مقصوداحمدضیائی
تیری جدائی سے وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے
مگرتیری مرگ ناگہاں کا اب تک یقیں نہیں ہے
اس دور قحط الرجال میں علماء و صلحاء برق رفتاری کے ساتھ اس دنیائے بے مایہ کو خیر باد کہتے ہوئے کم یاب ہوتے جارہے ہیں اس وقت جب کہ ایک طرف ایک مہلک مرض” کرونا وائرس“ نامی وبا نے پوری دنیا کو اپنے خوں خوار پنجوں میں لے رکھا ہے تو دوسری طرف ہر نئی صبح ایک نیا منظرنامہ لیے نمودار ہو رہی ہے ایسے حالات میں رہنمایان قوم و ملت میں سے جب کسی شخصیت کی خبر وفات گوش سماعت سے گزرتی ہے تو ریڑھ کی ہڈی میں بھی سردلہردوڑجاتی ہے
مورخہ 12 / اپریل 2020 ء بروز اتوار آل انڈیا مسابقات قرآنیہ کے سرخیل و مدیر، رئیس الحفلات والاجتماعات استاذ حدیث وتفسیر، ترجمان جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا اورمحدث گجرات استاذ گرامی قدر حضرت مولانا مفتی عبداللہ صاحب مظاہری دامت برکاتہم بانی جامعہ مظہرسعادت ہانسوٹ گجرات کے برادر اصغرحضرت اقدس مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی مظاہری مختصر علالت کے بعد داغ مفارقت دے گئے۔” خدا رحمت کند“ حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب فلاحی علیہ الرحمہ سے اس عاجز کا تعلق اگرچہ استاذ و شاگرد کا نہیں تھا تاہم علم کے اس شجر سایہ دار کے زیر سایہ میں نے بہت کچھ پایا ،جس پر بجا طور پر مجھے فخر ہے۔ مولانا کے لائق و فائق شاگردوں نے ان کے انتقال پر ملال پر اظہار تعزیت کرتے ہوئے اپنے استاذ ذی شان کی جن رفعتوں، خوبیوں اورخصوصیات کو زیر قلم لایا ہے، زیر نظر کالم میں ان کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ حضرت مولانا کی خدمات جلیلہ بدر کامل کی طرح ہویدا ہیں۔ آپ دینی و علمی حلقوں میں معروف و مقبول تھے آپ کا تعلق علما نواز، علم دوست ،علم پرور اور محدث خاندان سے تھا۔ ان کے خاندان کے کئی افراد آج بھی قرآن و حدیث کے شیدائی اور خدام ہیں۔ مولانا نے طویل عرصہ تفسیر و حدیث سمیت دیگر کئی جہتوں سے علمی ،دینی، دعوتی ،ملی اور فلاحی خدمات انجام دیں ،جو تا دیر یاد رکھی جائیں گی اور آپ کے لیے صدقہ جاریہ رہیں گی۔ ایک اندازے کے مطابق مولانا کے تلامذہ کے تعداد لگ بھگ 3000سے زائد ہے آپ نے خادم القرآن و عامرالمساجد حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی زیدہ مجدہ کے شانہ بشانہ جامعہ اکل کوا کے آغاز سے لے کر بام عروج تک پہنچانے میں پیش پیش رہے حضرت انتہائی منکسرالمزاج متواضع اور ایک کامیاب منتظم تھے رئیس جامعہ کی عدم موجودگی میں بعدعصر طلبہ جامعہ کے مابین مجلس علمی ہوتی آپ نصائح عالیہ سے بھی نوازتے ان کی شخصیت کا خاصہ یہ تھا کہ آلام و مصائب کے موقعوں پر وعظ و نصیحت سے مجمع کو تڑپا دیتے اور خوشی کے موقع پر آپ کے طرز تخاطب سے خوشی کے پھول جھڑتے تھے۔اسی طرح آپ کے درس و تدریس کا بھی نرالہ انداز تھا فرحاں و شاداں ہوکر درس دیتے دوران درس دیگر مواقع پرکسی طالب علم سے سرزد ہونے والی کسی لغزش پر اشارہ و کنایہ سے خوب صورت انداز میں تنبیہ بھی فرما دیتے اسی طرح دوران درس فارغ ہونے والے طلبہ سے نصیحت و وصیت کے رنگ میں گفتگو فرماتے رہتے ۔
حضرت مولانا کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ آپ اپنے اساتذہ کرام کا تذکرہ انتہائی محبت و احترام کے ساتھ کیا کرتے تھے ورنہ عموما لوگ بلندیوں پر پہنچ جانے کے بعد ان اساتذہ کو بھول جایا کرتے ہیں کہ جن کی محنتوں سے ان کو یہ بلندیاں حاصل ہوئی ہوتی ہیں علم پروری حضرت مولانا کے خون میں شامل تھی اور کیوں نہ ہوتی آپ جس گھرانے میں پیدا ہوئے اور جن والدین کی آغوش میں نشو و نما پائی ان والدین نے نہ صرف یہ کہ اپنی اولاد کو علم جیسی نعمت سے وابستہ ہی نہیں کیا بلکہ علم پر قربان کر دیا جس کے نتیجے میں قابل مقبول اور خدا ترس اساتذہ کرام میسر آئے موجودہ لاک ڈاؤن کی فضا ہو یا کہ عام حالات کے صحت و بیماری کا زمانہ ہر حال میں مولانا تعمیری کاموں میں انتہائی متحرک و فعال تھے۔ آپ صاحب تصانیف کثیرہ تھے سال رفتہ کے وسط میں ششماہی کی تعطیلات پر جامعہ کے ایک طالب علم عبدالباسط کشمیری ابن قدیم جامعہ ضیاء العلوم پونچھ کی معرفت اس عاجز کے لیے چند کتابیں بطور ہدیہ بھی بھیجیں۔ انہوں نے بتایا کہ حضرت ان دنوں علیل ہیں اور ہسپتال میں زیر علاج ہیں ۔ بستر علالت سے بھی ان کا علمی فیض جاری ہے۔ فورا عاجز نے بذریعہ فون خیریت معلوم کی۔ مولانا نے کئی معیاری کتابوں پر مقدمات بھی لکھے۔ افراد سازی کے معاملے میں قدرت نے آپ کو غضب کی بصیرت عطا فرمائی تھی، یہی وجہ ہے کہ آپ کی تعلیم و تربیت کے نتیجے میں جو افراد تیار ہوئے، انہوں نے میدان عمل میں اپنے کردار وعمل سے معیار قائم کیا۔ حضرت والا کا ایک وصف خاص یہ بھی تھا کہ آپ فارغ ہونے والے طلبہ کے لیے علمی ،دینی اور دعوتی خدمات انجام دینے کے لیے جگہ بھی فراہم کرا دیتے تھے۔
حضرت والا کے شاگردوں اور محبین نے آپ کی بعض تصنیفات کو مختلف زبانوں میں بھی منتقل کیا۔ ایک تحقیق کے مطابق آپ کی تصنیف لطیف ”تحفہٴ تراویح“ کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی ۔آپ مصنفین ومؤلفین کے بہت بڑے قدر داں اور بہت سی مولویانہ بیماریوں سے دور تھے ۔یہی وجہ تھی کہ حضرت والا طلبہ میں تعارف کرکے ان کی کتابوں کوعام کرتے۔ بطور خاص جدید فضلائے مدارس کی علمی کاوشوں پر ان کی حوصلہ افزائی کرتے ،جس کی ایک مثال یہ ہے کہ راقم الحروف کا سفرنامہ حج: ”کشمیر کے کہساروں سے مہبط وحی تک“ کے مطالعہ کے بعد ڈھیر ساری دعاؤں سے نوازا ۔سال گزشتہ کے وسط میں ایک بار فون آیا اور فرمایا کہ گیارہ شعبان سے ایک ہفتہ سمرقند و بخارا کے لیے ہمارا قافلہ روانہ ہوگا آپ بھی ارادہ فرمالیجیے اچھا رہے گا۔ عاجز نے کچھ مجبوری ظاہر کی تومسکراتے ہوئے فرمایا کہ حق تعالیٰ آسانی کا معاملہ فرمائے گا، تاہم آپ قرطاس و قلم کے ساتھ تیار رہیے گا ۔حسن اتفاق عین انہیں دنوں جناب مولانا محمود مدنی زیدہ مجدہ جنرل سکریٹری جمعیة علمائے ہند کا ہمارے مادر علمی جامعہ ضیاء العلوم پونچھ میں آنا طے پاگیا ،جس کی وجہ سے سمر قند و بخار کا ہمارا ارادہ ؛ارادہ ہی ہو کر رہ گیا اور ہم اپنی ملازمت کی چوکھٹ سے ہی چمٹے رہ گئے ۔
آہ! مدرسے کے مدرس کا اس کے سوا اور چارہ ہی کیا ہے کہ وہ ملازمت کی چوکھٹ سے چمٹا ہی رہے۔ چند سال قبل ایک اجلاس عام میں آپ کی آمد ہوئی، اس اجلاس میں جس وقت ہمارا پہنچنا ہوا تب تک آپ کا بیان شروع ہو چکا تھا۔ خطاب کے بعد اپنی نشست پر بیٹھتے ہی ایک صاحب کے ذریعے راقم الحروف کو اپنے پاس بلا کر خیریت دریافت کی اور فرمایا کہ آپ کی نگارشات؛ اخبارات اور رسائل و جرائد کے صفحات میں دیکھنے کو خوب ملتی ہیں۔ مضامین کا عمدہ انتخاب ہوتا ہے۔ اپنی نگارشات محفوظ رکھیے گا،بل کہ ان کو کتابی صورت میں شائع کرنے کا اہتمام کیجیے۔ یہ آنے والی نسلوں کو کام آئیں گی۔ فرمایا کہ ان کی اشاعت میں بھرپور تعاون کیا جائے گا ۔حضرت والا کی رائے پر شائع شدہ مضامین کا ایک مجموعہ تیار کیا، البتہ پیش کرنے میں میری جانب سے ہی تاخیر رہی ،جس کا مجھے زندگی بھر قلق رہے گا۔ اس اجلاس سے واپسی پر پھر جی میں آیا کہ سلام دعا ہوجائے ،تب تک حضرت مولانا قیام گاہ پر پہنچ چکے تھے۔ دروازہ پر پہنچ کر ڈیوٹی پر مامور ایک صاحب نے بتایا کہ حضرت تو کھانا نوش فرما رہے ہیں،اس لیے ملاقات تو مشکل ہے۔ اس پر ہم یہ کہہ کر لوٹنے لگے کہ بھائی جان کھانا نوش نہیں کیا جاتا تناول کیا جاتا ہے کہ یکایک اندر سے آواز آئی کہ حضرت یاد فرما رہے ہیں۔ دروازہ کھلتے ہی حضرت کھڑے ہو ئے اور ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ بٹھا لیا کھانا تو نظر نہیں آیا البتہ قرب و جوار کے مدارس کے مہتمم حضرات زانوئے تلمذ تہ کیے نظر آئے۔ بات چیت کا موقع نہیں تھا ،تاہم چند لمحات کے بعد ہم نے خود ہی واپسی کی اجازت طلب کر لی۔ آپ دروازے تک آئے۔ اس ملاقات میں ہم نے بطور خاص یہ دیکھا کہ چھوٹوں کے سامنے بڑوں کا چھوٹا بننا یہ حضرت ہی کا کمال ہے۔ ۔
آپ کے دورہ کشمیر سے واپسی پر عاجز نے ایک کالم لکھا تھا، جو سوشل میڈیا پر شائع ہوا، جسے اہل علم میں توقع سے زیادہ پذیرائی ملی۔ حضرت نے بھی پڑھاتو فون پر عزت افزائی کی اور پھر ایک اہم معاملہ کی جانب توجہ مبذول کرتے ہوئے فرمایا کہ اپنے قلم سیال سے ایک تحریر لکھیں ۔ہم نے لکھی اور جس کے اثرات یقینی تھے آپ خوش ہوئے اور ڈھیر ساری دعاؤں سے نوازا ۔سال گزشتہ راقم الحروف نے بحیثیت اہل قلم و مقالہ نگار فلاح دارین ترکیسر گجرات کے زیر اہتمام منعقدہ ”مفکر ملت سمینار“ میں شرکت کی۔ ہماری قیام گاہ ترکیسر قصبہ کے سرپنچ جناب محمد یونس صاحب کا قصر عالی تھا ۔حضرت مولانا بہ نفس نفیس تشریف لائے اپنا مقالہ جو کہ ”فیض وستانوی فکر کاپودروی“ کے عنوان سے تھا اور کتابی شکل میں چھپ چکا تھا ،عنایت فرمایا جسے ہم نے شکریے کے ساتھ قبول کیا۔ یہ حضرت سے ہماری بالمشافہ آخری ملاقات تھی۔
ابھی چند روز قبل راقم السطور کی نئی کتاب ”سرزمین علما کا یاد گار سفرنامہ “شائع ہوئی ۔حضرت نے بھی اسے پڑھا اور فرمایا کہ بہترین کاوش ہے اور موضوع کے تعلق سے اہم ترین معلومات کو یکجا کر دیا ہے۔ فلاحی برادری کی جانب سے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ بہ ہرحال حضرت مولانا سے ہماری ملاقات ہی نہیں ،بل کہ ملاقاتیں تھیں اور بہت قریب کا تعلق تھا۔ ان سے ہماری پہلی ملاقات ۱۹۹۸ء میں جامعہ مظہر سعادت ہانسوٹ گجرات میں اس وقت ہوئی تھی جب میں وہاں زیر تعلیم تھا۔ وقتا فوقتا نماز جمعہ سے قبل آپ کی ہونے والی چند تقریریں بھی سماعت کرنے کی سعادت نصیب ہوئی ۔آپ خطیب سیف بے نیام تھے آپ اپنے خطابات میں طلبہ سے اکثر فرمایا کرتے کہ بزرگوں کے پاس جایا کرو تو قرطاس و قلم کے انتظام کے ساتھ جایا کرو ۔کیوں کہ ان کی زبان سے علم اور تجربہ کی وجہ سے قیمتی باتیں نکلتی ہیں ان کو نوٹ کر لیا کرو، یہ زندگی کے سفر میں بہت کام دینے والی ہوتی ہیں ۔کبھی کبھی دوران درس نصیحت آموز پہلو بتانے کے لیے اپنے کسی سفر کی داستان سفر بھی سناتے پھر اس سے نتیجہ اخذ کرکے جینے کا سلیقہ سکھاتے۔
حضرت مولانا مزاج عارفانہ اور ذوق ادیبانہ رکھتے تھے۔ آپ کے مزاج میں قدرت نے مزاح کا بھی عمدہ اور غضب کا پہلو رکھا تھا۔ ایک بار فرمایا کہ جب ہم سرینگرکشمیر مسابقہ میں گئے تو کھانے کے وقت دسترخوان پر گویا کہ پورا بکرا لا کر رکھ دیا ہو اور جب پونچھ؛ جسے ”ہمشیر کشمیر“ کے نام سے جانا جاتا ہے اور مولانا ظفر علی خاں نے، جس دھرتی کے بارے میں کہا تھا کہ
پونچھ کو کشمیر کے عارض کا تل کہیے
اسے ہندوستاں کی جاں کہیے یا دل کہیے
جانا ہوا تو ایک مرغے کے بیس ٹکڑے کر رکھے تھے۔ البتہ پونچھ کی دھرتی پر ہمارا جو استقبال ہوا وہ اپنی مثال آپ تھا ۔اس قسم کی گفتگو سے کبھی کبھارمجلس کو زعفران زار بنا دیا کرتے تھے۔ آپ نبض شناس، زیرک ،نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو کی صفت سے متصف ایک باعمل اور بافیض عالم دین تھے۔
حضرت والا تقریرو تحریر اور تدریس ؛تینوں میدانوں کے عظیم شہسوار تھے۔ آپ کی عام گفتگو میں بھی گویا علم کی ایک جوئے رواں ہوا کرتی تھی ۔انسان کے پاس علم ہو تو بلاشبہ اس کے اثرات اس کی زندگی میں نمایاں طور پر دکھائی دیا کرتے ہیں آپ کی باتوں میں دور اندیشی اور حلاوت ہوتی تھی، جس سے انسان کے حوصلوں میں بلندی پیدا ہوتی تھی۔ اہل علم فرماتے ہیں کہ علم بیان کرنے کے لیے بھی زریں اور شیریں زباں چاہیے۔
کیا لوگ تھے جو راہ وفا سے گزر گئے
جی چاہتا ہے نقش قدم چومتے چلیں
حضرت مولانا عبدالرحیم فلاحی مرحوم کے اہم کارناموں میں سے ایک بڑا کارنامہ؛ جس کی بنا پر آپ کو خدمات دین کے میدان کا عظیم شہسوار قرار دیا جاتا ہے یہ ہے کہ آپ حفاظِ قرآن کا بڑا خیال رکھتے تھے۔ مدرسین اور ماتحتوں کی خبر گیری رکھتے، جس طرح آپ نے ملک بھر میں جگہ جگہ حفظِ قرآن و تجوید اور قراء ت قرآن کی طرف دل چسپی پیدا کرنے اور ان کی تعلیمات کو فروغ دینے کے لیے مستقل محنتیں کیں ،یہی اس فن کے لیے کوئی کم کارنامہ نہیں ہے۔ آپ آل انڈیا مسابقات قرآنیہ کے سرخیل و مدیر تھے ۔یہ عاجز مسابقاتی انسان نہیں ہے تاہم متعدد بار اُن کے مسابقات میں حاضری کا شرف حاصل ہوا ۔
ہم نے دیکھا کہ اگر کوئی خوش الحان مساہم مجود طریقے پر قرآن پاک کی تلاوت کر رہا ہوتا تو آپ آنسوؤں کے ساتھ روتے ہوئے سماعت فرماتے۔ وہ مساہم خواہ کسی بھی مدرسے کا ہو، ان کا یہ عمل ان کا اپنے مشن میں مخلص ہونے کی دلیل تھی۔ آپ کو جو مقبولیت ؛عنداللہ وعندالناس ملی وہ قرآن عظیم الشان ہی کی بدولت ملی ۔کسی روشن ضمیر نے بجا کہا ہے کہ قرآن پاک سے وابستہ ہوکر تنکے شہتیر بنتے ہیں اور قرآن پاک سے ہٹ کر شہتیربھی تنکوں سے بھی حقیر تر بنتے ہیں
سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے
حضرت مولانا عبدالرحیم فلاحی مرحوم کے صاحبزادے حضرت مفتی ریحان کے علاوہ حضرت مولانا غلام محمد وستانوی زیدہ مجدہ جملہ لواحقین کی خدمت میں تعزیت مسنونہ پیش ہے۔
آخری بات: حضرت مولانا کے شاگردوں اور اہل علم متعلقین سے گزارش ہے کہ حضرت تو اپنے رب کی جوار رحمت میں جا چکے ہیں اب وہ اس دنیا میں لوٹ کرکبھی نہیں آنے والے۔ البتہ ان کا مشن باقی رہے گا لہٰذا یہ وقت رونے دھونے کا نہیں بل کہ سنبھلنے اور ہوش میں آنے کا ہے۔اس لیے ان کی یاد کا احسن طریقہ یہی ہے کہ ان کے مشن کو آگے بڑھایا جائے۔ ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خدمات دین کے لیے اپنے آپ کووقف کریں۔ حوصلوں میں ولولہ پیدا کریں ،مدارس و مکاتب اور جماعتوں اور جمعیتوں کے وہ ذمہ داران کہ جن کو مولانا فلاحی سے والہانہ تعلق رہا ہے، ان کو چاہیے کہ ان کی یاد میں حالات کے ساز گار ہونے پر سمینار کروائیں۔ ان کی حیات و خدمات کو قلم بند کرکے دلآویز دستاویزات منصہ شہود پر لائی جائیں ۔میرے خیال میں کسی کو بعد از مرگ یاد رکھنے کا یہ ایک عمدہ طریقہ ہے۔ دعا ہے کہ حق تعالیٰ حضرت کی بال بال مغفرت فرمائے، لواحقین کو صبر جمیل اور امت مسلمہ کو نعم البدل عطا فرمائے۔آمین
اب میں اس مقام پر پہنچا ہوں کہ جہاں یہ تذکرہ ختم کیا جا سکتا ہے ۔جناب رشید الدین صاحب معروفی کے کہے ہوئی مرثیہ کے ان چند اشعار پر یہ تذکرہ ختم کیا جاتا ہے:
علم و حکمت کا وہ ماہ ضوفشاں اب چل بسا
آہ ہم سے سر براہ کارواں اب چل بسا
غنچہ غنچہ شاخ و گل سب ہوگئے ماتم کناں