اختلافات میں حُدود کی رعایت

اختلافات میں حُدود کی رعایت

رشحاتِ قلم : احمد علی انگلینڈ

یہ امن کی دھرتی ہے مگر آج یہاں پر

تکرار کا عالم ہے جدھر دیکھ رہا ہوں

            آج دنیا کے کونے کونے میں اختلاف کا دور دورہ ہے۔عوام و خواص، چھوٹے بڑے ،غریب و ا میر ، مرد وعورت غرض ہر کوئی کسی نہ کسی طرح کے اختلاف میں مبتلا ہے۔اختلاف کا ہونا ناگزیر بات ہے اور اس میں ایک حد تک کوئی حرج بھی نہیں، لیکن جب یہ اختلاف بڑھ کر مخالفت، منافرت، جھگڑے اور لڑائی کی شکل اختیار کر لے تو نہایت ہی مذموم ہے، اختلاف میں فی نفسہ کوئی قباحت نہیں ہے، لیکن جب اعتدال کا لحاظ نہ کیاجائے تو یہ اختلاف مخالفت میں تبدیل ہو جاتا ہے، پھر مخالفت میں حدود کی رعایت نہیں ہو تی تو عدمِ رواداری اور پھر منافرت، عداوت اور انتقام تک معاملہ جا پہنچتا ہے، پھر ایسا موڑ آجاتا ہے کہ دل ٹوٹ کر چکنا چور ہو جاتا ہے اور بالآخر صلح کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی، مخالفت اگر کوئی کرے تو اس کا خیال رہے کہ جب کبھی دوستی ہو تو ماضی کی باتوں پر شرمندگی نہ ہو۔

            زیادہ تروہ اختلاف جو مخالفت کی طرف لے جائے، وہ یا تو جہل اور ناواقفی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے یا پھر تعصب، حسد، کینہ، بغض، انانیت، ذاتیات، بد ظنی اور نفس پرستی کی بنا پر ہوتا ہے اور بعض مرتبہ مقصود اپنی طاقت کا مظاہرہ ہوتاہے، کوئی بھی فریق جھکنے اور سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا، اس لیے مخالفت بڑھتی ہی جاتی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اس شکل کے اختلاف اور مخالفت کو ایک اچھا کام سمجھ کر کیا جاتا ہے اور دینی خدمت کے زمرے میں سمجھا جاتا ہے؛جب غلط کام ٹھیک سمجھ کر ہو تو اصلاح کی کیسے امید رکھی جا سکتی ہے۔

            افسوس اس بات کا ہے کہ بعض دینی، تعلیمی ، تبلیغی حلقے بھی اختلافی جھگڑوں سے محفوظ نہیں رہے ۔

            اللہ ہمارے حال پر رحم کرے کہ جب ہمیں یہی معلوم نہیں کہ ہماری کسی قسم کی دینی ،علمی تبلیغی اور ملّی خدمت بارگاہ خداوندی میں مقبول بھی ہے یا نہیں تو پھر اس پر کیسا ناز اور کیا جھگڑا،کیسا اختلاف اور کیا مخالفت؟ ﴿اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُہُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَہُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّہُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًا﴾ کے کہیں ہم مصداق نہ بن جائیں۔

             بدکار سے زیادہ بد نصیب وہ نیکوکار ہے، جو محنت مشقت اٹھا کر نیکیاں کرے، مگر اس کی کوئی نیکی اس کے کام نہ آئے اور وہ اس دھوکے میں رہے کہ میں نیکو کار ہوں، اللہ ہی ہماری حفاظت فرمائے۔ اس لیے اپنی ناقص خدمات پر نازاں ہو نا اور اختلاف کے دائرہ سے متجاوز ہو کر مخالفت پر اتر آنا نہایت نادانی ہے۔ اس سلسلہ میں ہمارے حضرت مولانا یوسف صاحب کا ایک قیمتی اقتباس حرز ِجاں بنانے کے قابل ہے ،جو آپ کے ایک خط سے ماخوذ ہے۔

            ”اللہ جل شانہ کی بے نیازی کی صفت ہمیشہ ڈرائے رکھتی ہے، ابلیس کی بے مثال عبادت اس کی صمدیت کے سامنے لا شئ ٹھہری۔ کیا ہمارے کام ، کیا ہماری خدمات اور کیا ہماری قربانیاں! وہی مالک کسی طرح ستاری فرماکرآخرت کی رسوائی سے بچالے۔“

            اس طرح کے سنگین اختلافی حالات میں خاص طور پر وہ لوگ نہایت بدنصیب و بد بخت ثابت ہوتے ہیں ،جو مخالفت کی آگ بھڑکانے میں آلہٴ کار بنتے ہیں، بل کہ ایندھن کا کام دیتے ہیں۔ جہاں دو شخص اور دو فریق میں اختلاف ہو گیا یہ لوگ بجائے اس کو سلجھانے کے مزید ہو ا دینے لگ جاتے ہیں اور تفریق بین الناس کے مرتکب بنتے ہیں، جس کی وجہ سے دو نوں طرف آگ بھڑک اٹھتی ہے اور پھر ایسے تباہ کن نتائج ظہور پذیر ہوتے ہیں کہ جن کا سلجھانا نامکن سا ہوجاتا ہے، ایسے ہی لوگ امام اور مقتدیوں ، استاد اور شاگرد وں ، پیر اور مریدوں کے درمیان میں بھی کانا پھونسی، چغل خوری اور چاپلوسی کر تے نظر آتے ہیں ، کھری کھوٹی باتوں کو ملاتے ہیں اور ملمع سازی کر کے پیش کرتے ہیں ، ایسے لوگوں پر ”شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار“ کی ضرب المثل بتمامہ فِٹ ہوتی ہے، پھر بتقاضائے بشریت بڑے بھی ان کی باتوں سے متاثر ہو جاتے ہیں اور وہ کسی ایسے اقدام پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ جس کا بدیہی اور لازمی نقصان ان کے چھوٹوں اور متعلقین کو اٹھانا پڑتا ہے اور جس کے نتیجہ میں مزید بھیانک فتنے جنم لیتے ہیں۔ اس طرح کے پیچیدہ حالات میں اِدھر کی اُدھر کرنے والے فتنہ پرداز سب سے زیادہ خسارے میں ہو تے ہیں اور اپنی دنیا وآخرت کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیتے ہیں۔ ہمیں ایسے شرپسند عناصر کی طرف کان دھرنے میں احتیاط کرنی چاہیے اور سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر رائے قائم کر کے فیصلے نہیں کرنا چاہیے، واللہ یعلم المفسدمن المصلح۔

             ہمارے پیارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پروانوں سے فرما یا تھا کہ کوئی کسی کی بُری بات مجھ تک نہ پہنچائے کہ میں ہر ایک سے صاف دل ہو کر ملنا چاہتا ہوں، آپ ہر ایک سے صاف دل ہوکر دنیا سے رخصت ہونا چاہتے تھے؛چناں چہ مختلف کتبِ احادیث میں درج ذیل حدیث روایت کی گئی ہے۔

            عن عبد اللّٰہ بن مسعود  قال قال رسول اللہ ﷺ لا یُبَلِّغُنِی أحدٌ من أصحابی عن أحدٍ شیئًا، فإنِّی أحبُّ أن أخرج إلیکم وأنا سَلِیم الصَّدر۔(ترمذی)

            قال ابن الملک: والمعنی أنَّہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یتمنَّی أن یخرج من الدُّنیا وقلبہ راض عن أصحابہ من غیر سخط علی أحد منہم۔(تحفة الاحوذی)

            آج ہم سب کے لیے اور بالخصوص علمائے دین و پیشوائے امت کے لیے ضروری ہے کہ اسلامی معاشرہ میں مسلمانوں کی لاتعلقی،بُعد اور بد ظنی کی فضا کو ختم کریں، خود کو بھی اس سے باہر نکالیں، جب کسی قسم کے اختلافات کا سامنا ہو تو اس میں رواداری کی خاص رعایت ہو، پیغامِ محبت و الفت کو عام کریں، اسلام کی نظر میں یہ ہرگز پسندیدہ عمل نہیں ہے کہ مسلمان ایک دوسرے سے لاتعلق اور بدظن رہیں۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کا ایک پیارا انداز یہ بھی تھا کہ معاشرہ میں محبت و مودت، تعاون، برادری اور ہمدردی کی فضا قائم کریں تاکہ امت کا ہر فرد ایک دوسرے کے ساتھ مہربان رہے اور حسن ظن رکھے۔ آج ہمیں بھی اپنے نظام میں اسی چیز کی ضرورت ہے اور امت کے پیشواؤں، لیڈروں اور بڑوں کو اس کی طرف خاص توجہ دینی چاہیے۔

            لفظ ”اختلاف“ عامة ًاچھے معنی کے لیے مستعمل ہے یعنی دلائل کی روشنی میں صحیح اور حق کو پانے کے لیے جو مختلف رائے قائم ہوتی ہے اسے ”اختلاف“ کہا جاتا ہے اور مخالفت عمومًا نفسانیت و ذاتی اغراض کی بنا پر ہوتی ہے اور ایسی مخالفت مذموم ہے۔ امت میں اختلاف کا ہونا کوئی امر مذموم نہیں، بل کہ ایک ضرورت ہے، ہر دور میں ہوتا آیاہے اور ہوتا رہے گا۔ در حقیقت یہ بھی اللہ کی نعمت ہے اس لیے اس کو ختم کرنے کی کاوش ہی غیر معقول ہے۔ اور اس کو کوئی ختم کرنا چا ہے تو بھی ختم نہیں کر سکتا، لیکن یہ واضح رہے کہ ہر اختلاف نہ تو مذموم ہے اور نہ ہی ہر اختلاف محمود ہوسکتا ہے۔ ایسا اختلاف جس کا منشا ہی قباحت ہو اورمخالفت کی حد تک لے جاتا ہو وہ یقینا مذموم ہے،قبیح اسباب کی بنا پر جو اختلافات رونما ہوتے ہیں وہ ناسور بن جاتے ہیں، پھر ان کے نتائج بھی لا ینحل ہوجاتے ہیں۔

            اختلاف چاہے مذموم ہو یا محمود، اس کے حدود سے تجاوز کرنا جائز نہیں ۔اور فریقِ مخالف کے ساتھ اعتدال کو چھوڑ کر افراط وتفریط کی راہ اختیار کرنا ہر گز مناسب نہیں۔ قرآن کریم نے تو بہت ہی واضح انداز میں اعلان کیا ہے کہ﴿وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَنْ صَدُّوکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَنْ تَعْتَدُوا۔ ﴾الآیہ

            ترجمہ: ایسا نہ ہو کہ کسی قوم سے اس سبب سے کہ انھوں نے مسجد حرام سے روک دیا ہے، وہ بغض تمہارے لیے باعث بن جائے حد سے تجاوز کرنے کا۔

            اس آیت میں قصہ کفار کا ہے ، ان کی مخالفت میں بھی حد سے تجاوز کو روکا جارہا ہے ،تو اُن اختلافات کے بارے میں کیا کہا جائے گا، جو مسلمانوں کے آپس کے درمیان ہو۔

            آٹھویں صدی ہجری میں غرناطہ،اندلس سے تعلق رکھنے والے امام ابو اسحاق الشاطبی  (وفات ۷۹۰ھ۔ ۱۳۸۸ء) نے اپنی عظیم الشان کتاب ”الموافقات“ کی آخری جلد کے آخر میں ایک فصل میں علمی اختلاف کے آداب کا تفصیلی ذکر کیا ہے اور ان اسباب کو واضح کیا ہے، جو علمی و دینی جیسے اختلاف کو آپس کی منافرت تک پہنچا دیتے ہیں۔ امام شاطبی  کے اس مضمون سے ہر قسم کے اختلاف میں فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے، چاہے وہ ذاتی اختلاف ہو یا دینی، اداروں کا اختلاف ہو یا خاندانی، ہر قسم کے اختلاف میں اس سے نصیحت حاصل کی جا سکتی ہے، بہت سبق آموز مضمون ہے اور علمائے کرام کے لیے اس کا مطالعہ بہت مفیدثابت ہوگا۔

            اختلاف و مخالفت کی تفصیلی وضاحت کے بعد امام شاطبی لکھتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو یہودیوں کے سامنے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت ایسے انداز میں بیان کرنے سے روک دیا تھا کہ جس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کسر ِشان لازم آتی ہو، کیوں کہ کسی بھی نبی سے عقیدت رکھنے والوں کی عقیدت کو مجروح کرنا اسلام کے مزاج کے خلاف ہے۔

            ماضی قریب کی بات ہے جب ہمارے حضرت مولانا یوسف متالا صاحب کا عہد شباب تھا ، انگلینڈ میں ورود کو چند سال ہی ہوئے تھے، بعض لوگوں کی طرف سے اختلاف اور انتشار کا آپ کو سامنا تھا، نیز دار العلوم کی تاسیس کے وقت بھی آپ کو مخالفت کا سامنا رہا، آپ کے پیر و مرشد قطبِ زمانہ حضر ت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی  نے اپنے پیارے مسترشد کو اس سلسلہ میں بہت قیمتی مشوروں اور نصیحتوں سے نوازا۔ ایک مکتوب میں حضرت شیخ  تحریر فرماتے ہیں:

            ”آدمی یہ سمجھے کہ میری مخالفت کوئی نہ کرے اور سب مطیع رہیں گے اس میں احتمال کبر پیدا ہونے کا ہے، مخالفتیں کس کی نہیں ہوئیں؟ کیا سید الکونین صلی اللہ علیہ وسلم کی نہیں ہوئیں؟ پھر ہما شما کیا ہیں؟ اس کا بھی خیال نہ کرنا کہ مخالفت نہیں ہوگی، البتہ انتقام لینے کا واہمہ بھی نہیں لانا نہ کسی کو ذلیل کرنے کا۔

            اس سے بہت قلق ہوا کہ دار العلوم کے سلسلہ میں عملی اقدام اٹھانے سے بعض ذمہ داروں کی طرف سے بھی مخالفت شروع ہوگئی، انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اس دور فساد میں ہر دینی کام کی مخالفت ہوتی ہی ہے، اس سے نہ تو متاثرہوں اور نہ اس میں منازعت یا مناظرہ کا پہلو اختیا رکریں۔“

            حالاتِ حاضرہ کی بات کی جائے تو چند سالوں سے تبلیغی جماعت شدید اختلاف کا شکار ہو گئی ہے اور جماعت دو فریق میں بٹ گئی، جس سے بڑے بڑے لوگ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے، نظام الدین اور رائیونڈ سے منسوب دو مختلف گروہ بن گئے، اس اختلاف میں ہمارے حضرت کا جھکاؤ بچند وجوہ نظام الدین کی طرف تھا، لیکن ہمارے حضرت کا تعلق دونوں فریق سے رہا،بل کہ قبیل از وصال رائیونڈ سے منسلک جماعت کے بلیک برن شہر میں منعقدہ تبلیغی اجتماع میں شرکت بھی فرمائی تھی۔

            اس تبلیغی اختلافی کشمکش کے دوران عاجز کی نظر ہمارے حضرت کے ایک مکتوب پر پڑی جو آپ نے ۱۹۹۱ء میں تحریر فرمایا تھا، اس وقت میرا کینیڈا میں قیام تھا اور وہاں کے تبلیغی جماعت کے مقامی ساتھیوں میں اختلاف تھا جو میرے لیے پریشانی کا باعث تھا، اس سلسلہ میں عاجز نے حضرت سے رہنمائی حاصل کی تھی اور حضرت نے تفصیلی ہدایات سے نوازا تھا۔حضرت کی اس رہنمائی کا اثر بہت اچھا ثابت ہوا اور مقامی اختلاف و مخالفت میں نمایاں کمی آگئی تھی۔ حضرت نے ہدایت دیتے ہوئے تحریر فرمایا تھا کہ؛

            ”جماعتِ تبلیغ کے دونوں گروہوں سے برابر تعلقات رکھیں، اللہ کرے ان کی آپس میں صلح ہوجائے ۔“ (۳ /مارچ ۱۹۹۱ء)

            خلاصہ یہ کہ اختلاف کے سلسلہ میں قرآن و حدیث کی ہدایات اور بزرگوں کی سبق آموز نصیحت و واقعات کو بار بار پڑھنے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہمیں اس طرح کے حالات کا سامنا ہو جائے تو ہم ان قیمتی نصیحتوں کو اپنا کر اپنے آپ کو فتنوں سے محفوظ رکھ سکیں۔ حضرت تھانوی  و حضرت مدنی  کا اختلاف معروف ہے اور ان حضرات کے اختلاف میں آپس کی رواداری ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے ۔ پچھلے دوسالوں میں بزرگوں، اللہ والوں اور بڑے بڑے علما کے دنیا سے اُٹھ جانے کے بعد امت میں ایک عظیم خلا پیدا ہوا ہے، اس لیے آج امت میں وحدتِ علما اور وحدتِ امت کی اشد ضرورت ہے، اختلافات اپنی جگہ لیکن حدودِ اختلاف و تنقید کے حوالے سے بزرگوں کے عملی رویہ کو اپنانے کی جتنی آج معاشرے کو ضرورت ہے شاید پہلے کبھی نہیں تھی۔ اختلاف چاہے کتنا شدید ہو، لیکن افتراق، مخالفت، منافرت، عداوت اور جھگڑے کو اب امت برداشت نہیں کرسکتی۔ آج کی دنیا نفرتوں کے عروج پر ہے یہاں تک کہ بعض موقعوں پر فریقِ مخالف کے ساتھ تذلیل اور ہتک آمیز سلوک رَوا رکھا جا رہا ہے، سرکار ِدوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر امتی چاہے کتنا ہی گنہگار ہو، اس کی تذلیل و تحقیر کسی صورت جائز نہیں۔

            ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا مزاج بنانے کی شدید ضرورت ہے، حالات کے ساتھ سمجھوتہ کرنا، نفرتوں کو مٹانا ، آپس کے تعلقات کو بحال رکھنا اور دنیا میں امن وامان کو قائم کرنا نہایت ضروری ہے، اللہ جلّ شانہ و عمّ نوالہ ہمیں صاحبِ دل اور صاحبِ محبت بنائے ، یہی پیغامِ محبت ہے جہاں تک پہنچے۔

و ما علینا الا البلاغ ، واللہ الموفق والمستعان ، وصلی اللہ علی النبی الکریم۔