اخلاقِ قرآنی اور اس سے وابستگی کی تدابیر

مفتی ضیاء اللہ مدھوبنی استاذ جامعہ اکل کوا

 قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام، اس کی آخری کتاب اور اس کا ایک معجزہ ہے، یہ دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے، اس نے اپنے سے پہلے کی سب الہامی کتابوں کو منسوخ کردیا ہے اوران میں سے کوئی بھی آج اپنی اصل صورت میں محفوظ نہیں؛ البتہ قرآن تمام پہلی کتابوں کی تعلیمات کواپنے اندر سمیٹے ہوئے اور قرآن مجید واحد ایسی کتاب ہے کہ جو پوری انسانیت کیلیے رشد وہدایت کا ذریعہ ہے، اللہ تعالی نے اس کتاب ِہدایت میں انسان کو پیش آنے والے تمام مسائل کو تفصیل سے بیان کردیا ہے؛ جیساکہ ارشادگرامی ہے: و نزلنا علیک الکتاب تبیانا لکل شیء (النحل:۸۹) یعنی اور ہم نے تجھ پر ایک ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں ہر چیز کا کافی بیان ہے۔

                مسلمانوں کی دینی زندگی کا انحصار اس مقدس کتاب سے وابستگی پر ہے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اسے پڑھا اور سمجھا نہ جائے اور یہی وہ نسخہٴ کیمیا ہے، جس میں انسان کے قلبی امراض کا علاج ہے اور اس میں ان کے لیے شفائے کلی کا سامان دستیاب ہے، لیکن اس کے انوار و برکات سے اصلاً وہی لوگ مستفیض ہوتے ہیں، جو خلوص و للہیت کی دولت سے سرشار ہوتے ہیں اور صدقِ دل سے اس کتابِ ہدایت کو سمجھنے اور اس کی تعلیمات و ہدایت کو قبول کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔

قرآن مجید سے وابستگی کی ظاہری تدابیر:

 رہی بات اس نسخہ ٴکیمیا سے فائدہ اٹھانے کے لیے کیا ظاہری تدبیر اختیار کی جائے اور اس کتاب عزیز کے معنی و مطالب کو کیسے گرفت میں لایا جائے تو اس کی تین مثالی صورتیں اختیار کی جاسکتی ہیں؛ پہلی صورت یہ ہے کہ عربی زبان میں مہارت پیدا کی جائے اور علوم ِاسلامیہ بالخصوص قرآن ِمجید پر مکمل عبور حاصل کیا جائے۔

                دوسری صورت یہ ہے کہ کسی بھی زبان کی اتنی صلاحیت پیدا کی جائے کہ ترجمہ و تفسیر کے ذریعے قرآن کریم سے استفادہ ممکن ہو سکے۔

                 تیسری صورت یہ ہے کہ آس پاس کہیں درسِ قرآن کی مجلس کا پروگرام منعقد ہو تو، اس میں شرکت کا معمول بنایا جائے اور وعظ و نصیحت کی مجالس میں شریک ہونے کا اہتمام کیا جائے؛ خاص طور سے ان مجالس میں جن میں اسلامی تعلیمات و احکام کو قرآن و سنت کی روشنی میں واضح کیا جاتا ہو۔

قرآن کا فلسفہ ٴ اخلاق:

                 غیر الہی فلسفہٴ اخلاق کی مختصر تشریح کرتے ہوئے یہ لکھا گیا ہے کہ یونان کے فلاسفہٴ اخلاق ہوں یا یورپ و امریکہ کے حکماکے اخلاق، ان سب کی اصل محرومی یہ ہے کہ جہاں عقل کا گزر ممکن نہیں ،وہاں بھی یہ لوگ اپنے قیاس واستقرا کے تیر تکے لگانے سے باز نہیں آتے، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اخلاق کا مسئلہ ایک لا حاصل بحث بن جاتا ہے اور کوئی ایک بنیادی سوال بھی حل نہیں ہوتا، تاریخ ِانسانی کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ انسانی اخلاق کا مسئلہ وحیٴ الہی کی رہ نمائی کے بغیر کبھی حل نہیں ہوا اور آج ہم جس دنیا میں زندگی بسر کر رہے ہیں ،اس کا مشاہدہ بھی یہی بتاتا ہے کہ انسان کی کوئی کوشش اس مسئلے کو حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہی ہے۔

                 یہ دنیا ایک طرف جس قدرمادی ترقی حاصل کرتی جارہی ہے، دوسری طرف اسی قدر اخلاقی انحطاط کا شکار ہوتی جا رہی ہے، مادی ترقی اور اخلاقی تنزلی، جسمانی ارتقا اور روحانی انحطاط، اس ایٹمی دور کی خاص علامت بن گئی ہے، یورپ و امریکہ کے فلسفیوں کو اخلاقی زوال کا احساس تو پیدا ہوا ہے، لیکن اخلاقی نشاةِ ثانیہ کے لیے وحیٴ الہی کی جس رہ نمائی کی ضرورت ہے؛ وہاں تک ابھی وہ نہیں پہنچ سکے ہیں، قرآن ہی کے فلسفہٴ اخلاق کی بنیاد پر ایک ایسی نئی تہذیب جنم لے سکتی ہے، جو انسانیت کا بہترین و بلند ترین آئیڈیل ہو، لیکن دنیا کے سربراہ ِکار اگر اس چشمہٴ حیواں سے نا واقف ہیں یا وہ ادھر متوجہ نہیں ہوتے، تو اس نا واقفیت یا عدم ِتوجہ کا بڑا سبب خود وہ لوگ ہیں جو اس کے امین ہیں، اس پر ایمان کا دعویٰ رکھتے اور الفاظ کی حد تک اس کو واحد حل تسلیم کرتے ہیں، اگر قرآن کے ماننے والے دنیا کے کسی چھوٹے سے چھوٹے خطے میں بھی اس تہذیب کا ایک مکمل نمونہ دکھا دیتے، جو قرآن کے فلسفہٴ اخلاق سے پیدا ہوتی ہے، تو دنیا کو یقین آجاتا کہ واقعی یہی ہمارے اخلاقی امراض کا علاج اور ہماری روحانی بیماریوں کا مداوا ہے، اس کی بنیاد پر ہم ایک متوازن اور پاکیزہ معاشرہ تعمیر کر سکتے اور اخلاقی بحران سے نجات پاسکتے ہیں، اگر چہ کوئی ذہین آدمی نظری طور پر بھی قرآن کے فلسفہٴ اخلاق کو سمجھ لے تو اسے یہ ماننے میں کوئی تامل نہ ہو کہ یہی اصول ِاخلاق اس مسئلے کا حقیقی اور واقعی حل ہے۔ آئیے یہ دیکھیں کہ قرآن کس طرح اس مسئلہ کو حل کرتا ہے۔

فلسفہٴ اخلاق کا ابتدائی سرا:

                سب سے پہلے یہ دیکھیے کہ قرآن اس مسئلے کی ابتدا کہاں سے کرتا ہے؟ اور اس کے نزدیک پہلے اس کا ابتدائی سرا کیا ہے؟ کیوں کہ کوئی گتھی اس وقت تک صحیح طریقے سے سلجھ نہیں سکتی، جب تک اس کا ابتدائی سرا ہمارے ہاتھوں میں نہ آجائے، صرف عقل کی مدد سے اس مسئلے کو حل کرنے والے فلاسفہ کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ درمیان سے اس گتھی کو سلجھانے کی سعی شروع کر دیتے ہیں، اصلاً یہ مسئلہ کہاں سے شروع ہوتا ہے، اس کی یا تو انہیں پروانہیں ہوتی یا وہ وہاں تک پہنچ نہیں سکتے، اس مسئلہ کا ابتدائی سرا اس بات کا علم ہے کہ انسان کی زندگی کیا ہے؟ اس کا مقصد ِوجود کیا ہے؟ اور اس دنیا میں اس کی حیثیت کیا ہے؟ اس سوال کا جواب اس گتھی کا ابتدائی سرا ہے، کوئی فلسفی محض عقل کی مدد سے اس سوال کو حل نہیں کر سکتا، اس لیے پورا فلسفہٴ اخلاق لاینحل رہ جاتا ہے، وحیٴ الہی اس سوال کا صحیح ترین جواب عطا کرتی ہے اور پھر پورا فلسفہٴ اخلاق اس طرح حل ہو جاتا ہے کہ دماغ اور دل دونوں ہی مطمئن ہو جاتے ہیں، اطمینان اس لیے حاصل ہوتا ہے کہ اس سوال کا جواب اس ہستی کی طرف سے ملتا ہے، جو انسان اور تمام کائنات کی خالق ہے اور صرف خالق ہی نہیں ہے، بل کہ وہی حکمت و دانائی کے ساتھ اس کائنات کو چلا بھی رہی ہے، جو لوگ بھی خدا کو اس پوری کائنات کا خالق تسلیم کرتے ہیں ان کو یہ بات ماننے میں کیا تامل ہو سکتا ہے کہ اسی کو اپنی مخلوق کے متعلق سب سے زیادہ صحیح علم حاصل ہے اور اسی کو اس کا حق پہنچتا ہے کہ دوسروں کو اس کی معلومات کے بارے میں علم عطا کرے۔ خالقِ کائنات نے اپنی مخلوق انسان کی حیات، اس کے مقصدِ وجود اور اس کی حیثیت کے بارے میں ہمیں یہ علم عطا کیا ہے کہ انسان کی زندگی مستعار امانت ہے، اس کا مقصد ِوجود اطاعت اور دنیا میں اس کی حیثیت خلافت و نیابت ہے، انسان دنیا میں مالک نہیں مملوک ہے، حاکم نہیں محکوم ہے، آقا نہیں غلام ہے۔

 انسان قرآن کی نظر میں:

                 اللہ تعالی نے جب انسان کو زمین پر بھیجنے کا ارادہ کیا تو اس کے مقصد سے فرشتوں کو آگاہ کرتے ہوئے فرمایا: اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَة (البقرہ)کہ میں زمین پر اپنا خلیفہ بنا کر بھیجنا چاہتا ہوں،اس سے ہمیں انسان کے مقصدتخلیق کا پتا چلتا ہے کہ انسان کو زمین پر کس لیے بھیجا گیا؟

                انسان کی فوقیت و برتری اور ممتاز مقام کا ثبوت تو خود قرآنِ کریم میں مذکور ہے، یہ شرف و فضیلت اور یہ حیثیت ہر انسان کو حاصل ہے، چاہے مومن ہو یا کافر کیوں کہ یہ شرف دوسری مخلوقات، حیوانات، جمادات اور نباتات وغیرہ کے مقابلے میں ہے اور یہ شرف متعدد اعتبار سے ہے، جس طرح کی شکل و صورت، قدو قامت اور ہیئت اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کی ہے، وہ کسی دوسری مخلوق کو حاصل نہیں۔

 جب بحیثیت انسان چاہے مسلم ہو یا کافر، اسے بہت سی مخلوقات پر فضیلت وبرتری اور فوقیت و امتیاز حاصل ہے، تو جب یہی انسان نہ صرف محض کلمہ گو مسلمان بلکہ باعمل مومن ہو تو اپنے ایمان و عمل اور اللہ تعالیٰ کی عنایت سے وہ تمام مخلوقات حتیٰ کہ فرشتوں سے بھی بالاتر ہو جاتا ہے، جس کا واضح ثبوت اسرا و معراجِ مصطفی کی جزئیات پر غور کرنے سے مل جاتا ہے۔

                قرآن ِکریم میں ایسی بہت سی آیات ہیں ،جو انسان کو ایک اعلیٰ تخلیق کے طور پر متعارف کراتی ہیں، انسان کائنات کا سرتاج ہے؛ بشرطیکہ وہ صاحبِ ایمان اورعملِ صالح پر کاربند ہو، حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے واقعے میں انسان کو فرشتوں کے سامنے زمین پر خدا کے خلیفہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے؛ ان تمام باتوں کے باوجود قرآن کریم میں انسان کو اس کے برے اخلاق کا کئی بار مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے اور جبر، ناشکری، جلد بازی اور جہالت جیسی صفات کو عموماً انسان سے منسوب کیا گیا ہے۔

بد اخلاقی اور اس کے اسباب:

                قرآن پاک میں بد اخلاقی کی طرف لے جانے والی دو قوتوں کا ذکر ہے (۱) نفس (۲) شیطان۔ایک کا تعلق باطن سے اور دوسرے کا تعلق ظاہر سے ہے۔یہ دونوں انسان کو بد کرداری اور بدکاری کی طرف بلاتے ہیں اور انسان کو ان سے باز رہنے کا مکلف و پابند بنایا گیا ہے، قرآن ِکریم میں نفس کا لفظ تین مختلف معنوں میں مستعمل ہے۔

 (1) نفس امارہ: یعنی گناہوں پر ابھارنے والا نفس:

                قرآن کی آیت کریمہ میں نفس کو”برے کاموں کا تقاضا کرنے والا بتایا گیا ہے؛ ارشادِ خداوندی ہے: ”وَ مَا اُبَرِّءُ نَفْسِیْ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌم بِالسُّوْءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ“۔(یوسف: 53)

                ترجمہ: اور میں اپنے نفس کو بے قصور نہیں بتاتا ،بیشک نفس تو برائی کا بڑا حکم دینے والا ہے، مگر جس پر میرا رب رحم کرے، بیشک میرا رب بخشنے والا مہربان ہے۔

                 اور حدیث پاک میں بھی مذکور ہے کہ جناب نبیٴ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے استفسار فرمایا کہ”ایسے رفیق کے بارے میں تمہارا کیاخیال ہے کہ اگر تم اس کا اعزاز واکرام کرو اور اسے کھلاؤ پلاؤ تو وہ تمہیں آزمائش اور مصیبتوں میں ڈالے اور اگر تم اسے ذلیل رکھو اور اس کی اہانت کرو اور اسے بھوکا اور ننگا رکھو تو وہ تمہارے ساتھ خیر کامعاملہ کرے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اس سے بُرا ساتھی تو دنیا میں کوئی نہ ہوگا ،تو آپ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہٴ قدرت میں میری جان ہے، تمہارا وہ نفس جو تمہارے پہلو میں ہے وہ تمہارا ایسا ہی ساتھی ہے؛ نیز فرمایا کہ تمہارا سب سے بڑا دشمن تمہارا خود نفس ہے، جو تمہیں برے کاموں میں مبتلا کرکے تمہیں ذلیل کرتاہے اور طرح طرح کے مصائب میں مبتلا رکھتاہے،یہی نفس ِامارہ اور اس کا حال ہے۔

 (2) نفس لوامہ: گناہوں پر ملامت کرنے والا نفس:

                 یہ نفس انسان کو گناہوں پر ملامت کرتا ہے کہ یہ کام تم نے کیوں کیا؟حق تعالیٰ شانہ نے نفس لوامہ کی قسم کھاتے ہوئے فرمایاہے؛ وَلَآ أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ للَّوَّامَةِ (القیامة: 2) ترجمہ: اور میں قسم کھاتا ہوں نفسِ لوامہ کی۔

                حضرت انسان جب نفس پرستی کے بجائے خدا پرستی اختیار کرتاہے اور اپنے خالق کے احکام کی تعمیل میں اور آخرت کے خوف میں نفس کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا، تو اس کا یہی نفس ِلوامہ یعنی برے کاموں پر ملامت کرنے والا بن جاتاہے؛ یہی حالت عام صالحین کے نفوس کی ہوتی ہے۔

(3) نفسِ مطمئنہ: یعنی ہر حال میں مطمئن اور نیکی پر قائم رہنے والا نفس:

                قرآنِ حکیم میں حق تعالیٰ شانہ نے نفس ِانسانی کو یوں مخاطب فرمایا: یاٰاَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ، ارْجِعِیْ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً ، فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِی۔(الفجر: 27- 29-28)اور اے نفس مطمئنہ! اپنے رب کی طرف رجو ع کرلے۔جو بندہ ٴمومن نفس کے خلاف مجاہدہ کرتے کرتے ،اس حالت میں پہنچ جاتاہے کہ نفس اس سے برے کاموں کا تقاضا ہی نہیں کرتا، تو وہ نفسِ مطمئنہ ہوجاتاہے۔

 بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہ نفس کی الگ الگ تین قسمیں نہیں؛ بل کہ ایک نفس کی مختلف کیفیات و صفات ہیں ؛چناں چہ نفس ِامارہ پر ہر نفس کی ذات صفت ہے جو شہوت و غضب کے وقت عقل و شرع کے حکم پر غلبہ کرتا ہے؛ لوامہ ہونا بھی ہر نفس کی صفت ہے، جس وقت وہ عقل و شرع کی طرف توجہ کرتا ہے اور خیر و شر کے درمیان فرق کی پہچان کرتا ہے اور مطمئنہ بھی ہر نفس کی صفت ہے، مگر یہ صفت اور کیفیت اس وقت حاصل ہوتی ہے، جب ذکر کا نور بدن کے تمام اجزاء پر غالب ہو جاتا ہے۔(تفسیر عزیزی)

 نفس کے بارے میں قرآن کریم میں خوب زور دیا گیا ہے ؛کیوں کہ اس پر اللہ تعالی نے انسان میں سستی اور تقویٰ دونوں کو ابھارا ہے اور انسان نفس کی مخالفت کر کے نجات پاتا ہے اور اس کی خواہشات کی پیروی کر کے خسارے کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ ارشاد ِباری تعالیٰ ہے: وَنَفْسٍ وَّمَا سَوَّاھَا، فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَ تَقْوَاھَا، قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکَّاھَا، وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاھَا۔ (الشمس:7-10) ترجمہ: اور نفس کی قسم! اور اسے برابر کرنے کی، پھر اس نے اسے بُرائی کی اور اس سے بچنے کی سمجھ دی، جس نے نفس کو پاک کیا یقیناً وہ کامیاب ہوا اور جس نے اسے خاک میں ملایا وہ ناکام ہوا۔

                قران کریم میں شیطان کو انسان کے پوشیدہ دشمن کے طور پر متعارف کرا گیاہے اور متعدد آیات میں لوگوں کو اس کی پیروی کرنے سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے، اسی نے حضرت آدم اور حضرت حوا علیہما السلام کو فریب اور آزمائش میں ڈال کر جنت سے نکلوایا۔ شیطان انسان کو ہمیشہ بے حیائی اور برے کاموں کی طرف بلاتا ہے، وہ برائیوں کو لوگوں کے سامنے اچھا دکھانے کی کوشش کرتا ہے اور رب کے ذکر سے روکنا اور برے کاموں کی ترغیب دینا اس کی خصوصیات میں سے ہے۔

                 قرآن مجید میں نفس اور شیطان سے متعلق آیات کا موازنہ کرنے سے، اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ جو چیز انسان کو نفس اور شیطان کے فتنوں سے بچاتی ہے وہ خدا کی رحمت ہے۔

حسنِ اخلاق:

                اَخلاق“ جمع ہے ”خلق“ کی ،جس کا معنی ہے ”رویہ، برتاوٴ، عادت“ یعنی لوگوں کے ساتھ اچھے رویے یا اچھے برتاوٴ یا اچھی عادات کو حسن ِاَخلاق کہا جاتا ہے۔ امام غزالی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:اگر نفس میں موجود کیفیت ایسی ہو کہ اس کے باعث عقلی اور شرعی طور پر پسندیدہ اچھے اَفعال ادا ہوں، تو اسے حسن اَخلاق کہتے ہیں اور اگر عقلی اور شرعی طور پر ناپسندیدہ برے اَفعال ادا ہوں، تو اسے بداَخلاقی سے تعبیر کیاجاتا ہے۔

اخلاق حسنہ کا صحیح مفہوم:

                آج کل لوگوں نے حسن ِاخلاق کے مفہوم کو بہت محدود اور خاص کر دیا ہے؛ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اخلاق کا مفہوم بہت وسیع ہے، چناں چہ حسن ِاخلاق میں عفو و درگزر، صبر و تحمل، قناعت و توکل، خوش خلقی و مہمان نوازی، تواضع انکساری، خلوص و محبت، اکرام و اعزاز، حلم و صلہ رحمی و حاجت روائی، تعاون و امداد، متانت و سنجیدگی، عدل و انصاف، امانت و دیانت، ماں باپ، بھائی بہن، عزیز و اقارب، بیوی بچے، یتیم و مسکین، پڑوسی، مسلمان اور غیر مسلم حتی کہ جانوروں اور پرندوں کے ساتھ بھی حسن ِسلوک کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ تمام اخلاق حسنہ کے مختلف شعبے ہیں، جن کی شریعت مطہرہ میں تعلیم دی گئی ہے۔

                حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم اخلاق کے مفہوم میں وسعت کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: آج کل عرفِ عام میں ”اخلاق“ کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ آدمی دوسرے سے خندہ پیشانی سے پیش آئے، مسکراکر اس سے ملے اور نرمی سے بات کر لے، ہمدردی کے الفاظ اس سے کہہ دے، بس اسی کو اخلاق سمجھا جاتا ہے، خوب سمجھ لیجیے کہ شریعت کی نظر میں ”اخلاق“ کا مفہوم بہت وسیع اور عام ہے، اس مفہوم میں بیشک یہ باتیں بھی داخل ہیں کہ جب انسان دوسرے سے ملے تو خندہ پیشانی سے ملے، اظہارِ محبت کرے اور اس کے چہرے پر ملاقات کے وقت بشاشت ہو، نرمی کے ساتھ گفتگو کرے؛ لیکن ”اخلاق“ صرف اس طرز عمل میں منحصر نہیں ہے؛ بل کہ ”اخلاق“ در حقیقت دل کی کیفیات کا نام ہے، دل میں جو جذبات اٹھتے ہیں اور جو خواہشات دل میں پیدا ہوتی ہیں، ان کا نام اخلاق ہے۔ پھر اچھے اخلاق کے معنی یہ ہیں کہ انسان کے جذبات میں اچھی اور خوشگوار باتیں پیدا ہوتی ہوں اور برے اخلاق کے معنی یہ ہیں کہ اس کے دل میں خراب جذبات اور غلط خواہشات پیدا ہوتی ہوں۔

حسن ِاخلاق قرآن کی روشنی میں:

                قرآن مجید کی متعدد آیات سے حسن اخلاق کی اہمیت و عظمت کا پتہ چلتا ہے؛ ارشادِ خداوندی ہے: فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَہُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ اْلقَلْبِ لاَنْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَہُمْ وَشَاوِرْہُمْ فِیْ الأَمْرِ۔ (آل عمران:۹۵۱) ترجمہ تو اللہ کی رحمت سے آپ مسلمانوں کے لیے نرم ہو گئے اور اگر آپ تند خو اور سخت دل ہوتے تو وہ ضرور آپ کے پاس سے بھاگ جاتے، تو آپ ان کو معاف کردیں اور ان کے لیے استغفار کریں اور (اہم) کاموں میں ان سے مشورہ لیں۔

                بعض مسلمان جنگ ِاحد میں نبیٴ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے بھاگ گئے تھے ،بعد میں وہ آپ کے پاس لوٹ آئے تو آپ نے اس پر ان کی کوئی گرفت اور کسی قسم کی سختی نہیں کی، بل کہ نہایت نرم اور ملائم طریقے سے ان سے گفتگو فرمائی؛ اللہ تعالی نے بھی ان کو معاف فرما دیا، اس آیت میں اللہ تعالی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مسلمانوں پر اس نرمی کی تعریف فرمائی ہے اور آپ کے حسنِ اخلاق، عفو و درگزر اور نرم طبیعت ہونے کی وجہ سے حضراتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو آپ کی ذاتِ والا صفات سے بے پناہ انسیت اور محبت پیدا ہو گئی تھی۔

نبی ٴکریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عفو و درگزر سے متعلق قرآنی آیات:

                اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے قرآن مجید کی بے شمار آیتوں میں عفو و درگزر اور اخلاقِ حسنہ کی تعلیم دی ہے، چنانچہ ارشاد خداوندی ہے:

(1) خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاہِلِیْنَ۔ (الاعراف:199)

ترجمہ: اے محمدﷺ آپ معافی کو اختیار کیجیے، بھلی باتوں کا حکم کیجیے اور جاہلوں سے منھ پھیر لیجیے۔

(2) فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاصْفَحْ إنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ۔ (المائدة: 13)

 ترجمہ: تو آپ (ﷺ) ان کو معاف کیجیے اور درگزر سے کام لیجیے، بیشک اللہ تعالی نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

(3) وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا أَلاَ تُحِبُّوْنَ أَنْ یَغْفِرَ اللّٰہُ لَکُم۔ْ(النور:21)

ترجمہ: اور چاہیے کہ لوگ معاف کریں اور درگزر سے کام لیں، کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمھاری مغفرت فرمائے۔

(4) وَاصْبِرْعَلیٰ مَا أَصَابَکَ إِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الأُمُوْرِ۔(لقمان:17)

 ترجمہ: اور برداشت کیجیے ان (تکلیفوں) کو جو آپ کو پیش آئیں۔ بیشک یہ ہمت کے کاموں میں سے ہے۔

(5) وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ الْنَّاسِ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمِحْسِنِیْنَ“۔ (آل عمران:134)

ترجمہ: اور غصہ کو پی جانے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والے اور اللہ تعالی نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

                مذکورہ بالا آیات اور اس طرح کی دیگر آیات میں اللہ تعالی نے عفو و درگزر کرنے کا حکم فرمایا ہے، صابرین اور کاظمینِ غیض کی تعریف فرمائی ہے اور اسے ہمت کے کاموں میں سے بتایا ہے اور یہ سب حسنِ اخلاق کے مختلف شعبے ہیں۔

اخلاق قرآنی اور نمونہٴ اخلاق:

                سنت ِنبوی پر چلنے والا اخلاقی نظام بلاشبہ قرآن ِکریم کا اخلاقی نظام ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اخلاقی تعلیمات کی بنیاد قرآنی تعلیمات ہی سے عبارت ہے۔ قرآن ِکریم میں پیش کردہ اخلاقی تعلیمات بھی، دیگر قرآنی تعلیمات کی طرح ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل میں بیان کی گئی ہیں اور ان کے موضوعات کو وسعت دی گئی ہے؛ اللہ تبارک و تعالی ٰنے مسلمانوں کو ایک ایسی نعمت سے نوازا ہے، جو پورے دین کو جامع اور اس کی تبلیغ کا اہم ترین ذریعہ ہے اور وہ نعمت ”اخلاق حسنہ“ ہے۔

 ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق کے اعلیٰ معیار پر فائز تھے، آپ کی ساری زندگی اخلاقِ حسنہ سے عبارت تھی۔قرآن ِکریم نے خود ہی گواہی دی؛وَإِنَّکَ لَعَلَیٰ خُلُقٍ عَظِیم۔ (القلم: 4) ترجمہ: بلاشبہ آپ اخلاق کے اعلی مرتبے پر فائض ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ لوگوں کو اچھے اخلاق کی تلقین کر تھے، آپ کے اس انداز ِتربیت کے بارے میں خادم ِرسول حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ لوگوں کو عمدہ اخلاق کی تعلیم دیتے ہیں، ایک روایت میں ہے آپ نے ارشاد فرمایا: کہ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اخلاق کے اعتبار سے سب سے اچھا ہو ؛چناں چہ سارے انبیا اخلاق کی تعلیم دینے کے لیے دنیا میں تشریف لائے ،مگر آپ اس کارہدایت کے آخری رسول ہیں یا یوں کہیے کہ قرآنی نظریہٴ تعلیم اخلاق ہے اور آپ نمونہٴ اخلاق ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں کہ آپ کے اخلاق کا نمونہ قرآن ِکریم ہے، آپ نے اپنے ہر قول و فعل سے ثابت کیا کہ آپ دنیا میں اخلاقِ حسنہ کی تکمیل کے لیے تشریف لائے ہیں؛ چنانچہ ارشاد ہے: ”انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق“۔ یعنی میں (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) اخلاقِ حسنہ کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں، پس جس نے جس قدر آپ کی تعلیمات سے فائدہ اٹھا کر اپنے اخلاق کو بہتر بنایا اسی قدر آپ کے دربار میں اس کو مرتبہ ملا۔

حسن ِاخلاق احادیث کی روشنی میں:

 حضورﷺ کے نزدیک حسن ِاخلاق کی اتنی اہمیت تھی کہ اپنے لیے حسن ِاخلاق کی دعائیں کیا کرتے تھے: ”اللّٰہُمّ اَٴحْسَنْتَ خَلْقِيْ فَاْٴحْسِنْ خُلُقِيْ“۔(رواہ احمد فی المسند) ترجمہ: اے اللہ تو نے میری بناوٹ کو سنوارا ہے، تو میرے اخلاق بھی سنوار دے ۔اور بدخلقی سے بچنے کی بھی توفیق مانگتے تھے اور یہ دعا کرتے: اللّٰہم إنی أعوذُ بِکَ مِنْ مُنْکَراتِ الأخلاقِ والأعمالِ والأَہْوَاءِ (رواہ الترمذی) ترجمہ: اے اللہ میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں برے اخلاق، برے اعمال اور بری خواہشات سے۔

 آپ ﷺ نے متعدد احادیث میں حسن ِاخلاق کی اہمیت وفضیلت کو امت کی تعلیم کے لیے بیان فرمایا ہے؛ چنانچہ بخاری کی روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إنَّ مِنْ أَخْیَرِکُمْ أَحْسَنَکم خُلْقًا(البخاری) ترجمہ: تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے، جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سب میں مجھے سب سے زیادہ محبوب اور قیامت کے دن میرے سب سے قریب وہ لوگ ہوں گے، جن کے اخلاق زیادہ اچھے ہوں گے۔(ترمذی)

 ایک دوسری حدیث میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: إنّ الْمُؤْمِنَ لَیُدْرِکُ بِحُسْنِ خُلقِہ دَرَجَةَ الصَّائِمِ الْقَائِمِ (أبوداؤد) موٴمن اپنے اچھے اخلاق کی وجہ سے روزہ رکھنے والے اور رات بھر عبادت کرنے والے کے درجہ کو حاصل کر لیتاہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا غیروں کے ساتھ برتاؤ:

 حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنوں سے تو پیار و محبت اور شفقت و ہمدردی کے ساتھ ملتے ہی تھے، جس کی بے شمار مثالیں ہیں، غیر بھی آپ کے رحم وکرم، عفو و درگزر اور خوش خلقی سے محروم نہ رہے۔اس کی ایک عظیم مثال فتح مکہ کے موقع پر آپ ﷺکا کفار ِمکہ کے لیے عام معافی کا اعلان کرنا ہے؛ چناں چہ فتح مکہ کے موقع پر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں فاتحانہ انداز میں شان وشوکت کے ساتھ داخل ہوئے، تو کفار و مشرکین جنہوں نے ہر قدم پر آپ کو اور آپ کے صحابہ کو تکلیفیں پہنچائی تھیں، جو آپ کے جانی دشمن تھے، آپ کے قتل کی تدبیریں اور سازشیں کرتے تھے اورجنھوں نے اسلام دشمنی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، وہ سہمے ہوئے تھے، انہیں سزائے موت کا یقین تھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی یہی خیال کر رکھا تھا ”الیوم یوم الملحمة“ آج بدلے کا دن ہے، آج جوشِ انتقام کو سرد کرنے کا دن ہے؛ لیکن تاریخ نے دیکھا اور اسے نوٹ کیا کہ رحمت ِدو جہاں کے پیکر اور محسنِ انسانیت ﷺکی شفقت نبوی جوش میں آئی اور زبان رسالت سے یہ اعلان کر دیا ”لا تثریب علیکم الیوم واذہبوا فأنتم الطلقاء“ کہ جاؤ آج تم سب آزاد ہو، تمھیں معاف کر دیا گیا، تم پر کوئی جرم نہیں ہے اور تم سے کسی قسم کا بدلہ نہیں لیا جائے گا۔یہ تھا آپ صلی اللہ علی وسلم کا جانی دشمنوں کے ساتھ برتاؤ اور حسن ِسلوک، جس کی مثال پیش کرنے سے دنیا عاجزہے۔اور اس سلوک اور برتاؤ کی وجہ سے فتح ِمکہ کے موقع پر بکثرت لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔

چند جامع اخلاق:

                اب تک کی گفتگو سے یہ بات واضح ہوگئی کہ انسان کو جانوروں سے ممتاز کرنے والی چیز دراصل اس کا اخلاقی وجود ہے اور انسان اس وقت تک کامل انسان نہیں بن سکتا ہے، جب تک کہ اس کا اخلاقی وجود اس کے حیوانی وجود پر غالب نہ آجائے۔

                 اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب ِہدایت قرآن کریم اور اپنے آخری نبی برحق سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ دین و اخلاق کی تکمیل فرمادی ہے، کوئی برا اخلاق ایسا نہیں ہے، جس کی نشان دہی کر کے اس کی بیخ کنی نہ کر دی گئی ہو اور کوئی اچھا اخلاق ایسا نہیں ہے، جس کی تصریح کر کے اس کا نمونہ دکھا نہ دیا گیا ہو۔ علما و حکما نے چند جامع قسم کے اخلاق ِحسنہ اور اخلاق سیئہ اس طرح مرتب کر دیے ہیں کہ انہیں اصول کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔ کتاب اللہ کی بعض جامع آیات بھی اس طرف رہ نمائی کرتی ہیں۔ ذیل کی آیت نے جامع قسم کے بنیادی اچھے اخلاق اور برے اخلاق کو یک جا بیان کر دیا ہے:

                إِنَّ اللَّہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَ إِیْتَاءِ ذِی الْقُرْبَی وَیَنْہَی عَنِ الْفَحْشَاءِ وَ الْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُونَ (النمل: 90)

                اللہ تعالٰی عدل کا، بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی کے کاموں، ناشائستہ حرکتوں اور ظلم و زیادتی سے روکتا ہے، وہ خود تمہیں نصیحتیں کر رہا ہے کہ تم نصیحت حاصل کرو۔

                اس آیت سے پہلے کی آیت یہ ہے:

                نَزَّلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَبَ تِبْیَانًا لَکُلِّ شَیْءٍ وَ ہُدًی وَ رَحْمَةً وَ بُشْری لِلْمُسْلِمِینَ ۔(النحل: 89)

                ” ہم نے تم پر یہ کتاب اتاری جو ہر چیز کا کھلا بیان ہے اور ہدایت و رحمت و بشارت ہے فرماں برداروں کے لیے“۔اس آیت کے بعد إِنَّ اللہَ یَأْمُرُ بِالعدل الخ کی آیت گویا” تبیانا لکُلِّ شَیْءٍ“ کو ثابت اور مدلل کرنے والی آیت ہے۔

                آیت بالا کی جامعیت کے بارے میں حضرت ابن مسعود کا یہ قول ہم تک پہنچا ہے:و بالجملة إن الآیة کما أخرج البخاري في الأدب والبیہقي في شعب الایمان والحاکم وصححہ عن ابن مسعود اجمع آیة للخیر و الشر وأخرج البیہقي عن الحسن نحو ذلک (روح المعانی)

                بخاری نے الادب المفرد میں بیہقی نے شعب الایمان میں اور حاکم نے مستدرک میں ابن مسعود سے روایت کی ہے کہ یہ آیت خیر و شر کے لیے جامع ترین آیت ہے۔ بیہقی نے حسن بصری سے بھی اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔

                 دیکھا جائے تو اس آیت نے عقائد تک کو اپنے دائرے میں لے لیا ہے؛ لیکن اس کا براہ ِراست تعلق محاسن ِاخلاق و مساوی اخلاق سے ہے، اچھے اخلاق کو عدل، احسان اور صلہ رحمی میں اور برے اخلاق کو فحشا، منکر اور بغی میں جمع کیا گیا ہے۔

                 اس آیت میں تین باتوں کا حکم دیا گیا ہے اور تین باتوں سے منع کیا گیا ہے اور یہ چھ الفاظ اس قدر وسیع المعنی ہیں کہ ساری اسلامی تعلیمات کا خلاصہ ان میں آگیا ہے۔ اسی لیے بعض علما کہتے ہیں کہ اگر قرآن میں کوئی آیت نہ ہوتی تو صرف یہی آیت انسان کی ہدایت کے لیے کافی تھی۔اب ان میں سے ہر ایک موضوع پر اختصار کے ساتھ روشنی ڈالی جاتی ہے؛ تاکہ محاسن اخلاق اور برے اخلاق کی کچھ وضاحت ہوجائے۔

(1) عدل: اس کے مشہور معنی انصاف کرنے کے ہیں، یعنی اپنوں اور بیگانوں سب کے ساتھ انصاف کیا جائے، کسی کے ساتھ دشمنی یا عناد یا محبت یا قرابت کی وجہ سے، انصاف کے تقاضے مجروح نہ ہوں۔ ایک دوسرے معنی اعتدال کے ہیں یعنی کسی معاملے میں بھی زیادتی یا کمی کا ارتکاب نہ کیا جائے؛ حتیٰ کہ دین کے معاملے میں بھی، کیوں کہ دین میں زیادتی کا نتیجہ حد سے زیادہ گزر جانا ہے، جو سخت خراب ہے۔

                مفتیٴ اعظم پاکستان مفتی محمدشفیع رحمہ اللہ اس آیت ِکریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں: عدل: اس لفظ کے اصلی اور لغوی معنی برابر کرنے کے ہیں۔ اسی کی مناسبت سے حکام کا لوگوں کے نزاعی مقدمات میں انصاف کے ساتھ فیصلہ عدل کہلاتا ہے۔ قرآن کریم میں ”اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ“ اسی معنی کے لیے آیا ہے اور اسی لحاظ سے لفظِ عدل افراط تفریط کے درمیان اعتدال کو بھی کہا جاتا ہے اور اسی کی مناسبت سے بعض ائمہٴ تفسیر نے اس جگہ لفظِ عدل کی تفسیر ظاہر وباطن کی برابری سے کی ہے۔ یعنی جو قول یا فعل انسان کے ظاہری اعضاسے سرزد ہو اور باطن میں بھی اس کا وہی اعتقاد اور حال ہو اور اصل حقیقت یہی ہے کہ یہاں لفظِ عدل اپنے عام معنی میں ہے، جو ان سب صورتوں کو شامل ہے، جو مختلف ائمہٴ تفسیر سے منقول ہیں، ان میں کوئی تضاد یا اختلاف نہیں اور ابن عربی نے فرمایا کہ لفظ عدل کے اصلی معنی برابری کرنے کے ہیں، پھر مختلف نسبتوں سے اس کا مفہوم مختلف ہو جاتا ہے مثلا ایک مفہوم عدل کا یہ ہے کہ انسان اپنے نفس اور اپنے رب کے درمیان عدل کرے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ کے حق کو اپنے حظ نفس پر اور اس کی رضا جوئی کو اپنی خواہشات پر مقدم جانے اور اس کے احکام کی تعمیل اور اس کی ممنوعات ومحرمات سے مکمل اجتناب کرے۔ دوسرا عدل یہ ہے کہ آدمی خود اپنے نفس کے ساتھ عدل کا معاملہ کرے، وہ یہ ہے کہ اپنے نفس کو ایسی تمام چیزوں سے بچائے، جس میں اس کی جسمانی یا روحانی ہلاکت ہو، اس کی ایسی خواہشات کو پورا نہ کرے، جو اس کے لیے انجام کار مضر ہوں اور قناعت وصبر سے کام لے، نفس پر بلاوجہ زیادہ بوجھ نہ ڈالے۔ تیسرا عدل اپنے نفس اور تمام مخلوقات کے درمیان ہے، اس کی حقیقت یہ ہے کہ تمام مخلوقات کے ساتھ خیرخواہی اور ہمدردی کا معاملہ کرے اور کسی ادنی اعلیٰ معاملہ میں کسی سے خیانت نہ کرے، سب لوگوں کے لئے اپنے نفس سے انصاف کا مطالبہ کرے، کسی انسان کو اس کے کسی قول وفعل سے ظاہراً یا باطناً کوئی ایذا اور تکلیف نہ پہونچے، اسی طرح ایک عدل یہ ہے کہ جب دو فریق اپنے کسی معاملہ کا محاکمہ اس کے پاس لائیں تو فیصلہ میں کسی کی طرف میلان کے بغیر حق کے مطابق فیصلہ کرے اور ایک عدل یہ بھی ہے کہ ہر معاملہ میں افراط وتفریط کی راہوں کو چھوڑ کر میانہ روی اختیار کرے۔ ابو عبداللہ رازی نے یہی معنی اختیار کر کے فرمایا ہے کہ عدل میں عقیدہ کا اعتدال، عمل کا اعتدال، اخلاق کا اعتدال سب شامل ہیں۔(معارف القرآن)

                 بیٹی کے ساتھ عدل یہ ہے کہ اس کی عمدہ تربیت کی جائے،اچھی تعلیم دی جائے،اس کے ساتھ اچھاسلوک کیاجائے،بیٹی پر بیٹے کوترجیح نہ دی جائے، جب سمجھدار ہوجائے تو اسے نمازپڑھنے کاحکم دیاجائے،اچھے اخلاق سکھائے جائیں،بے دینی اور مخلوط تعلیم سے بچایا جائے۔ شوہر کے ساتھ عدل یہ ہے کہ اس کے حقوق ادا کیے جائیں،جائز امورمیں شوہر کی اطاعت کی جائے، شوہرکی غیرموجودگی میں ا س کے گھربار اور ہر امانت کی حفاظت کی جائے،حتی الوسع شوہرکی رضاکاخیال رکھاجائے،شوہرکی اجازت کے بغیرگھرسے باہرنہ نکلاجائے،اور نہ ہی کسی ایسے شخص کوگھرآنے کی اجازت دے ،جس کاآنا شوہرکو ناگوار ہو،شوہرجو کام کہے اسے خوش دلی سے انجام دیاجائیاورناشکری سے بچاجائے۔ سسرال والوں کے ساتھ عدل یہ ہے کہ ان کے ساتھ حسن ِسلوک کیاجائے،حتی الامکان ان کی خدمت کی جائے،سسرال والوں کی خدمت بھی حق ِزوجیت کاایک تقاضہ ہے،ساس اور سسر کا اپنے والدین کی مانند ادب کیاجائے،سسرال میں کام کاج سے عار محسوس نہ کی جائے،صبروشکر سے کام لیا جائے،ایک دوسرے کی باتیں ادھرادھر پہنچانے سے احتراز کیاجائے۔

(2)الاحسان: عدل سے بھی معاشرے میں امن قائم ہوتا ہے، لیکن احسان سے مزید خوش گواری اور اپنائیت و فدائیت کے جذبات نشو ونما پاتے ہیں اور فرائض کی ادائیگی کے ساتھ نوافل کا اہتمام۔ عملِ واجب سے زیادہ عمل، جس سے اللہ کا قرب ِخصوصی حاصل ہوتا ہے۔عدل اگرچہ بذات خود ایک اعلیٰ قدر ہے، مگر احسان کا درجہ عدل سے بھی بڑھ کر ہے۔

                 احسان کے ایک معنی اخلاص عمل اور حسن عبادت ہے، جس کو حدیث میں (ان تعبد اللہ کانک تراہ) اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو سے تعبیر کیا گیا ہے؛ چناں چہ حدیث جبریل میں ہے کہ جبریل نے آپ سے پوچھا کہ احسان کیا چیز ہے؟ تو آپ نے فرمایا :کہ احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے جیسے تو اسے دیکھ رہا ہے اور یہ ممکن نہ ہو تو کم از کم یہ ضرور سمجھے کہ اللہ تجھے دیکھ رہا ہے اور عبادت کا مفہوم صرف فرضی یا نفلی نماز ادا کرنا نہیں؛ بل کہ جو کام بھی اللہ کا حکم سمجھ کر بجا لایا جائے، وہ اس کی عبادت ہے اور کام کو خوشدلی کے ساتھ اور اچھے طریقہ سے بجا لانے کا نام احسان ہے، اس لحاظ سے کسی جانور کو ذبح کرتے وقت چھری کو خوب تیز کرلینا بھی احسان ہے؛ تاکہ ذبیحہ کو کم سے کم تکلیف پہنچے۔

                 حضرت مفتی شفیع صاحب رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں: احسان کے اصل لغوی معنی اچھا کرنے کے ہیں اور اس کی دو قسمیں ہیں ایک یہ فعل یا خلق و عادت کو اپنی ذات میں اچھا اور مکمل کرے۔ دوسرے یہ کہ کسی دوسری شخص کے ساتھ اچھا سلوک اورعمدہ معاملہ کرے اور دوسرے معنی کے لئے عربی زبان میں لفظ احسان کے ساتھ حرف الی استعمال ہوتا ہے؛ جیسا ایک آیت میں (آیت)” وَاحْسن کما احْسَنَ اللہ الیک“ فرمایا ہے۔

                امام قرطبی نے فرمایا کہ آیت میں یہ لفظ اپنے عام مفہوم کے لئے مستعمل ہوا ہے، اس لئے احسان کی دونوں قسموں کو شامل ہے، پھر پہلی قسم کا احسان یعنی کسی کام کو اپنی ذات میں اچھا کرنا یہ بھی عام ہے، عبادات کو اچھا کرنا اعمال و اخلاق کو اچھا کرنا معاملات کو اچھا کرنا۔اور فرمایا کہ جس شخص کے گھر میں اس کی بلی کو اس کی خوراک اور ضروریات نہ ملیں اور جس کے پنجرے میں بند پرندوں کی پوری خبر گیری نہ ہوتی ہو وہ کتنی ہی عبادت کرے محسنین میں شمار نہیں ہوگا۔

(3) ایتائے ذی القربی: اس سے مراد رشتے داروں کا حق ادا کرنا یعنی ان کی امداد کرنا ہے۔ اسے حدیث میں صلہ رحمی کہا گیا ہے اور اس کی نہایت تاکید احادیث میں بیان کی گئی ہے۔

                ”ایتاء“ کے معنی اعطاء یعنی کوئی چیز دینے کے ہیں اور لفظ قربیٰ کے معنی قرابت اور رشتہ داری کے ہیں، ذی القربی کے معنی رشتہ دار، ذی رحم اور ایتائے ذی القربی کے معنی ہوئے رشتہ دار کو کچھ دینا ؛یہاں اس کی تصریح نہیں فرمائی کہ کیا چیز دینا ،لیکن ایک دوسری آیت میں اس کا مفعول مذکور ہے وَاتِ ذَا الْقُرْبی حقہ یعنی دو رشتہ دار کو اس کا حق، ظاہر یہی ہے کہ یہاں بھی یہی مفعول مراد ہے کہ رشتہ دار کو اس کا حق دیا جائے، اس حق میں رشتہ دار کو مال دے کر مالی خدمت کرنا بھی داخل ہے اور جسمانی خدمت بھی بیمار پرسی اور خبر گیری بھی زبانی تسلی و ہمدردی کا اظہار بھی، اگر چہ احسان میں رشتہ داروں کا حق ادا کرنا بھی داخل تھا۔یہ تین حکم ایجابی تھے آگے تین ممانعت و حرمت کے احکام ہیں۔

(4) فحشاء: وَیَنْھی عَنِ الْفَحشاءِ وَالْمُنکَرِ وَالْبَغْیِ.یعنی اللہ تعالی منع کرتا ہے فحشاء اور منکر اور بغی سے۔

 ” فحشاء “ہر ایسے برے فعل یا قول کو کہا جاتا ہے، جس کی برائی کھلی ہوئی اور واضح ہو، ہر شخص اس کو برا سمجھے۔

(5) منکر: وہ قول و فعل ہے، جس کے حرام و ناجائز ہونے پر اہل ِشرع کا اتفاق ہو، اس لئے اجتہادی اختلافات میں کسی جانب کو منکر نہیں کہا جاسکتا اور لفظ منکر میں تمام گناہ ظاہری اور باطنی، عملی اور اخلاقی سب داخل ہیں۔

                شریعت نے صراحتًا جن چیزوں سے منع کردیا ہے، وہ تو بہرحال منکرات میں شامل ہیں، مگر کچھ کام ایسے ہوتے ہیں ،جن کے بارے میں شریعت خاموش ہوتی ہے ،لیکن کسی خاص ملک یا کسی خاص معاشرہ میں وہ معیوب اور برے سمجھے جاتے ہیں، ایسے کام اس خاص ملک یا معاشرہ میں تو منکر ہوتے ہیں، مگر دوسرے ملک یا

 معاشرہ میں انھیں منکر نہیں کہا جاسکتا۔ منکر کی ضد معروف ہے۔

(6)بغی: اس کے معنی کسی چیز کی طلب اور خواہش کے حصول میں مناسب حد سے آگے نکل جانا، اپنے حق سے کچھ زیادہ وصول کرنے کی کوشش کرنا اور اسی نسبت سے دوسروں کا حق دبانا، اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کرنا، نافرمانی کرنا، دوسروں کے جان و مال یا آبرو پر ناحق دست درازی کرنا، قانون شکنی کرنا، سرکشی کرنا وغیرہ سب کچھ شامل ہے، معروف لفظ بغاوت بھی اسی سے مشتق ہے۔

 اس آیت نے جو چھ حکم ِایجابی اور تحریمی دیے ہیں اگر غور کیا جائے، تو انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی مکمل فلاح کا نسخہٴ اکسیر ہے۔

                الغرض اگر ان مندرجہ بالا تین قسم کی برائیوں سے اجتناب کیا جائے ،تو اخلاقِ قرآنی کے مقاصد حاصل ہوجاتے ہیں اور معاشرہ ہر قسم کی قباحتوں اور برائیوں سے مہذب اور پاک صاف ہوجاتا ہے۔

رزقنا اللہ تعالیٰ اتباعہ.