مرتب :محمد سبحان ارریاوی(استاذ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا)
قرآنِ کریم اللہ تعالیٰ کا پاکیزہ کلام ہے،جو ہدایاتِ ربانی کا منبع اورساری انسانیت کے لیے نسخہٴ کیمیا ہے،جس کی آیاتِ بینات سراسر ہدایت اور سراپاشفا ہیں،جو دنیا کی تمام کتابوں سے بہر اعتبار فائق و برتر ہے، اس کی صداقت و حقانیت روزِ روشن کی طرح عیاں وبیاں ہے ، اس کی حلاوت و شیرینی اور اثر آفرینی ایسی ہے کہ لوگ دیوانہ وار اس کی طرف کھینچے چلے آتے ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ پڑھے جانے کا اعزاز بھی قرآن کو ہی حاصل ہے۔بے شک یہ کتاب تمام کتابوں سے افضل ہے؛ جیسا کہ ایک روایت میں ہے:”فَضْلُ کَلَامِ اللّٰہِ عَلیٰ سَائِرِ الْکَلَامِ کَفَضْلِ اللّٰہِ علیٰ خَلْقِہ۔“ (الترمذی)
ترجمہ: اللہ کے کلام کی فضیلت تمام کلاموں پر ایسی ہے جیسے اللہ کا مقام تمام مخلوقات کے مقابلے میں۔
لہٰذا اس کے مقام و مرتبہ اور اس کی عظمت کے لحاظ سے اس کا احترم ، اس کی تعظیم اور اس کا ادب بجالانا، ہر ایک مسلمان پر لازم وضروری ہے، کیوں کہ شعائر اللہ کی تعظیم و تکریم کو دلوں کا تقویٰ قرار دیا گیاہے۔
ویسے توحرمت و عظمتِ قرآن وغیرہ کے عنوان سے بہت ساری کتابیں اور مضامین لکھے گئے ہیں، یہاں پر کچھ ضروری چیزیں قرآن و حدیث کی روشنی میں ”فضائلِ حفاظ القرآن “ کے حوالے سے آپ کی خدمت میں پیش کی جارہی ہیں، تاکہ مسلمان قرآنِ کریم کے ظاہری ادب و احترام کے ساتھ اس کا حقیقی ادب و احترام بھی بجالائیں اور اپنی زندگی قرآنی احکام کے مطابق گزاریں۔
قرآن مجید کا احترام:
زمین پر قرآنِ کریم رکھنے والے پر اللہ تعالیٰ لعنت فرماتے ہیں:
۱-: عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیْزِ (مُرْسَلاً) قَالَ مَرَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِکِتَابٍ فِی الْاَرْضِ فَقَالَ لَعَنَ اللّٰہُ مَنْ فَعَلَ ہٰذَا لَا تَضَعُوْا کِتَابَ اللّٰہِ اِلَّا مَوْضِعَہ۔ (اخرجہ الحکیم الترمذی فی نوادر الاصول ۔ کنزالعمال: ج -۱/ص: ۶۲۱)
ترجمہ: عمر بن عبد العزیز سے مرسل طور پر مروی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کے پاس سے گزرے، جو زمین پر رکھا ہوا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ لعنت کرے اس پر جس نے یہ کام کیا ہے۔ تم اللہ تعالیٰ کی کتاب کو اس کے شایانِ شان مقام پر ہی رکھا کرو۔
(حکیم ترمذی) ، (فضائل حفظ القرآن:ص ۱۳۷)
احترامِ قرآن کے متعلق مزید ایک روایت:
۲- : لَا تَمْحُوْا کِتَابَ اللّٰہِ بِالْاَقْدَامِ۔(ابو نصر السجزی فی الابانة وقال غریب عن معاذ ۔ کنزالعمال فی سنن الاقوال والافعال :ج-۱/ص: ۶۲۲)
ترجمہ: تم کتاب اللہ کو پاوٴں سے نہ مٹایا کرو (پامال نہ کیا کرو)۔ (ابو نصر سجزی)
بے عمل قرأ و حفاظ کے ہونٹوں کو آگ کی قینچیوں سے کاٹا جائے گا:
۳-: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَتَیْتُ لَیْلَةً اُسْرِیَ بِیْ عَلٰی قَوْمٍ تُقْرَضُ شِفَاہُہُمْ بِمَقَارِیْضَ مِنْ نَّارٍ کُلَّمَا قُرِضَتْ وَفَتَ أَیْ نَمَتْ وَعَادَتْ کَمَا کَانَتْ فَقُلْتُ یَا جِبْرِیْلُ مَنْ ہٰوٴُلاَءِ ؟ قَالَ خُطَبَاءُ اُمَّتِکَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ مَا لَایَفْعَلُوْنَ وَیَقْرَءُ ْونَ کِتَابَ اللّٰہِ وَلَا یَعْمَلُوْنَ بِہ۔
(رواہ البیہقی فی شعب الإیمان۔ یا حملة القرآن: ص ۴۰)
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد روایت کیا ہے کہ شبِ معراج میں میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا، جن کے ہونٹوں کو آگ قینچیوں سے کاٹا جا رہا تھا، جب بھی ان کے ہونٹوں کو کاٹا جاتا ہر مرتبہ وہ پہلی حالت پر لوٹ کر صحیح و سالم ہو جاتے۔ میں نے پوچھا اے جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں؟ تو عرض کیا آپ کی امت کے وہ خطبا اور واعظین ہیں جو ایسی باتیں کہا کرتے تھے، جن پر خود عمل نہیں کرتے تھے اور… کتاب اللہ پڑھا کرتے تھے، مگر اس پر عمل نہیں کرتے تھے۔
(بیہقی)
حفظ و قرأت کے ساتھ اخلاص اور فہم و تفسیر بھی ضروری ہے:
۴-: سَیَأتِيْ عَلٰی اُمَّتِیْ زَمَانٌ یُکْثَرُ فِیْہِ الْقُرَّاءُ وَ یَقِلُّ الْفُقَہَاءُ وَیُقْبَضُ الْعِلْمُ وَیَکْثُرُ الْہَرَجُ ثُمَّ یَأتِيْ بَعْدَ ذٰلِکَ زَمَانٌ یَقْرَأُ الْقُرْاٰنُ رِجَالٌ مِنْ اُمَّتِیْ لَا یُجَاوِزُ تَرَاقِیَہُمْ ثُمَّ یَأْتِیْ بَعْدَ ذٰلِکَ زَمَانٌ یُجَادِلُ الْمُشْرِکُ بِاللّٰہِ مِنَ الْمُوٴْمِنِیْنَ فِی مِثْلِ مَا یَقُوْلُ۔
(رواہ الطبرانی فی الأوسط والحاکم فی المستدرک عن أبی ہریرة، جامع الشمل :ج ۱ص ۱۵۲- فضائل حفظ القران ص: ۱۳۱-۱۳۲)
ترجمہ: عنقریب میری امت پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں جاہل قرا کی کثرت ہوگی اور فقہا اخلاص اور فہم و تفسیر کے ساتھ پڑھنے والوں کی کمی ہوگی اور علم اٹھا لیا جائے گا اور فتنہ و فساد بڑھ جائے گا پھر اس کے بعد اس سے بڑھ کر ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں میری امت کے لوگ قرآن پڑھیں گے، مگر وہ ان کے حلقوں سے نیچے نہیں اترے گا، ریاکار و بد عمل قرا بہت ہو جائیں گے پھر اس کے بعد اس سے بھی سخت ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں خدا تعالیٰ کے ساتھ شریک قرار دینے والا آدمی مومن سے جھگڑا کرے گا کہ جس طرح کے عقائد و اعمال وہ رکھتا ہے اسی طرح کے وہ بھی رکھتا ہے، پھر کفر و ایمان میں کیا فرق ہے۔
(طبرانی اوسط و مستدرک حاکم)
بد عمل قرا کا عذاب، تمام مخلوقات کے سامنے انتہائی رسوائی:
۵-: یُوٴْتٰی بِعِصَابَةٍ مِّنْ اُمَّتِیْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَہُمُ الْقُرَّاءُ- فَیُقَالُ لَہُمْ مَنْ کُنْتُمْ َتعْبُدُوْنَ؟ قَالُوْا اِیَّاکَ رَبَّنَا- قَالَ فَمَنْ کُنْتُمْ تَسْأَلُوْنَ؟ قَالُوْا اِیَّاکَ رَبَّنَا- قَالَ فَمَنْ کُتْنُمْ تَسْتَغْفِرُوْنَ؟ قَالُوْا اِیَّاکَ رَبَّنَا- فَیَقُوْلُ کَذَبْتُمْ عَبَدْ تُّمُوْنِْی بِالضَّلَالَةِ وَاسْتَغْفَرْتُمُوْنِیْ بِالْأَلْسِنَةِ وَفَرَرْتُمْ مِّنِّیْ بِالْقُلُوْبِ- فَیُنْظَمُوْنَ فِیْ سِلْسِلَةٍ ثُمَّ یُطَافُ بِہِمْ عَلٰی رُءُ ْوسِ الْخَلَائِقِ…فَیُقَالُ ہٰوٴُلَاءِ مِنْ قُرَّاءِ اُمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔
(کنز العمال: ج ۱۰ص ۲۷۲- وزہر الفردوس: ۴/۴۱۸- مسند الفردون: ۸۷۶۸ عن أنس)
ترجمہ: قیامت کے دن میری امت کے قرّا کی ایک جماعت کو پیش کیا جائے گا اور انہیں کہا جائے گا تم کس کی عبادت کرتے تھے؟ وہ کہیں گے اے ہمارے رب! آپ ہی کی۔اللہ تعالیٰ پوچھیں گے تم کس سے( اپنی ضرورتیں) مانگتے تھے؟ تو کہیں گے اے ہمارے رب! آپ ہی سے۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھیں گے تم کس سے مغفرت طلب کرتے تھے، تو کہیں گے اے ہمارے رب! آپ ہی سے۔ تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تم جھوٹ بولتے ہو، تم نے میری عبادت نافرمانی سے کی تھی اور تم نے مجھ سے زبان سے استغفار کیا، لیکن تم دلوں سے دور بھاگتے تھے۔ پھر انہیں زنجیروں سے جکڑ دیا جائے گا اور تمام مخلوقات کے سامنے پھرایا جائے گا اور کہا جائے گا یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے قاری حضرات ہیں۔(کنز العمال)
فائدہ:۱- مطلب یہ ہے کہ مقتضائے قرآن پر عمل کیا جائے اور اپنی ضرورتیں دل و جان سے خدا ہی سے مانگی جائیں ۔ور نہ حفظ قرآن جتنا بڑا اعزاز ہے، اس کی بے قدری پر اتنی ہی بڑی رسوائی ہے۔(فضائل قرآن)
فائدہ :۲-تلاوت الغافلین:
حضرت حسن بصری کہتے ہیں:
۱-: اِنَّکُمُ اتَّخَذْتُمْ قِرَاءَ ةَ الْقُرْآنِ مَرَاحِلَ وَجَعَلْتُمُ اللَّیْلَ جَمَلًا فَاَنْتُمْ تَرْکَبُوْنَہ فَتَقْطَعُوْنَ بِہ مَرَاحِلَہ وَاِنَّ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ رَاَوْہُ رَسَائِلَ مِنْ َّربِّہِمْ فَکَانُوْا یَتَدَبَّرُوْنَہَا بِاللَّیْلِ وَیُنَفِّذُوْنَہَا بِالنَّہَارِ۔
تم لوگوں نے قرآنِ کریم کی قرأت کو منزلوں کی حد تک محدود کر رکھا ہے اور رات کو بمنزلہ اونٹ کے قرار دے دیا، بس اس پر سوار ہو کر تم صرف قرآن کی منزلیں طے کرتے ہو،جب کہ تم سے پہلے لوگ قرآن کو اللہ کے پیغامات سمجھتے تھے، رات بھر ان پیغاموں میں غور و تدبر کرتے تھے اور دن کو اُن پر عمل درآمد کرتے تھے۔
۲:- ابن مسعود کا ارشاد ہے: اِنَّ اَحَدَکُمْ لَیَقْرَأُ الْقُرْاٰنَ مِنْ فَاتِحَتِہ إلٰی خَاتِمَتِہ مَا یَسْقُطُ مِنْہُ حَرْفًا وَقَدْ اَسْقَطَ الْعَمَلَ بِہ ۔
تم میں سے ایک آدمی فاتحہ سے والناس تک پورا قرآن اس طرح پڑھ جاتا ہے کہ ایک حرف بھی کمی نہیں کرتا، مگر دوسری طرف یہ حال ہوتا ہے کہ اس نے عمل ایک حرف پر بھی نہیں کیا ہوتا۔
۳:- حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کا ارشاد ہے: رُبَّ تَالٍ لِلْقُرْآنِ وَالْقُرْآنُ یَلْعَنُہ۔
قرآن کے بہت سے قاری ایسے ہیں کہ قرآن ان پر لعنت کرتا جاتا ہے۔
۴:-بعض سلف کا قول ہے: أنَّ الْعَبْدَ لَیَفْتَتِحُ سُوْرَةً فُتُصَلِّیْ عَلَیْہِ الْمَلَائِکَةُ حَتّٰی یَفْرُغَ مِنْہَا وَاِنَّ الْعَبْدَ لَیَفْتَتِحُ سُوْرَةً فَتَلْعَنُہُ الْمَلَائکِةُ حَتّٰی یَفْرَغَ مِنْہَا فَقِیْلَ لَہ وَکَیْفَ ذٰلِکَ؟ فَقَالَ اِذَا أَحَلَّ حَلَالَہَا وَحَرَّمَ حَرَامَہَا صَلَّتْ عَلَیْہِ الْمَلَائِکَةُ وَإِلَّا لَعَنَتْہُ۔
یقینا انسان بسا اوقات ایک سورت شروع کرتا ہے تو اس پر فرشتے برابر رحمت بھیجتے رہتے ہیں،یہاں تک کہ اس سے فارغ ہو جائے اور یقینا انسان بسا اوقات ایک سورت شروع کرتا ہے تو فرشتے برابر اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ اس سے فارغ ہو جائے، ان سے پوچھا گیا یہ کیوں کرتا ہے؟ کہنے لگے جب وہ اس سورت کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام قرار دیتا ہے تو فرشتے اس پر رحمت بھیجتے ہیں ورنہ لعنت کرتے ہیں۔
۵:- بعض علماء کا قول ہے: اِنَّ الْعَبْدَ لَیَتْلُو الْقُرْاٰنَ فَیَلْعَنُ نَفْسَہ وَہُوَ لَا یَعْلَمُ ، یَقُوْلُ﴿ اَلَا لَعْنَةُ اللّٰہِ عَلَی الظَّالِمِیْنَ﴾ ، وَہُوَ ظَالِمٌ نَفْسَہ،﴿ فَنَجْعَلْ لََّعْنَةَ اللّٰہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ﴾ وَہُوَ مِنْہُمْ۔
یقینا انسان بسا اوقات قرآنِ کریم کی تلاوت کرتا ہے تو اس کو معلوم بھی نہیں ہوتا اور وہ برابر اپنے اوپر لعنت کرتا رہتا ہے مثلاً وہ یہ آیت پڑھتا ہے:﴿ اَ لَا لَعْنَةُ اللّہِ عَلَی الظَّالِمِیْنَ﴾( خبردار! ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے )اور وہ خود اپنی جان پر ظلم کرنے والا ہوتا ہے۔( اس طرح گویا خود اپنے اوپر لعنت کر رہا ہے۔)
دوسری آیت پڑھتا ہے:﴿فَنَجْعَلْ لَّعْنَةَ اللّہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ﴾
سو ہم جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجیں۔اور وہ خود جھوٹوں میں سے ہوتا ہے اس طرح وہ خود ہی لعنت کا مرض قرار پاتا ہے۔(حاشیہ تبیان:ص۷۰-۷۱)
فائدہ: ۳-باعمل تلاوت کی بطور نمونہ چند مثالیں:
۱-: قرآن ہمیں توحید اور خالص اللہ کے لیے عبادت کا حکم دیتا ہے، لہٰذا ہم پر واجب ہے کہ اپنے تمام اقوال و افعال میں خلوص پیدا کریں۔
۲-: قرآن ہمیں ہر امر میں اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اور ہر نہی میں اس سے باز رہنے کی تلقین کرتا ہے، لہٰذا ہم پر واجب ہے کہ ہم رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر امر میں اطاعت کریں اور ہر نہی میں اس سے باز رہیں۔
۳-: قرآن ہمیں اوقاتِ نماز میں نماز کا حکم دیتا ہے، لہٰذا ہم پر واجب ہے کہ مکمل شروط و واجبات اور سنن کی رعایت کے ساتھ اوقاتِ نماز میں ادائے نماز کا اہتمام کریں اور اس کو وقت سے موٴخر نہ کریں اور ادائیگی میں سستی نہ کریں۔
۴-: قرآن ہمیں ادائے زکوة اور روزہ و حج کا حکم دیتا ہے، لہٰذا ہم پر واجب ہے کہ بروقت ان فرائض کی ادائیگی میں مستعدی کا ثبوت دیں۔
۵-: قرآن ہمیں نیکیوں کی طرف سبقت کرنے کا اور برائیوں کے ترک کرنے کا اور نیکی و تقویٰ پر تعاون کا حکم دیتا ہے،لہٰذا ہم پر واجب ہے کہ تعمیل کا پورا خیال رکھیں۔
۶-: قرآن …ہمیں ظلم و زیادتی، خیانت، وعدہٴ خلافی سے روکتا ہے، لہٰذا ہم پر واجب ہے کہ ان چیزوں سے رک جائیں۔
۷-: قرآن ہمیں امانت کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے، لہٰذا ہم پر واجب ہے کہ اپنی عبادتوں اور اپنے معاملات میں امین ہونے کا مظاہرہ کریں۔
۸-: قرآن ہمیں سچائی کا حکم دیتا ہے، لہٰذا ہم پر واجب ہے کہ اپنے قول و فعل میں سچے بن جائیں۔
۹-: قرآن ہمیں والدین و اقربا اور پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیتا ہے، لہٰذا ہم پر واجب ہے کہ ان حضرات کے ساتھ حسنِ سلوک کریں۔
۱۰-: قرآن ہمیں غافل اور بد دین لوگوں کے ساتھ ہم نشینی سے روکتا ہے، لہٰذا ہم پر واجب ہے کہ ایسے لوگوں کی صحبت سے کنارہ کشی اختیار کریں۔
۱۱-: قرآن ہمیں صلحا اور صادقین کی صحبت میں بیٹھنے کا حکم دیتا ہے، لہٰذا ہم پر واجب ہے کہ ایسے لوگوں کی تلاش کریں اور ان کی صحبت و ہم نشینی اختیار کریں۔
۱۲-: قرآن ہمیں اعلانیہ اور خفیہ اللہ کی معیت و خشیت کے مراقبہ و حضور کا حکم دیتا ہے، لہٰذا ہم پر واجب ہے کہ اپنے قول و فعل میں خود خوفِ خداوندی کا استحضار رکھیں۔
۱۳-: قرآن ہمیں اللہ کی تقدیر پر صبر و رضا کا اور اس کی نعمتوں پر شکر بجا لانے کا حکم دیتا ہے، لہٰذا ہم پر واجب ہے کہ خوشحالی میں شکر بجا لائیں اور تنگی کے وقت قدر و قضا میں صبر و تسلیم کا مظاہرہ کریں۔
۱۴-: قرآن میں اللہ پر توکل کا اور اسی کی طرف معاملہ کی تسلیم کا حکم دیتا ہے، لہٰذا ہم پر واجب ہے کہ متوکلین میں سے بن جائیں اور اپنے معاملات اسی کے سپرد کر دیں۔
۱۵-: قرآن ہمیں نظر نیچے رکھنے کا اور شرمگاہ کی حفاظت کا حکم دیتا ہے، لہٰذا ہم پر نظر نیچی رکھنی اور شرمگاہ کی حفاظت بہت ضروری ہے۔
وعلی ہذٰا القیاس ہم پر واجب ہے کہ ان تمام اَوَامر کو بجا لائیں، جن کا قرآن نے ہمیں حکم دیا ہے اور ان تمام نواہی سے باز آ جائیں، جن سے قرآن نے منع کیا ہے، تاکہ ہم دنیا کی سعادت سے بہرہ ور ہو جائیں اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کر لیں۔(الفوائد:ص۹۸-۹۹)
۱۶-: ارشاداتِ ربانیہ:﴿اِنَّ اللّٰہَ لَا یَخْفٰی عَلَیْہِ شَیْءٌ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَاءِ﴾-﴿اِنَّہ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بِصِیْرٌ﴾-﴿وَہُوَ مَعَکُمْ اَیْنَمَا کُنْتُمْ﴾-﴿مَا یَکُوْنُ مِنْ نَّجْوٰی ثَلٰثَةٍ اِلَّا ہُوَ رَابُعُہُمْ وَلَا خَمْسَةٍ اِلَّا ہُوَ سَادِسُہُمْ وَلَا اَدْنٰی مِنْ ذٰلِکَ وَلَا اَکْثَرَ اِلَّا ہُوَ مَعَہُمْ اَیْنَمَا کَانُوْا﴾ (القرآن)
ہمیں سبق دیتے ہیں کہ خفیہ اور علانیہ ہم اپنے قول و فعل میں اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کا استحضار رکھیں کہ اس پر زمین و آسمان کی کوئی چیز بھی پوشیدہ نہیں ہے، وہ… ہمارے سب عملوں کو دیکھ رہا ہے، ہم جہاں بھی ہوں، وہاں ہمارے ساتھ ہیں۔
تین آدمی خفیہ بات کر رہے ہوں، تو چوتھی ذات اس کی موجود ہے۔ پانچ آدمی پوشیدہ راز کی بات کر رہے ہوں، تو چھٹی اس کی ذات وہاں پر موجود ہے۔ اسی طرح کم و بیش جتنے افراد بھی محوِ گفتگو ہوں، اس کی ذات یقینا اس کے پاس موجود ہے۔ اگر ہمیں یہ سبق پختہ ہو جائے تو کوئی غلط بات ہمارے منہ سے نہیں نکل سکتی، کوئی افواہ ہم نہیں پھیلا سکتے، کسی پر بہتان یاالزام تراشی یا غیبت و چغلی کی جرأت نہیں کر سکتے، بل کہ اس صورت میں ہم سے کوئی بھی گناہ سرزد نہیں ہو سکتا۔
۱۷-: ﴿لَنْ تَنَالُوْا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ﴾،یہ آیت ہمیں یہ درس دے رہی ہے کہ ہم بخیلی اور کنجوسی اور حرص وطمع سے پرہیز کریں، جو چیز ہمیں محبوب و مرغوب ہے اس کو اللہ کے راستے میں خرچ کریں، تب ہمیں کامل نیکی حاصل ہو سکتی ہے۔اگر ہمیں یہ درس پختہ ہو جائے تو پورے معاشرے میں باہمی الفت و محبت کا دور دورہ ہو جائے اور ہر فرد کے… دوسرے کے ساتھ ربط و تعلق اور باہمی شفقت ورحم دلی کے جذبات مستحکم ہو جائیں۔
۱۸-: ﴿وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاُولٰئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾-﴿فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللہِ لِنْتَ لَھُمْ، وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ﴾
یہ آیات ہمیں سبق دیتی ہیں کہ ہر مسلمان دوسرے کو خیر کی دعوت دے، اچھائی کا حکم کریں اور برائی سے روکے، نرم خوئی کا مظاہرہ کرے۔ا کھڑپن اور سخت دلی کا مظاہرہ نہ کرے، اگر ہر مسلمان یہ سبق پختہ کر لے، تو پورے معاشرے میں شر و فساد ختم ہو جائے اور اس کی جگہ مسلمانوں کے لیے تمام افراد میں خیر کا غلبہ ہو جائے اور سب مسلمانوں کو رحمت و برکت و ہدایت اور نیکی عام و تام ہو جائے۔
۱۹-: ﴿ اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوْا الْاَمٰنٰتِ اِلٰی اَھْلِھَا، وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ﴾۔
یہ آیت یہ درس دے رہی ہے کہ ہر مسلمان کو اپنی عبادت اور اپنے معاملات میں امانت دار، دھوکے اور خیانت سے دور ہونا چاہیے۔ فیصلہ میں اور اپنی تمام ترذمہ داریوں اورسونپے ہوئے امور و معاملات وا عمال میں عدل و انصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔
اگر ہم تلاوتِ قرآن کے بعد یہ سب پختہ کر کے اٹھیں، تو پورے معاشرے میں آپ کو کسی جگہ بھی دھو کہ اور خیانت اور دجل و فریب کاری کا نشان بھی نہ ملے گا۔رزق اور کمائی میں برکت عام وتام ہو جائے گی، رحمت و محبت کا دور دورہ ہو جائے گا اور ظلم نیست و نابود ہو جائے گا، جو امت کی ہلاکت و ذلت کے اسباب میں سے ایک قوی سبب ہے۔
۲۰-: ﴿وَلَا تَقْرَبُوْا الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَمَا بَطَنَ ﴾، یہ آیت ہمیں یہ تعلیم دیتی ہے کہ قولی و فعلی، چھوٹے بڑے ظاہر و پوشیدہ تمام بے حیائی کے کاموں سے مسلمان کو بچنا چاہیے۔
اگر ہم تلاوت کے وقت یہ تعلیم پختہ کر لیں ،تو پورے معاشرے میں اخلاق کی صفائی، نفوس کی پاکیزگی اور روحوں کی ستھرائی کا دور دورہ ہو جائے۔
۲۱-: ﴿خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجَاہِلِیْنَ﴾۔یہ آیت اپنے قاری کو یہ سبق دیتی ہے کہ بدسلوکی کرنے والوں کو اور مجرموں کو معاف کر دو، آپس میں صلہ رحمی، تقویٰ، نگاہ نیچے رکھنے اور تمام اچھائی کے کاموں کا حکم کرو۔ ظالموں، جاہلوں، نا سمجھ لوگوں کے ساتھ الجھنے سے پرہیز کرو، اگر ہر مسلمان ان اخلاق سے موصوف ہو جائے، تو پورے معاشرے میں اُخُوَّت کی روح پھیل جائے، آپس میں نفرت و بغض حسد اور قطع رحمی کا قلع قمع ہو جائے۔
۲۲-: ﴿یٰاَیُّہا الَّذِیْنَ امَنُوْا اتَّقُوْا اللّہَ وَکُوْنُوْا مَعَ الصّادِقِیْنَ﴾۔اگر قاری اس آیت پر عمل کرتے ہوئے اپنے ہر قول و فعل میں صداقت اور سچائی اختیار کرے، تو پورے معاشرے کی اصلاح ہو جائے ،کیوں کہ صداقت نیکی کی طرف اور نیکی جنت کی طرف راستہ دکھاتی ہے۔
۲۳-: ﴿اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ﴾،اگر تلاوت کرنے والا اس آ یت سے سبق حاصل کر کے اپنے تمام دینی اور دنیاوی امور و معاملات میں حسنِ طریقہ کو اپنا لے، تو پورے معاشرے میں سعادت کا دور دورہ ہو جائے اور تمام افراد ِامت کی سب مشکلیں اور پریشانیاں رفع ہوجائیں۔
۲۴-: ﴿قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُم،ذٰلِکَ اَزْکٰی لَہُمْ، اِنَّ اللہَ خَبِیْرٌم بِمَا یَصْنَعُوْنo وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا ﴾۔
(النور)
اگر ان آیتوں کی تلاوت کرنے والا ہر مسلمان مرد حرام مواقع سے اپنی نگاہ کو نیچے رکھے، غیر حلال عورتوں سے اپنی شرمگاہ کی حفاظت رکھے، اسی طرح ہر مسلمان عورت اللہ کے حکم کے مطابق اپنی نگاہ کو نیچے رکھے اور اپنی شرمگاہ کی حفاظت رکھیں ،پوری عزت اور کامل پردہ کے ساتھ بغیر کسی زیب و زینت کے گھر سے نکلے، تو پورا معاشرہ اخلاقِ حمیدہ، فاضلہ سے مامور ہو جائے اور اخلاقِ رذیلہ اور بے حیائی کا بالکل قلع قمع ہو جائے۔(الفوائد: ص۱۳۷-۱۳۹)
۲۵-: جب مسلمان قرآنِ کریم کی تلاوت کرے، تو یہ تصور کرے کہ میں ہی اس کا مخاطب ہوں، لہٰذا جب کسی کی آیت سے گزرے، تو اپنے متعلق سوچے کہ کیا میں اس امر کو بجا لانے والا ہوں یا اس کو ترک کرنے والا ہوں؟ اس کے برعکس جب کسی نہی والی آیت سے گزرے، تو اپنے بارے میں غور کرے، کیا میں اس نہی سے باز رہنے والا ہوں یا اس کا ارتکاب کرنے والا ہوں؟
۲۶-: جب مسلمان ان آیتوں کی تلاوت کرتے ہوئے گزرے جن میں مومنوں کی صفات اور ان کے اخلاق کا تذکرہ ہے، تو اپنے نفس کو ان صفات پر پیش کرے اور جائزہ لے کہ کیا وہ ان لوگوں میں سے ہے؟ اس صورت میں اللہ کا شکر بجا لائے اور مزید کی توفیق طلب کرے، یا وہ ان میں سے نہیں ہے؟ اگر ایسا ہے تو کوشش کرے اور ان صفتوں سے اپنے آپ کو موصوف اور مزیَّن کرنے کی تگ و دو کرے۔اس کے برعکس جب منافقوں کی صفات سے گزرے، تو محتاط ہو جائے کہ شاید وہ بھی انہی میں سے ہے اور اسے خبر ہی نہ ہو رہی ہو۔
۲۷-: جب حق تعالیٰ شانہ کے اس ارشاد سے گزرے﴿ یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ امَنُوْا ﴾تو اس کے بعد آنے والے مضمون کی طرف اپنے کان اور دل کو متوجہ کر دے۔اگر وہ ”امر“ ہو، تو اس کو بجا لائے اور اگر” نہی“ ہو، تو اس سے باز رہے۔اور بعض حضرات سلف جب﴿ یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ امَنُوْا ﴾تلاوت کرتے تو عرض کرتے”لَبَّیْکَ رَبِّیْ وَسَعْدَیْکَ“ اے میرے پروردگار! میں حاضر ہوں اور تابعدار ہوں، (جو آپ کا فرمان ہوگا، اس پر دل و جان سے عمل درآمد کروں گا۔)
۲۸-: مثال کے طور پر جب تم یہ آیت پڑھے: ﴿ یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْا اَنْفُسَکُمْ وَاَہْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُ ہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ﴾ تو اپنے اہل و عیال کے متعلق سوچے، ان کے نماز، روزے کا کیا حال ہے ؟ حَدَث و جنابت اور حیض و نفاس کی حالت میں ان پر کون کون سے احکام واجب العمل ہیں؟ کیا وہ ان احکامات کو بجا لا رہے ہیں؟ کیا انہیں وہ احکام معلوم ہیں؟اگروہ ان احکام کو جانتے ہوں اور بجا لا رہے ہوں، تب تو مزید اور وعظ و نصیحت اور یاد دہانی کرادے، لیکن اگر وہ علم یا عمل میں کوتاہی کر رہے ہوں، تو پھر ان کو وعظ و نصیحت اور زجر و توبیخ کرے اور حصولِ علم، نیز رعایتِ عمل کی خوب تاکید کرے اور ان کی خوب نگرانی رکھے۔
۲۹-: جب کوئی یہ آیت تلاوت کرے: ﴿ یٰاَیُّہا الَّذِیْنَ امَنُوْا تُوْبُوْا اِلَی اللّہِ تَوْبَةً نَصُوْحًا﴾، تو اپنے برے افعال یاد کرے اور ان سے اللہ کی طرف رجوع کرے۔ اسی قیاس پر پورے قرآنِ کریم کا چکر لگائے اور بار بار غور و فکر کرے، امر ہو تو بجا لائے، نہی ہو، تو رک جائے۔ خوف ہو تو ڈر جائے، امید ہو تو توقع رکھے، استغفار کی آیتیں ہوں، تو استغفار کرے، وعظ و نصیحت کی آیات ہوں، تو نصیحت کو قبول کر ے، قصوں کی آیتیں ہوں، تو عبرت اور سبق حاصل کرے۔ اعتقاد و ایمان کی آیتیں ہوں، تو اپنے عقیدے اور ایمان کو پختہ کر لے۔ باری تعالیٰ کی ثبوتی صفات ہوں، تو ان کے ثبوت کا عقیدہ رکھے۔ سلبی صفات کی آیتیں ہوں، تو ان صفات سے اس کی ذات کے مقدس اور پاک ہونے کا اعتقاد رکھے۔
۳۰-: حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی وفات کے وقت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو وصیت کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: عمر! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے خوف کی آیتوں کے ساتھ امید کی آیتیں اور امید کی آیتوں کے ساتھ خوف کی آیتیں اس لیے اتاری ہیں کہ مومن رغبت اور خوف دونوں کا پیکر بن جائے۔
نہ تو اتنا امیدوار بنے کہ جس نعمت کا حقدار نہیں اس کی تمنا کرنے لگ جائے اور نہ اتنا خوف زدہ ہو جائے کہ اپنے ہاتھ پاؤں کھو بیٹھے اور اللہ کی رحمت سے قطعی نا امید ہو جائے۔
عمر! کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اہلِ دوزخ کا ذکر ان کی بد عملیوں کے ساتھ فرمایا ہے، لہٰذا جب تم ان کے تذکرے سے گزرو، تو یوں کہو کہ بفضلہ تعالیٰ مجھے امید ہے کہ میں ان میں سے نہیں ہوں گا اور اہلِ جنت کا ذکر حق تعالیٰ شانہ نے ان کے نیک عملوں کے ساتھ کیا ہے، کیوں کہ ان کے برے اعمال سے اس نے درگزر فرما دیا ہے، لہٰذا جب تم ان کے تذکرے سے گزرو، تو یہ سوچو کہ نامعلوم میرے اعمال کے ساتھ بھی اہلِ جنت کے عملوں والا معاملہ ہوتا ہے یا نہیں؟ اگر تم میری اس وصیت کو یاد رکھو گے تو موت سے زیادہ کوئی غالب چیز تمہیں محبوب نہ ہوگی اور یاد رکھو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کر سکتے، بل کہ موت بہرحال آکر رہے گی۔(ابن جریر از مجاہ کذا فی الدر المنثور: ج۶ص۴۱ بطرق متعددہ) (بحوالہ تلاوة القرآن المجید : ص۷۷-۷۹)