آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت سے محبت اور امت پر اس کا تقاضہ

مرشد احمد قاسمی(استاذ جامعہ اکل کوا)

            عَن اَبِی موسیٰ رَضِیَ اللہُ تَعالٰی عَنہ عَنِ النَبیِ صَلی اللہُ عَلَیہِ وَسَلم قَال: اِنمَا مِثلی وَمَثلُ مَابَعثنِی اللہُ بِہ کَمَثَلِ رَجُلٍ اَتیَ قوماًفَقالَ:یا قَوم! اِنِی رَایتُ الجَیشَ بِعَینَیی وَاِنی اَنا النَذیرالعریانُ،فالنجاء النجاء !فاطاعہ طائفة من قومہ فادلجوا،فانطلقوا علی مھلھم،فنجوا وکذبت طائفة منھم فاصبحوا مکانھم، فصبحھم الجیش فاھلکھم واجتاحھم فذالک مثل من اطاعنی،فاتبع ماجئتُ بہ ومثلُ مَن عصانی وکذب بماجئتُ بہ من الحق۔

            ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیٴ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا کہ: میری مثال او ر اس)شریعت (کی مثال جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث فرمایا ہے، اس شخص کی طرح ہے جو اپنی قوم کے پاس آکر کہے کہ اے میری قوم ! یقین جانو میں نے اپنی آنکھوں سے لشکر آتے ہوئے دیکھا ہے اور میں کھلم کھلا ڈرانے والا ہوں؛لہذا تم بچنے کا راستہ تلاش کر لو۔

            پس اس کی قوم کے کچھ افراد نے اس کی اطاعت کی،اور راتوں رات کہیں نکل گئے،اور نجات حاصل کرلی، اور قوم کے کچھ افراد نے اس کی تکذیب کی اور اپنے گھروں میں ہی رہے ،صبح کے وقت لشکر نے ان کو پالیا اور ان کو تباہ وبرباد کردیا اور ان کو زخمی کیا،پس بعینہ یہی مثال ہے اس شخص کی جس نے میری شریعت کا اتباع کیا اور اس شخص کی مثال ہے، جس نے میری نافرمانی کی اور میرے لائے ہوئے دین کو جھٹلایا۔

تشریح:

            عرب میں دستور تھا کہ جب کوئی لشکر کسی قوم پر حملہ کرنے کی نیت سے پیش قدمی کرتا اور اس قوم کو اپنی طرف آتاہوا دیکھ لیتا تو اپنی قوم کو لشکر کے برے عزائم سے خبر دار کرنے کے لیے اپنے جسم سے کپڑے ،قمیص وغیرہ اتار لیتا اور ننگا ہوکر اپنی قوم کی طرف دوڑتا ہوا آتا۔ قوم کے دانا بینا لوگ جو اس فرد کی ایسی حالت کو سچا سمجھتے،کہ ضرورکوئی لشکر جرار اس قوم کی تباہی کا پیغام بن کر آرہا ہے،چناں چہ وہ اپنی حفاظت کی خاطر راتوں رات راہ ِفرار اختیار کرلیتے ۔ یو ں اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو ایک ناگہانی آفت اور تباہی سے بچالیتے ۔اور قوم کے جو لوگ اس شخص کو جھوٹا خیال کرکے،اس کی تنبیہ کو خاطر میں نہ لاتے،اور وہیں اپنے گھرو میں ہی رات بسر کرتے،تو صبح ہوتے ہی لشکر جرار ان کو پالیتا اور قتل وغارت گری کا بازار گرم کرتا۔

            ہمارے آقا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قوم کو ڈرانے والے شخص سے اپنے آپ کو تشبیہ دے کراپنی امت کو جہنم کی آفتوں اور مصیبتوں کے بارے میں متنبہ فرمادیا۔اب جس شخص نے جناب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی، ایمان کے نور سے اپنے قلب کو منور کیا اوراعمال سے خود کو آراستہ کیا،وہ جہنم کی ہولناک تباہیوں سے بچ کر فضلِ الٰہی کا مورد بن گیا،اور ابد الآباد کی راحت اور سکون (جنت) کا مستحق بن گیا۔

            مگر افسوس صد افسوس!ان لوگوں کی حالت پر جنہوں نے حضور ِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق نہ کی، آپ پر ایمان نہ لائے،اور دنیا کی تاریک رات شہوات میں منہمک ہو کر گزاری اور قیامت کی صبح ہو گئی،پھر ہمیشہ ہمیشہ کی آفتوں نے ان کو پکڑ لیا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا امت کو جہنم میں گرنے سے بچانا:

            حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

            میری مثال اس شخص کی مانند ہے،جس نے آگ روشن کی، چناں چہ جب آگ نے چاروں طرف روشنی پھیلا دی،تو پروانے اور دوسرے وہ جانور جوآگ میں گرتے ہیں آگ میں گرنے لگے۔آگ روشن کر نے والے شخص نے ان کو روکنا شروع کیا،لیکن وہ نہیں رکتے ؛بلکہ اس کی کوششوں پر غالب رہتے ہیں اورآگ میں گرپڑتے ہیں؛اسی طرح میں تمہاری کمر پکڑ کر تمہیں آگ میں گرنے سے روکتا ہوں،اور تم آگ میں گرتے ہو۔

            یہ روایت بخاری کی ہے اور مسلم میں بھی ایسی ہی روایت ہے؛البتہ مسلم کی روایت کے آخری الفاظ یہ ہیں )آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بالکل ایسی ہی مثال میری اور تمہاری ہے،میں تمہاری کمریں پکڑیں ہوئے ہوں کہ تمہیں آگ سے بچاتا ہوں اور یہ کہتا ہوں کہ دوزخ سے بچو! میری طرف آوٴ! دوزخ سے بچو! میری طرف آوٴ ! لیکن تم غالب آتے ہو اور آگ میں گر پڑتے ہو۔

آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور ہمارا ایمان:

            عن انس رضی اللہ تعالی عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا یوٴمن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین۔

            حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا، جب تک میری محبت اس کے دل میں اس کے والد اور اس کے بیٹوں اور تمام لوگوں سے زیادہ نہ ہو۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کمال ِایمانی کی علامت:

            حضرت زہرہ بن معید کہتے ہیں کہ میں نے اپنے دادا حضرت عبداللہ بن ہشام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ ارشاد فرما تے ہوئے سنا،کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مبارکہ میں حاضر تھے۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ: اے اللہ کے رسول! بلا شبہ آپ کی محبت اپنے دل میں سوائے اپنی جان کے ہر چیز سے زیادہ محسوس کرتا ہوں!آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرما یاکہ: اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم اس وقت تک (کامل) مومن نہیں ہوسکتے جب تک کے میں تمہارے نزدیک تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاوٴں!حضرت عمر نے عرض کیا:بے شک!اب تو آپ میری جان سے زیادہ محبوب ہیں۔ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے عمر !ہاں (اب تم کامل مومن ہو۔)

محبت سے کونسی محبت مراد ہے؟:

            حضرات ِعلماء کرام نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس محبت سے مراد عقلی محبت ہے،طبعی اور اضطراری محبت مراد نہیں ہے؛ جو کہ غیر اختیار ی ہے۔

             اور عقلی محبت کی علامت اور نشانی یہ ہے کہ اس کے نزدیک آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم اور آپ کی مبارک سنت ساری مخلوق سے راجح ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے سامنے اگرجان، مال،اولاد، خواہشات، بل کہ تمام لوگوں کو قربان کرنا پڑے تب بھی دریغ نہ کرے،ایسا نہ ہو کہ والدین ،اعزہ واحباب، بیوی، بچوں اور دوسرے لوگوں کی خاطر یا اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے آپ کی تعلیمات کو پس ِپشت ڈال دے۔

اللہ تعالی جل شانہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ :

            قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی، یحببکم اللہ ویغفر لکم ذنوبکم واللہ غفور رحیم (اٰلِ عمران)

            آپ (صلی اللہ علیہ اسلم)ان لوگوں سے کہہ دیجیے!کہ اگر تم خدا تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو،تو میری اتباع کرو،خدا تعالیٰ تم سے محبت کریں گے،اور تمہارے گناہوں کو معاف کردیں ، اللہ تعالیٰ بڑے معاف کرنے والے ،بڑے رحم کرنے والے ہیں۔

آں حضرت صلی اللہ علیہ کی محبت ،پروانہٴ نجات:

            حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

            پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک دیہاتی حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! قیامت کب آئیگی؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو نے اس کے لئے کیا سامان تیار کر رکھا ہے؟(جو اس کے آنے کا شوق ہے)اس نے عرض کیا کہ میں نے اس کے لیے کچھ بہت نماز،روزہ کا سامان تو نہیں کیا ،مگر اتنی بات ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہوں۔

            رسول للہ صل للہ علیہ وسلم نے اس سے فرما یا کہ (قیا مت میں )ہر شخص اسی کے ساتھ ہوگا، جس سے وہ محبت کرتا ہے (سو تجھ کو میرایعنی رسول للہ صلی اللہ وعلیہ کا ساتھ نصیب ہو گا اور جب رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوگا تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ بھی ہوگا)

            حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :کہ میں نے مسلمانوں کو اسلام لانے (کی خوشی )کے بعدکسی بات پر اتنا خوش ہوتا نہیں دیکھاجتنا اس پر خوش ہوئے۔

فائدہ:      اس حدیث میں کتنی بڑی بشارت ہے کہ اگر زیادہ عبادت کا ذخیرہ نہ بھی ہو تواللہ تعالیٰ اوررسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے اتنی بڑی دولت مل جائے گی۔

 محبت کاحقیقی حق دار کون ہے؟

            کسی بھی شخص سے محبت کئی وجوہ سے ہو سکتی ہے:

            (۱)اس کے کمالات وفضائل کی بنا پر۔

            (۲)اس کے حسن وجمال کی بنا پر۔

            (۳)اس کے احسانات وعنایات کی بنا پر۔

            (۴)اعلیٰ خاندان ہونے کی بناپر۔

            کمالات وفضائل کی طرف نظر کرتے ہیں تو رحمت ِکائنات سرکار ِدوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات برکات ہی ان کامنبع و مخزن ہے۔

لایمکن الثناء کماکان حقہ                 بعد از خدابزرگ توئی قصہ مختصر

            اور دیگر جتنے بھی اسباب ِمحبت ہیں، وہ تمام آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں بدرجہٴ اتم پائے جاتے ہیں۔

مسلمانوں !ذراسوچو تو سہی :

            ایسی ذات جو کمالات میں یکتا،حسن وجمال میں بے مثال اور احسانات میں محسن ِحقیقی،جس نے امت ِمسلمہ کے ایمان اور ان کی نجات کی خاطر نہ صرف کفار ومشرکین کی طرف سے طعنے سنے؛ بلکہ زخم کھائے، پھول سی نازک ایڑیاں خون سے رنگین ہو ئیں۔

            ہمارے محبوب سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم (فداہ ابی وامی)کی دعوت وتبلیغ کے حالات سے شاید ہی کوئی مسلمان ناواقف ہوگا۔

            بہت ہی حسرت اور افسوس کامقام ہوگا کہ اب بھی کسی مسلمان کا دل آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں نہ پسیجے اور اب بھی ہر مسلمان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے لیے کمر بستہ نہ ہو اور اب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے سامنے اپنی عقل وفہم پر کچھ اعتماد کرے!

            اے مسلمان!جب تو کسی دنیاوی اد نیٰ سے محسن کی ناسپاسی کو نہایت براخیال کر تاہے اور اپنے آپ کو اس کی چوکھٹ کاغلام سمجھتاہے تو پھر محسن ِحقیقی سرکار ِدوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات کی ناسپاسی پر کیسے جرأت کرتاہے ،اور کیوں تیرے دل کی زمین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے لیے زرخیز اور نرم ثابت نہیں ہوتی؟

محبت کاحال:

            جب محبوبِ خداسرکار ِدوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے دل زندہ ہوگاتو پھرہراس چیز سے محبت ہوگی جس کو ادنیٰ نسبت بھی حاصل ہے ۔رسول ِاکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے ساتھ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاایک ایک صحابی،آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کاسرور ہوگا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے ہر مسئلہ کے سامنے سرتسلیم خم ہوگا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نائبین حضرات، خواہ فقہاء ہوں یا علماء ،صوفیاء ہوں یامحدثین سب کی عظمت ومحبت سے دل لبریز ہو گا۔

                        دیکھئے لیلیٰ سے محبت نے مجنوں کو یہ کہنے پر مجبور کردیاہے۔

امر علی الدیاردیار لیلی

اقبل ذاالجدار وذاالجدار

وماحب الدیار شغفن قلبی

ولکن حب من سکن الدیار

            میں جب لیلیٰ کے مکانات سے گزرتاہوں تو کبھی اس دیوار کو چومتاہوں اور کبھی اس دیوار کو،اور میرایہ چومنااس وجہ سے نہیں کہ ان درو دیوار کی محبت میرے دل میں گھر کر چکی ہے۔ہاں!اس وجہ سے ضرور ہے کہ اس لیلیٰ کی محبت جو ان مکانات میں رہتی ہے دل میں گھر کرچکی ہے “۔

محبت انسان کافطری جذبہ ہے:

            یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ محبت ایک ایسا فطری جذبہ ہے، جو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان بلکہ ہرمخلوق کے دل میں ودیعت رکھاہے،اسی جذبہ کی وجہ سے دل محبوب کے لیے نرم وکشادہ ہو تاہے،اور اسی جذبہ میں ایک پرسکون لذت بھی پائی جاتی ہے، چناں چہ یہی جذبہٴ محبت انسان کو اس کے محبوب کے سامنے عجز ونیاز اور اس کے احکا م کی تابعداری کاسبب بنتاہے۔والدین کی محبت،اولاد کی محبت،اساتذہ ومشائخ کی محبت اور محسن کی محبت وغیرہ وغیرہ جائز محبت کی فرع ہیں۔

             اب اگر خدانخواستہ اس جوہر ِمحبت کااستعمال کسی حرام محل میں ہو تو اس وقت محبت کی لذت کی حالت خارش کی طرح ہو تی ہے،جس کے کھجانے میں گو وقتی لذت محسوس ہو تی ہے ،مگر کھجانے کے بعد پہلے سے زیادہ سوزش اور تکلیف اور بے سکونی کی کیفیت پیداہوجاتی ہے اور اگر کوئی خوش بخت انسان اسی جوہر ِمحبت کو ایسی جگہ استعمال کرے جو نہ صرف جائز بلکہ پسندیدہ ․․․․اور مأمور بہ ہو۔جیسے: اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول ﷺ کی محبت اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول ﷺ سے نسبت رکھنے والے ہر شخص اور ہر چیز کی محبت تو ایسی محبت میں بھی پر کیف لذت ہوتی ہے جیسے جیسے اس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے،اسکے دل میں سکون،راحت اور اطمینان بڑھتا رہتا ہے۔اسکی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کسی شدید گرم دن میں سخت پیاسے شخص کو ٹھنڈا اور شیریں پا نی مل جائے تو اس کے قلب کو ایسی فرحت حاصل ہوتی ہے کہ اسکے دل وجان کے تار تار سے الحمد للہ نکلتا ہے۔

            اس دور میں ناکار ہ نے اپنے محبوب شیخ،قطب العالم،شفیق الامت حضرت مولانا شاہ محمد فاروق صاحب قدس اللہ سرہ کو دیکھا کہ اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول کی محبت آپکے دل و جان میں اس طرح رچ بس چکی تھی کہ سوتے میں جب کبھی آواز نکلتی تو یہی نکلتی یا اللہ!”اپنی محبت نصیب فرما“ اور اپنے مواعظ و مجالس میں بارہا بڑی دل سوزی سے فرمایا کرتے تھے کہ ہماری دنیا و آخرت کے سارے مسائل کا حل اللہ تعالیٰ کی اور اسکے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی ایک پڑیا ہے۔

            قارئین سے گزارش ہے کہ اس سیاہ کار کے لئے محبت کی دعاء فرما ویں،کیا بعید کہ اللہ تعالیٰ ان دعاؤں کی برکت سے اس پر اپنا فضل فرمادیں اور اپنی محبت نصیب فرمادیں۔

حب ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم حاصل کرنے کا طریقہ:

            آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے حصول کا ذریعہ یہ ہے:

            (۱)آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات ِظاہرہ وباطنہ اور آپکے اسوہٴ حسنہ کا مطالعہ کرے۔

            (۲)آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امت پر جو بے شمار احسانات ہیں ان کو سوچا جائے۔

            (۳)آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے حصول کی نیت سے کثرت سے درود شریف پڑھا جائے۔

            (۴)اللہ تعالیٰ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے حصول کی دعاکی جائے۔

            (۵)وہ اہل اللہ کاملین جو اس دولت ِعظمیٰ سے اپنے قلب کو باغ و بہار بنا چکے ہیں ،انکی صحبت و معیت اختیار کی جائے۔

            اللہ تعالیٰ اپنے خاص فضل سے اس کمترین خلائق کے دل کو بھی اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے بھر دے ۔آمین

ٓآں حضر ت صلی اللہ علیہ و دسلم سے محبت کی علا مت:

آ ں حضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کے سا تھ محبت کی علامت کو دو سری حدیث میں یو ں بیان فر مایا گیا ہے کہ:

            تم میں سے کو ئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا!

            جب تک اس کی تما م خواہشات اس د ین کے تا بع نہ ہو جا ئیں جس کو میں لیکر آیا ہوں۔(مسنداحمد)

            حا فظ ابن حجر ر حمتہ اللہ علیہ نے ”منبّہات “ میں ایک حد یث نقل کی ہے کہ:

            محبت میں سچا ہو نے کی تین علا متیں ہیں۔

            (۱)محبو ب کے کلام کو دو سروں کے کلام پر تر جیح دینا۔

            (۲) محبو ب کی مجا لست کو دوسرے لو گو ں کی مجا لست پر تر جیح دینا۔

            (۳)محبو ب کی رضا اور خو شنودی کو،دوسرے لوگوں کی رضا و خوشنودی کے مقابلے میں تر جیح دینا۔

(منبّھات لابن حجر)