2/ نومبر2024 زیر اہتمام مسلم تعلیمی سوسائٹی اٹاوہ یوپی میںآ ل یوپی مسابقہ حفظ قرآن کریم کا آف لائن انعقاد ہوا، جس کی سرپرستی حضرت مولانا مفتی مجد القدوس خبیب رومی صاحب دامت برکاتہم نےفرمائی،یہ مسابقہ ناظم جامعہ مولانا حذیفہ وستانوی صاحب حفظہ اللہ کے زیر نگرانی منعقد کیاگیا تھا،الحمدللہ کافی تعداد میں طلبہ نے شرکت کی اور نہایت مفید نتائج برآمد ہوئے،اسی طرح اس عظمتِ قرآن کانفرنس میں ناظم جامعہ نے بطور مہمان خصوصی نہایت اہم پیغام قوم وملت کے نام کیا ،جس کے اقتباسات پیش خدمت ہیں:
ایمان ایک روحانی اور معنوی نعمت:
بیان میں اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتِ ایمان اور اسلام کو سنبھالنے کی اہمیت پر زور دیا گیا۔ بیان کے مطابق، آج کے دور میں ایمان اور اسلام کی حفاظت کرنا سب سے بڑا چیلنج ہے، کیونکہ فتنوں کا سامنا ہے۔ ایمان ایک روحانی اور معنوی نعمت ہے جسے قائم رکھنے کے لیے سخت محنت درکار ہے۔ کچھ واقعات کا ذکر کیا گیا کہ کئی لوگوں نے اپنی زندگی ایمان پر گزاری، لیکن آخر عمر میں ایمان سے محروم ہو گئے۔ اس کی وجہ ایمان کی اصل حقیقت اور اس کی اہمیت کو نہ سمجھنا ہے۔
شیخ عبدالقادر رائے پوریکا قول:
شیخ عبدالقادر رائے پوری کا قول ہے کہ پہلے لوگ ایمان کو بچانے کی کوشش کرتے تھے، جبکہ آج ایمان کو بیچا جا رہا ہے۔ اس بے بسی سے نجات کا واحد راستہ ہے کہ قرآن سے وابستگی قائم کی جائے، دینی علم حاصل کیا جائے، اور اپنی اولاد کی اسلامی تربیت کی جائے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کا ذکر کیا گیا کہ اللہ نے انہیں امامت عطا فرمائی، اور انہوں نے اپنی اولاد کے لیے ہدایت کی امامت کی دعا کی۔
قرآن کے نزول کے مقاصد:
قرآن کے نزول کے مقاصد میں اللہ کی آیات کی تلاوت، نفس کا تزکیہ، اور حکمت و کتاب کا علم شامل ہیں۔ انسان کو اللہ کا کلام پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بیان میں قرآن کو عربی زبان میں صحیح تلفظ اور تجوید کے ساتھ پڑھنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔تفسیر قرآن کے اصول سیکھنا ضروری ہے، اور بغیر علم کے قرآن کی تفسیر اپنی رائی سے کرنا گمراہی کا باعث بن سکتا ہے۔
بچوں کو قرآن کی تعلیم اور دینی علم سکھانا والدین کی ذمہ داری:
بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ بچوں کو قرآن کی تعلیم دینا اور انہیں دینی علم سکھانا والدین کی ذمہ داری ہے، اور یہ کہ دنیاوی تعلیم ضروریات کے تحت حاصل کی جا سکتی ہے، لیکن دین کو مقصد بنانا چاہئے۔ دنیاوی علم ایک ضرورت ہے، مگر اس کو مقصد بنانے سے ایمان کا نقصان ہوتا ہے۔
آخر میں، دعا کی گئی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن سے جڑے رہنے، دین کی محبت میں اضافہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی توفیق عطا فرمائے۔
”ایمان کی عظمت اور انسان کی ذمہ داریاں“اناول سورت
10/ نومبر2024 ضلع سورت کے مردم ساز مشہور ومعروف قصبہ” اناول“ میں اصلاح معاشرہ کے پروگرام میں ناظم جامعہ حضرت مولانا حذیفہ صاحب وستانوی نے مقرر خصوصی کے طور پر شرکت فرمائی۔ دراصل رئیس جامعہ حضرت مولانا غلام محمد صاحب وستانوی صاحب کے پاس وہاں کے ذمے دار احمد سیدادصاحب جو مولانا کے کافی پرانے دوست ہیں شرکت کی درخواست اور تاریخ لینے جامعہ آئے تھے، آپنےعلالت کی وجہ سے معذرت کی، لیکن اپنے دوست اور ان کی جامعہ آمد پر اپنےہونہار فرزند حضرت مولانا حذیفہ صاحب وستانوی کی شرکت کا وعدہ کیا۔ مولانا اس پروگرام میں بر وقت پہنچے،اطراف واکناف کے مسلمانوں کی ایک بھیڑ دینی پیاس لیے منتظر تھی۔آپ نے اصلاحِ معاشرہ کے اس پلیٹ فارم سے امت کو وقت کےتقاضے کے مطابق نہایت اہم پیغام دیا، جس سے لوگوں میں بیداری اور تازگی آئی اور قوم کے تئیں اصلاح کا ایک جوش اور جزبہ دیکھنےمیںآ یا۔ خلاصہٴ بیان پیش خدمت ہے۔
ایمان کی قدردانی:
ایمان، اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے، جس کی قدر کرنا ہر مسلمان کی اولین ذمہ داری ہے۔ اللہ نے انسان کو بے شمار نعمتیں عطا فرمائیں، لیکن ایمان وہ نعمت ہے، جس کے بغیر دنیا کی تمام دولت اور عیش و عشرت بے معنی ہے۔ یہ دنیاوی زندگی عارضی ہے، اور اصل کامیابی موت کے بعد شروع ہونے والی زندگی میں ہے، جس کے لیے تیاری ضروری ہے۔
انسان کی تخلیق اور حیثیت:انسان اللہ کی تخلیق کا ایک شاہکار ہے، جسے مٹی سے بنایا گیا اور دیگر تمام مخلوقات پر فضیلت دی گئی۔ اللہ نے انسان کو عقل، شعور، اور مختلف صلاحیتوں سے نوازا؛ تاکہ وہ اپنے خالق کی معرفت حاصل کرے اور اپنی زندگی کو اس کی مرضی کے مطابق گزارے۔ تاہم، قرآن نے واضح کیا ہے کہ حقیقی انسان وہی ہے جو اللہ پر ایمان رکھتا ہے، جبکہ بیایمان افراد حقیقت میں جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔
علم کی اہمیت:انسان کے گمراہ ہونے کی دو بنیادی وجوہات ہیں: جہالت اور طولِ امل (بے بنیاد امیدیں)۔ دینی اور دنیاوی دونوں علوم کا حصول ضروری ہے، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ انسان کا ایمان محفوظ رہے۔ علم انسان کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلاتا ہے اور اللہ کے قریب کرتا ہے۔
عبادت کا وسیع مفہوم:عبادت صرف نماز اور روزے تک محدود نہیں؛ بلکہ اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنا بھی عبادت ہے۔ نیک نیت سے کیے گئے ہر عمل کو عبادت کا درجہ حاصل ہوتا ہے، چاہے وہ روزمرہ کے معمولات ہی کیوں نہ ہوں۔
نماز کی اہمیت اور حکمت:پانچ وقت کی نماز انسان کو دن بھر اللہ سے جوڑے رکھنے کا ذریعہ ہے۔ شیخ الہند کے مطابق، 24 گھنٹوں میں پانچ نمازیں پڑھنے سے انسان کی عبادت کا حق ادا ہو جاتا ہے۔ صحابہ کرام نے اپنی نمازوں کو انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کیا، جو آج کے مسلمانوں کے لیے ایک سبق ہے۔
دنیا اور آخرت میں توازن:دنیاوی کامیابی کے ساتھ ساتھ آخرت کی تیاری بھی ضروری ہے۔ دنیا کمانا جائز ہے، لیکن دنیا کی محبت کو دل میں جگہ دینا نقصان دہ ہے۔ دنیاوی نعمتیں قبر تک ساتھ رہیں گی، جبکہ نیک اعمال ہی آخرت میں انسان کے کام آئیں گے۔
ذکر الٰہی کی فضیلت:اللہ کا ذکر سب سے آسان اور افضل عمل ہے، جو انسان کو اللہ کے قریب کرتا ہے، لیکن گناہوں کی عادت ذکر میں رکاوٹ بنتی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے دن کو گناہوں سے پاک رکھے؛ تاکہ رات کو اللہ کے سامنے کھڑا ہونے کی توفیق ملے۔
نوجوانوں کی تربیت:نوجوان کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں، اور ان کی دینی اور دنیاوی تربیت انتہائی اہم ہے۔ آج کے نوجوان زیادہ وقت موبائل اور انٹرنیٹ پر ضائع کر رہے ہیں، جو ان کی روحانی اور اخلاقی زندگی کو متاثر کر رہا ہے۔ والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ انہیں دین اور دنیا کے ساتھ توازن سکھائیں۔
تعلیمی ادارے اور مسلم معاشرہ:مسلمانوں کو اپنے تعلیمی ادارے، اسکول، کالج، اور یونیورسٹیاں قائم کرنی چاہییں؛ تاکہ ان کی نسلوں کا ایمان محفوظ رہے۔ یہ ادارے ایسے ہونے چاہییں؛ جہاں دینی اور دنیاوی تعلیم ساتھ دی جائے؛ تاکہ نوجوان ایک اچھے مسلمان اور معاشرے کے کارآمد فرد بن سکیں۔
صحابہ کرام کی مثالیں:صحابہ کرام اور اہل بیت کے ایمان اور اعمال ہمارے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگیاں اللہ کو راضی کرنے میں گزاری اور آخرت کی تیاری کو اولین ترجیح دی۔ ان کا مقصد دنیاوی مال و دولت نہیں؛ بلکہ اللہ کی رضا حاصل کرنا تھا۔
ذکر کی محافل کی فضیلت:
ذکر الٰہی کی محفلیں ایمان کو تازہ کرنے کا ذریعہ ہیں۔ ان محافل میں شرکت سے انسان کی روحانی بیٹری چارج ہوتی ہے، جو اسے گناہوں سے دور رہنے اور نیک اعمال کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔
مال اور فتنوں کا دور:
موجودہ دور میں مال کی فراوانی کے ساتھ فتنے بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ حلال رزق کمائیں اور حرام سے بچیں، کیونکہ حرام مال میں کبھی برکت نہیں ہوتی۔ صدقہ دینے اور اللہ کے راستے میں خرچ کرنے سے نہ صرف برکت آتی ہے؛ بلکہ اللہ کی ناراضی بھی ختم ہوتی ہے۔
دنیاوی زندگی کی حقیقت:
دنیا کی چمک دمک عارضی ہے، اور یہ ہمیں دھوکہ دے سکتی ہے۔ اصل کامیابی اللہ کی محبت اور اس کے دین پر عمل میں ہے۔ دنیاوی زندگی کو اچھے طریقے سے گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنی اخروی زندگی کو نہ بھولے۔
اخروی زندگی کی تیاری:
اللہ نے انسان کو اس دنیا میں ایک مقصد کے تحت بھیجا ہے، اور وہ مقصد ہے اللہ کی رضا حاصل کرنا۔ جو انسان اپنی آخرت کی تیاری کرتا ہے، اللہ اس سے راضی ہو جاتا ہے، جیسا کہ صحابہ کرام کے بارے میں قرآن نے فرمایا: ”رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ“۔