باسمہ تعالیٰ
((ماہرِ منقول ومعقول مرحوم استاذ حضرت مفتی عبد اللہ پٹیل رویدروی رحمہ اللہ رحمة واسعة))
از :مفتی یوسف پانچبھایا، کینیڈا
طبیعت ایک طرح سے نڈھال ہوگئی اور ایسا لگا کہ ایک ڈھال درمیان سے ہٹ گئی۔ بس رب العالمین ہی دلوں کو سکون بخشتاہے، ورنہ تو بندہ ان حوادث کی آنچ میں برف کی طرح پگھل جائے اور اپنا وجود کھو بیٹھے۔
عربی کے ابتدائی درجات ہمارے طالبِ علمی کے تھے اور ایک نوجوان عالم وفاضل، سرخ و سپید کھلتا اور نکھرتا گلاب ساچہرہ، طبیعت میں بلا کی پھرتی، چابک دست استاذ کا مدرسہ میں ظہور ہوا۔جب اسباق شروع ہوئے تو نئی نئی علمی وفقہی اور حدیثی و منطقی وغیرہ اصطلاحات درجہ بدرجہ کانوں میں پڑیں۔
یہ ہمارے مرحوم و مغفورا ور محبوب استاذ؛ حضرت مفتی عبد اللہ پٹیل رویدروی رحمہ اللہ تھے۔ حضرت کی طبیعت کچھ مدت سے علیل چل رہی تھی، لیکن اندازہ نہیں تھا کہ اتنا جلد دارِ فانی کو الوداع کہہ دیں گے۔ ان للہ ما أخذ ولہ ما اعطی.
یہ بھی حسنِ اتفاق کہ شاگردو استاذ کی عمر میں فقط چھ 6 سال کافرق ہے۔ استاذ کی پیدائش 1952 ء اور شاگرد کی پیدائش 1958 ء۔ لیکن اسے کیا کہئے کہ استاذ بہت کچھ کام کرکے آخرت کو سدھار گئے اور شاگرد کولھو کے بیل کی طرح ایک ہی جگہ چکر لگا رہا ہے۔ اللہ کی رحمت سے بعید نہیں کہ موت سے پہلے وہ بھی کسی کام کا بن جائے اور دنیا سے الوداع ہوتے ہوئے اسے زبانِ حال یا قال سے یہ کہنے کاموقع ہو:
شادم کہ من کارے کردم
عمر در کارِ یار بسر کردم
اور یہ بھی حسنِ اتفاق کہ رات کو مغرب کے بعد چائے پی لی، جس سے نیند اڑ گئی اور عشاکے بعد بیٹھ کرتین گھنٹے میں یہ مضمون مکمل کیا۔ اس سے یہ فائدہ حاصل ہوا کہ دماغ تھوڑا تھکا اور تعب محسوس ہوا، جس سے رات کے ایک بجے کے بعد نیند نے دعوت دی اور سو گیا۔
حضرت استاذ رحمہ اللہ کی عربی کی تعلیم جامعہ تعلیم الدین ڈابھیل سے شروع ہوئی اور پھر آگے مزید ڈابھیل سے گذر کر داغ بیل مظاہر علوم سہارن پور میں ڈالی گئی۔وہاں اپنے وقت کے معروف ومشہور اساتذہ سے استفادہ کیا۔ آپ نے محدثِ عصر حضرت شیخ یونس جون پوری رحمہ اللہ سے خوب استفادہ کیا، جس کی جھلک آپ کے درسِ حدیث میں صاف طور پر نمایاں تھی۔ خود آپ کی بخاری شریف کی شرح کئی جلدوں میں مطبوع ہے۔ آپ کو منطق ہو یافلسفہ، صرف و نحو ہو یا فصاحت و بلاغت، حدیث ہو یا تفسیر ؛ہر فن پر دسترس تھی۔منطق جب پڑھاتے تھے تو فن پانی پانی ہو جاتاتھا۔ حدیث شریف کادرس تو بڑاہی اعلی اور معیاری ہوتاتھا۔ آدمی انواعِ علومِ حدیث پر مطلع ہوجاتاتھا، آپ بیان بھی بڑا عمدہ فرماتے اور اس سلسلے میں ملک وبیرونِ ملک آپ کے اسفار بھی ہوئے۔
فلاحِ دارین میں آپ نے چند سال درس دیا، پھر آپ نے بھروچ ضلع میں” ہانسوٹ“ نامی بستی میں ایک دار العلوم ”مظہرِ سعادت“ قائم کیا۔ اس سلسلے میں مفتی صاحب کا کینیڈا کا بھی سفر ہوا۔بندہ سے بھی جتنا ممکن ہوا تعاون کا ہاتھ بڑھایا۔بندہ کو بہت قریب سے مشاہدہ ہوا۔ مفتی صاحب ادارہ کی ترقی کے لیے جس طرح تگ ودوفرماتے تھے، اس کی حرص بھی مجھ جیسے کے لیے مشکل ہے۔ مفتی صاحب نے اس سفر میں اپنے حسنِ ظن کی بنیاد پربندہ کو اپنے مدرسہ میں ہدایہ پڑھانے کی دعوت دی، لیکن احقر مظہرِ سعادت کی ایک عظیم سعادت لوٹنے سے محروم رہا۔ بہت قلیل مدت میں مفتی صاحب کی رات دن کی محنت اور فضلِ الٰہی سے مدرسہ نے بہت ترقی کی۔ بڑی بڑی عمارات قائم ہوئیں اور دورہ تک تعلیم پہنچی۔ آپ کے یہاں حفظ کی تعلیم بہت مشہور تھی، آپ نے نہایت سلیقہ اور حسن و خوبی سے ادارہ کے نظام کو قریبا تیس سال چلایا۔
دورِ آزمائش:
کچھ سالوں پہلے آپ آزمائشوں کا شکار ہوگئے۔ کانوں تک جو اطلاعات پہنچتی رہیں، وہ حضرات جن کو آپ نے مدرسہ میں آباد کیا، ان کو آگے بڑھایا، ان ہی حضرات نے سازشیں کیں اور آپ مدرسہ سے سبکدوش ہوگئے۔ اور آخری چند سال نہایت آزمائش سے گذارے۔ امید ہے کہ انشاء اللہ یہ آپ کے لیے رفعِ درجات کا سبب ہوگا۔
آج ہر جگہ یہ رونا ہوتاہے کہ علما کی ناقدری عوام کرتے ہیں۔یہ بات بالکل صحیح ہے اور اس کا ازالہ بھی ہونا چاہئے۔ لیکن یہ بھی تو ایک المیہ ہے کہ آج علما کا آپس کا حسد اور خاص کر حبِ جاہ کی طلب ہوتو علما بھی تو مظلوم ہو جاتے ہیں اور عوام کا مکروہ چہرہ تو آشکارا بھی ہوجاتاہے۔ اور یہاں تو تلبیس کا پردہ پڑاہوتاہے، جس سے بڑے بڑے دامنِ فریب میں آجاتے ہیں۔ طبعی طور پر کسی کی ترقی دیکھ کر دل میں ناگواری پیدا ہو، یہ ایک فطری اور غیر اختیاری شئی ہے، اور ان شاء اللہ العزیز اس پر مؤاخذہ بھی نہیں ہوگا۔ لیکن اپنے قول وفعل سے ناگواری کا اظہار اور پھر کسی کو نیچا دکھانے اور گرانے کے لیے دوڑ بھاگ یہ انتہائی درجہ کی خساست، دنائت اور شناعت ہے، جو ایک منکر ہے، جس کی ابتداشیطان سے ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ ایک شیطانی حرکت ہے اور آدمی حسد کی آگ میں وہ کچھ کر گذرتا ہے جو، نہایت نازیبا ہوتا ہے۔ ہندستان میں کچھ سالوں قبل ایک بڑے مدرسہ میں کچھ سیاسی قائدین نے حکومت کی مدد سے علم و مشیخت کے لبادہ میں بڑا فتنہ کھڑا کیا۔پھر فتنہ پروری کی، طلبہ کو زخمی کیاگیا وغیرہ۔ تو اس زمانہ میں بندہ نے ایک صاحبِ دل عارف باللہ کو کہتے ہوئے سنا:
وہ کچھ کیا ہے جو کسی کالج میں بھی نہیں ہوا ہوگا
حضرت مفتی صاحب نے ادارہ کو اپنے خون پسینہ سے سینچا تھا۔خونِ جگر سے اس کی آبیاری کی تھی۔ اگر کچھ خامی اور کوتاہی تھی تو خیر اس کی اصلاح ہونی چاہیے تھی۔ اسے افہام و تفہیم سے دور کیا جاسکتا تھا، لیکن کسی کو اس کے سینچے ہوئے باغ سے ہی دور کردینا، یہ کون سی دانش مند ی اور خردمندی ہے؟وہ اللہ کا بندہ شاید زبانِ حال سے یہ کہتا ہوا چل دیا:
دوستو! خوب رہو خوش رہو آباد رہو
اے میرے کرم فرماؤ ہم چلے تم آباد رہو
اہلِ علم کی جب اس طرح ناقدری کی جائے۔ تلبیس کے خوش نما پردوں میں جب ان کی دل آزاری کی جائے۔ لحاظ و ادب کی ساری دیواروں کو پاٹ دیاجائے۔ احسان فراموشی کی حد کردی جائے اور حد سے آگے گذر ہوجائے تو پھر بعدوالوں کا گذر بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ عوام کے دلوں سے ان کا وقار ختم ہوجاتاہے۔علما سے ان کا ربط اور رشتہ کم زور پڑ جاتا ہے، اگر احسان فراموشی اور یوں کہئے کہ مدارس پر ایک طرح سے غاصبانہ قبضہ کرکے کچھ ہاتھ میں آبھی گیا تو کیا ہوا؟یہ کتنے دن رہے گا،آخر موت ہے۔ آخر ربٌِ کریم کو بھی تو منہ دکھانا ہے:
چار دن کی چاندنی ،پھر اندھیری رات ہے
اور آدمی جو کچھ نا مناسب حرکات دوسروں کے ساتھ کرتا ہے، وہ زمانہ پر قرض ہوتا ہے۔ اسے زمانہ کبھی اس دنیا ہی میں اتارکراپنے فرض سے فارغ ہوجاتاہے۔
بڑے ادب کے ساتھ آخر جبہ دستار اور علم و ادب کے کچھ تقاضے بھی تو ہیں۔آخر ان شنیع حرکات کے ساتھ علم کی برکات اورانوار بھی تو رخصت ہو جاتے ہیں۔ صرف لفاظی رہ جاتی ہے۔ آپ اگر غائرانہ نہ سہی طائرانہ ہی نظر ڈالیں تو یہ بے چارہ مولوی بسا اوقات اپنے ہم جنس ہی کا محسود ہوجاتاہے؛ حالاں کہ آپس کی مجانست کا مقتضی یہ ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کا دست و بازو ہوناچاہئے، نہ یہ کہ آپس میں مقابل! اس روش کے ساتھ ہم آپس میں سرواؤsurvive نہیں ہوسکتے؟ پنپ نہیں سکتے! اتحاد اور اجتماعیت اورتألیف میں ہماری کام یابی کاراز مضمرہے اور تفرق اور آپس کے توڑ میں ہم کہیں کے نہیں رہتے۔یہ دور تو ایسا ہے کہ اخوت و بھائی چارگی، آپس کے صلاح و مشورہ اور تعاونِ باہمی سے کام کیا جائے۔ لیکن ہر ایک دوسرے سے خائف اور سہما ہوا ہے۔دل کے بہت سے روگ ہیں، کوشش تو یہ ہو کہ ان کا ازالہ ہو، نہ یہ کہ اقوال و افعال کی صورت میں خارج میں ان کا ظہور ہو۔ حق تعالیٰ شانہ رذائل سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ فضائل اور خصالِ حمیدہ سے ہم سب کو متصف فرمائے۔اللہم آمین یا رب العلمین۔