اخوت وہمدردی اور اتحاد واتفاق سے متعلق چند احادیث نبویہ کا ترجمہ

معارفِ با ند وی

اخوت وہمدردی اور اتحاد واتفاق سے متعلق چند احادیث نبویہ کا ترجمہ:

            ۱- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کہ” مسلمانوں کو آپس میں اس طرح رہنا چاہیے جیسے جسم کے اعضا کہ ایک کو اگر کسی قسم کا دکھ اور تکلیف ہوتی ہے تو دوسرا عضو بے قرار ہوجاتا ہے۔“

            ۲- ایک جگہ فرمایا: کہ ”جب تک تم موٴمن نہ ہوگے جنت میں داخل نہ ہوسکوگے، اور جب تک آپس میں محبت نہ رکھوگے موٴمن نہیں ہوسکتے۔“

            ۳- فرمایا:” مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہے اور موٴمن وہ ہے جس کی طرف سے اپنی جانوں اور مالوں کے بارے میں لوگوں کو کوئی خطرہ نہ ہو۔“

            ۴- ایک جگہ تین مرتبہ قسم کھاکر فرمایا: کہ” جس کی وجہ سے پڑوسی کو تکلیف ہو وہ موٴمن نہیں۔“

            ۵- اور ارشاد فرمایا: ” اپنے پڑوسی کے ساتھ تم اچھا سلوک کرو تب تم ایمان والے کہلاوٴگے۔“

            ۶- ایک اور حدیث میں وارد ہوا ہے کہ ”جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، اس کو چاہیے کہ اپنے پڑوسیوں کو نہ ستائے۔“

            ۷- ایک اور حدیث میں فرمایا کہ تم میں سے کوئی موٴمن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ اپنے بھائی کے لیے وہی نہ چاہے جو اپنے لیے چاہتا ہے۔“

            ان احادیث کی روشنی میں ہم اپنے کو پرکھیں، کیا ہمارا مسلمانوں کے ساتھ ایسا ہی تعلق ہے کہ ایک کی بے چینی ہمارا چین و آرام ختم کردے؟ اور ہم اس کی پریشانی اور تکلیف کو دور کرنے کے لیے بے چین ہوجائیں؟ کیا ہمارا تعلق محبت کا ہے؟ کیا ہماری زبان اورہمارے ہاتھوں سے مسلمانوں کی عزت نہیں ختم ہورہی؟ کیا ہمارا ایمان ان لوگوں کی جان اور مال کی پاسبانی کررہا ہے؟ کیا ہمارے پڑوسیوں کو ہم پر اعتماد حاصل ہے؟ ان کے ساتھ ہم خیر خواہی کا معاملہ کرتے ہیں؟ کیا پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کا ہم معاملہ کرتے ہیں؟ کیا ہم اپنے لیے جو پسند کرتے ہیں وہی دوسرے کے حق میں بھی چاہتے ہیں؟ اگر ایسا نہیں اور ہرگز نہیں تو پھر ہم کو اپنے بارے میں سمجھ لینا چاہیے کہ ہمارا کیا حشر ہوگا اور ہم کس گھاٹ اتارے جائیں گے، ذرا سی کوئی بات ہوئی ہم دین ودیانت ، ایمان سب چھوڑ دیتے ہیں، اللہ اور اس کے رسول کے حکم کو پسِ پشت ڈال کر خوب خوب نفسانی جذبات سے کھیلتے ہیں، ہمارے لیے ذرا سی بات ایک فتنہ کا ذریعہ بن جاتی ہے، بالکل اندھے ہوکر انجام اور آخرت کو فراموش کرکے سخرہ شیطان بن جاتے ہیں، نہ قرآن اور حدیث کی پرواہ رہتی ہے اور نہ کسی ناصح کی نصیحت کارگر ہوتی ہے؟ برسوں کی گزری ہوئی باتیں ہمارے لیے نئی ہوجاتی ہیں، کیا ہماری پارٹی اور طاقت ہم کو خدا کے عذاب سے بچائے گی؟

ظالم فتنہ پرور اورفسادی پر اللہ کا قہر نازل ہوگا:

            دیکھیے جو بھی ظلم پر کمر باندھ لیتا ہے اور حد سے تجاوز کرتا ہے، اللہ کا عذا اس کو اس طرح دبوچ لیتا ہے کہ وہ ہکا بکا رہ جاتا ہے، اس وقت نہ اس کی سنی جاتی ہے اور نہ اس کے حق میں کسی کی سنی جاتی ہے، کیا ہم اسی کا انتظار کررہے ہیں، تو پھر دیکھ لیجیے گا کہ یہ سینہ زوری آپ کا کیا حشر کرتی ہے۔ معاملہ کو اس کی حد پر رکھنا چاہیے، اس میں حاشیہ آرائی کرکے حدسے تجاوز نہ کرنا چاہیے۔

فتنہ سے بہت بچنا چاہیے:

            میرے بھائیو! فتنہ سے بہت بچنا چاہیے اور فوراً اس کو ختم کرنا چاہیے۔ آپس کے اختلاف کے بعد خدا کی رحمت نہیں رہتی، زندگی میں بغض ، کینہ، غیبت، حسد بہتان وغیرہ کی عملداری ہوجاتی ہے، اللہ پاک ہدایت کی توفیق سلب کرلیتے ہیں، اس کی موت بری موت ہوتی ہے، زمین اس پر لعنت کرتی ہے، آسمان اس پر لعنت کرتا ہے، اللہ اور اس کا رسول اور ہر مخلوق اس پر لعنت کرتی ہے، اور اگر اس کے برخلاف اللہ اور اس کے رسول کی مرضی کے مطابق زندگی ہوتی ہے اس پر اللہ کی رحمت ہوتی ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر فخر کرتے ہیں، ہر مخلوق اس کے لیے دعا کرتی ہے۔

تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں:

            حق تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿اِنَّمَا الْمُوْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ﴾ کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، اگر آپس میں اختلاف ہوجائے تو صلح کرادو، اس آیت میں حق تعالیٰ نے ہمارا آپس کا رشتہ بتلایا ہے کہ ہم سب بھائی بھائی ہیں۔ آج ہم اللہ کے اس بتائے ہوئے رشتہ کو بھولے ہوئے ہیں، دوسرے رشتوں کا ہم کتنا لحاظ کرتے ہیں اور ان کو کتنا یاد رکھتے ہیں۔ یہ ہمارے باپ کے فلاں ہیں، فلاں ہمارے دادا ہیں، فلاں رشتے میں یہ لگتے ہیں اور سارے رشتوں کا ہم لحاظ بھی رکھتے ہیں، اللہ نے ایک رشتہ ہمارے درمیان بتلایا ہے اس کا بھی تو ہم کو لحاظ رکھنا چاہیے، وہ یہ کہ ہم سب مسلمان ہیں، بھائی بھائی ہیں، اللہ تعالیٰ نے ہمارے درمیان اخوت قائم فرماکر ہم کو عزت دی ہے، زینت بخشی ہے اورزینت کا ایسا ہار پہنایا ہے جس کی بدولت ہم جنت میں جائیں گے۔ ہم اس ہار کو اتار پھینکنا چاہتے ہیں، باب دادا کے رشتہ کااتنا لحاظ کیا جاتا ہے اور اللہ کے قائم کردہ رشتہ کا کچھ بھی لحاظ نہ کیا جائے۔ اسلام نے آکر تفریق کو مٹایا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جس نے جاہلیت کے زمانے کی باتیں کی، عصبیت کی بنا پر تفریق کا نعرہ لگایا اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں، ایسا شخص دوزخ کا مستحق ہے، علاقہ اورصوبہ کی بنا پر اختلاف اور فرقہ بندی کرنا زمانہ جاہلیت کی باتیں ہیں۔