آہ!میرے مشفق حافظ اسحاق صاحب وستانوی 

(نائب رئیس جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا)

قاری نثار احمد کرالوی#

خادم شعبہٴ تحفیظ القرآن جامعہ اکل کوا

            کبھی کبھی ہماری بے بسی ہمیں ایسے موڑ پر لاکھڑا کرتی ہے ،جہاں سے واپسی کسی بھی صورت میں ہمارے لیے ممکن نہیں ہوتی۔ ایسے ہی موڑ کا سامنا مجھے اس وقت کرنا پڑا جب میرے،مشفق ومہربان حافظ اسحاق صاحب وستانوی  اپنی زندگی کی تقریبا 75(پچھتر) بہاریں دیکھ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے خالق ِحقیقی سے جاملے۔ ان کی شفقتیں اور احسانات بیان کرنے کے لیے نہ میرے پاس الفاظ ہیں اور نہ اظہار، یہ وہ مقام ہے جہاں جذبات کی فراوانی، الفاظ کی کمی کی شکایت کرتی نظر آتی ہے؛ جب کہ اظہار سے عاجزی بیتابی کے سیلاب میں مزید اضافے کا باعث ہوتی ہے۔

            حضرت حافظ اسحاق صاحب وستانوی نوراللہ مرقدہ ملک کی عظیم دینی وعصری دانش گاہ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا کے استاذ ِاول کے ساتھ ساتھ رئیس ِجامعہ حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی# حفظہ اللہ ورعاہ کے بڑے بھائی اور جامعہ کے نائب رئیس اورجامعہ ہی کے ایک عظیم ترین شعبہ، شعبہٴ تحفیظ القرآن کے صدر تھے۔

            شہرت، ناموری اور نمایاں ہونے سے کوسوں دور رہ کر اخلاص وللہیت سے دین کی خدمت کرنا حضرت حافظ صاحب کا وصف ِخاص تھا۔ جلسے،جلوس،تقریریں اور اسفار کے بجائے خالصتا ًخدمت ِدین وخدمت ِجامعہ کوترجیح دینا اور یکسو ہوکر ان میں اپنی محنت اور توانائیاں صرف کرنا، ان کے نزدیک زیادہ فائدے مند سودا تھا؛چناں چہ یہ سودا وہ پہلے ہی طے کرچکے تھے، اسی لیے زمانے میں عام طبقہ جلدی سے انہیں پہچاننے میں کامیاب نہیں ہوتا۔

            مرحوم حافظ صاحب سے میرا تعلق ذاتی اور انتظامی اعتبار سے ظاہر تھا، مرحوم کی خلوت اور جلوت میرے لئے مشعل ِراہ تھی، مرحوم کی فراقت بیشک جامعہ برادری اور خصوصاً احقر کے لئے بڑا خسارہ ہے۔

            مرحوم حافظ صاحب کی تربیت کا انداز بڑا ہی نرالاتھا،قدرتی رعب اور پہاڑ جیسی مضبوط شخصیت کے مالک تھے؛جس کی وجہ سے ہر کوئی ان کے سامنے غلط بیانی سے احتیاط کرتا تھا، نیز زبان کے بہت پابند تھے، جو فیصلہ ایک بار کردیاپھر اس سے پیچھے ہٹنا یا ہٹانا بہت مشکل تھا، صرف رئیس جامعہ ہی کا آخری فیصلہ ہوتاتھا۔اگرکسی کام کو منظور کرلیا گیا اور اتفاقیہ کوئی حالات درپیش ہوئے تب بھی حافظ صاحب کا پیچھے ہٹنا ممکن نہیں تھا، گرچہ اپنی جیب ِخاص سے ہی خرچ کیوں نہ کرنا پڑجائے؛اسی طرح اللہ پاک نے بے شمار لوگوں کی ضروریا ت مرحوم کے ذریعہ پوری فرمائی۔

            بظاہر مزاج میں غصہ تھا؛لیکن دل نہایت نرم اور صاف تھا،چند منٹوں میں ہی غصہ شفقت اور محبت میں بدل جاتا تھا۔اور جس پر غصہ کیا گیا اگر وہ حاضر ہوتا تو پھر کسی طرح ا س کو بھی خوش کردیتے یا بالفاظ دیگر اس سے معافی مانگ لیتے؛اسی طرح طلبہ اور اساتذہ سے نہایت ہمدردی اور لگاوٴ تھا۔کسی کی تکلیف یا پریشانی کا علم ہوتا تو خود پریشان اور بے چین ہوجایا کرتے اورکبھی مشوروں سے نوازتے یا حتی المقدور ان کا تعاون کرتے۔ہمدردی، رحمدلی مرحوم حافظ صاحب کا خاص وصف تھا۔

طلبہ کے ساتھ شفقت کا ایک واقعہ:

            ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ آسام کا ایک طالب علم مرحوم حافظ صاحب کی خدمت کے لیے حاضر ہوا،رمضان کی چھٹیاں قریب تھی چنانچہ گفتگو کے دوران اس طالب علم سے پوچھا کہ گھر کے لیے کب روانہ ہوں گے اور کب تک پہنچ جائیں گے،اس طالب علم نے کہا کہ فلاں جگہ سے ٹرین ہے اور ۳ /دن کی مسافت ہے،اتنا سنتے ہی مرحوم حافظ صاحب کی طبیعت میں بے چینی طاری ہوگئی اور تعجب کرنے لگے کہ ۳/ دن تک مسلسل سفر!پھراس طالب علم سے کہا کہ فوراً قاری نثار صاحب کو بلاؤ۔جب یہ عاجز حاضر ہوا تو کہنے لگے کہ یہ طالب علم ۳ /دن تک کیسے سفر کی مشقتیں برداشت کرے گا؟پھر فرمایا کہ اس طالب علم کے لیے ہوائی جہاز سے ٹکٹ بنادیں،تاکہ یہ طالب علم سہولت سے اپنے والدین سے مل سکے۔

نرمی اور سختی کا طبیعت میں حسین امتزاج:

            نرمی اور سختی کا طبیعت میں ایک حسین امتزاج تھا،معاملات میں صاف شفاف اورجھوٹ سے سخت نفرت تھی اور جی حضوری مکاری چاپلوسی کی تو کوئی گنجائش نہیں تھی۔اصول کے پاپندتھے۔علمائے کرام،اکابرین اور طلبائے کرام کی بہت قدر کرتے تھے۔مولانا حبیب صاحب آچھودی استاذشعبہ تحفیظ القرآن جب کسی عالمِ دین کے انتقال کی خبرپہنچاتے تو بہت غمزدہ ہوجاتے اورتھوڑی دیر خاموش ہوجاتے اور پھربے اختیار آنکھوں سے آنسوں جاری ہوجایا کرتے۔اور مرحوم کیلئے ایصال ثواب کا اہتمام کرتے اور اہل وعیال کو تسلی بھرا فون کرتے اور تعزیت کرتے تھے۔

            طبیعت میں اس قدر سادگی تھی کہ طلبہ جامعہ کے اشیاء خوردونوش کا انتخاب از خودکرتے تھے اگر کوئی تاجر خراب مال لاتا تو اسی وقت واپس کردیتے تھے۔ باقاعدہ دن بھر کی مصروفیات میں سے عصر بعد سے لے کر مغرب یا بعض دفعہ قبیل ازعشاء تک کا وقت جامعہ کے مطبخ اور دارالطعام کیلئے مختص تھا۔

تلاوتِ قرآن کا شغف:

            تلاوتِ قرآن مجید کا عجب ذوق وشوق تھا،دن کا اکثر حصہ قرآن مجید کی تلاوت میں گزرتا تھا۔اور بقیہ وقت تسبیحات واذکار میں صرف ہوتا۔پھر اس کے بعد فون پر انتظامی امور کی گفتگو ہوتی۔اس ضمن میں یہ عرض کرتا چلوں کہ جب بھی حافظ صاحب کا قرآن مکمل ہوتا تو چند طلبہ کو گھر لے جاکر باقاعدہ ضیافت فرماتے، پھر طلبہ کے ساتھ مل کر خوب آہ وبکا کے ساتھ جامعہ، اہل جامعہ اور امت مسلمہ کیلئے دعائیں فرماتے۔

رجل بکاء:

            دعاؤں کا تو اتنا اہتمام کرتے تھے کہ احقر کا مکان حضر ت حافظ صاحب کے مکان کے اوپر ہی ہے اس لئے اکثر رات ۱۲/ بجے سے ۱ /بجے تک مرحوم حافظ صاحب کی آہ وزاری کی آوازیں ہم تک پہنچ جاتی،خصوصاً شب ِجمعہ کو ایک بجے سے چار بجے کے درمیان اللہ تعالیٰ کے حضور رونے اور گڑگڑانے کی آواز سن کر ہم سب نیند سے بیدا ر ہوجاتے۔

دارالقرآن واہلیانے دار القرآن سے والہانہ لگاؤ:

            مرحوم حافظ صاحب کو دارالقرآن کے طلبہ اساتذہ حتی کہ درو دیوار سے بھی حد درجہ دلی لگاوٴ تھا، اگر دیوار پر خراش یا گندگی بھی دیکھ لیتے تو بہت ناراض ہوتے۔اور فوراً صفائی کا انتظام کرواتے۔

            علالت و مزاج کی وجہ سے سفر نہیں کرتے تھے، لیکن دوران سال ساوٴتھ افریقہ محض جامعہ کے خاطر سفر کرتے کبھی اظہار بھی کرتے کہ طبیعت کا ٹھکانہ نہیں ہے، لیکن جانا ضروری ہے اور سفرمیں بھی جامعہ ،رئیس الجامعہ اور دارالقرآن کے حالات روزآنہ دریافت کرتے اور ضروری ہدایات دیتے۔ توکل علی اللہ صبر اور شکر کا پیمانہ بڑا مختلف تھا اگر کوئی بیماری کے متعلق دریافت کرتا تو ایک ہی جواب دیتے اللہ کا شکر ہے۔

 فلاحی اور رفاہی خدمات:

            مرحوم حافظ صاحب نے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں بے شمار فلاحی اور رفاہی خدمات انجام دیئے، جس میں سو سے زائد مساجد کی تعمیر، کئی مقامات پر دارالقرآن، مثلاً: راجستھان کے پھلودی میں اور بنگال کے بیربھوم میں بھی اور اس کے علاوہ کئی اور مقامات پر دارالقرآن کی تعمیر فرمائی؛ اسی طرح کئی جگہوں پر لڑکیوں کی تعلیم کیلئے مدرسے بنائے،جس میں بنگال راجستھان اور پنجاب شامل ہے۔

            اس کے علاوہ بورویل اور غریب مسکین کے مکانات کے ساتھ ،بیشمار ضرورت مندوں کی حتی المقدور امداد کیں۔ اسی سلسلہ کی ایک کڑی بنگال کا ضلع بیربھوم بھی ہے، جو کہ مالی اور تعلیمی اعتبار سے کافی پسماندہ ہے، اس علاقہ کے حالات سننے کے بعد 2007 میں 5 مکاتب قائم کئے اور سالانہ تعطیلات کے موقع پر احقر اور مفتی عبدالحفیظ صاحب سابق ناظم ِمکاتب جامعہ کو وزٹ کیلئے بھیجا ،ہم نے جائزہ لینے کے بعد مرحوم حافظ صاحب کورپورٹ دی کہ مکاتب میں بڑی تعداد چھوٹی لڑکیوں کی ہیں۔اوران میں اکثریت ساڑیاں پہن کر اور پیشانی پر ٹیکہ لگا کر پڑھنے آتی ہیں۔پھر مکاتب کے نظام میں مضبوطی کیساتھ تعداد میں بھی اضافہ کیا گیا۔

            پھریہ چیزیں آہستہ آہستہ ختمِ ہونے لگی اور جب مکاتب کی افادیت ظاہر ہونے لگی توحضرت حافظ صاحب کے سامنے بات رکھی گئی کہ اگر اس علاقہ میں ایک چھوٹا مدرسہ لڑکیوں کیلئے قائم ہوجائے تو ان شاء اللہ لڑکیوں کے ایمان وعقائد کیلئے بہت زیادہ کارگر ثابت ہوگا، بس اسی وقت مرحوم حافظ صاحب نے ارادہ کرلیا اور یہاں کے نگراں مولوی عبدالحفیظ مظاہری سابق ناظم کو جگہ کاانتظام کرنے کے لئے کہا۔ انہوں نے دل وجان سے محنت کرنے کے بعد جگہ کاانتظام کیا ،جگہ کا معائنہ کرنے کے لئے مرحوم مولانا عبد الرحیم صاحب فلاحی اور حافظ سلیمان استادکو احقر کے ہمراہ بھیجا۔ الحمدللہ سب کو جگہ پسند آئی حضرت نے صاحب خیر سے بات کی اور کام شروع ہو گیا اور بہت جلد 250 بچیوں کی تمام تر سہولیات والی عمارت تیار ہو گئی۔ 2012 میں مرحوم خود تشریف لائے اور اس کا افتتاح خود اپنے ہاتھوں سے فرمایا۔

            الحمدللہ آج یہ ادارہ پورے علاقے کا مثالی ادارہ بن کر پوری شان وشوکت کیساتھ کھڑا ہے۔اللہ تعالیٰ اس ادارے کو مرحوم کے لئے صدقہٴ جاریہ بنائے اور اس ادارے کی حفاظت فرمائے۔

مرض الوفات:

            مرحوم حضرت نائب رئیس جامعہ وصال سے کم وبیش ایک ماہ قبل دارالقرآن میں تشریف لائے اور حسب معمول بعد عصر ناشتہ ہوا اس کے بعد سالانہ امتحانات کا مکمل ٹائم ٹیبل اور طلبہ کی حاضری وغیرہ کی معلومات حاصل کی بظاہر طبیعت حشاش بشاش لگ رہی تھی۔ عصر مغرب اور عشاء کی نماز دارالقرآن میں اداء کی اور پھر اسی رات اچانک طبیعت خراب ہوگئی ،ڈاکٹروں نے کہاکہ پیرلیس کا اثر ہے، سورت لے جانا ہو گا؛ لہذا سورت لے جایا گیا ؛وہاں سے طبیعت میں بگاڑ آتا گیا، ایک ماہ سے زیادہ اسپتال میں زیر ِعلاج رہے ،درمیان میں کبھی کبھار خبر آتی تھی کہ آج طبیعت ٹھیک ہے۔

انتقال پر ملال:

            لیکن افاقہ نہیں ہوا ڈاکٹر بھی مایوس ہوگئے؛ لہذا 10 مارچ بروز جمعرات اکل کوا لائے گئے اس رات بھی ایسا لگ رہا تھا کہ طبیعت میں سدھار آجائے گا ،پوری رات آرام سے سونے کے بعد صبحِ سوا سات بجے اچانک رونے کی آواز آئی تو محسوس ہو گیا کہ ہمارے مشفق و مربی اور محسن ِخاص ہمدرد قوم و ملت اور اتنے مضبوط اور باہمت شخصیت کے حامل اللہ کے علاوہ کبھی کسی کے سامنے نہ جھکنے والے، باعزت باوقار زندگی گزار کر مبارک مہینے میں اور مبارک دن اور مبارک گھڑی میں اس دار فانی سے کوچ کرگئے اور آغوش رحمت میں پہونچ گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون!مرحوم ایک مضبوط اور با صلاحیت اور منصف منتظم تھے آخری سانس بھی ایسے وقت میں لیا کہ جامعہ کا اتنا بڑا نظام ہونے کے باوجود ذرہ برابر بھی حرج نہیں ہوا اور نہ ہی باہر سے آنے والوں کو کوئی تکلیف ہوئی جمعہ کا دن تھا اور چھٹی تھی۔

            طلبہ اساتذہ کرام اور باہر سے آنے والوں کا اژدہام اور مجمع دیکھ کر ہی یقین ہوگیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے مقرب اور جنتی شخص کا جنازہ ہے ،بوقت غسل اور تجہیز احقر وہاں موجود تھا ،چہرہ پر وہی رونق اور وقار دیکھنے کو ملا اور جامعہ کا ہر فرد پرنم آنکھوں سے دیدار کررہا تھا ،خصوصا مرحوم کے فرزند اور صدقہٴ جاریہ مولانا حنیف صاحب وستانوی شیخ الحدیث بھاوٴ نگر اور مولانا فاروق صاحب وستانوی شیخ الحدیث کنج کھیڑ،ا حافظ عبیداللہ مقیم ساوٴتھ افریقہ اور بھائی جابر اور پورہ خاندان بلک بلک کر رو رہے تھے اور حضرت کی پیشانی پر بوسے دے رہے تھے۔

            یقینا حضرت کی وصال سے خصوصاً جامعہ کے لئے بہت بڑا خلا واقع ہوا ہے اور نہ معلوم آپ سے کتنے لوگوں کی امیدیں وابستہ تھیں۔

            بہر حال موت یقینی ہے اور ہر ایک کا وقت بھی متعین ہے باقی رہنے والی ذات صرف وحدہُ لاشریک کی ہے اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کے تمام کارِ خیر کو ان کے لئے صدقہٴ جاریہ بنائے اور ان کے تمام نیک اعمال اور تمام دعاوٴں کو قبول فرماکر جنت میں اعلیٰ علیین میں داخل فرمائے اور ہم سب کو بھی ان کے نقش ِقدم پر چل کر اچھی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ تعالی ہم سب سے راضی ہو جا ئے۔

 آمین یارب العالمین!

#…#…#