آہ!اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر

 قاری مختار احمد چارنیری /سابق استاذ جامعہ اکل کوا

            ﴿کل نفس ذائقہ الموت﴾کا یہ مژدہٴ الٰہی رب ذوالجلال کا وہ حکم محکم ہے کہ جس کی اطاعت سے نہ کوئی بچا ہے اور نہ ہی کسی میں اپنے آپ کو بچانے کی سکت ہے ۔ خالقِ دو جہاں کی اس عظیم کائنات میں آنے اور جانے والوں کا ایک طویل سلسلہ ہے ،لیکن ان بے شمار اور ان گنت افراد میں چند ایسے مزکی؛ مجلی؛ مصفی اور ہر دلعزیز نفوس بھی ہیں، جن کا اٹھنا بیٹھنا، ملنا جلنا، چلنا پھرنا، جن کا اندازِ درس و تدریس،انداز ِبیان و گفتگو، انداز تعاون و تعامل،جن کی خوش مزاجی ، خصوصی وعمومی برتاؤ اور جن کی دلبر ودل ربا ادائیں قلب و جگر پر ایسی مضبوط اور اَن مٹ یادیں نقش بن کر ابھرتی ہیں کہ جنہیں کسی صورت بھلایا نہیں جاسکتا۔

            میری مراد آج کے سفر دارالبقا کے اس عظیم مسافر سے ہے، جس کو جامعہ،ارباب جامعہ، اساتذہٴ جامعہ، طلبائے جامعہ، متعلقین اور متوسلین و معاونین جامعہ ؛بہر صورت انتہائی ادب اکرام و احترام اور بڑی ہی عزت وناموس کے ساتھ فلاحی صاحب جیسی پارسا نسبت سے یاد فرماتے تھے ۔جوبیک وقت مفسر و محدث بھی تھے اور شیریں و شعلہ بیاں مقرر و خطیب بھی،مصنف و مؤلف اور مرتب و منتظم بھی، ایک کام یاب مدرس و مفکر بھی، استاذ الاساتذہ اور خدمت گزار بھی، بااخلاق و با ذوق بھی، معاون و محسن بھی، خوش مزاج و ملنسار بھی، وسیع الظرف اور طبعی ظرافت کے حامل بھی، ذاکر و شاغل اور خیر خواہ مشیر و مستشیر بھی، اکابر کے منظور نظر اور اصاغر پر مشفق و مہربان بھی… مختصراً یہ کہ وہ اپنے آپ میں انجمن در وحدت کا مکمل مصداق تھے۔

            جی ہاں!میں اپنے کانپتے ہاتھوں سے ان ہی فلاحی صاحب کے سفر کی داستان ؛صفحہٴ ُقرطاس کررہا ہوں، جو اکثر و بیشتر جامعہ کی ہر صدا پر لبیک کہتے ہوئے شب و روز کی کسی بھی گھڑی میں پابہ رکاب ہو کر اپنے رفقاکے ساتھ بلا تعب و تھکن رختِ سفر باندھ لیا کرتے تھے۔ لیکن اسفار کثیرہ کا یہ عظیم شہسوار اپنے ہر سفر سے تازہ دم لوٹ کر ہمیں کام یاب روداد سفر سے رو شناس کرانے والا یکا یک مادر علمی گلشن جامعہ اور اپنے متعلقین و محبین کو ترستاو تشنہ چھوڑ ایسے دائمی سفر پر جا چکا ہے کہ جہاں سے ہمارے طویل انتظار اور کبھی نہ ختم ہونے والی ٹکٹکی کے باوجود اب کبھی واپس آنے والا نہیں ہے۔

 خدا ان کی تربت پہ رحمتوں کی بارش کرے

آسماں ان کی لحد پہ شبنم آفشانی کرے