اخلاقِ نبوی ا اور تشریعی و تکوینی امور

مولانا افتخار احمد قاسمی بستوی 

            اللہ رب العزت حاکمِ مطلق ہیں اور تمام جن و انس، بل کہ کائنات محکوم مطلق، ہاں انسانوں اور جناتوں کو اللہ رب العزت نے تشریعی امور کا مکلف بنایا ہے اور دیگر تمام مخلوقات تکوینی امور کے تابع فرماں ہیں۔ تشریعی امور پر عمل کرنے کے لیے اللہ رب العزات بندوں کو اختیارات تفویض فرماتے ہیں، جن کی مدد سے تمام جن وانس اللہ کے احکام بجالانے میں اپنے اختیارات کی وجہ سے آزاد ہیں کہ اپنا اختیار استعمال کر کے اللہ کے حکم بجالاتے ہیں، یا اسے ترک کر دیتے ہیں۔ احکام بجالا نے کی شکل میں جو اختیار ات استعمال ہوتے ہیں وہ ایجابی اور مثبت سمت کی منزل طے کرنے میں مدد گار ہوتے ہیں۔ ایسے بندگانِ خدا اللہ کی رضا اور اس کی تخلیق کردہ جنت کے مستحق ہوتے ہیں،اور اس کے برعکس احکامِ الٰہی کو اپنے اختیار سے ترک کرنے کی شکل میں منفی اور سلبی سمت پر جانے والی منزل طے کرنے کی وجہ سے ایسے بندے دوزخ اور غضبِ الٰہی کا مظہر بنتے ہیں۔

            اللہ رب العزت نے اپنے احکام پر عمل کرنے اور بندگانِ خدا کو عمل کرنے کی شکلیں بتانے کے لیے انبیائے کرام اور رسولوں کا ایک لمبا سلسلہ جاری فرما یا، جو حضرت آدم علیہ السلام سے چل کر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوا۔ حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ مکرمہ میں بھیجا اور مدینہ منورہ میں ہجرت کرکے قیام پذیر ہو نے اور احکامِ الٰہیہ پر عمل پیرا ہونے کے لیے صحابہ کرام کی ایک بڑی جماعت تیار کرنے کا حکم دیا، جو آپ کے ہاتھوں باحسن وجوہ انجام پذیر ہوا۔

            احکامِ الٰہی پر عمل کرکے صحابہ کو سکھانے کا عمل اللہ کے رسول نے پورے ۲۳/ سال کی طویل مدت میں انجام دیا۔ اللہ رب العزت نے قرآنِ کریم کو اپنے احکام کا مجموعہ بنا کر اپنے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا۔ آپ نے ان احکام کی تشریح فرما کر قرآن کو متنِ شریعت اور اپنے اقوال وافعال وہدایات کو شرحِ متن شریعت بناکر امت کے سامنے پیش فرمایا، اور متنِ شریعت کی شرح کو متن بناکر فقہائے امت نے بے شمار مسائل کا استنباط فرمایا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیرہ سالہ مکی زندگی دین کے ان اصولوں کی تبلیغ و تشریح سے معمور تھی، جن کا تعلق توحید ورسالت اور آخرت و معاد سے تھا۔ جن اصولوں سے کفر و شرک کے محلات پر کاری ضرب پڑتی اور کفریہ عقائد کی بنی بنائی عمارت زمین بوس ہو جاتی ۔

            اساسی احکامِ شریعت کو اللہ رب العزت کا پیغمبر تنہا میدانِ عمل میں اتر کر، کفروشرک کی موجوں میں گھس کر، حوادثاتِ زمانہ کا مقابلہ صبر و ثبات کی شمشیرِبے نیام سے کرتا چلا گیا اور کفر و شرک کی گھنگھور گھٹاوٴں کو چھاٹتا ہوا اللہ رب العزت کے پیغامِ تو حید کے نغمے سناتا ہوا آگے یہ کہتے ہوئے بڑھتا رہا 

چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے

اگر آسانیاں ہوں، زندگی دشوار ہو جائے

            مکی دور میں رسولِ بطحا کی زندگی کے درخشاں پہلوؤں میں صبر و استقلال اور پر عزم اور با حوصلہ ایمانی جذبہ نمایاں ملے گا، جس کی ضرورت دینِ محمدی اورشریعتِ اسلامی پر عمل کرنے میں زندگی کی آخری سانس تک پڑتی ہے، اسی لیے فرمانِ الٰہی ہے:﴿ یاَیُّھا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا وَاتَّقُوْا اللّہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾۔(سورہٴ آل عمران:۳/۲۰۰)

            محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں اللہ رب العزت کے حکم واذن کے بعد اپنی زندگی کفر و شرک کے شیدائیوں سے کفر و شرک چھڑانے کے بڑے صبر آزما حالات میں گزاری۔اور جنگِ بدر، جنگِ احد،غزوہٴ خندق، فتحِ مکہ، غزوہٴ خیبر، غزوہٴ حنین، غزوہٴ طائف اور غزوہٴ تبوک وغیرہ میں کفرو شرک کے جیالوں کو ایمان و اسلام کی روشنی اور مینارہ ٴ نور عطا فرمانے کے لیے صبر و ضبط اور استقامت کے ساتھ آپ مورچوں پرڈٹے رہے، اس کے لیے تمام طرح مخالف حالات اور بادِ مخالف اور بڑے بڑے طوفانوں کا مقابلہ کیا، سماجی بائیکاٹ اور کفر شرک کی آندھیوں کا رخ موڑ کر انہیں اسلام کے سائے میں پناہ لینے کے لیے آمادہ کیا اور عملًا اس میں کا میاب بھی ہوئے، اپنی تشریعی ذمے داری کو سر انجام دینے کے لیے ہمیشہ اس فکر و اندوہ میں رات دن ایک کر دیا کہ امت ِدعوت کو کیسے امتِ اجابت میں تبدیل کر کے امتِ وسط کے حلقہ با مرادمیں داخل کریں اسی ضابطہ کو قرآن میں صبر و مصابرہ اور مرابطہ کا نام دیا گیا ہے۔

            اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کی وادی سے اٹھنے والی دھیمی شعاوٴں کو چہار دانگِ عالم میں خورشید ِجہاں تاب اور آفتابِ نصف النہار بنا کر اپنی ذمے واری کو آخری مرحلے تک پہنچاتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”اللہم اشہد“۔

            حجة الوداع کے موقع پر جب نزولِ قرآن کے مراحل کی تکمیل کا وقت آیا، تو اللہ رب العزت نے وہ آیتِ کریمہ اتاری ،جس میں خود ہی اعلان فرما دیا:﴿ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا(سورہٴ مائدہ: ۵/۳)

            آج میں نے تمہارے لیے تشریعی امور کا مجموعہ دینِ حنیف کو تکمیل کی آخری منزل تک پہنچا دیا ہے، اور تمہارے لیے اپنی اس نعمت کو مکمل کر دیا ہے، میری رضا جوئی کے واسطے اب اسلام سے بہتر میری نظر میں کوئی دین باقی نہ رہا۔

             اب تمام ادیان ومذاہب چھوٹے، بڑے، محدود وموقت وقت تک کے لیے آنے والے اصولِ زندگی سب منسوخ ہو چکے ہیں۔ اب صرف دینِ اسلام کا ڈنکا بجے گا۔

            ﴿ اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَاللّہِ اْلِاسْلَامِ(آلِ عمران: ۳/۱۹) پسندیدہ دین اللہ کی نظر میں صرف اسلام ہے۔

             کسی کو حق نہیں کہ اسلام کو چھوڑ کر کسی اور دین اور اس کے احکام کی طرف جھانکے، عمدہ ترین چیز کے موجود ہوتے ہو ئے کڑوی ،بے مزہ اور نقصان دہ چیزوں کو منھ لگانا خلافِ عقل و خرد ہونے کے ساتھ ساتھ زندگی اور اس کے فوائد کو داؤں پر لگانے کے بھی مترادف ہے۔ اب آمنہ کے گھر میں آنکھیں کھولنے والے یتیم کے ہاتھوں دنیا بھر کے تمام ادیان پر یک لخت خط نسخ کھینچ دیا گیا ہے، شیخ سعدی علیہ الرحمہ(نام: مصلح الدین ۱۲۱۰ء-۱۲۹۲ء) کی زبان سے حقیقت بیان، اسی معنوی حقیقت کو بزبانِ فارسی 

یتیمے کہ نا کر دہ قرآن درست

کتب خانہٴ چند ملت بشست

            قرآنِ کریم تو پہلے بھی ببانگِ دہل اعلان کر چکا ہے:﴿وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ اْلِاسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ(آلِ عمران: ۳/۸۵) دینِ اسلام کو چھوڑکر کوئی دوسرا دین اگر کسی نے زیست کے خطوط درست کرنے کے لیے اختیار کیا، تو اسے کبھی بھی اور کسی کے لیے بھی قبول نہ کیا جائے گا۔

            جب اس دین کے تشریعی امور کی تکمیل ہوچکی ہے اور اس کو نعمتِ عظمیٰ بناکر اس کی قدردانی کی تلقین کی جاچکی ہے تو اس کو کسی طرح کی کمی بیشی، افراط و تفریط اور اپنی طرف سے درجہ بندی کی نہ گنجائش رہ جاتی ہے نہ اجازت ۔اس دین کے فرائض کو فرائض کا درجہ ہی دیا جائے گا، اس کو گھٹا کر واجب کے خانے میں برائے نام بھی رکھنا گوارا نہ کیا جائے، علم و عقیدہ اور عمل کے اعتبار سے باریک فرق کو بھی ملحوظِ خاطر رکھنا اور افراط و تفریط سے یکسر گریزاں رہنا ہی تکمیلِ دین اور اتمامِ نعمتِ ربانی کی اصل قدردانی ہے۔فرض کو فرض کا درجہ، واجب کو واجب کا رتبہ، سنت موٴکدہ کو سنتِ موٴکدہ کا مقام، سنتِ غیر موٴکدہ کو سنت غیر موٴکدہ کے درجے میں رکھنا، مباح کی دونوں سمتوں کو برابر رکھ کر جواز و عدمِ جواز کے دونوں پہلوؤں کے حدود قیود کی پاسداری کرنا عینِ انصاف ، قدردانی اور اتمامِ نعمت ِیزدانی کہلائے گا۔

            تشریعی امور کے مجموعہ دینِ اسلام کی قدردانی اسی بات میں مضمر ہے کہ حرام، مکروہِ تحریمی، مکروہِ تنزیہی اور تمام مامورات و منہیات کی درجہ بندی کا خیال رکھ کر تمام جن و انس اپنے آپ کو احکامِ خداوندی پر عمل پیرا ہونے کے سانچے میں ڈھالنے کا گُر سیکھ لے اور شریعت ِاسلامیہ کا حاصل” تفویض و استسلام“کو سمجھ کر بس یہ گنگنانے لگے کہ 

سرِ تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے

اگر بخشے زہے قسمت نہ بخشے تو شکایت کیا

(نواب علی اصغر)

            حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ﴿ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ ﴾کا مطلب تو سبھی جانتے ہیں کہ تمام جن و انسان کو اللہ رب العزت نے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے، لیکن عبادت کی گہرائی میں جا کر اس کی طرف دھیان کم ہی لوگوں کا گیا ہوگا کہ” عَبْد“ کے معنیٰ غلام کے آتے ہیں۔ اور عبادت کا مطلب ہے ”غلامی کرنا“ اور اللہ جل شانہ نے تمام انسانوں اور جناتوں کو جو خدا کے غلام ہیں اپنی غلامی کرنے کے لیے ہی پیدا کیا ہے۔

            جب جن و انس غلام ٹھہرے اور ان کا مقصد ِزیست غلامی کرنے کے سوا کچھ نہ ہوا، تو آقا اگر غلام سے کہے کہ تمہیں فلاں فلاں قسم کے کھانے نوش کرنا ہے، فلاں وقت میں نوش کرنا ہے اور فلاں وقت میں کھانے پینے کے قریب نہیں جانا ہے، فلاں غذا کو تم پر حرام و ممنوع قرار دیا گیا ہے، دیکھو! تم اس کو ہاتھ بھی نہ لگانا، بازار میں جتنے قسم کے کپڑے بکتے ہیں ان میں سے فلاں فلاں کپڑا ،اس اس طرح کا ہی زیبِ تن کرنا ہے، تو غلام کی غلامی کا تقاضا تو یہی ہوگا کہ اس حکم پر لبیک کہتے ہوئے دل و جان سے ہر لمحے وہر آن تیار ہو ،اگر آقا بھنگی کا کپڑا پہنا کر جھاڑو لگوائے، بیت الخلا صاف کرنے کو کہے تو اس کے لیے ہر دم تیار رہے، کہ غلام کی غلامی کی بہتری اسی میں مضمر ہے کہ آقا کے اشاروں پر ناچتا رہے، اگر حکم ہو کہ زرق برق لباس پہن کر میری جگہ پر میری نیابت میں فلاں ملک میں، فلاں بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کرو، میری نمائندگی کرتے ہوئے کانفرنس میں میرے ہی مواد پر مشتمل لیکچر دو ،تو اس کے لیے بھی تیار رہے۔

            اگر یہ تمام چیزیں غلام کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے تو پوری عالمی برادری اس کی ثنا خوانی میں رطب اللسان رہتی ہے، ہر جگہ اس کی پذیرائی ہوتی ہے۔ یہی حال انسانوں کا اللہ رب العزت کے ساتھ بل کہ اس سے بھی زیادہ ہونا چاہیے۔

            یہاں تو نام نہاد غلامی اور مالکیت ہے، مجازی و عارضی اور مستعار غلامی اور مالکیت ہے، اللہ رب العزت کی مالکیت حقیقی، مستقل اور دائمی ہے، اس کے بندوں کی غلامی بھی حقیقی دائمی اور مستقل ہے۔

            یہاں غلام خدا کی غلامی حقیقی معنوں میں کرتا ہے، یہاں پر اللہ رب العزت حقیقی معنی میں غلام کی پذیرائی فرماتے ہیں، اس کو جنت الفردوس جیسے عظیم الشان محل میں مہمانِ عظیم بنا کر اتاریں گے اور ایسی ایسی نعمتیں اور خوانِ نعمت سجائیں گے کہ غلام کو سوچنے اور اس کے حقیقت میں جانے کی بھی سکت نہیں، ” مَا لَا عَیْنٌ رَأتْ وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلی قَلْبِ بَشَرٍ“(عن ابی ہریرة متفق علیہ)کا مژدہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی سنا دیا ہے۔

            اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں جگہ جگہ بے شمار آیات میں اسی حقیقت کو بیان فرمایا ہے:﴿لِلّہِ مَافِی السَّمواتِ وَمَافِیْ الْاَرْضِ ﴾کہہ کربتا دیا ہے کہ اللہ رب العزت کی ملکیت حقیقی، اصلی اور دائمی ہے۔ وہ آسمانوں کا حقیقی مالک ہے، زمین اس کی حقیقی مملوک ہے، آسمان و زمین جو بھی آباد و موجود ہیں سب خدائے ذوالجلال کے حقیقی غلام اور مملوک ہیں۔جب یہ عقیدہ بندے کے دل و دماغ میں جاگزیں ہو تو کبھی کسی حال میں اعتراض پیدا نہ ہو۔اعتراض پیدا ہی اسی لیے ہوتا ہے کہ بندہ خود کو اللہ تعالیٰ کی غلامی سے آزاد تصور کر کے دوسرے اسلوب میں آزادی کا خیال کرتے ہوئے سوچنے لگتا ہے،حالاں کہ آسمان و زمین، چاند، سورج، ستارے، سیارے، جن و انس تمام چیزوں کی تقدیریں، احوال و کیفیات، لذتیں اور اختیارات و ارادے، عزائم اور نیتیں سب کا خالق وہی برہم زن نظامِ عالم ہے،جس کو ہم” اللّہ“،” مالک الملک“،” احکم الحاکمین“ اور” ذوالجلال والاکرام“ کہتے ہیں۔

            حضرت مولانا امام محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ (۱۲۴۸ھ-۱۲۹۷ھ)فرماتے ہیں کہ اگر ایک آدمی زمین خریدے اور اس پر الگ الگ حصوں میں کمرے، آفس اور بیت الخلا بنائے، تو زمین کے کسی حصے کو یہ کہنے کا حق نہیں ہوتا کہ میں نے کون سا جرم کیا ہے کہ مجھے بیت الخلا کے لیے تجویز کیا گیا۔

            اسی طرح جس کو جس کام کے لیے مخصوص کیا گیا اور کیا جائے اس مخصوص کام کو مملوکیت کے تقاضے کے پیشِ نظر سرانجام دینے میں خوشی محسوس کرنی چاہیے۔

            سارے انبیائے کرام میں بالعموم اور سید الانبیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی میں بالخصوص یہی عبدیت کی صفت کوٹ کوٹ کر بھری تھی، بل کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں تمام انبیا و رسول کے سردار ہونے کی بنیاد پر” عبدیت“ بھی سب سے زیادہ تھی۔

            دیکھیے! قرآنِ کریم میں معراج کا تذکرہ اسی عبدیت کے نام اور کام سے شروع ہوتا ہے، رب ِکائنات، ذوالجلال والاکرام کا ارشاد سنیے !کہتے ہیں:

            ﴿سُبْحٰنَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصٰی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَہ لِنُرِیَہ مِنْ اٰیٰاتِنَا اِنَّہ ہُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ ﴾(بنی اسرائیل:۱)

            ترجمہ: ”وہ ذات پاک ہے جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد ِحرام سے مسجد ِاقصیٰ تک لے گئی، جس کے ارد گرد ہم نے برکتیں رکھی ہیں، تاکہ ہم ان کو اپنی آیات کا مشاہدہ کرائیں۔ بے شک وہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔“

            تشریعی امور میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے حوالے سے یہی عبدیت سب سے زیادہ نمایاں ہے، جس کو اللہ رب العزت نے تخلیقِ جن و انس کا اساسی مقصد قرار دیا ہے،آخر میں فمایا:﴿ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ ﴾(ذاریات: ۵۱/۵۶)قرآن کی آیتِ کریمہ یہی تو کہہ رہی ہے کہ میں نے تمام جن وانس سب کو صرف اسی کلیدی مقصد سے پیدا کیا ہے، کہ وہ میرے عبد و غلام بن کر رہیں، میرے کہنے پر چلیں، جس کو میں حرام قرار دوں اسے حرام سمجھیں ،اس سے گریزاں رہیں اور جس کو حلال و طیب کہوں اس کو حلال و طیب ہی سمجھ کر اس کو استعمال کریں، جن چیزوں کو فرض قرار دوں ان کو اپنے عبدیت کے تقاضے میں فرض قرار دیں، اس پر دل و جان سے عمل پیرا رہیں، اس کو ترک کرنے میں اپنی غلامی کو خطرے میں سمجھیں اور جن چیزوں سے منع کروں ان سے باز رہیں، ان کے قریب بھی نہ جائیں اور اس عہد و پیمان کو یاد رکھیں جو میں نے ان سے عہد ِالست کے موقع پر لیا تھا، میں نے کہا تھا: ﴿اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ﴾کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ تو تم سب نے جواب دیا تھا ،کیوں نہیں ؟﴿قَالُوْا بَلیٰ﴾ سے قرآن میں اسی کو بیان کیا گیا ہے۔

            عہد ِاَلست کا تذکرہ اللہ رب العزت نے قرآنِ پاک میں خود نویں پارے میں فرمایا ہے۔

             ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَاِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْ اٰدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَاَشْہَدَہُمْ عَلٰی اَنْفُسِہِمْ قَالُوْا بَلٰی شَہِدْنَا اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اِنَّا کُنَّا عَنْ ہٰذَا غَافِلِیْنَ ﴾(اعراف:۱۷۲)

            اللہ رب العزت نے تکوینی طور پر حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق آگ، پانی، ہوا، مٹی کے چاروں عناصر اور مٹی کے غالب عنصر سے فرمائی، پھر ان کی ذریت کو عرفات کے میدان کے قریب وادیٴ نعمان میں چونٹیوں کی مقدار میں سب کو جمع کیا، حضرت آدم علیہ السلام کی صلب سے ان کی اولاد کو، پھر ان کی اولاد کی صلب سے دوسری نسل کو، پھر ان نسلوں سے اور نسلوں کو، قیامت کے تمام انسانوں کو چیونٹیوں کی شکل میں کالی اور سفید رنگ کے جمع فرمایا،

 ان میں حسبِ ضرورت عقل کی بھی تکوینی طور پر تخلیق فرمائی اور ان سب سے عہد لیا کہ میری ربوبیت کا اقرار کرو ،کیا میں تم سب کا رب نہیں ہوں؟ سب نے بھرے مجمع میں جہاں فرشتوں کا بھی مجمع تھا، اس بات کا اقرار کیا ﴿بَلی﴾ کیوں نہیں؟ آپ ضرور ہمارے رب ہیں۔﴿ شَہِدْنَا﴾ ہم کو اس بات کا اعتراف و اقرار ہے ۔

            اللہ رب العزت کے روبرو فرشتوں کے سامنے تمام انسانوں نے خداوند ِذوالجلال کی ربوبیت کا اقرار و اعتراف کیا کہ ہم آپ کو اپنا رب مانتے ہیں اور اس کا اقرار کرتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے پھر سب کو آدم علیہ السلام کے صلب میں واپس لوٹا دیا اور اب اپنے اپنے وقت پیدا کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے، اسی وقت عہد ِالست کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے فرما دیا تھا کہ اب تمہاری تکوینی صورتِ حال کے موقع پر تشریعی امور کے لیے میں نبیوں اور رسولوں کا سلسلہ جاری کروں گا ۔انبیائے کرام تمہارے پاس آ کر اسی عہد ِالست کی یاد دہانی کرائیں گے، جو مان لے گا اورتشریعی امور کے تابع ہو کر اپنی زندگی گزارے گا اس کے لیے جنت کا مقام بلند تیار کر رکھا ہے اور جو اعتراف و اقرار سے باغی ہوگا اس کے لیے دوزخ ٹھکانہ ہے۔

            چناں چہ انہیں تشریعی امور کو لے کر ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام علیہم السلام اور رسولوں کی تشریف آوری دنیا میں ہوئی۔ سب سے آخر میں حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور خاتم الانبیاء کی شکل میں تشریف لائے اور اللہ رب العزت کے تمام تشریعی اور امور و احکام کو ۶۲۳۶/آیاتِ قرآنی کی شکل، عمل و اخلاق کا پیکر بن کر صحابہٴ کرام  کی ایک بڑی جماعت پوری دنیا میں تیار کر کے بھیج دی، جو قیامت تک اخلاقِ نبوی کا پیکر بن کر پوری دنیا کے انسانوں کے لیے رہنمائی و ہدایت کا کام کرتی رہی اور اپنے شاگردوں کو پھر ان کے شاگردوں کے شاگردوں نے اخلاق نبوی کے عملی پیکر بن کر امورِ تشرعیہ کی نشر اشاعت کا فریضہ انجام دیا اور دیتے رہے اور قیامت تک دیتے رہیں گے۔

             اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی قرآنِ کریم کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:”کاَنَ خُلُقُہ الْقُرْآن“ قرآن تشریعی امور کا جامع اور نبی کے اخلاق تشریعی امور کا پیکر ،ہر بندہٴ خدا کو بندگی و غلامی پروردگار کی دعوت دینے کے لیے کافی ہیں۔      

       لہٰذا آئیے! عہد کرتے ہیں کہ ہم بھی خدائی مرضی پانے کے لیے خود کو اخلاقِ نبوی کا پیکر بنائیں گے اور آپ کا اسوہ پوری انسانیت کے سامنے پیش کریں گے۔ اللہ عمل کی توفیق بخشے، آمین!