انتقالِ پرملال: استاذ ِتفسیر وحدیث ،شہ سوارِ نظامت و خطابت ،نگرانِ مسابقات، جامعہ اکل کوا کا دل اور دھڑکن حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب رحمة اللہ علیہ
ازقلم:(خوشہ چیں حضرت مرحوم) محمد ہلال الدین بن علیم الدین ابراہیمی
کلیوں کو میں سینے کا لہو دے کے چلاہوں
صدیوں مجھے گلشن کی فضا یاد کرے گی
آج۱۷/ شعبان المعظم ۱۴۴۱ھ – ۱۲/ اپریل بروز اتواربوقت صبح ۸/ بجے حضرت الاستاذ حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی ، مظاہری -جنہیں ہم اب رحمة اللہ علیہ کہنے پر مجبور ہیں – کی وفات کی خبر سماعت کو چھلنی کر گئی۔ آپ ۲/ یوم کی مختصر علالت کے بعد کھروڈ ”ویل کیئر“اسپتال میں مالک ِحقیقی سے جاملے ۔اناللہ واناالیہ راجعون۔
اور اس لاک ڈاون کی مجبوری کی وجہ کر اپنے لاکھوں محبین اور متعلقین کو آخری رسومات سے محروم کرگئے۔ بہ مشکل آپ کے گھر کے کچھ لوگ تجہیز وتکفین میں شریک ہوپائے۔نماز ِجنازہ پہلی دفعہ آپ کے بھتیجے اور داماد مولانا عبید اللہ صاحب نے اور دوسری دفعہ آپ کے صاحبزادے مفتی ریحان صاحب نے پڑھائی۔ اورپھر آپ کا جنتی جسم آپ کے وطن” رویدرا“میں پرنم آنکھوں ، مغموم دلوں اور کپکپاتے ہاتھوں سے سپردِ خاک کر دیا گیا۔
ابھی نمازِ مغرب کے بعد حضرت کی یاد نے ایک بار پھر زور سے دستک دیا۔ آپ کا مسکراتا چہرہ آنکھوں کے سامنے آگیا ،آپ کی پیاری آواز کی یادیں کانوں میں رس گھول گئیں اور آپ کے ہمارے درمیان نہ ہونے کا یقین پھر سے ڈگمگاگیا۔ صبح سے کئی دفعہ کچھ لکھنے کا ارادہ کیا ؛لیکن ذہن ماوٴف ہوجاتا اور بس پھوٹ پھوٹ کر رونے کا من کرتا ۔ ابھی جب آپ سپردِ خاک ہوچکے ہیں اور زمین اپنا سینہ چیر کر جامعہ اور متعلقین ِجامعہ کے دل کو نگل کر بڑی خوش ہو رہی ہے ۔ وہیں ارباب ِجامعہ ماہیٴ بے آب کی طرح بے کل اورقفس میں قید پرندے کی طرح پھڑ پھڑا رہے ہیں اوراپنی مجبوری اور بے بسی کو لاچاری کے ساتھ تکے جار ہے ہیں۔
آہ مقدر ! ہم اپنے ایسے استاذ کو؛ جس نے ہمیں نہ صرف علمی تحائف دیے؛ بل کہ ہمیشہ نصیحتوں، تربیتوں اورمادی تحائف سے بھی نوازتا رہا ، ہم اسے آخری تحفہ اور آخری حق ایک مشت مٹی بھی نہ دے پائے۔
آپ ایک معشوق کا اپنے عاشق کو سنایا ہوا شعر ہمیشہ موت کے تذکرے کے موقع پر سنایا کرتے تھے
پھول کیا ڈالو گے تربت پر میری
خاک بھی تم سے نہ ڈالی جائے گی
ہمیں کیا معلوم تھا یہ شعر ہم عاشقوں ومعشوق پر بھی صادق آئے گا۔
دربار ِمحبوب میں حاضری کی تیاری:
آپ کے ان آخری ایام کو دیکھتا ہوں تو لگتا ہے کہ آپ کو غیر محسوس طریقے پر اپنے مالک ِحقیقی سے ملنے کا علم ہوگیا تھا ۔آپ کی عمر کے یہ اخیری دن کیا ہی حسین تھے! جس طرح انسان ایک طویل مدت اور لمبے انتظار کے بعد اپنے سب سے محبوب شخصیت سے ملنے والا ہو، تو کس طرح اس کی تیاری کرتا ہے ؟اس محبوب کے لیے اس کے پسندیدہ تحائف ،دنیا کے بازاروں سے کھوج کھوج کر اور چن چن کر اکٹھا کرتا ہے۔ جب آپ کے آخری ایام کو دیکھتا ہوں تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ آپ اپنے مولیٰ سے ملنے اور اس کے پسندیدہ تحائف کو جمع کرنے میں لگے تھے۔ آپ نے کرونا کے ان معطل ایام کو اپنی آخرت کے لیے معطر کر لیا تھا ، خود بھی خوب توشہٴ آخرت جمع کرنے میں لگے تھے اور طلبہ اور اپنے متعلق کچھ اساتذہ کو بھی اس میں لگارکھا تھا ۔ خاص طور پر آپ نے ایک ہفتے سے یہ عملِ خیر اور صدقہٴ جاریہ شروع کیا تھا کہ نمازِ مغرب میں جو تلاوت ہوتی ، سنن و نوافل سے فراغت کے بعد اس آیت سے حاصل ہونے والے پیغام کو طلبہ کے سامنے بیان کرتے اور آپ کو جو تلخیص اور حسنِ ترتیب کا ملکہ حاصل تھا، اسے بخوبی استعمال کرتے ہوئے نہایت مرتب اور ملخص اندازمیں اس پیغام کو پیش کرتے اور طلبہ کو اس کی تفسیر لکھنے کی ترغیب اور تشویق دلاتے۔پھر آئندہ کل تمام طلبہ کو نماز ِمغرب کے بعد ان کے مضامین کے اعتبار سے گراں قدر انعامات سے نوازتے۔
”مجھے پورا یقین ہے کہ جس طرح آپ طلبہ کو انعامات سے سرخ رو کرتے تھے، آج باری تعالیٰ نے بھی مجلس لگائی ہوگی اور اپنے شایان شان حضرت رحمة اللہ علیہ کو انعامات سے نوازا جارہا ہوگا “۔
آپ نے لاک ڈاوٴن کے بعد کے ایام کو اپنا تصنیفی وتالیفی مشغلہ بنالیا تھا ۔ یومیہ ۱۰۰/ سے زائد صفحات پر کام ہورہا تھا ۔ ایک روز عصرمیں چار پانچ دن کے کاموں کا پرنٹ آوٴٹ دکھایا اور بتایا کہ اس طرح احادیث اور دیگر چیزوں پر کام کررہا ہوں۔آپ کا ایک خاص وصف تھا کہ آپ ہر چیز کو فوری طورپربڑے اچھے نام سے موسوم اور عمدہ عنوان سے معنون کردیتے۔ آپ نے اس کا نام بھی بتا یا جوالابواب الثمانیة فی ایام ِکرونا جیساتھا ، تفصیلی مضمون میں ان شاء اللہ ضرور ذکر کروں گا۔(جنت کے ۸/دروازے کی مناسبت سے آپ حدیث کے آٹھ گوشوں پر کام کر رہے تھے۔اور جنت کے ہر دروازے سے جانے کی تیاری میں لگے تھے۔)
دورہٴ حدیث سے امسال فضیلت حاصل کرنے والے اوائل ِعشر کو حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ اور دیگر بڑے حضرات کی اہم ترین تصانیف کے ترجمے اور تلخیص میں لگا رکھا تھا ۔غرض کہ آپ اپنے مولیٰ کے حضور تحائف لے جانے کی تیاری میں بڑے زور شور سے مشغول تھے ۔ احقر کی گزارش ہے کہ حضرت الاستاذ نے؛ جن کو جس کام پر لگایا تھا وہ اسے تکمیل تک پہنچاکر حضرت کی روح کو ٹھنڈک پہنچائیں اور آپ کے لیے اس کام کو صدقہٴ جاریہ بنائیں۔
حضرت رحمة اللہ علیہ اور جامعہ :
اکثر لوگ ادارے میں ایسے ہوتے ہیں، جن کی شناخت ادارے سے ہوتی ہے ، لیکن ہمارے حضرت بلامبالغہ ایسے تھے کہ آپ کی شخصیت کا جامعہ کے معروف ومشہور ہونے میں بنیادی کردار تھا اور آپ گویا جامعہ کی شناخت اور پہچان تھے۔ آپ کو ترجمان ِجامعہ کا لقب دیا جائے ، جامعہ کا دل کہا جائے یا بلبل ِجامعہ سے یاد کیا جائے؛ سب آپ کی شخصیت کے موافق ہے۔
آج آپ کی رحلت سے جامعہ بے زبان سا ہوگیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ جامعہ کو آپ کا نعم البدل عطا فرمائے ۔
جامعہ سراپا سوگ بنا ہے:
مسجد ِمیمنی کے منبر و محراب، درو دیوار سوگوار ہیں ، احاطہ ٴجامعہ اپنے بلبل کی کوک کو تر س رہا ہے ۔ نمازِ تہجد کے بعد نمازِ فجر کے لیے آپ کی آواز جو دارالاقامہ میں گونجتی تھی وہ خاموش ہے…نماز ِفجر کے بعد مسجد ِمیمنی ذکر کی آواز سے جو معمورومسحور ہواکرتی تھی آج وہ مسکوت ہے … نماز ِظہر میں تکبیرات کی صداؤں سے گونجنے والا مصلیٰ خاموش ہے … نماز ِعصرمیں تعلیم کے بعد اس کی تلخیص وتشریح اور تلاوت کلام ِپاک کے بعد اس کے جواہرات کے نچھاور سے یہ درودیوار اورطلبہٴ جامعہ محروم ہیں۔
آہ جامعہ ،رئیس ِجامعہ اورخاندان وستانوی!!
جامعہ نے ایک عظیم مفسر ، بے مثال محدث ، ایک ماہر اور منجھا ہوا منفر دمدرس ، تعلیم و تربیت کا امام اور جلسے و اجلاس کی شان، مسابقات ِقرآنیہ کی روح کو حضرت مولانا رحمة اللہ علیہ کی شخصیت کی صورت میں کھودیا ہے ۔آپ جامعہ کے چھوٹے سے چھوٹے کام سے لے کر بڑے سے بڑے کام میں،محض رضائے الٰہی اور رئیس جامعہ کی محبت میں پیش پیش رہتے۔آپ نے ہمارے دورے کے سال میں جو ہمیں نصیحت کی تھی کہ ”حرف بن کر کام کرو،جس کا بظاہر اپنا کوئی مقام نہیں ہوتا وہ اسم وفعل کا محتاج ہوتاہے؛ لیکن اس کے بغیر کوئی معنی بھی ادا نہیں ہوتا،اسی طرح کسی عہدے کے بغیر کام میں لگے رہو“۔ ہم نے فراغت کے بعد آپ کو اپنی اس نصیحت پر سب سے زیادہ عامل پایا۔ آپ کی وفات بڑا عظیم خسارہ ہے …اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے اس کی بھر پائی فرمائے۔
جامعہ کا ایک سچا اور مخلص صرف فرد تو نہیں، بل کہ حصہ اور جز کہوں گا ۔جامعہ سے آج اس طرح جدا ہوگیا ہے کہ” بس رت ہی بدل گئی ہے“ ۔
رئیس ِجامعہ اور نائب رئیس جامعہ کے لیے آپ کیا تھے ،یہ تو رئیس ہی جانتے ہیں ،کوئی ان کے دل سے پوچھے!!۔ وہ صبر و استقامت کا پہاڑ ایک اور صدمے کے کوہ ِگراں کو برداشت کر گیا ۔ اللہ رئیس جامعہ کو مزید قوت ِصبر عطا فرمائے اور آپ کا سایہ ہم پر دراز تر دراز فرمائے…اور اب مزید غم سے نہ اس بوڑھے دل کو دوچار فرمائے اور نہ ہم کم زور دل والوں کو یہ دن دکھائے۔
حافظ سلمان صاحب بہنوئی سے زیادہ ایک ایسا دوست بل کہ ہردرد کے درما کی جدائی گی پر سراپا غم دکھ رہے ہیں؛حافظ عبد الصمد صاحب اپنے مونس وغم خوار کے رفیق کے فراق میں گھلے گھلے سے ہیں؛مولانا حذیفہ صاحب اور مولانا اویس صاحب ،مولانا بنیامین اور مولانا معوذ صاحبان اپنے چہیتے ماموں اور مشفق استاذ کی جدائیگی پر نڈھال نڈھال سے ہیں؛دیگر تمام اہل خاندان صبر کے ساتھ اس غیرمتوقع حادثے کوپی رہے ہیں؛ اور” ان للہ ماأخذ ولہ ما أعطی وکل شیء عندہ بأجل مسمی“ پر یقین کا مثالی ثبوت پیش کر رہے ہیں۔اللہ آپ کے اہل خانہ بیٹے اور بیٹیوں کو خوب صبر عطافرمائے۔
آپ اپنے خانوادے کے لیے بہت بڑی نعمت تھے … صلہ رحمی آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری تھی ، حلم و بردباری اللہ نے آپ کو خوب عطا کی تھی … خاندان کو ایک جان رکھنے میں آپ کا بڑا کردار تھا۔
مردم ساز ومردم شناس:
آپ کو اللہ تعالیٰ نے افراد سازی میں ید ِطولیٰ عطاکیا تھا۔افراد کیسے تیار کیے جاتے ہیں،یہ تو آپ کا خاص ہنر تھا۔آپ کا معمول تھا کہ دورہٴ حدیث میں ششماہی کے بعد بیضاوی شریف کا درس اوائل کے طلبہ کے سپرد کردیتے اور اپنی نگرانی میں درس دلواتے اور خوب سراہتے، کمی و کوتاہی کی اصلاح فرماتے۔اس سے خود سمجھا جا سکتا ہے کہ حضرت مرحوم کس قدر مردم ساز تھے۔اور ساتھ ہی ساتھ آپ بڑے مردم شناس بھی تھے،آپ کے یہاں”لَایَخْدع وَلا یُخْدع“ والا معاملہ تھا؛اللہ نے آپ کو وہ بصیرت وبصارت عطا کی تھی کہ آپ کے یہاں دودھ کا دودھ اورپانی کاپانی ہو جاتا۔
طلبہ واستاذہ کے ساتھ سلوک:
آپ طلبہ کے لیے ایک مشفق باپ اور اساتذہ کے لیے ایک مہربان بھائی کی حیثیت رکھتے تھے۔ہر طرح سے طلبہ کا خیال رکھتے ، غریب ونادار کی مدد،بڑے عزت اور شفقت کے ساتھ کرتے۔ہونہار طلبہ کے ہنر کو نکھارتے،سنوارتے،سراہتے اور خاص طور پر سنبھالتے۔ کوئی خوش فہمی میں مبتلاہو کر بگڑ نہ جائے یا شہرت پاکر تکبر کا مریض نہ ہو جائے،اس کا بڑا خیال رکھتے اور علاج فرماتے۔
اپنے شاگرد اساتذہ کے ساتھ بڑا پدرانہ معاملہ فرماتے،انہیں ہمیشہ اپنے پند ونصائح اور حوصلہ افزائی سے نوازتے اور بڑھنے کا موقع دیتے؛نیز ان کے گھریلو ضروریات کا بھی بڑا خیال رکھتے اور مفید مشوروں سے نوازتے۔ آج سارے جامعہ کے زبان پر آپ ہی کے محاسن ہیں اور آپ کے فراق کا غم ۔اللہ ہم سب کو صبر جمیل اور نعم البدل عطا فرمائے۔
آپ کی اولاد:میں تین صاحبزادے مفتی ریحان صاحب ،حافظ ریان صاحب اور سب سے چھوٹے رضوان سلمہ اور پانچ بیٹیاں اور ایک بیوہ ہیں۔اللہ ان سب کو خوب خوب صبر جمیل عطافرمائے اور ہمیں بھی آپ کی اولاد کی قدردانی اورخدمت کر کے حضرت کی روح کوسکون پہنچانے کا ذریعہ بنائے۔
آہ مرحوم کے کن کن محاسن کا تذکرہ کروں!
کتنابھی لکھیں یہ باب تشنہ ہی رہے گا۔کئی دفعہ عصر کی نماز کے بعد حضرت کی رفاقت نصیب ہوئی،خوش قسمتی سے احقر کی رہائش گاہ حضرت کے قیام گاہ سے قریب تھی؛دورانِ راہ حضرت اپنے تجربات بتاتے،نصیحت کرتے،گھر کے احوال معلوم کرتے؛گویا ایک باپ کی طرح پیش آتے۔
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا:
خدا کی قسم مٹی صرف آپ کے جسم وپیرہن کو چھپا سکے گی ،آپ کے زریں ،تابندہ اور درخشاں کارنامے مرور ِایام کے ساتھ اور روشن ہوتے چلے جائیں گے؛ کیوں کہ اہل علم تو مر کر ہی دائمی اور ابدی زندگی پاتے ہیں۔
بس دعا ہے اور درخواست ہے کہ حضرت الاستاذ کے لیے خوب سے خوب ایصالِ ثواب کا اہتمام کریں…تلاوت ،صدقات اور دیگراعمال ِخیر سے حضرت کے ذخیرہٴ ثواب میں اضافہ فرمائیں۔حضرت خود بھی اس کا اہتمام کرتے تھے ،ہم جب ۲۰۱۰ء میں دورہٴ حدیث میں تھے ۔امسال آپ کے مشفق استاذ حضرت مولانا ذوالفقار صاحب برد اللہ مضجعہ شیخ الحدیث فلاح ِدارین کا انتقال ہواتھا ،تو آپ نے ان کے نام سے جامعہ میں”سبیل ِذو الفقار“ تعمیر کروائی تھی،یہ تو بر سبیل تعلیم تھا اور نہ معلوم خلوت میں اپنے اساتذہ کے لیے کیاکیا اعمالِ خیر اور صدقات کیے ہوں گے۔اللہ ہم سب کو ان کے نقش ِقدم پر چلائے ،ان کی نصیحتوں پر استقامت اور تعلیمات پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
میں پیر ذوالفقار صاحب دامت برکاتہم کے اس شعر پر اپنے اس درد کو سمیٹتا ہوں،جو ذو معنیین ہے
انہیں دیکھنے کی جو لو لگی تو فقیر دیکھ ہی لیں گے ہم
وہ ہزار آنکھ سے دور ہوں وہ ہزار پردہ نشیں سہی
سرِ طور ہو سر حشر ہو ہمیں انتظار قبول ہے
وہ کبھی ملیں وہ کہیں ملیں وہ کبھی سہی وہ کہیں سہی
اللہم اغفر لہ وارحمہ وعا فہ واعف عنہ ، وأکرم نزلہ ، ووسع مدخلہ ، واغسلہ بالماء والثلج والبرد، ونقہ من الخطایا کما ینقی الثوب الابیض من الدنس ، وأبدلہ دارا خیرا من دارہ وأہلا خیرا من اہلہ وقہ عذاب القبر وعذاب النار آمین وصلی اللہ تعالیٰ وعلی خیر خلقہ محمد وآلہ واصحابہ اجمعین!
از قلم :محمد ہلال الدین بن علیم الدین ابراہیمی# ۱۸/شعبان رات:۴۶:۱۲