بہ قلم: مولانا افتخار احمد صاحب قاسمی بستویؔ
اللہ نے اپنے بندوں کی ہدایت ورہ نمائی کے لیے پیغمبروں اوررسولوں کا ایک سلسلہ شروع فرمایا تھا، جو حضرت آدم علیہ السلام سے چـلتا ہوا نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر جاکر ختم ہوگیا ۔ آپ کے بعد اب کوئی دوسرا نبی یا رسول آنے والا نہیں ہے ۔ آپ کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار نبیوں اور تین سو پندرہ رسولوں کے سردار ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت خورشید عالم تاب ہے اور دوسرے نبیوں کی نبوت خورشید جہاں تاب کی کرنیں ہیں ۔ آفتاب طلوع ہے تو آفتاب کی کرنیں ضیا پاشی کرنے میں آزاد ہیں اور اگر آفتاب طلوع نہیں ہے تو کرنوں کا وجود نہیں ۔ اسی لیے آپ سید الانس والجن کے ساتھ سید الانبیا والرسل بھی ہیں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت تمام نبیوں پر بالکل اسی طرح ہے ،جس طرح آفتاب کو اپنی تمام کرنوں پر فضیلت حاصل ہے ۔ اللہ نے اپنے نبیوں کو منصبِ نبوت ورسالت کی دلیل کے طور پر مختلف معجزات عطا فرمائے جو اُن کے دعویٔ نبوت کی دلیل وبرہان ہوتے تھے ۔کیوں کہ جب کوئی نبی اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ وہ نبی ہے تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ وہ خدا وندِ قدوس کا فرستادہ اوراس کا پیغام رساں ہے ۔اس لیے اس کی نبوت و رسالت کی تائید و توثیق کے لیے ایسے امور کا ظہور اس کے ہاتھ پرہونا لا بدی ہے ،جو غیبی طورپر اس کی نبوت کی دلیل وتائید ہو۔ اور اس کا مثل لانے سے خدا کی دیگر مخلوق عاجز و نامراد ہو ، اس کرشمۂ یزدانی اورتائیدِ ربانی کو نبی کے دستِ حق پرست پر ظاہر ہوتا ہوا دیکھ کر نبی کی نبوت اوررسول کی رسالت پر لوگوں کو پختہ یقین ہوجائے کہ واقعی یہ شخص اللہ کا فرستادہ اوربندوں اور خدا کے درمیان مخلص سفیر ہے ۔ اسے دیکھ کر یقین آجائے کہ یہ کرشمہ ربانی رب ذوالجلال کا فعل ہے کسی بندے کی تدبیر صناعی اور جعلی کرشمہ سازی کا اس میں کوئی دخل نہیں ، یہ رسول کا فعل و ارادہ نہیں ہوتا ، یہ تو قدرت ِخداوندی کی جلوہ نمائی کا نمونہ ہوتا ہے کہ دیکھ لو خدا کتنا مخفی ہے اورکتنا ظاہر ہے ۔ مخفی اتنا کہ ؎
در سخن مخفی منم چوں بوئے گل در برگِ گل
ہر کہ دیدن میل دارد در سخن بیند مرا
اور ظاہر اتنا کہ ہر آن ہر لمحے اسی کا چرچا
؎ ترا آئینہ عالمِ رنگ و بو ہے
جدھر دیکھتا ہوں اُدھر تو ہی تو ہے
ہزاروں حجاب اور اس پر یہ عالم
کہ چرچا ترا جا بہ جا کو بہ کو ہے
جس بندے کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ اپنے خرق عادت فعل کا اظہار فرماتے ہیں اگر وہ نبی ہے تو اس فعل وکرشمہ سازی کو معجزہ کہتے ہیں اور اگر وہ بندہ نبی کے بجائے ولی ہے تو اس کو ’’ کرامت ‘‘ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔
کسی معجزہ یا کرامت کو دیکھ کر یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ بندہ موفق من اللہ اورمؤید من اللہ ہے ۔اس کے اتباع سے بندہ لا محالہ خدا تک رسائی حاصل کرسکتا ہے ۔ دنیا و آخرت کی ہر خرد و کلاں کامرانی کا راز اسی کی اتباع میںمضمر ہے ۔ اس کے دامنِ حق پرست سے وابستگی کامیابیوں کے دفتر کھول دے گی ، راحتوں کی بارش کا برسنا اسی کی کا مل پیروی اور قدم بوسی پر منحصر ہے ۔ منزلِ جاناں تک رسائی اسی کے نقشِ قدم پر چلنے سے ملے گی اور یہ حوصلہ بھی کہ نقشِ قدم پر چلے جاؤ، بڑھے جاؤ، جستجو میں لگے رہو ، کامیابی یقینی ہے ، جستجو ہی کو منزل سمجھو ، کسی اور جستجو میں اتنا مزہ نہیںجتنا معجزاتی کرشمہ سازی کی حامل اس شخصیت کے پہلو وؤںمیں ہے ؎
نشانِ منزل جاناں ہے ، ملے نہ ملے
مزے کی چیز ہے یہ ذوقِ جستجو مرا
ہاں ! یہ شرط بھی یاد رہے کہ دل میلا نہ ہو۔حسد و کینہ ایسی ذات ستودہ صفات سے نہ رکھاجائے تب اس کی پیروی آسان ہوگی ۔ خلافِ پیغمبر چلنے کی ہمت نہ ہوگی ، منزل تک پہنچنا تقریباً یقینی ہوگا ؎
خلافِ پیمبر کسے رہ گزید
کہ ہر گز بہ منزل نخواہد رسید
جب نبوت مآب شخصیت سے کوئی معجزہ ظاہرہوتاہے ،تونبی کی صداقت وسچائی کابے اختیارانسان کویقین آجاتاہے ۔انسانی قلوب اُس کی تائیدوتصدیق میں سراپااطاعت بن جاتے ہیں۔اندرونی طورپرنہ ماننے اورانکار کرجانے کی مجال نہیںرہ جاتی؛چوںکہ نبوت ورسالت کادعویٰ کرناایک بہت بڑی بات ہے۔ لہٰذاعقلی طورپربھی عظیم الشان امراوربھاری بات کوثابت کرنے کے لیے حجت ودلیل بھی عظیم الشان اوربھاری بھرکم ہونی چاہیے ۔
اِسی لیے وہ معجزہ جودرحقیقت خداوندِ ذوالجلال کے جلال وجبروت اورقدرت وجباریت کامشاہداتی نمونہ ہوتاہے ۔ جب سماج کے لوگوںکے سامنے اِس کاظہورہوتاہے ،تواِسی معجزے ہی کاغلبہ قائم ہوجاتاہے ۔اوراسی کارعب ودبدبہ اورپُرشکوہ پوزیشن حاصل کرلیتاہے ،جس کے سامنے کسی کاٹھہرنا،کسی کے پاؤں جمنااورکسی کے پرمارنے کی گنجائش رہناحدودِ امکان سے باہرہوجاتاہے ۔
اس کے برعکس سماج میں اگرکوئی دانش ورعقلی دلائل کے ذخیرے کے ذخیرے بکھیرکررکھ دے اورسماجی ذہن اُس کوقبول کرنے کی پوزیشن میں بھی ہو،تب بھی مخالف کے لیے نزاعی اقدام اورمباحثے وجدال کی صورتِ حال قطعی طورپرختم نہیں ہوتی ،لیکن معجزات کی تاثیرکامعاملہ ایسانہیںہے ،اُس کے دیکھ لینے کے بعد ع
دامنِ دل می کشدکہ جاایں جااست
دل پوری طرح مسحورومفتون ہوجاتاہے اگرازلی عناداورمقدرکی بدنصیبی آڑے نہ آئے تواُسے قبول ہی کرناہے ۔
حضرت محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم چوںکہ خاتم الانبیاہیں،اس لیے آپ کے معجزات کی بھی یہی شان ہونی چاہیے ۔اِسی لیے آپ کی شکل و صورت مستقل معجزہ تھی ،آپ کی سیرت ،آپ کی رفتاروگفتار،آپ کاکردار،آپ کا خطاب،آپ کی نصیحت وتفہیم ۔آپ کی ہرچیزآپ کامعجزہ اورصداقت کی نشانی تھی ۔لوگ دیکھتے ہی بول پڑتے کہ یہ غلط بیان شخص کامکھڑاہونہیںسکتا ؎
مردِ حقانی کی پیشانی کا نور
کب چھپا رہتا ہے پیشِ ذی شعور
امام ابو حامد غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے احیاء العلوم میں صراحت فرمائی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ، آپ کا کردار ، آپ کی صورت اوررفتار وگفتار ، آپ کی صداقت کے لیے بالکل کافی اور مکمل تھے ،جنہیں ظاہری نظروں سے دیکھ کر آپ کی نبوت ورسالت کی سچائی پر کامل یقین کرنا بالکل سہل تھا ۔ لیکن اللہ رب العزت نے آپ کو بے شمار باطنی معجزات سے بھی بہرہ ور فرمایا تھا ۔ امام غزالی ؒ فرماتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی عام فہم شخص بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی سچائی میں ادنیٰ سے ادنیٰ شک و شبہے کی گنجائش نہ نکال سکے ، چناں چہ امام بیہقیؒ نے ذکر کیا ہے کہ ہمارے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کی تعداد ایک ہزار تک پہنچتی ہے ۔
یحیٰ بن شرف نووی شافعی علیہ الرحمہ کا کہنا ہے ایک ہزار دوسو کی تعداد ہے ۔ اسی طرح دیگر علمائے امت فرماتے ہیں کہ آپ کے معجزات تین ہزار کی مقدار تک پہنچتے ہیں ۔ علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے’’ خصائصِ کبریٰ ‘‘ کے نام سے معجزات کے عنوان پر ایک مستقل تصنیف چھوڑی ہے ،جس میں حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کی تعداد ایک ہزار بتلائی ہے ۔
حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ سیرت مصطفی جلد سوم ص ۴۲۷؍پررقم طراز ہیں کہ ’’حق یہ ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات شمار سے متجاوز ہیں۔ اس لیے کہ آپ کا ہر قول و فعل اور ہرحال عجیب و غریب مصالح اور اسرار و حکم پر مشتمل ہونے کی وجہ سے خارق العادۃ اور معجزہ ہے ۔ علمائے نصاریٰ نے عہدِ قدیم کے معجزات کی تعداد ۶۷؍ لکھی ہے اور حضرت مسیح کے معجزات حمل کے وقت سے لے کر آسمان پر اٹھائے جانے تک ۲۷؍ گنائے ہیں اور پھرآپ کے حواریین کے ۲۰؍ معجزات شمار کرائے ہیں ۔
لیکن اِن واقعات کے لکھنے والوں کے پاس اُن معجزات کا نہ کوئی سلسلۂ سند موجود ہے ،نہ ان کے راویوں کے حالات، نہ ناقلوں کی عدالت اورثقاہت کی کوئی دلیل موجود ہے۔ بخلاف معجزاتِ محمدیہ علی صاحبہا الف الف صلاۃ والف الف تحیۃ کے ، وہ ہزاروں کی تعدادمیں متصل اسانید کے ساتھ مروی ہیں ۔اورصدہا ان میں سے متواتر اور مشہور ہیں اور جلالتِ شان ، غرابت اور ندرت میں تمام ابنیائے کرام کے معجزات سے بڑھ کر ہیں ‘‘ ۔
(سیرت مصطفی سوم ص۴۲۷)
اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کوجملہ اقسامِ عالم سے معجزات ونشانات عطا فرمائے۔جس میں حکمت ومصلحت یہ ہے کہ چوںکہ معجزات نبوت کی دلیل ہوتے ہیں،توجملہ اقسام عالم آپ کی نبوت کی دلیل بن جائے ،جس سے ظاہری وعقلی طورپربھی آپ کی نبوت ورسالت کی فضیلت تمام انبیاورسل کی نبوت ورسالت پرنمایاں ہوجائے ۔
خداوندِ قدوس نے آپ کوجتنے معجزات عطافرمائے ہیںوہ تنہاتمام انبیائے کرام کے تمام معجزات کی تعدادسے زیادہ ہیں،جن کوعلمائے امت نے دوصنفوںمیں بانٹاہے ۔(۱)معجزاتِ عقلیہ(۲) معجزاتِ حسیہ۔
معجزاتِ عقلیہ: ایسے معجزات کہلاتے ہیںجن کوسمجھنے کی خاطرعقل وخردکی ضرورت پڑتی ہے اور انہیں وہی حضرات سمجھ سکتے ہیں،جوصاحبِ عقل وخردہوںاوراپنی دانش وبینش سے کام بھی لیتے ہوں۔
معجزاتِ حسیہ: وہ معجزات کہلاتے ہیںجن کاسمجھ لینااورادراک کرلیناعقل سے کافی نہیں ہوتا۔اس میں حسِ انسانی مددگارہوتی ہے ،تب جاکے کہیں وہ معجزاتِ حسیہ اُن کے حق میں مؤثرثابت ہوتے ہیں۔
معجزاتِ عقلیہ میں ایک عقلی معجزہ تویہی ہے کہ آپ اخلاقِ فاضلہ،خصالِ حمیدہ،افعالِ حسنہ اورکمالاتِ علمیہ وعملیہ کے بلندترین مقام پرفائزہیں۔جوبھی آپ کے اخلاقِ کریمانہ،سیرتِ منصفانہ،عاداتِ عادلانہ اورصورتِ عارفانہ کامشاہدہ کرتاوہ فوراً ہی آپ کاگرویدہ ہوجاتاکہ جس ذات میں ایسے اخلاق وکرداراورایسے ایسے علمی وعملی کمالات موجودہوں،جوابھی تک نہ کسی نے سنا،نہ دیکھا،نہ کسی کاایسے کمالات کے ساتھ اِس سے قبل سابقہ پڑاوہ واقعی چیدہ وچنیدہ شخصیت ہے کہ ہے تویتیم لیکن ؎
یتیمے کہ ناکردہ قرآں درست
کتب خانۂ چندملت بشست
عقل کہتی ہے کہ ایسی سیرت،ایسے کردار،ایسے اخلاق،ایسی علمی وعملی زندگی اورایسی سیرت وصورت کامجموعہ واقعی خدائے ذوالجلال کاعطیہ ہے ۔اورآپ سچے پکے نبی خاتم النبیین اورسیدالمرسلین ہیں۔
عقل یہ بھی کہتی ہے کہ جس قوم کازبان وبیان کی وادی میں فصاحت وبلاغت کے میدان میںکوئی ثانی نہ ہو،اُس کو
ع’’لقب امی ہے لیکن علم کادریابہاتے ہیں‘‘
ایک امی لقب ،جس کاکوئی نہیں۔نہ باپ،نہ ماں،نہ دادا،نہ دادی۔تنہاعرب کے سماج میں بڑے بڑے سورماؤںکے سامنے فصاحت وبلاغت سے مملوزبان والی ایک ایسی کتاب پیش کرتاہے ،جواعلان کرتی ہے کہ اگرتم اِس کتابِ ہدایت کوآسمانی کتاب نہیںسمجھتے ہوتواِس جیسی ایک سورت نہیں،ایک آیت ہی بناکرلے آؤاور ایک دوسرے کواپنامددگاربھی بنالو۔اعلان اورچیلنج کے بعدیہ بھی اعلان کرتی ہے کہ اگرتم نہیں بناسکے اوربنابھی نہیںسکتے ؛ تواب تودوزخ کی آتشِ سوزاںسے بچنے کاسامان موت سے پیشترہی کرلو۔
اتنابڑاچیلنج اوراُن نابغہ روزگارفصحائے عرب کے سامنے ،جوبازارعکاظ،بازارذوالجنۃ اوربازارذوالمجاز میں اپنے کلام کوسامعینِ فصحائے عرب کے سامنے پیش کرتے توآفریںآفریں کاسماں بندھ جاتا۔لیکن امی لقب آمنہ کے لال ،نبی عربی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اُن کی بولتی بنداورزبان گنگ ہوگئی۔زبان کے جادوکاسارانشہ فروہوگیااور کوئی ایک فردِ بشربھی قرآن کے ٹکرکی زبان میں کوئی بھی دل لگتامعنی خیزکلام منثوریامنظوم پیش نہ کرسکا۔یہ عقلی معجزہ ہی توہے ،جس نے سارے عرب کوعجم اورگنگ زبان بنادیا۔
یہ الگ بات ہے کہ ؎
حشراک گذراہے ویرانے پہ گھرہونے تک
جانے کیابیتی ہے دانے پہ شجرہونے تک
عقلی معجزات سے ہوش کے ناخن لینے والے عرب کے باشندوںمیں جن کے اندرعناداورازلی دشمنی نہیں تھی،وہ راہِ راست پرآکرچمکے اورگلشنِ اسلام کوچہاردانگ عالم میں چمکااورمہکاکرگئے اورساتھ ہی یہ بھی کہہ گئے کہ ؎
تم بھی گلشن میں بہاروںکی حفاظت کرنا
ہم نے سینچاہے ہراک گل کوثمرہونے تک
عقلی معجزات میں ایک عقلی معجزہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ناگفتہ بہ حالات ہیں۔پیدا ہوئے تو آپ یتیمی کاغم لیے ہوئے ، نہ آپ کے پاس کوئی ظاہری قوت تھی ، نہ ظاہری جاہ و جلال ، نہ مال ودولت کی چمک دمک تھی۔نہ اقتدارکی کشش،کہ ظاہری قوت کادباؤ،جاہ وجلال کاغلبہ،مال ودولت کی خیرہ کن روشنی اور اقتداروسلطنت کی طمع دے کرلوگوںکواپنے گردجمع کرلیتے ۔یہ سب کچھ نہیںتھا،اپنے بھی دشمن تھے اوربیگانے بھی دشمن۔انِ جاںگسل حالات کی ستم ظریفی میں آپ نے توحیدکانغمۂ جاںفزا،جب معاشرے میں گایاتوتمام جزیرۃ العرب جس کی گھٹی میں شرک،بت پرستی،غارت گری،زناکاری،مردارخوری اورشراب نوشی پڑی ہوئی تھی ،دعوتِ اسلام کی نغمہ سنجی سے یک لخت اُن کی حالت ہی بدل گئی ۔ساری قوم یک دل،یک زبان اوریک جان ہوکرمحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دینِ حق پرمتفق ہوگئی۔اُن کاجوروگ حرص وآز،شہوت رانی،لالچ وعناداور شراب نوشی وحرام خوری کی شکل میں تھاوہ یکسرمہکتے ہوئے پھولوں اورچٹکتی ہوئی کلیوںمیںبدل کرپورے معاشرے کوعطربیزکرگیا۔
درفشانی نے تری قطروں کو دریا کردیا
دل کو روشن کردیا آنکھوں کو بینا کردیا
خودنہ تھے جوراہ پر اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا
اگرچاہوں تونقشہ کھینچ کرالفاظ میںرکھ دوں
مگر تیرے تخیل سے فزوں ترہے وہ نظارہ
غرض میںکیاکہوں تجھ سے کہ وہ صحرانشیںکیاتھے
جہاں گیرو جہاں دارو جہاں بان وجہاں آرا
گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے
کہ منعم کو گدا کے ڈرسے بخشش کانہ تھایارا
آخریہ کتنازبردست عقلی معجزہ ہے ،کہ جوایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے ،یک لخت اپنی جان دینے کوگواراکرلیتے ہیں۔لیکن اپنے بھائی سے پہلے پانی پیناگوارانہیںکرتے ۔
اوربھی عقلی معجزاتِ نبوی بیان کیے گئے ہیں ،لیکن ہم یہاں کچھ حسی معجزاتِ نبوی بھی ذکرکرناچاہتے ہیں۔ اِ س لیے اختصارکے پیشِ نظرعرض ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی سے بے شمارحسی معجزات بھی ظہورپذیر ہوئے ،چندحسبِ ذیل ہیں:
(۱)بخاری شریف میں ہے کہ ایک بارآپ کی خدمت میں دودھ کاایک پیالہ لایاگیا،آپ نے حضرت ابوہریرہؓ سے فرمایاکہ سب اصحابِ صفہ کوبلالاؤ۔اس وقت ۷۰؍یا۸۰؍آدمیوںکے قریب تھے،سب نے دودھ شکم سیرہوکرنوش کیااورپیالے کادودھ اُسی طرح باقی رہا۔
(۲)بیہقی کی ’’دلائل النبوۃ‘‘میں مذکورہے کہ ایک بار ساڑھے تین سیرجواورایک بکری کے بچے کے گوشت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۸۰؍ افرادکوشکم سیرفرمادیا۔
(۳) حضرت معاذرضی اللہ عنہ سے مسلم شریف میںمروی ہے کہ تبوک کے چشمہ میں پانی خشک ہوچکاتھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے وضوکاپانی کنویںمیںڈال دیا،ڈالتے ہی چشمے کاپانی اتنااوپرآگیاکہ ہزاروںکی تعدادمیں لشکر والوںنے پانی پی کرسیرابی حاصل کی۔
(۴)حضرت انسؓ بہت تنگ دست اورمفلس تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاکی برکت سے بڑے مال دارہوگئے۔
(۵)اپنے چچازادبھائی حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے لیے آپ نے بچپن ہی میں علم وحکمت کی دعادی تھی ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کادعائیہ معجزہ یہ ظاہرہواکہ ابن عباسؓ کی زبان حق ترجمان پرحکمت ودانش کے چشمے جاری ہوگئے ۔
(۶)بخاری شریف میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوہریرہؓ کی والدہ کی ہدایت کے لیے دعافرمائی توگھرپہنچتے پہنچتے وہ ایمان لے آئیں۔
(۷)بخاری شریف میں ہے کہ جب عبداللہ بن عتیکؓ ابورافع کوقتل کرکے واپس آرہے تھے،توزینے سے اترتے ہوئے پاؤں پھسل پڑا،گرپڑے اورٹانگ ٹوٹ گئی،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دستِ مبارک پھیردیاتوٹانگ فوراًاچھی ہوگئی۔
(۸) طبرانی ، بیہقی اور مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے کہ حبیب بن ابی فدیک کے باپ کی آنکھوں میں پھُلِّی پڑگئی تھی ، جس کی وجہ سے آنکھوں کی بینائی جاتی رہی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں پر پڑھ کر دم کردیا اسی وقت آنکھوں کی بینائی لوٹ آئی ۔
(۹) ابو داؤد طیالسیؒ ، امام احمد بن حنبلؒ اور امام بخاریؒ نے اپنی تاریخ میں ذکر کیا ہے کہ ایک صحابی تھے جن کا نام تھا محمد بن حاطب ، بچپن میں اپنی ماں کی گود سے آگ میں گر پڑے اور کچھ جل گئے تھے ، آپ کو اطلاع ملی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لعابِ دہن لگایا، اسی وقت شفا یاب ہوگئے ۔
(۱۰) زرقانی جلد پنجم ص ۱۸۳؍ کے حوالے سے سیرت مصطفی جلد سوم ص ۵۶۹؍ پر مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلوی ؒ نے تحریر فرمایا ہے کہ ’’ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع میں مقام حجون پراترے اور ایک روز میرے پاس رنجیدہ اور غم گین اور روتے ہوئے باہر گئے ، پھر جب واپس آئے تو مسرور تھے اور مسکرا رہے تھے ، میں نے اس کا سبب دریافت کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
میں نے حق تعالیٰ سے درخواست کی کہ میرے والدین کو زندہ کردے ، اللہ تعالیٰ نے میرے والدین کو زندہ کردیا اور مجھ پرایمان لائے پھر وفات پاگئے۔
اس روایت کو سہیلی نے ’’ روض الانف‘‘ میں ذکر کیا اور یہ کہاکہ اس روایت کی سند کے راوی مجہول ہیں اور حافظ ابن کثیر ؒ یہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اگر چہ بہت ضعیف ہے مگر موضوع نہیں اور فضائل ومناقب میں ضعیف حدیث کی روایت جائز ہے ۔
(سیر ت مصطفی : ۳/۵۷۰)
اسی طرح مولانا ادریس صاحب کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ نے سیرتِ مصطفی ج۳ص۵۶۸ ؍ میں نقل فرمایا ہے کہ ’’ حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ ایک اندھی بڑھیا کا ایک جوان بیٹا مرگیا ، سب نے اس پر ایک کپڑا ڈال دیا اور اس کو ڈھانک دیا ، بوڑھی ماں کو بے حد صدمہ ہوا ، اور چلانے لگی اوریہ کہا کہ اے پرور دگار ! تجھے خوب خوب معلوم ہے کہ میں خالص تیرے لیے اسلام لائی ہوں اوربتوں کو چھوڑا اور بصد شوق ورغبت تیرے رسول کی طرف ہجرت کی ، اے اللہ ! مجھ پر بت پرستوں کو شماتت کا موقع نہ دے اور مجھ پر یہ ناقابلِ برداشت بوجھ نہ ڈال ، حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ہم اصحابِ صفہ اس وقت وہاں موجود تھے ، خدا کی قسم ! ہم ابھی وہیں موجود تھے کہ یکایک وہ نوجوان زندہ ہوگیا اوراپنے منہ سے اپنی چادر اتاری اور ہمارے ساتھ کھانا کھایا اور وہ نو جوان آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد تک زندہ رہا اوراس کی بڑھیا ماں اس نوجوان کی زندگی میں وفات پاگئی ۔ رواہ ابن عدی وابن ابی الدنیا والبیہقی وابو نعیم ، تفصیل کے لیے دیکھیے زرقانی : ۵/۱۸۳۔
انبیائے کرام در حقیقت روحانی طبیب ہوتے ہیں ، روح کی بیماریوں کے علاج کے لیے ہی دنیا میں تشریف لاتے ہیں ، کبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے ان مخصوص بندوں کے ہاتھو ںپر ایسے معجزات بھی ظاہر فرمادیتے ہیں کہ مردوں کو زندگی مل گئی ، اسی طرح کے معجزات زیادہ تر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مرحمت ہوئے ، لیکن حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے پوری دنیا میں سارے عالم کا نبی بنا کر بھیجا تھا اس لیے آپ کو گونا گوں اور قسم قسم کے معجزات دیے گئے تاکہ سارے عالم کی طرح طرح کی اشیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ورسالت کی گواہی دیں۔ مردوں کو زندہ کرنے کا معجزہ بھی آپ کو عطا ہوا ، جس کی ایک دو مثال اوپر کی سطروں میں ملاحظہ کی گئی ۔زرقانی جلد اول ص ۱۷۰؍ پرتویہ بھی ہے کہ مردوں کی پوری پوری ایک جماعت آپ کے ہاتھ پرزندہ ہوئی ۔
سچ یہ ہے کہ ؎
حسنِ یوسف، دم عیسیٰ، ید بیضاداری
آں چہ خوباں ہمہ دارند ، تو تنہا داری
اللہ تعالیٰ آپ کو مقامِ وسیلہ سے سرفراز فرمائے اور ہمیں بھی آپ کاسچا پیرو کار بنائے ۔ آمین !
وصلی اللہ علی النبیِ الکریم ۲۴؍ صفر ۱۴۳۹ھ بروز منگل