھی ہے ، جس طالب علم میں جیسا ذوق پاتے اس کی ویسی ہی تربیت کرتے ۔

مطالعۂ کتب کاذوق:

                حضر ت کے یہاںکتاب کے مطالعہ کا ذوق تو ایسا تھا کہ بس بیان سے باہر ہے۔ اگرہم حضرت کے ذوقِ مطالعہ کو دیکھتے ہیں تو ماضی کے علما کی یاد تازہ ہوجاتی ہے ، جیسا ذوق عثمان جاحظؒ، ابن عقیلؒ، ابن الجوزیؒ وغیرہم کو تھا۔ حضرت کا ذوق ان سے کچھ کم نہ تھا ۔

                حضرت کو والد صاحب کے ساتھ خصوصی تعلق کی وجہ سے بندے نے بہت قریب سے دیکھا ،خاص طور پر آپ کے علمی ذوق کا تو بہت قریب سے مشاہدہ کیا ؛اس لیے کہ حضرت کے ساتھ مجھے دوبار کویت اور قطر کے علمی سفر کا شرف حاصل ہوا ہے۔

                اتفاق سے ہم کویت جس عرصہ میں گئے تھے ،وہاں عالمی کتابوں کا میلہ لگا ہوا تھا ۔ ہم حضرت کے ساتھ اس میں گئے تو حضرت نے کتابوں کا جو انتخاب کیا وہ بڑا عمدہ تھا۔ مجھے یاد ہے کہ حضرت نے خاص طور پر دیوان متنبی کی ایک شرح پسند کی تھی ’’ العود الہندی‘‘جو ماضی قریب کے کسی یمنی مصنف کی تحر یر کردہ تھی۔ حضرت نے کہا کہ اس کے متعدد نسخے لے لو ۔میں نے حضرت کے لیے اپنے لیے اور ہمارے کتب خانہ کے لیے اس کے نسخے خریدے اور بھی بہت ساری کتابیں حضرت نے پسند کرکے لی تھیں ۔

                اور ایک بار حضرت کی رفاقت میں قطر جانے کا بھی اتفاق ہوا،جہاں وزارۃ الاوقاف اسی طرح شیخ یوسف القرضاوی ، شیخ علی فرہ داغی سے ملاقات ہوئی۔وزارۃ الاوقاف نے کافی کتابیں بھی بہ طور ہدیہ کے مرحمت فرمائی اور پھر حضرت کے اشتیاق پر ہم چند کتب خانوں میں بھی گئے اور حضرت نے اپنی پسند کی کتابیں بھی خریدیں ۔

                غرض یہ کہ کتاب سے آپ کو بے پناہ انسیت تھی ۔ بعض لوگ کتابوں کو صرف جمع کرتے ہیں ، پڑھتے نہیں ؛مگر حضرت ماشاء اللہ جب تک طاقت رہی برابر کتب بینی کرتے رہے ؛یہاں تک کہ حضرت آخری ایام میں جس کمرے میںآرام فرماتے تھے،وہاں میں نے دیکھا کہ اس میں بھی چارو ںطرف کتابیں پھیلی ہوئی تھیں۔ جب وفات سے دو روز قبل میں حضرت کے یہاںگیا تو میں نے خود بہت ساری کتابیں اٹھاکر دیکھیں، اس لیے کہ احقر کو بھی خالی بیٹھنا پسند نہیں ۔ الحمد للہ والد صاحب کے واسطے سے حضرت کی کتب بینی اور مطالعہ کا کچھ حصہ احقر کو بھی ملاہے ۔میں نے دیکھا کہ ادب پر ،عقائد پر اور سیرت پر عمدہ عمدہ کتابیں رکھی ہوئی تھیں ،احقر اسے لے کر پڑھنے لگا تو ایک کتاب میں سے پرچی نکلی جس پر عثمان جاحظؒ کا یہ ملفوظ تحریر کردہ تھا :

                ’’ من لم تکن نفقتہ التی تخرج فی الکتب الذی عندہ من انفاق عشاق القیان و المستہترین فی البنیان لم یبلغ فی العلم مبلغا رضیا ‘‘

                اگر کوئی علم کا دعویدار ہو اور اس کے نزدیک کتابوں پر مال خرچ کرنا اتنا خوش آئند نہ ہو، جتنا دنیا دار کے لیے سیرو تفریح میں خرچ کرنا ہوتا ہے تو سمجھوکہ وہ ابھی علم کے مطلوبہ درجہ تک نہیں پہنچا ۔

                یعنی آخری سانس تک کتابوں کے ساتھ آپ کا لگائوانتہا کو پہنچا ہواتھا اور کسی چیز کی محبت تھی تو بس کتابوں کی ،کتابوں کی محبت آپ کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔ مذکورہ عبارت ایک پرچی پر تھی ،جوبہ طور نشانی کے کتاب میں رکھی ہوئی تھی ، اب آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ان کو کتابوں سے کس درجہ محبت تھی ؟

                حضرت نور اللہ مرقدہ کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ جہاں آپ علمی میدان کے ایسے کامیاب مربی ومنتظم تھے وہیں ، آپ ہمارے بر صغیر کے اکابرین کے طریقہ پر تصوف وسلوک پربھی مکمل گامزن تھے ۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ ہمارے اس دور میں علمی ذوق کے حاملین تصوف وسلوک سے شغف بہت کم رکھتے ہیں ؛مگر حضرت ماشا ء اللہ اعتدال کے ساتھ اس کے بھی سالک تھے ؛ بل کہ کل ۹؍ مشائخ سے حضرت کو خلافت بھی ملی ہوئی تھی ۔

مشائخین ِمجازحضرت نور اللہ مرقدہ  :

                ۱- حضرت شیخ یونس جون پوری رحمۃ اللہ علیہ

                ۲- مولانامحمد ہاشم جوگواڑی دامت برکاتہم

                ۳-ڈاکٹر اسماعیل میمن دامت برکاتہم

                ۴-حاجی فاروق صاحب سکودی دامت برکاتہم

                ۵-مولانا آصف حسین فاروقی دامت برکاتہم

                ۶-مفتی احمد خان پوری دامت برکاتہم

                ۷-مولانا منیر صاحب دامت برکاتہم

                ۸-مولانا نعیم صاحب فاروقی دامت برکاتہم

                ۹- مولانا ولی آدم گجراتی دامت برکاتہم

اتنے سارے مشائخ سے خلافت کا علم حضرت کی وفات سے قبل کسی کو نہیں ،حضرت نے کبھی کسی کے سامنے ظاہرہی نہیں کیا ، آخری ایام میں اپنے مخصوص تعلق رکھنے والوں کو بتایا ۔ یہ بھی حضرت کا بڑا پن ہے ؛ورنہ آج کل خلافت ملتے ہی ،دنیامیں اس کا ڈھنڈورا پیٹا جانے لگتا ہے ۔

                حضرت والد صاحب (مولانا غلام محمد صاحب وستانوی) دامت برکاتہم فرماتے ہیں : حضرت نے مرض الوفات میں بندے سے کہا کہ مجھے ۹؍ حضرات سے اجازت ہے، میں ان سب سے آپ کو بھی اجازت دیتا ہوں۔

                مرض الوفات میں احقر متعدد بار حضرت کی بیمار پرسی کے لیے حاضری دیتا رہا ۔رمضان سے دوچار روز قبل احقر حضرت کی بیمار پرسی کے لیے حاضر ہوا، تو حضرت بہت خو ش ہوئے اور کہنے لگے تم جیسے متحرک اور فعال نوجوانوں سے مجھے بہت محبت ہے اوریہ سنت رسول ہے ۔ بطور استدلال کہ فرمانے لگے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل ؓ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا تھا ’’ یا معاذ! واللہ انی لاحبک ‘‘  تو میں کہتا ہوں ’’ یا حذیفہ واللہ انی لأحبک ‘‘ اے حذیفہ قسم بخدا میں تم سے محبت کرتا ہو ں ۔ اللہ اکبر!

                یہ تھاحضرت کانوجوانوں کی تشجیع کا اسلوب۔ میں کیا اور میری حیثیت کیا! یہ صرف آپ کی ذرہ نوازی تھی ۔ اللہ آپ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے ۔ آمین!

                سوشل میڈیا کے اس دور میں حضرت کی زندگی سے متعلق اچھی خاصی تحریریں گردش کررہی ہیں ۔ احقر نے ان میں سے کسی کو نقل کرنے کو تحصیلِ حاصل تصور کیا ؛ لہٰذا حضرت سے وابستہ اپنی جو یادیں تحریر کے دوران نوکِ قلم پر آتی گئیں، بندہ اسے سپرد قرطاس کرتا رہا ۔مجلہ کو طباعت کے لیے جانا ہے، لہٰذا قلتِ وقت کی بنا پر مزید کی گنجائش نہیں۔

                 اخیر میں صرف حضرت کی زندگی سے ہم طالبانِ علوم نبوت اور علما کو کیا اسباق حاصل ہوتے ہیں ،اسے قلمبند کرکے اپنی تحریر سمیٹنے کی کو شش کرتا ہوں ۔

                (۱)…طالب علم اور عالم کو ہمیشہ مطالعۂ کتب کا شوق ہونا چاہیے اور اپنے کتب خانہ میں اچھی خاصی  مقدار میں کتابیں جمع کرنے کی فکرہونی چاہیے ۔

                (۲)…وقت کی پابندی ، جو کام جس وقت کے لیے متعین ہے اسے اسی وقت پر کرنا چاہیے ۔

                (۳)…ترتیب و تنظیم اور زندگی میں سلیقہ ہونا چاہیے ، ہر چیز مرتب ومنظم ہونی چاہیے ۔

                (۴)…اپنے طلبہ کی مکمل فکر ہونی چاہیے اور ان کی تربیت میں ذرہ برابر کوتاہی نہیں ہونی چاہیے۔

                (۵)…ہر ایک کے ساتھ خیر خواہی کا مزاج ہوناچاہیے ، کسی کی بد خواہی کبھی نہیں ہونی چاہیے۔

                (۶)…اساتذہ اور علما ہمیشہ اپنے چھوٹوں کی حوصلہ افزائی کرتے رہیں اور حوصلہ شکنی نہ کریں ۔

                (۷)…کسی کے احسان کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔

                (۸)…ہمیشہ نوجوان علما کی مطالعۂ کتب میں رہ نمائی کرنی چاہیے ۔

                (۹)…عالم معاشرہ کا ذمہ دار ہوتا ہے ، لہٰذا اسے ہمیشہ معاشرے کی باریک باریک چیز وںپر نظر رکھنی چاہیے اور اس کی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے ۔

                (۱۰)…    بیماری میں، انتظامی امور میں اور زندگی کے دیگر میدانوں میں آنے والے مصائب پر صبر وتحمل  اور حلم اور بردباری سے کام لینا چاہیے ۔

                (۱۱)…عالم اور منتظم کو افراد سازی کا گُر سیکھ کر اپنے طلبہ کی صحیح رہ نمائی کرکے افراد سازی کی کوشش کرتے رہنا چاہیے ۔

                (۱۲)…آپ چاہے کتنے ہی اونچے مرتبہ کو پہنچ جاؤ اگر کسی سے غلط فہمی ہوئی تو اس کا خلاصہ کرلینا چاہیے ۔

                (۱۳)…اپنی کمی کا اعتراف کرنا چاہیے ۔

                (۱۴)…نوجوانوں کی تعلیمی میدانوں میں صحیح رہ نمائی کرنی چاہیے ۔

                (۱۵)…اپنے آپ کو حق گوئی کا عادی بنانا چاہیے ۔

                (۱۶)…ہر عالم کی قدر کرنی چاہیے ۔

                (۱۷)…تکلم اور خطابت میں سلیس اور فصیح زبان استعمال کرنی چاہیے ۔

                (۱۸)…اپنی تقریروں میں زندگی کے مشاہدات کا ذکر عمدہ پیرائے میں کرنا چاہیے ۔

                (۱۹)…معاملات میں صفائی رکھنی چاہیے ۔

                (۲۰)…طبیعت میں استغنا ہونا چاہیے ۔

                (۲۱)…اگرکسی کے ساتھ اس کے دینی کام کی وجہ سے محبت ہو تو سنتِ نبوی سمجھ کر اس کے سامنے اس کا اظہار کردینا چاہیے ۔

                (۲۲)…نماز کی ہر حالت میں پابندی کرنی چاہیے ۔

                (۲۳)…مذاہب کی تقلید میں تعصب اور تشدد سے اجتناب کرنا چاہیے ۔

                (۲۴)…ہر فن اور علم کی بنیادی باتوں سے واقف رہنا چاہیے۔

                (۲۵)…امت کے موجودہ حالات پر گہری نظر رکھنی چاہیے ۔

                (۲۶)…دین کے تمام شعبوں کو دین کا حصہ تصور کرنا چاہیے اور غلو سے اجتناب کرناچاہیے ۔

                (۲۷)…امت میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔

                (۲۸)…ہمیشہ علمی و تعلیمی ترقی کیسے ہو اس کے لیے فکر مند ہونا چاہیے ۔

                (۲۹)…امت کے جو نوجوان عصری تعلیم حاصل کررہے ہیں ان کے دین کی بھی فکر ہونی چاہیے۔

                (۳۰)…اسکول کے ٹیچر اور کالج کے اساتذہ کو مسلمان سائنس دانوں سے واقف ہونے کی تلقین کرنی چاہیے ۔

                (۳۱)…ہر حال میں قضا و قدر اور اللہ کے فیصلے پر راضی رہنا چاہیے ۔

                (۳۲)…اپنے آپ کو شکر کا عادی بنانا چاہیے ، ناشکری سے بچنا چاہیے ۔

                (۳۳)…طبیعت میں ظرافت ہونی چاہیے ۔

                (۳۴)…اپنے آپ کو سادگی کا عادی بنانا چاہیے ۔

                (۳۵)…صفتِ قناعت سے متصف ہونا چاہیے۔

                (۳۶)…ہمیشہ صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا چاہیے ۔

                (۳۷)…تنازع اور اختلافی مسئلہ سے حتی المقدور اصلاح کی کوشش کے بعد اپنے آپ کو جدا رکھنا چاہیے ۔

                (۳۸)…اپنی ذات سے اگر کسی کو تکلیف پہنچے تو معافی مانگ لینی چاہیے ۔

                (۳۹)…عالم کو ہمیشہ صفت ِتواضع سے متصف ہونا چاہیے ۔

                (۴۰)…اپنی نسبت اور نیکی کو چھپانے کی فکر ہونی چاہیے ۔

                (۴۱)…حضرت کی طبیعت میں جمود نہیں تھا ۔ قدیم صالح اور جدید نافع کو اعتدال کے ساتھ جمع کرنا آپ کا خاصہ تھا ، لہٰذا ہمیں بھی اسی چیز کو سیکھنے کی ضرورت ہے ۔

                (۴۲)…صاحبِ نسبت بزرگوں کے ساتھ منسلک رہنا چاہیے ۔ گووہ رتبہ، عمر اور علم میں اپنے سے کم ہی کیوں نہ ہو ؛بہر حال اپنے آپ کو کسی بزرگ کے ساتھ جوڑے رکھنے کی ضرورت آخر تک رہتی ہے ۔ آج کل اس کا ہمارے طبقۂ علما میں فقدان ہے ۔

                (۴۳)…اپنی پریشانی اور تکلیف کی شکایت مخلوق کے سامنے نہ کرنا ۔

                (۴۴)…مسلسل جدو جہد میں لگے رہنا اور کبھی اپنے کو فارغ نہ رکھنا ۔

                (۴۵)…آخری دم تک اپنے طلبہ سے رابطہ میں رہنا اور ان کی رہبری و رہ نمائی کرتے رہنا۔

                (۴۶)… منتظم کا فکر مندی سے باصلاحیت معلمین کو تلاش کرتے رہنے اور انہیں اپنے اداروں میں لانے کی کوشش کرنا ۔

                (۴۷)…باصلاحیت علما کو ان کے ذوق کے مطابق علمی کام سپرد کرنا۔ مثلاً: کوئی اچھی عربی کتاب کا ترجمہ کروانا یا کوئی اچھی کتاب کا چھپوانا وغیرہ ۔

                (۴۸)…کسی ضرورت مند اورمحتاج کے کام آنا ۔

                (۴۹)…اگر کوئی کسی فن کا ماہر ملے تو اس سے اس فن کی معلومات حاصل کرنے کا حریص ہونا ۔

                (۵۰)…مدر س کا کبھی کوئی بڑی کتاب کا یا تنخواہ میں اضافہ کا مطالبہ نہ کرنا اور جو کتاب مفوض کی جائے اسے خوب مطالعہ کرکے اچھی طرح طلبہ کو پڑھانا۔

                مذکورہ صفات وہ ہیں جو ہم طلبہ وعلما کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ یہی حضرت والا کی زندگی کا ماحصل اور خلاصہ ہے ۔ان سے محبت اور ان کے احسان چکانے کے لیے ان اوصاف کو اپنی زندگی میں جگہ دینے کی کوشش کرتے رہنا ہمارے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے ۔

                اللہ رب العزت حضرت کی بال بال مغفرت فرمائے ، آپ کے پسماندگان کو صبر ِجمیل عطا فرمائے ، خاص طور پر آپ کے صاحبزادوں اور تلامذہ کو ان میں’’ مولانا اسماعیل صاحب‘‘ جنہوں نے اپنے والد کی خدمت کا حق ادا کردیا اور’’ والد محترم حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی‘‘ کو جنہوں نے اپنی شاگردی کا حق ادا کریا اور ہم سب کو حضرت نور اللہ مرقدہ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق مرحمت فرمائے ۔ آمین یارب العالمین !

ختم شد بروز جمعہ بتاریخ ۲۰؍ جولائی ۲۰۱۸ء بوقت ۲۷: ۱۱ صبح

صراحی روتی اٹھی جام اشک بار اٹھا

پھر آج مَیْ کدے سے ایک بادہ خوار اٹھا