آہ! حضرت مولانا سیدمحمد عاقل صاحب سہارنپوری علیہ الرحمہ

مولانا محمد ارشد خان قاسمی ممبئی عفا اللہ عنہ

نیک سیرت محدث عاقل

جن کی ہر بات دین کا حاصل

            سوشل میڈیا کے ذریعہ یہ ہولناک خبر موصول ہوئی کہ، ہمارے اکابرِ سہارنپورکے مزاج و مذاق کے حامل، ان کے رمز شناس اور ان کی روایات حسنہ کے امین حضرت مولانا محمد عاقل صاحب سہارنپوری ؒاپنی جان جاں آفریں کے سپرد کر گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

            آپ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں بفحوائے مقولہ’’مشک آں باشد کہ خود ببوید نہ کہ عطار بگوید‘‘ آپ کی علمی شخصیت بھی مشک و عنبر کی دل آویز خوشبو کی طرح اہل علم و عرفان کے لیے باعث ِکشش اور جاذبیت سے معمور تھی، آپ کو اللہ تعالی نے علمِ ظاہر و علم باطن کی وافر مقدار سے نوازا تھا، علمی شناخت کے ساتھ آپ عملی پختگی اور عرفانی کیفیات سے بھی متعارف تھے، آپ کی زندگی واقعی پچھلوں کی یادگار اگلوں کے لیے معیار کے عین مطابق تھی اور آپ جیسی عظیم المرتبت شخصیت کا رخصت ہوجانا واقعی ’’عاقل بصیر‘‘ کی موت کے مترادف ہے۔

            حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ:

            ’’موت الف عابد قائم اللیل صائم النھار اھون من موت عاقل بصیر۔‘‘

(إتحاف السادۃ المتقین جدید 55/1)

            ترجمہ: ایک ہزار محض عابد و زاہد کی موت ہلکی ہے کسی بالغ نظر، صاحب بصیرت عاقل کی موت سے۔

            آپ ہلکے پھلکے بدن، کچھ طویل لیکن رعنایت سے معمور چہرہ، سرمگیں آنکھیں، قامت کہتر لیکن قیمت بہتر، شگفتہ روئی، اور خندہ پیشانی سے آراستہ تھے، آپ کی چال ڈھال، نشست و برخاست اور رفتار و گفتار سے محدثانہ آن بان ظاہر ہوتی تھی، بل کہ اگر یوں کہوں تو مبالغہ نہ ہو کہ

            ’’ آپ کی شخصیت کو دیکھ کر مجسم ِعلم و فن کی تصویر ذہن و دماغ پر مرتسم ہوجاتی تھی۔‘‘    

            جب سے آپ کی گراں قدر کتاب’’الدر المنضود شرح ابوداوؤد‘‘ نظر نواز ہوئی اسی وقت سے آپ کا غائبانہ تعارف اور خیالی طور پہ علمی جسم وہیئت ذہن میں بیٹھ گئی تھی، اور اسی وقت سے براہِ راست ملاقات کا داعیہ پیدا ہوتا رہا، حتیٰ کہ وہ خواب دورۂ حدیث کے سال شرمندۂ تعبیر ہوا، جب ہم دار العلوم وقف دیوبند میں دورۂ حدیث کی تکمیل کے لیے داخل ہوئے۔

            دار العلوم وقف کے علیا کے ایک مؤقر استاذ کے ہمراہ حضرت علیہ الرحمہ کے یہاں جانے کا اتفاق ہوا جس کی تفصیل راقم کی روٗدادِ سفر سے ذیل میں نقل کی جارہی ہے:

            ’’جمعہ کا دن تھا، ہم سہارنپور کے سفر پر تھے، بہت سے مشائخ سے قابل قدر اور یادگار ملاقاتیں ہوچکی تھیں، پھر آخر میں ختامہ مسک کے طور پہ حضرت مولانا محمد عاقل صاحب دامت برکاتہم سے ملاقات ہونی تھی، طبیعت میں ایک ولولہ موجزن تھا، شوق و محبت کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا، مدتوں کی بے قراری کو قرار ملنا تھا، ایک قدیم خواب شرمندۂ تعبیر ہونا تھا، مولانا کوثر سبحانی صاحب زیدمجدہ کے یہاں سے ہم پانچ بجے نکلے اور محلہ مفتی میں واقع حضرت کی مسجد کی طرف بڑھے، ہر بڑھتے قدم کے ساتھ کشش و کھنچاؤ میں اضافہ ہورہا تھا، آپ کے دیدار کا اشتیاق بڑھ رہا تھا، بالآخر کیف و سرور کے ساتھ میں اولاًحضرت مولانا محمد عاقل صاحبؒ کی خانقاہ پہنچا، وہاں کتابوں کی الماری میں جدید اور قدیم کتابوں کا ایک ذخیرہ دیکھنے کو ملا، پھر ہم اسی کے قریب میں واقع حضرت کی مسجد(یہ سہارنپور کی تاریخی مسجد ہے جس میں حضرت سید احمد شہید رائے بریلوی علیہ الرحمہ بھی تشریف لاچکے ہیں۔ از دانشوران سہارنپور) میںپہنچے، چھ بجے عصر کی جماعت تھی، حضرت عین وقت پر تشریف لائے، ہم نے عصر کی نماز باجماعت ادا کی، پھر دورد شریف کی ایک پرنور محفل سجی، اور ایک صاحب نے دھیمی آواز سے کہا کہ، درود شریف کا اہتمام کیجیے یہاں ہر جمعہ کو یہی معمول ہوتا ہے کہ مسترشدین اپنے شیخ کے ساتھ عصر تا مغرب درود و دعا میں وقت گزارتے ہیں، کچھ دیر تک درود شریف کے اہتمام کے بعد حضرت کے صاحبزادے کے توسط سے ملاقات ہوئی، علیک سلیک اور مصافحہ ہوا، حضرت نے آنے کا مقصد دریافت کیا؟ راقم نے اجازت حدیث کا ذکر کیا۔ آ پ نے دریافت کیا کہ: دورۂ شریف کی تکمیل آپ نے کہاں سے کی ہے؟دار العلوم وقف دیوبند میں پڑھ رہا ہوں راقم نے جواباً عرض کیا، فرمایا کہ پھر اتنی جلدی کیا ہے، آرام سے لے لیجیے گا، میں نے کہا کہ سال کے آخر میں آجاؤں؟ فرمایا کہ: درمیان سال میں بھی آسکتے ہیں میں اجازت دے دوں گا، پھر آپ نے اپنی کتاب ’’بیان الدعاء‘‘ ناچیز کو ہدیہ دی، اور فرمایا کہ اسے مکمل پڑھ لیجیے گا، میں نے کہا کہ اگر اس پر ناچیز کا نام لکھ دیں تو بڑی سعادت ہوگی، فرمایا کہ ہدیہ کافی ہے، اور صرف اللہ تعالی کے رجسٹر میں نام ہونا چاہیے۔ آپ کے یہ ناصحانہ کلمات تیر کی طرح دل میں اتر گئے اور لوح دل پر نقش ہوگئے، پھر کچھ دیر آپ کی صحبت میں بیٹھ کر ہم رخصت ہوئے۔‘‘

(ماخوذ از: سفرنامہ دیوبند و سہارنپور مولفہ راقم السطور)     

            سال 2023ء کے آخر میں درس مسلسلات میں شرکت کے لیے ہم مظاہر علوم سہارنپور گئے، وہاں مسلسلات کے درس میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی، حدیث مسلسل بالاسودین کی قراء ت کے موقع پر کھجور و زمزم تقسیم ہوا، اسے کھانا نصیب ہوا، پھر حسب اختصاص مظاہر علوم’’الفضل المبین‘‘ کی جمیع مرویات پڑھی گئی اور کتاب کی تکمیل کی گئی پھر حضرت نے جملہ شرکا و حاضرین کو مسلسلات اور اپنی جمیع مرویات کی اجازت مرحمت فرمائی، وللہ الحمد اولاً و آخراً، پھر آخر میں لوگوں کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلۂ ازدحام کے بیچ حضرت سے بدقت ِتمام مصافحہ کا شرف بھی حاصل ہوا، اور اس طرح حضرت سے اجازت حدیث حاصل کرنے کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا۔

 فجزاہما اللّٰہ عنا وعن جمیع اھل العلم خیر الجزاء۔