آہ !حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی رحمة اللہ علیہ اب ہمارے بیچ نہیں رہے۔

 محمد اکرم طائر پرتاپ گڑھی

بچھڑاکچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی

 ایک شخص پورے شہر کو ویران کر گیا

            کانپتا ہوا قلم، اشک بار آنکھیں، یہ دن بھی گزرنا مقدر تھا اور نہ جانے ایسے کتنے دن گزر جائیں گے۔ جو کچھ حال تھا، اب وہ ماضی ہو چکا ہے؛ اگرچہ دل قبول نہیں کر رہا ہے، لیکن حقیقت پھر حقیقت ہی ہے،اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کتنے مضامین لکھے جا چکے ہیں، کتنے صفحات سیاہ کر چکا ہوں، لیکن آج کچھ خاص ہے۔آج اس کے لیے لکھ رہا ہوں جس نے لکھنا سکھایا،آج سیاہی سے نہیں خون جگر سے لکھنا ہے،آج لفظوں سے نہیں احساس و جذبات سے باتیں ہوں گی۔

            ہلکی سفید داڑھی، بالعموم عربی جبہ، سرخ عربی رومال سر پر ڈالے جب وہ درجہٴ مشکوة میں پہلا قدم رکھتے، ادب و احترام سے نظریں جھک جاتیں اور ہم کنکھیوں سے آپ کے چہرے کا دیدار کرتے۔ پوری شان و شوکت کے ساتھ مسند ِتدریس پر جلوہ افروز ہوتے۔ آپ مائک اکثر دائیں بائیں یا کتاب پر رکھتے، کالر میں نہیں لگایا کرتے تھے، پھر آپ اپنے مخصوص لب و لہجے میں مشکوة شریف کا درس شروع فرماتے۔دوران ِدرس خوب صورت مسکراتی ہوئی مثالیں، برموقع اشعار، ہنسا دینے والے علمی لطائف آپ کے طرز ِتدریس میں جان پیدا کر دیتے تھے۔ہر طالب علم کو سبق سے جوڑ کر رکھتے تھے اللہ نے یہ خصوصی ملکہ آپ کو عطا فرمایا تھا۔

 مختلف طلبہ مختلف موضوعات سے دل چسپی رکھتے اوراپنے اپنے مضامین کی درستگی کے لیے مختلف اساتذہ سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن ہمارے استاد محترم ہر فن مولا تھے۔ہر ایک کی حوصلہ افزائی اور ہر ایک مضامین سے خوب دل چسپی رکھتے تھے۔میں بلا مبالغہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ آپ ہی کی حوصلہ افزائی تھی کہ مجھ جیسے زاغ کو شاہین سمجھ بیٹھے تھے اور چمنستان وستانوی میں پر پھیلائے داد حسن طلب کر رہے تھے۔ آپ انعامات سے خوب نوازتے تھے، مختلف ذوق رکھنے والوں کو مختلف انعامات سے نوازا کرتے تھے۔

            مجھے یاد ہے کہ میں عربی سوم میں تھا اور ایک نعت لکھ کر حضرت کی خدمت میں پیش کی، حضرت اس قدر خوش ہوئے کہ آپ نے پوری نعت خود پڑھ کر اہل مجلس کو سنائی۔ مزید برآں ایک مشہور کتاب”مانگتا جا لیتا جا“ میں حضرت نے اس نعت کو جگہ دلوائی ،پھر کچھ دنوں کے بعد میں نے ایک حمد حضرت کی خدمت میں پیش کی، حضرت نے اس حمد کو جامعہ اکل کوا کے سالانہ جلسے میں ایک طالب علم سے پڑھوائی۔

             حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی جامعہ اکل کوا کے قدیم ترین استاذ ہیں۔جامعہ اکل کوا کے لیے حضرت کی شخصیت بنیاد کے اینٹ کی طرح ہے۔مولانا فلاحی رحمة اللہ علیہ بسا اوقات طلبہ کو قبل از فجر بیدار کرنے کے لیے آیا کرتے تھے۔اس وقت حضرت ایسے انداز میں طلبہ کو بیدار فرمایا کرتے تھے گویا کہ کوئی مشفق ماں اپنے لاڈلے کو بیدار کر رہی ہو۔ مختلف دعائیں، مختلف اشعار آپ کے ورد زبان ہوتے اور طلبہ مسکراتے ہوئے بیدار ہوجایا کرتے تھے۔

            آپ ضرورت مند طلبہ کا خصوصی خیال فرماتے تھے۔کپڑے، تیل، صابن اور دیگر ضروریات زندگی مہیا کروایا کرتے تھے۔بسا اوقات چلتے پھرتے میں نے دیکھا ہے کہ کوئی طالب علم ٹھنڈی میں ضرورت سے کم کپڑے پہن کر بیٹھا ہوا ہے، آپ پوری خاموشی سے اپنی چادر اس پر ڈال کر آگے بڑھ جاتے۔

            حضرت نے ہزاروں طلبہ کو بذات خود بولنا، لکھنا اور پڑھنا سکھا دیا۔پورے بھارت کو مسابقة القرآن کا عظیم الشان تحفہ آپ نے عنایت فرما دیا، اس حوالے سے پورا ملک ہمیشہ آپ کا احسان مند رہے گا۔

            لیکن وا اسفاہ! آج پورا چمنستان وستانوی سونا ہو گیا ہے۔وہ بلبل ،جس کی خوش نوائی سے پورا چمن معمور رہتا تھا، آج وہ خاموش ہے، جس کوئل کی کوکوسے پورا گلشن سراپا ترنم بنا رہتا تھا، آج وہ کوئل شہرِ خموشاں کی طرف سدھار چکی ہے۔

 آج وہ شعر بہت یاد آ رہا ہے ،جسے بار بار حضرت علیہ الرحمہ نے دوران درس طلبہ کو سنایا تھا۔

پھول کیا ڈالو گے تربت پر میری

خاک بھی تم سے نہ ڈالی جائے گی

            حدیث میں آیا ہے کہ اللہ کے نیک بندے جس چیز کی قسم کھالیتے ہیں، اللہ اپنی قدرت سے اسے پورا فرما دیتے ہیں۔شاید پوری دنیا کا نظام اللہ نے اسی لیے ٹھپ کروا دیا ہے کہ ایک ولیٴ کامل کے پڑھے گئے شعر کو سچ کر دکھانا تھا۔ آج ہمارے پاس اشک بہانے اور تڑپنے کے سواکچھ نہیں بچا ہے۔ وائے ناکامی!ہم ایسے محروم القسمت ٹھہرے کہ اپنے روحانی باپ کے جنازے میں شرکت بھی نہیں کر سکے، شاید جامعہ اکل کوا کی تاریخ کا یہ کلیجہ چیر دینے والا سانحہ ہے۔

            قلم اس سے زیادہ لکھنے کی اجازت مجھے نہیں دے رہا ہے۔ میراقلم تخیل کی سیاہی اشک بن کر سفید صفحات کو سیاہی میں تبدیل کر دینا چاہتا ہے۔

             آج وہ تھکا ہوا مسافر اپنی آخری آرام گاہ میں رہائش پذیر ہو گیا ہے۔مدتوں کا طویل سفر آج پورا ہو گیاہے، مالیٴ چمن لاکھوں پھولوں میں خوش بو ڈال کر جنتی ہواؤں کی خوش بو سے محظوظ ہونے کے لیے ہم سب سے، لاکھوں چاہنے والوں اور بے شمار شاگردوں سے ہمیشہ ہمیش کے لیے رخصت ہوکر وہ مسافر اپنی منزل پر پہنچ گیا ہے۔

            اے مسافر محبت! آج تیرے روحانی بیٹے تیری یادوں میں تڑپ رہے ہیں۔ اے رہبر منزل! ایسے موقع پر جدائی اختیار کی کہ ہم آخری دیدار سے بھی محروم رہ گئے، اے ساقیٴ جام علم! تشنگان علم میخانہ میں قطار اند قطار کھڑے آپ کی آمد کے منتظر ہیں، لیکن آپ ہمیشہ کے لیے رخصت ہو چکے ہیں۔ اے استاذ محترم! ہم نے آپ کی قدر نہیں کی، اللہ سے کہیں ہماری شکایت نہ کر دیجیے، ہم ہزار نالائق سہی، لیکن بیٹے تو آپ ہی کے ہیں۔

            میرے اللہ! میرے باپ جیسے استاذ محترم کو معاف فرما کر جوار رحمت میں جگہ دیجیے۔ اس ولیٴ کامل کی برکت سے تمام مرحومین امت کی مغفرت فرما دیجیے، آپ کی آل و اولاد کو صبر جمیل اور جامعہ اکل کوا کو نعم البدل عطا فرمایئے۔

            اے خانوادہ فلاحی! غم کی اِس گھڑی میں آپ تنہا نہیں ہیں۔ اس لیے کہ جامعہ اکل کوا سے منتسب ایک ایک بچہ آپ کے ساتھ کھڑا ہوا ہے، کیوں کہ یہ غم ؛تنہا ایک گھرانے کا نہیں، بل کہ لاکھوں منتسبین جامعہ اکل کوا کا مشترکہ غم ہے۔