مفتی عبد القیوم صاحب مالیگانویؔ
سب سے بڑا پروجیکٹ :
اللہ رب العزت کی مخلوقات اورقدرت کی انمول بیش اور بہا تخلیقات میں سب سے عظیم ، سب سے عجیب مخلوق اور سب سے بڑا پروجیکٹ حضرت انسان ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ خود پروجیکٹ کے صانع وخالق حق جل مجدہ نے مخلوقات کی تفصیل وکیفیت اور انداز تخلیق وتربیت کو اپنے کلامِ باقی میں سب سے زیادہ انسان ہی کی پیدائش کے ابتدائی مراحل سے لے کر اس کے انتہائی حالات ،پھر اس پر گزرنے والے مختلف احوال وکوائف، اس کی شخصیت سازی کے انداز ،نشو ونما کے البیلے اورا نوکھے انداز کے ساتھ اس کی عزت و تکریم کے اچھوتے اور ضروری اقتباسات کو اسی قدر اہتمام کے ساتھ اور بارہا بیان کیا ہے کہ اس سے زیادہ کسی اور مخلوق کا ذکر نہیں ۔
یہ بزرگی دنیا میں آنے سے قبل ہی مل چکی :
اسی کے ساتھ ساری مخلوقات ارض و سما ، شجر و حجر ، شمس وقمر ، ہوا و فضااور بری و بحری تمام چھوٹی بڑی مخلوق کو اس انسان کا خادم بناکر اس کو اسے مخدومیت کا تاج قیامت تک کے لیے پہنادیا ۔ جس کی شہادت بزم ہستی کی سب سے عظیم ہستی نے اس طرح دی ’’ الدنیا خلقت لکم وانتم خلقتم للآخرۃ ‘‘ کہ تم مخدوم کائنات ہو اور ساری کائنات تمہاری خادم ہے ۔ اور حقیقت اورمشاہدہ بھی مدتوں دراز سے یہی ہے کہ ہر شئ ہستیٔ انسان کے لیے خدمت گزار بنی ہے اور انسان اپنی مستی میں سرشار اور یہ بزرگی اور بلندی اسے دنیا میں آنے سے قبل ہی مل چکی کہ آسمانوں پر اس کو جسمانی شکل دے کر تمام فرشتوں کا مسجود بنادیا ۔
انسانی قدر ومنزلت :
جس طرح خالق انسان نے انسان کی قدر و منزلت کا پتہ دیا ، اسی طرح مربی ٔانسان حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے مبارک اور بیش قیمت کلمات وارشادات سے انسانوں کا مقام و مرتبہ احترام اور عزت وتکریم سے آگاہ کیا ، بل کہ بڑے اہتمام اورفکرمندی کے ساتھ اس جانب متوجہ کیا ، چناںچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر صاحب ایمان کی جان و عزت کو اہمیت دیتے ہوئے فرمایا : ’’ سباب المومن فسوق وقتالہ کفر ‘‘ کہ مومن کو گالیاں دینا گناہ کبیرہ اور اس کو قتل کرنا کفر ہے ۔ اور ایک مقام پر فرمایا ’’ المسلم اخو المسلم لا یحقرہ ولا یخذلہ ولا یظلمہ ‘‘ ۔
ایک موقع پر تمام اہل ایما ن اوراہل اسلام کی اجتماعی محبت اورآپسی مودت کی قدر کو بتاتے ہوئے فرمایا : ’’ مثل المومنین فی توادہم وتراحمہم و تعاطفہم کمثل الجسد اذا اشتکی عضو منہا تداعی لہ سائر الجسد بالسہر والحمیٰ ‘‘کہ اہل ایمان کی آپسی محبت اپنے مابین ہمدردی اور نرمی کا معاملہ اس قدر اعلیٰ ہونا چاہیے؛ جیسا کہ ایک جسم میں کوئی عضو مبتلائے درد ہو تو اس کی تکلیف کا احساس پورابدن محسوس کرتا ہے ۔ یہ کیفیت اور آپس میں جیتے رہنے کا یہی انداز ہونا بھی چاہیے ؛کیوں کہ محبت و الفت اور بھائی چارگی اسلام کی بنیاد ہے ؛چناںچہ یاد کیجئے اسلام کے اس ابتدائی آزمائشوں سے بھر پور دو رِابتلا کو ، جب اسلام بالکل ایک ٹمٹماتا چرا غ اور ایک بجھتا دیا تھا ،جو ظاہری اسباب و وسائل سے یکسر محروم صرف اور صرف اللہ رب العزت کی مدد اور عنایت ہی سے جل رہا تھا ، جسے مٹانے اور بجھانے کی چہار جانب سے بھر پور کوشش جاری تھی۔انہیں حالات سے گزرتے گزرتے اور مصائب و آلام سے ٹکراتے ٹکراتے ناگزیر حالات میں اللہ کے حکم پر وطن عزیز مکہ سے الوداعی نگاہوں کے ساتھ رخصت ہونا پڑا اور مدینۃ المنورہ پناہ گاہِ رسالت ہوا، جہاں کی بڑی آبادی یہود ونصاریٰ پر مشتمل تھی، ان کے علاوہ دو مشہور قبائل اوس وخزرج بھی آباد تھے ، جن کی آپسی دشمنی بے مثال اور صدیوں پرانی تھی، جنہیں سنبھالنا اور ڈیل کرنا کارِدارد تھا ، لیکن کرم اللہ کا محنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شیریں زبانی ، بلند اخلاقی اوردین برحق کی تاثیر ایسی اثر انداز اور مفید ثابت ہوئی کہ دونوں قبیلے حلقہ بگوش اسلام ہوگئے ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ِعاطفت وعنایت سے شیر وشکر ہوکر حقیقی بھائی سے زیادہ مضبوط بندھن اور ایک دوسرے کے لیے جان چھڑکنے والے بن گئے اور مکہ سے جب صحابہ نے ہجرت کی تو پھر یہی اوس و خزرج والے مہاجرین کی نصرت ومدد اور ہر قسم کے تعاون کے لیے ایسے آگے بڑھے کہ زمانہ اس امداد و نصرت اور بھائی چارہ کو قیامت تک ترسے گا۔ پھر یہی انصارِ مدینہ کہلائے اور رہتی دنیا تک کے لیے قرآن کریم کے صفحات پر جگہ پاکر زندۂ جاوید ہوئے، جن کی قسمت ایسی عروجِ ترقی پر پہنچی کہ نبی کی معیت ورفاقت جہاں زندگی میں ملی بعد وصال کے بھی مدینہ ہی آپ کا مدفن اور آخری آرام گاہ بنا ۔
گویا دین ہی نے انہیں ایسا ملایا کہ جس کے علاوہ ان کے ملنے اور متحد ہونے کی کوئی شکل اور راہ نہیں تھی ۔ آج اسی دین کو بنیاد بناکر ہم ایک دوسرے کی ٹوپیاں اور پگڑیاںمزے سے اچھال رہے ہیں اور عزت سے کھلواڑ کو حلال سمجھ رہے ہیں ، اسی دین اور اس کی محنت کے نام پرایک دوسرے کی عزت آبرو اور جان کے در پے ہوگئے ہیں ۔
ہماری یہ حالت ہے :
دین وشریعت کی اتباع کو بنیاد بنانے کے بجائے شخصیات اور انسانوں کی اتباع وپرستش میں مبتلا ہوگئے ، جس کے نتیجہ میں مذہب کی تبلیغ کی جگہ مسلک اور اپنے نظریہ کی تبلیغ ہونے لگی ، فرقہ بندی گروہ بازی اور اپنے حلقہ کو طاقت ور بنانے اور افرادی قوت کو زیادہ سے زیادہ مجتمع کرنے کی فکر اور دھن سوار ہوگئی ۔ چاہے اسی کے لیے جو بھی خلاف دین و عقل امور انجام دینا پڑے ،جس کی منہ بولتی تصویر گزشتہ ایام بنگلہ دیش میں ہونے والی آپسی رسہ کشی ہے ۔ جس میں پچاسوں کے زخمی ہونے کے ساتھ کچھ لوگ جام شہادت بھی نوش کرگئے ، دین کے نام پر دینی کا م کرنے والے بل کہ عالمِ اسلام کی سب سے عظیم دینی تحریک سے وابستہ احباب نے جو سلوک اورکردار اپنے ہی بھائیوں کے ساتھ انجام دیا،گویا کہ فریقِ مخالف کے لیے میدان کربلا قائم کردیا ، جس کے دور رس نتائج بد جو مرتب ہونا ہے ، وہ تو ہوکر رہیں گے ، لیکن یہ کیا کم نقصان ہوا کہ حکومت بنگلہ دیش نے وہاں کے عالمی عظیم اجتماع پر پابندی عائد کردی اور امت نہ معلوم کتنے خیر ِکثیر سے محروم ہوگئی ۔ قرآن کریم ایسے ہی فسادیوں سے یوں مخاطب ہے: {لا تفسدوا فی الارض بعد اصلاحہا} کہ اللہ کی اس سرزمین کو جسے انبیا کی دعوت صلحا واتقیا کی للہیت اور اولیا و بزرگان دین کی ایمانی حرارت اور علمائے دین کی مسلسل قربانیوں نے زرخیز، لالہ زار اور پاکیزہ بنایا تھا دوبارہ فسا د اور بگاڑ سے نہ بھرو ۔ اس سرزمین کی جاگی ہوئی تقدیر کو دوبارہ نہ سلاؤ، اس کی ہر یالی وشادابی کو پھر سے خزاں سے دوچار نہ کرو، اس پر جینے والے اللہ کے بندوں کو اللہ سے جوڑنے کے بجائے توڑنے کا کام نہ کرو، محبتوں کی سوغات لٹانے کے بجائے نفرتوں کے بیج نہ بوؤ ، معصیتوں اور خدا بے زاری کے نتیجہ میں گرداب اور بھنور میں پھنسی ہوئی امت کی کشتی کو ساحل پر لگا نے کی جگہ مزید ڈبانے کی کوشش نہ کرو، اور وہ اعدائے دین جو اس زمین سے اسلام اور شریعت کو بدلنا بل کہ مٹانا چاہتے ہیں انہیں اپنے مشن میں کام یاب ہونے کا موقع فراہم نہ کرو ۔ ذرا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی قدر کو یاد کرلو کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبۃ اللہ کا طواف فرمارہے تھے ، جاں نثاران نبی بھی ساتھ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں ایک چھڑی تھی ، اس سے کعبہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اے کعبہ! ہمیں معلوم ہے تو بہت مقدس بزرگی والا اور محترم ہے ، لیکن تجھ سے زیادہ ایک ایمان والے کی عزت وآبرو مقدس ہے ۔ ایک اور مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مجھے یہ پسند ہے کہ کعبۃ اللہ کو ڈھادیا جائے لیکن یہ گوارہ نہیں کہ کسی مسلمان کی عزت و آبرو کو پامال کیا جائے۔ اس سے بھی زیادہ قابل توجہ اور لائق عبرت ونصیحت حجۃ الوداع کا وہ عظیم پیغام جو ساری امت کے نام ہے کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی اجتماعیت کو بچانے اور امت کے شیرازہ کو بکھرنے سے محفوظ کرنے کے لیے فرمایا تھا : ’’ ولا ترجعوا بعدی کفارا، ولا یرجع بعضکم رقاب بعض ، لا تحاسدوا ولا تباغضوا ولا تدابروا کونوا عباد اللہ اخوانا ، لا فضل لعجمی علی عربی ، ولا لعربی علی عجمی ولا لأسود علی احمر ولا لأحمر علی أسود الا بالتقویٰ ‘‘ کہ ایک دوسرے کی گردن نہ مارنا، ایک دوسرے سے حسد ودشمنی اور مخالفانہ تدبیر مت کرنا بل کہ بھائی بھائی بن کر جینا ، کیوں کہ فضیلت کی بنیاد صرف اور صرف اللہ کا ڈر اور خدا ترس زندگی پر ہے ۔ لیکن ان تمام ارشادات ربانی اور فرمودات نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کے باوجود ہمارے آپسی تعلقات اس قدر ابتر اورناقابل بیان ہوچکے ہیں کہ زمانہ ٔجاہلیت کے احوال بھی ان کے سامنے پھیکے اورمدھم نظر آرہے ہیں ۔ وہی تعصب کی آگ، نفرت کی باتیں، اپنے مسلک و مشرب اور اپنے نظریہ اور طریقہ کار پر ایسی شدت اور ہٹ دھرمی کہ جیسے یہی طریقہ اور انداز منزل من اللہ ہے جنت کا سرٹیفکٹ اور رضائے الٰہی کا ضامن ہے ، جب کہ دعوت دین منصوص ہے نہ کہ اس کے طرق اور اسلوب ، طریقے اور اسالیب اور کام کے انداز تو ہر دور کے تقاضوں اور اس کی نزاکتوں کے اختلاف سے بدلتے رہے ہیں اور بدلتے رہیںگے ، پھر غیر منصوص چیزوں پر اتنا اصرار نہ قرین شریعت ہے اور نہ ہی امت مسلمہ پر گزرنے والے شب و روز اس کی اجازت دیتے ہیں ۔ موجودہ حالات کے تناظر میں کیا خوب رہنمائی فرمائی ہے فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی مدظلہ العالی نے جسے میں انہیں کے الفاظ میں حوالہ قرطاس کرتا ہوں۔ فرماتے ہیں :
الرجی کی تاثیر ایسی ہوتی ہے :
’’جیسے جسمانی سطح پر الرجی انسان کو کمزور کردیتی ہے ، اس کی معتدل کیفیت کو زیر وزبر کرکے رکھ دیتی ہے ، اسی طرح قومیں سبھی الرجی سے دوچار ہوتی ہیں ، بعض قوموں اورگروہوں میں برداشت کی قوت ختم ہوجاتی ہے اور رد عمل کی کیفیت بڑھ جاتی ہے وہ بات بات پر مشتعل ہوتی ہے ، مخالفین کا بیان ان کو مہینوں الجھاکر رکھتا ہے اور بے برداشت ہونے کی وجہ سے ایسے جذبات کا ان سے مظاہرہ ہوتا ہے جس کا نقصان خود ان کو پہنچتاہے ۔ ایسی قومیں دشمنوں اور بد خواہوں کی سازشوں کا شکار ہوکر اپنے حقیقی مسائل کی طرف توجہ نہیں دے پاتیں ، ہمیشہ رد عمل میں الجھی رہتی ہیں ۔ دوسری قومیں تعلیمی ،معاشی اور دوسرے پہلوؤں سے آگے بڑھتی رہتی ہیں اور یہ سنہرا وقت مشتعل قوم ماتم و زاری وسینہ کوبی میں گزار دیتی ہیں۔ ہندوستان میں مسلمان اس وقت ان ہی حالات سے گزررہے ہیں ، ہم ایک طرح کی قومی الرجی میں مبتلا ہیں ، ہمیں مشتعل کرنے کے لیے بے بنیاد افواہیں بھی کافی ہیں ، ہم بزدل اور کم ہمت نہ ہوں کم کو تاہ حوصلہ بے غیرت بن کر نہ جئیں ، لیکن ہم اپنی فراست ایمانی کی آنکھ کو کھلا رکھیں اور دشمن کی سازشوں اور منصوبہ بندی کو سمجھیں اور دوسرے کے ہنگامہ سے متاثر ہوکر راستہ میں اس طرح نہ الجھ جائیں کہ کبھی ہماری منزل نہ آسکے ۔ اس خوش تدبیری اور معاملہ کا نام صبر ہے ۔
جماعت تبلیغ کو موجودہ صورت حال کی طرف لے جانے والی دو بنیادی غلطیاں ہیں ،جن کا تذکرہ ماہ جنوری – جمادی الاولیٰ کے شمارہ میں مدیر رسالہ حضرت مولانا سجاد صاحب نعمانی مد ظلہ العالی نے اپنے مشاہدہ اور قدیم اہل تبلیغ واہل بصیرت کی صحبت میں رہ کر دیکھا چناں چہ حضرت مولانا اپنے والد گرامی مولانا منظور نعمانی ؒ اور ان کے رفیق حمیم مفکر اسلام مولانا علی میاں ندوی ؒ کے طریقہ تبلیغ اور انداز دعوت کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہیں :
تعداد میں اضافہ سے حضرات اکابر خوش نہیں ہوا کرتے تھے :
’’ اس دور میں بار بار تجربہ ہوتا تھا کہ یہ دونوں حضرات اس پر کڑی نظر رکھتے تھے کہ جو لوگ تبلیغی محنت سے وابستہ ہورہے ہیں ان کو دین کی صحیح سمجھ حاصل ہو؛ چناں چہ وقتاً فوقتاً وہ مختلف غلطیوں کی نشاندہی واصلاح کی کوشش بھی کرتے رہتے تھے اور صرف جماعت میں نکلنے والوں کی تعداد میں اضافہ دیکھ کر خوش نہیں ہوا کرتے تھے ، اس سلسلہ میں ان کی فکرمندی اور اصلاح کی کوششوں کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ۱۹۵۳ء میں انہوں نے اپنے اس مرکز (لکھنؤ کی مسجد) میں پوری ریاست اتر پردیش کے تبلیغی کارکنوں کو ایک ہفتے کے تربیتی اجتماع کے لیے بلایا اور اس میں جماعتوں کی تشکیل پر زور دینے سے زیادہ غلطیوں کی اصلاح پرزور دیا گیا ۔
اجتماع بلانے کا سبب یہ تھا :
یہاں یہ تفصیل ذکر کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کارکنوں میں پھیلنے والی دو غلطیوں کی اطلاع یہ ان کا تجربہ اس مخصوص تربیتی اجتماع کے بلانے کا سبب بنا تھا ،جن میں سے ایک غلطی یہ تھی کہ جن ایمانی صفات اوراسلامی تعلیمات کا تذکرہ تبلیغی بیانات میں عام طور پر اس مقصد سے کیا جاتا تھا کہ ان کے اندر فکر آخرت پیدا ہو اور اپنی مکمل اصلاح اور پورے دین کو سمجھنے اور سیکھنے کا شوق پیدا ہو۔ اس مقصد کے لیے اہل علم وذکر کی خدمت میں جاجاکر دین کی سمجھ حاصل کرنے اور اپنی اصلاح کسی روحانی طبیب سے کراتے رہنے کا رواج زندہ ہو ۔ ان بیانات کے محدود دائرہ کی وجہ سے اپنی سستی وپست ہمتی کی وجہ سے اور نفس وشیطان کی تلبیس کے نتیجہ میں بہت سے کارکنوں کا یہ ذہن بنتا ہوا نظر آتا تھا کہ دین بس اتناہی ہے اور اخلاق اور معاشرت و معاملات اوردین کے دوسرے شعبوں کی اہمیت ان کی نگاہ میں کم ہوتی ہوئی محسوس ہوتی تھی ۔ شاید ان کو یہ معلوم نہ تھا کہ کار جہاں دراز ہوتی ہے ۔
اور دوسری غلطی جس کا احساس ان بزرگوں کو اسی دور میں ہونے لگا تھا کہ بہت سے کار کنوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھتی جارہی ہے کہ دین کی محنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کے ابتدائی دور میں ہوئی اور اب مولانا الیاس صاحب ؒ نے اس محنت کو شروع کیا اور گویا درمیان کے پورے دور طویل دین کی عمومی محنت کی طرف سے مسلسل غفلت برتی گئی ۔ چناںچہ مذکورہ اجتماع میں پورے ایک ہفتہ تک حضرت مولانا نعمانی ؒ نے پورے دین وشریعت کی تشریح پر مشتمل بیانات کیے اور ان کی مشہور اور بہت اہم کتاب ’’دین وشریعت‘‘ انہیں بیانات کا مجموعہ ہے اور حضرت مولانا علی میاں ندوی ؒ نے اسی پورے ہفتہ میں عہد صحابہ کے بعد سے لے کر ماضی قریب تک کی جانے والی عظیم تجدیدی واصلاحی کوششوں کی تاریخ بیان فرمائی ۔ اور جاننے والے جانتے ہیں کہ حضرت مولانا کی مایہ ناز تصنیف’’ تاریخ دعوت عزیمت ‘‘کی بنیاد ان کے وہی بیانات تھے جو انہوں نے لکھنؤ کے اس مرکز میں مذکورہ تربیتی ہفتے کے دوران کیے تھے ۔
تباہی کا راستہ :
آج یہ دونوں غلطیاں اپنی پوری شدت کے ساتھ عمومی طور پر کارکنان تبلیغ میں موجود ہیں ۔ جس کے نتیجے میں علما کی خدمات اور ان کے تمام کاموں کو بہ نظر حقارت دیکھنا بل کہ اجرت پر کام کرنے والے تمام علما و ائمہ و مؤذنین اورمعلمینِ مکاتب ان کی نگاہوں میں دین کے کام سے محروم ہیں ۔ اور بزعم خویش ساری اصلاحات کے اکیلے وہی ٹھیکیدار ہیں۔ اسی پر بس نہیں، بل کہ بعض علاقوں میں مروجہ کام سے نہ جڑنے کی پاداش میں امامت سے ہٹادیا گیا ، گشت میں شرکت نہ کرنے پر زدو کوب کیاگیا ۔ ان کی خدمات و قربانیوں سے یکسر آنکھیں موند کر خالی الذہن لوگوں کے اندر علما ودیگر خدام دین کو فضول وبے کار بل کہ امت پر بوجھ ثابت کرنے کوشش کی جارہی ہے ۔ یقینا یہ سوچ اور بے بنیاد تصور پوری امت کے لیے قائدین اورعلمائے دین متین سے بچھڑنے اور ہلاکت کے یقینی ہونے کا ذریعہ ہے، جس کا خمیازہ مختلف ملکوں میں بھگتنا پڑا اور پوری امت کو اسلامی حکومت سے بے دخل کیا گیا ۔ الأمان و الحفیظ !
ہمیشہ یہ بات یاد رکھیں:
اس بات کو ہر گز نہ بھولیں کہ دنیا میں فکروں اور نظریات کا اختلاف ہمیشہ سے رہا اور رہے گا، ٹھیک اسی طرح جیساکہ رنگ و نسل کا اختلاف زبان وپسند کا اختلاف ہے۔ ہر کسی کو اپنے نظریہ اور اپنی فکرپر لانے کی کوشش ہاتھ کی پانچوں انگلیوں کی کمی بیشی کو برابر کرنے کے مترادف ہے اوراپنی توانائی کو ضائع کرنے سے زیادہ کچھ نہیں ۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اختلاف نظریات واختلاف طریقہ کار کے باوجود ایک دوسرے کو بہ حیثیت صاحب ایمان بہ حیثیت انسان بہ نظر اکرام دیکھیں ، اپنی بات پر قائم رہتے ہوئے دوسروں کی رائے کا بھی احترام کریں ۔ نیز امت کے لیے ایسے مثبت کام جس کی سخت ضرورت ہے، اپنی صلاحیتوں ، مال ومنال کو صرف کرکے اس کی دینی و دنیاوی ترقی کی فکر کریں تاکہ خلق خدا کے ساتھ محبت وخدمت کی و جہ سے ہم اللہ کی نگاہ قدر شناس میں محبوب بن جائیں اور امت کے لیے ہم ہدایت و ترقی کا ذریعہ بن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کو بھی ٹھنڈا کرسکیں ۔ اسی میں ہماری پوری امت کی راحت وعافیت کا راز مضمر ہے ۔ ورنہ تو عیار دشمنوں اور تمام باطل وطاغوتی طاقتیں ہمیں ،ہمارے مذہب اورہمارے تشخص کو مٹانے کے لیے پورے تانے بانے بن چکے ہیں۔
اگر امت اپنے علما وقائدین سے جڑی رہی اور علما اپنی ذمہ داری برابر نبھاتے رہے تو ان شاء اللہ ہمارا یہ ربط آپسی اتحاد واتفاق ودشمنی کو کبھی بھی اپنے منصوبے میں کام یا ب نہ ہونے دے گا ، کیوں کہ جب کوئی قوم افادے اور استفادے کی راہ سے ہٹ جاتی ہے تو وہ قوم خیر و برکت کی دولت سے محروم ہوجاتی ہے ۔ وما ذلک علی اللہ بعزیز !
ایک ہوں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے
ملت سے اپنا رابطہ استوار رکھ
وابستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ