اختلافِ رؤیتِ ہلال اور حضرت مولانا یوسف صاحب متالا قدس سرہ کی رہنمائی

رشحاتِ قلم:احمد علی ، انگلینڈ

            تقریبا ہر سال انگلینڈ میں رمضان اور عید کے مواقع پر اختلاف ِرؤیت واقع ہوتا ہے ،جس کی وجہ سے رمضان کی ابتدا اور عید میں اختلاف ہو تا رہاہے۔ یہ اختلاف فقہی حد تک ہو تو کوئی قباحت نہیں، لیکن جب یہ نزاع کی شکل اختیار کر لے تو یہ نزاع ہرگز مناسب نہیں۔

            ہمارے حضرت مولانا یوسف صاحب متالا قدس سرہ نے اپنے متعلقین ومحبین اور مسترشدین کے لیے اس سلسلہ میں خصوصی رہنمائی فرمائی تھی، چناں چہ ہمارے حضرت کے وصال سے تین مہینہ قبل ایک عالم نے ہمارے حضرت سے بعض اختلافی مسائل اور بالخصوص چاند کے مسئلہ کو حل کر نے میں اہم کردار ادا کرنے کی درخواست کی، تو ہمارے حضرت نے طویل جواب ارشاد فرمایا، اس جواب کے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں:

            جن اہم مسائل کی طرف آپ نے اشارہ فرمایا تو نہ میں تبلیغ میں کسی طرح کوئی مشورہ دینے کے قابل اور نہ میں چاند وغیرہ اہم مسائل کو حل کرواسکتا ہوں، بل کہ میرے اپنے پیش آمدہ مسئلہ میں پھنسا ہوا ہوں کہ اب اپنے رخت ِسفر باندھنے کا وقت قریب معلوم ہو رہا ہے، نہ معلوم کس حال میں (فرشتے) لینے کے لیے آئیں گے۔ اللہ عزوجل میری اور اس امت مسلمہ کے ایمان کی حفاظت فرمائے، تمام فتنوں سے اللہ تعالیٰ اپنی حفاظت میں رکھے، خاص طور پر فتان (شیطان)جو سب سے بڑا فتنہ ہے کہ جس میں ایمان مرتے وقت انسان کا ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اس فتنہ سے میری اور امت مسلمہ کے ہر فرد کی حفاظت فرمائے۔

            آپ نے اس کو سمجھ لیا کہ واقعی یہ موجودہ ایام ہیں، جس میں ہمارے پاس کہیں کچھ نہیں رہا، سب کچھ لُٹ گیا ، تو اب ایسے حالات میں کیا (اختلاف میں پڑیں) اور کس نے نماز میں آمین زور سے کیوں کہی اور آہستہ کیوں نہیں کہی، اور ہاتھ کیوں اٹھائے اور کیوں نہیں اٹھائے اور عید اور چاند اور یہ مسائل!

            عیدین اور ایسی تقریبات کے موقع پر میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ جو آج عید کر رہے ہیں وہ بھی صحیح، کل کریں گے وہ بھی صحیح اور یہ کوئی ایسی چیز نہیں، جس کی تاریخ میں مثالیں نہ ملتی ہو، ہمارے اکابر فقہائے کرام، تابعین اور صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی سیرت میں بھی اس کے نمونے ملتے ہیں تو اس میں کیا الجھنا !

            جب ہماری سب سے پہلی (مدرسہ کی چھٹیاں ہوئیں تو) حضرت شیخ قدس سرہ کے ساتھ رمضان مبارک کی چھٹیاں گذریں،ہم ساری چھٹیاں وہیں رہے حضرت قدس سرہ کے پاس، جیسے ہی شعبان کی چھٹیاں ہو گئیں کہ میں، بھائی جان حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب اور مولانا اسماعیل بدات صاحب جو حرم میں بیٹھ کر سالہا سال اخیر عمر میں کوئی بیس پچیس سال تک روز ایک قرآن شریف پڑھتے رہے وہ بھی تھے اور حضرت کے ایک اور خلیفہ مولانا محمد غلام صاحب وہ بھی تھے، ہم سب جوان عمر وہاں سہارنپور حضرت کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور عید کی شب ٹھیلے میں بھر کے بہت سے گواہ گاؤں سے کوئی لے کر آئے اور انہوں نے گواہی دی تو حضرت نے فرمایا ان کو مفتی جی کے پاس لے جاؤ۔

             حضرت شیخ کا سہارنپور میں سارے مہینہ کا یہ پہلا اعتکاف تھا، اندازہ نہیں تھا کہ اتنی آمد ہو گی مہمانوں کی اس لیے اخیر عشرہ میں جب اعتکاف کے لیے حضرت مفتی محمود صاحب رحمة اللہ علیہ جو ان دنوں کانپور میں ہوا کرتے تھے تو وہاں سے پہنچے تو دیکھا کہ ماشاء اللہ یہاں تو کہیں مصلٰی رکھنے کی آس پاس میں، کسی حجرے میں، کسی دالان میں کہیں کوئی جگہ نہیں، تو انہوں نے حضرت شیخ قدس سرہ کے سمدھی حضرت حکیم ایوب صاحب رحمة اللہ علیہ کی مسجد جو قریب ہی میں تھی اور ہمیشہ مفتی صاحب وہیں ٹھیرا کرتے تھے حضرت حکیم ایوب صاحب رحمة اللہ علیہ کے یہاں تو اسی مسجد میں حضرت مفتی صاحب نے اعتکاف فرمایا تھا۔ تو حضرت نے فرمایا کہ مفتی جی کے پاس ان کو بھیج دو، گواہ وہاں گئے، مفتی صاحب نے ان کی شہادت قبول فرمائی اور خود اعتکاف سے باہر آگئے۔ شہر میں جب یہ خبر پھیلی تو قاضی صاحب اور مفتی مظفر حسین صاحب وغیرہ نے اس شہادت کو قبول نہیں فرمایا۔ تو حضرت نے فرمایا مہمانوں سے کہ میرے مہمان تو حکیم ایوب صاحب کی مسجد میں جاکر مفتی صاحب کے ساتھ عید کی نماز پڑھ لیں اور میں اگلے دن ان شاء اللہ کل شہر والوں کے ساتھ مظاہر علوم کی مسجد کلثومیہ میں دارِ قدیم میں پڑھوں گا، تو عید ہوگئی اور عید کی نماز پڑھی۔

             ہم یہاں سے سرہند شریف کے لیے نکلے کہ (مشہور تھا) وہاں ایک قرآن شریف پڑھنے سے عمر بھر قرآن شریف پختہ ہوجا تا ہے، اتفاق سے وہ ٹرین چل چکی تھی تو ہم پھر بس کے ذریعہ جلا ل آباد حاضر ہوئے تو حضرت مولانا مسیح اللہ خاں صاحب رحمة اللہ علیہ سے مصافحہ اور سلام کے بعد جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ ہم عید پڑھ کر آئے ہیں تو حضرت نے فرمایا یہاں کسی کو کسی طرح بھی کوئی علم نہ ہو کہ آپ عید پڑھ کے آئے ہیں ورنہ یہاں دن کے بارہ بج چکے ہیں، بہت بڑا خلفشار شروع ہوجائے گا اور کوئی فائدہ نہیں ہوگا، اس لیے حضرت نے زَنانے میں ہمارے لیے دسترخواں بچھوایا، کھانے کا انتظام فرمایا ، ہم نے کھا لیا اور حضرت روزے سے رہے۔

            تو یہ تو ہمیشہ ہر جگہ ہوتا رہا تو اس میں کیا بیچارہ چاند اور میں نے جس طرح عرض کیا اب تو ہمارا سب کچھ بھی ہمارے پاس نہیں رہا، ایسا دور ہم نے دیکھا جب سب کچھ تھا، اس لیے رونے دھونے کا وقت ہے، آپ سے بھی دعاؤں کی درخواست ہے، اللہ تعالی امت کے حال پر رحم فرمائے۔

            ہمارے حضرت کی مذکورہ وضاحت سے اندازہ ہوگیا ہو گا کہ آپ مسئلہ رؤیت میں بہت ہی نرم رویہ رکھتے تھے اور اسے ایک فقہی اختلاف سے زیادہ اہمیت نہ دیتے تھے۔ دراصل ہمارے حضرت نے یہ رہنمائی اپنے محبوب شیخ سے حاصل کی تھی۔ جب ہمارے حضرت نے انگلینڈ ہجرت فرمائی تو ابتدائی سالوں میں مسلمانوں کو نئے نئے مسائل کا سامنا ہوتا رہتا اور ہمارے حضرت اس سے متأثر ہوتے، چنانچہ۱۹۷۵ء میں ایک مرتبہ رؤیتِ ہلال کے مسئلہ میں ایسا اختلاف ہوا کہ تین عیدیں ہو گئیں ، اس سے ہمارے حضرت بہت متأثر اور پریشان ہوئے اور حضرت شیخ کو اس سلسلہ میں لکھا، شیخ کی طرف سے جو جواب آیا وہ نقش کالحجر کی طرح آپ کے دل میں گھر کر گیا اور آپ نے ہمیشہ اختلاف رؤیت کے مسئلہ میں وسعت ظرفی اور نرمی سے کام لیا۔

حضرت شیخ کے کلمات مبارکہ ملاحظہ فرمائیں:

            معلوم نہیں کہ دیوبندیوں کی دو عیدیں کیوں ہوئیں؟ بظاہر رؤیت کے ثبوت اور عدم ثبوت کی وجہ سے ہوئی ہوں گی، اگر اتنی ہی سی بات ہے تو زیادہ قابل فکر نہیں، کراچی لاہور، ملتان میں کئی مرتبہ اور دہلی میں بھی حتی کہ پارسال تو کاندھلہ میں بھی دو عیدیں ہوئیں۔ چھوٹا سا قصبہ مگر بڑوں کے بعد جب ہر شخص اپنے آپ کو بڑا سمجھنے لگے تو یہ مصیبتیں ہوا کرتی ہیں۔ پچاس برس کی بات ہے، دیوبند میں بہت اختلافات ہو رہے تھے اور مظاہر علوم میں بڑا سکون تھا تو مولانا شبیر احمد عثمانی مرحوم نے کہا تھا کہ ہمارا بڑا اٹھ گیا اور مظاہر کا بڑا موجود ہے (حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری) جب تک وہ ہے جبھی تک سکون ہے پھر وہاں یہاں سے بھی بڑا انتشار ہوگا۔ اگرچہ مالک کے فضل سے اس کی نوبت تو نہیں آئی، مگر بات صحیح کہی تھی(نوبت کیسے آتی جبکہ حضرت سہارنپوری کے بعد ان کے جانشین حضرت شیخ  موجود تھے)۔

             اسی لیے بڑوں کے وجود کی اہمیت اور قدر ہوتی ہے چاہے وہ دینی حیثیت سے بڑے ہوں یا دنیوی حیثیت سے۔ اور جہاں تم جیسا چاند ہوگا وہاں اگر تین عید ہوئی تو کچھ زیادہ نہیں۔

            حضرت شیخ نے بڑے لطیف پیرائے اور پیارے انداز میں یہ سمجھا دیا کہ اگر تین عیدیں ہوئی ہیں تو پریشان ہونے کی کوئی ضررورت نہیں اور اختلاف رؤیت کا مسئلہ بالکل ہلکا فرمادیا۔ حضرت شیخ نے از راہ ِتلطف آپ کو چاند سے مخاطب فرمایا تھا ، قطبِ زمانہ کے زبان سے جو نکلا وہ سچ ہو کر رہا کہ چاند روشنی پھیلاتا ہے،اللہ جل شانہ نے اس روشن چاند اور بدرِ منیر کے ذریعہ ایک خلق کو روشن و منور کیا، اب تو ہم اس چاند کو ترستے ہی رہتے ہیں۔ 

فلک پہ چاند ستارے نکلتے ہیں ہر شب

ستم یہی ہے نکلتا نہیں ہمارا چاند