(آہ! میرے پیارے ماموں جان)

چند بکھرے ہوئے جملے حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی کی یاد میں

 محمد معوذ وستانوی/ استاذ جامعہ اکل کوا

            رات کے ساڑھے بارہ بج رہے ہیں، لیکن آنکھوں سے نیند اڑی ہوئی ہے، اس لیے کہ یہ آنکھیں کسی کو دیکھنے کی منتظر ہیں۔ ایک ایسے شخص کو؛ جس کا دیدار اب کبھی نصیب نہ ہوگا، جو ہمیں چھوڑ کر ایسی جگہ چلاگیا ہے جہاں سے کوئی واپس نہیںآ تا ۔ اے کاش! ہماری عمر آپ کو لگ جاتی۔ میری مراد میرے بہت چہیتے ماموں اور میرے مشفق و مربی استاد حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی رحمة اللہ علیہ ہیں۔

 میرا دل ابھی تک یہ ماننے کے لیے تیار نہیں ہے کہ اب ماموں جان ہمارے درمیان نہیں رہے۔ اس لیے کہ انتقال کے دو روز قبل جب میں فجر کی نماز پڑھ کر نکلا تو اچانک مجھے” السلام مسجد “کے سامنے مولانا اکرم صاحب (استاذ جامعہ اکل کوا)نظرآئے۔ انھیں اس وقت یہاں نہیں، بل کہ احاطہٴ جامعہ میں ہونا چاہئے تھا،کیوں کہ آپ کے ذمہ بچوں کو صبح بیدار کرنے کی ذمہ داری ہے۔تو میں نے ان سے پوچھ لیا کہ آپ یہاں؟ تو انھوں نے پریشانی میں جواب دیا کہ آپ کے ماموں فلاحی صاحب(حضرت مرحوم کو جامعہ میں اس لقب سے یاد کیا جاتا تھا ) بیمار ہیں اوران کے سینے میں درد اٹھ رہا ہے۔

             میں بھاگتا ہوا اسپتال گیا ان سے ملاقات کی تو کہا بیٹا کچھ نہیں ہے صرف a c d t ہو رہی ہے۔ فوراً ڈاکٹر کو بلوایا ۔انہوں نے دیکھا اور پوچھا اور کوئی تکلیف؟ تو آپ نے بتایا سرخ قے ہوئی ہے۔ سرخ ہونے کی وجہ آپ نے بتائی کہ رات میں تربوز اور کالے انگور کھا ئے تھے اس لیے لال قے ہوئی۔ بعد میں ڈاکٹر نے دوا دے کر آپ کو جانے کی اجازت دے دی۔ اسی وقت برادرِ محترم مفتی ریحان صاحب تشریف لائے تو انہوں نے بتایا کہ کل رات ۱ /بجے بھی قے ہوئی تھی اور وہ ماموں کو لے کر چلے گئے۔ اس کے بعد ۹/بجے کہ قریب ان کا فون آیا کہ بھائی ابا جی کو ابھی بھی قے ہو رہی ہے۔میں فوراً ڈاکٹرفاروق صاحب کو لے کر ماموں کے گھر گیا اور دیکھا تو ماموں جان بے چین لگ رہے تھے ۔ڈاکٹرنے قے دیکھی اور کہا شاید خون ہے ،لیکن ماموں جان نے منع کر دیا اور پھر وہی بات دہرائی کہ انگور ہے۔ پھر کچھ دوا دی اور میں نے ماموں سے جانے کی اجازت طلب کی تو ماموں نے دعائیں دیتے ہوئے اجازت دے دی۔پھر دوسرے دن بھائی مفتی ریحان کا فون آیا کہ اسپتال کا ڈرائیور آیا؟ میں نے پوچھا اس کی کیا ضرورت پڑی تو بتایا کہ ڈاکٹر نے کسی ایم ،ڈی کی جانچ تجویز کی ہے۔ اس لیے کھروڈ گجرات لے کر جانا ہے۔

            میں نے اس بات کی خبر والدہ کو دی تو وہ پریشان ہوگئیں اور میرے ساتھ ہی ماموں کے گھر کی طرف چل پڑیں۔ میرے ہمراہ چھوٹے بھائی، بھتیجے اور بڑے بھائی مولانا بنیامین صاحب اور بڑی بہن گاڑی سے چلنے لگے تو والدہ نے سب سے کہا کہ کچھ نہ کچھ پڑھ کرماموں پر اس انداز میں دم کر دیں کہ انھیں پتا نہ چلے۔ اورپھر ہم نے ماموں کے گھر پہنچ کر ماموں سے ملاقات کی۔بہ ظاہر دیکھنے میں ایسا لگ ہی نہیں رہا تھا کہ ماموں بیمار ہیں۔کچھ دیر بات چیت ہوتی رہی، والدہ نے پانی دم کر کے پلایا۔ اس کے بعدوالد صاحب کا اسپتال سے فون آیا کہ سواری تیار ہے تو والدہ نے ماموں کو دعائیں دیتے ہوئے رخصت کیا اور چلتے چلتے ماموں نے والدہ سے کہا کہ بہن آپ بھی چلونا میرے ساتھ۔ تو والدہ کا جواب تھا آپ شام میں تو واپس آجاوٴگے آپ ڈاکٹر کو دکھا کر آوٴ۔ اس بہن کو کیا پتا تھا کہ اس کا بھائی اب لوٹ کر نہیں آئے گا۔یہ اس کی اپنے بھائی سے آخری ملاقات ہے۔ اس کے بعد میں خود ماموں جان کی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا اور ان کے ڈرائیور کو پیدل اسپتال آنے کو کہا۔ السلام اسپتال تک خود گاڑی چلا کر لے گیا اور اسپتال کی گاڑی میں اپنے ہاتھوں سے پکڑ کر لٹایا۔

             اس وقت ماموں نے مذاق میں کہا کہ آپ ہی چلالو ایمبولینس! خیر میں ان کی جلد شفا کی دعا دیتے ہوئے واپس ہوگیا۔اسی دوران پتا چلا کہ بھائی ریحان کے لڑکا پیدا ہوا ہے۔ فلاحی صاحب اپنے پوتے کو دیکھتے ہوئے واپس آئیں گے۔ لیکن ہائے افسوس! وہ نومولود بچہ بھی اپنے دادا کے دیدار سے محروم ہی رہا اور دادا بھی اپنے پوتے کو دیکھے بغیر ہی اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اس کے بعد جب اکل کوا سے کھروڈ اسپتال پہنچے تو بھائی ریحان سے بات کر کے پتا چلا کہ ۲/دن ڈاکٹر نے رہنے کے لیے کہا ہے۔ کچھ چیک اپ ہونا ہے اور دوسرے دن ان کاپیغام ۸/ بجے کے قریب آیاجس میں لکھا تھا کہ والد صاحب کی طبیعت زیادہ خراب ہے۔ فوراً ان کو فون کیا تو بھائی نے بتایا کہ icu میں لے جا رہے ہیں۔ میں فوراً مدرسہ گیا اور بچوں سے دعا کی درخواست کی کہ فلاحی صاحب زیادہ بیمار ہیں۔ دعا کیجیے ابھی تو میں نے طلبہ سے دعا کے لیے کہا اور میرے فون کی رنگ بجی۔ سامنے فون پر میرے دوست قاری سفیان صاحب تھے، جو کھروڑ اسپتال میں میڈیکل کے ذمہ دار ہیں۔ انھوں نے دبی ہوئی آواز میں کلیجہ چیر دینے والی خبر دی کہ آپ کے ماموں جان کا انتقال ہو گیا۔ یہ سن کر جیسے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی ہو۔ بس پھر کیا تھا آنکھوں سے آنسو اور زبان سے اناللہ واناالیہ راجعون نکلنے لگا۔ گھر جاکر دیکھا ہر کوئی رو رہا ہے۔ کوئی بھائی کی جدائی پر، کوئی ماموں کے اچانک چھوڑ کر چلے جانے پر۔ والد صاحب اپنے چہیتے دوست کے بچھڑ جانے پر۔ہر آنکھ رو رہی تھی، اس عظیم شخصیت کے چلے جانے پر۔ اور افسوس صد افسوس کہ لاک ڈاوٴن کی وجہ سے ہم اپنے پیارے ماموں کو نہ آخری بار دیکھ سکے اور نہ اپنے اس مشفق استادکے جنازہ کو کاندھاہی دے سکے۔ ہائے رے ہماری بدقسمتی!میرے ماموں جیسا کسی کا ماموں نہ ہو گا۔

میرا ماموں میرے والدین کی غیرحاضری میں میرے باپ ہونے کا فرض نبھاتا تھا۔

             ماموں جان کی شخصیت ہم سب کے لیے اللہ کا بہت بڑا انعام تھی۔ آپ حسن ِنظم و ضبط میں ماہر تھے، آپ صرف مدرسے ہی کی حد تک نہیں، بل کہ امور خانہ داری کے نظم و نسق میں بھی مہارت تامہ رکھتے تھے۔ میں جب سے جامعہ میں بہ طور خدمت گار لگا ہوں، پل پل آپ کی نصیحتوں سے مستفید ہوتا رہا۔ ایک ایک کام کی ترتیب و تنظیم کا ڈھنگ آپ نے مجھے سکھایا ہے۔

            آپ اپنی بہنوں سے بھی بہت پیار کرتے تھے۔ان کے بچوں کی ضروریات کا بہت خیال رکھتے ، مختلف خوشیوں کے موقع پر بطور ہدیہ کپڑے ،پیسے اور دیگر چیزوں سے اپنی محبت کا اظہار فرماتے تھے۔

             آپ طلبائے جامعہ کے لیے کسی مشفق باپ سے کم نہیں تھے۔طلبہ کی تربیت، چلتے پھرتے ان کی امداد، ان کے لیے دواؤں کا بندوبست آپ کا یومیہ معمول تھا۔ آپ جہاں نہایت سنجیدہ مزاج تھے، وہیں طنز و مزاح کے بے تاج بادشاہ بھی تھے۔ آپ کو پورا جامعہ عندلیب جامعہ یا بلبل جامعہ کے نام سے جانتا تھا۔آپ کی آواز کی چہک سے احاطہٴ جامعہ میں ایک خوش گوار ماحول بنا رہتا تھا۔ فضائے جامعہ میں آپ کی مہک سب سے منفرد تھی۔گلشن وستانوی کی ڈالی ڈالی آپ کے ممنون کرم ہے۔ جامعہ کی در و دیوار پر آپ کے نقوش و آثار دیر تک ہمیں آپ کی یاد دلاتے رہیں گے۔ ابھی بھی ہم آپ کی آواز کا رسیلا پن اپنے کانوں؛ بل کہ دلوں میں محسوس کر رہے ہیں، مدتوں آپ کی یاد ہمیں تڑپاتی رہے گی۔

ماموں کا بے مثال مزاحی انداز:

            اے میرے پیارے ماموں! اب ہمیں کون بتائے گا کہ آج کے اخبار میں لکھا ہے کہ تیری گھر والی فلاں چیز بہت اچھی بناتی ہے۔ اللہ میرے ماموں جان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب کرے اور ان کی قبر کو نور سے منور فرمائے۔

 ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد۔