از: اسماعیل بن یوسف کوثرکوساڑی فلاحی غفرلہ‘
خادمِ حدیث، افتا و ادب دار العلوم مرکزِ اسلامی انکلیشور
۲۶/شوال ۱۴۳۹ ھ کی شام آفتاب اپنے معمول کے مطابق دنیا کو تابانی دینے کے بعد غروب ہونے کے لیے پابہ رکاب تھا، چرندے اور پرندے دن بھر تھکنے کے بعد اپنے اپنے ٹھکانوں اور آشیانوں کی راہ لے رہے تھے، سفیرانِ لیل پہاڑ کی چوٹیوں، سمندر کے کناروں اور درختوں کی شاخوں پر غزل خوانی میں محو تھے، عالَم کا ذرہ ذرہ لیلائے شب کے استقبال میں مصروف نظر آ رہا تھا، آفتاب کی نقاہت رہ رہ کر ’’ہرعروجے را زوال است‘‘ کی لوریاں سنا ر ہی تھی۔ دوسری طرف آفتابِ علم و فضل اپنی حیاتِ مستعار کی آٹھ دہائیوں سے زیادہ عرصہ دنیائے علم و فضل کو روشنی دینے کے بعد اب کچھ زیادہ ہی اضمحلال محسوس کرنے لگا تھا، اس کے چہرے پر ابھری جھرّیاں پون صدی کی طویل تھکن اور صبر آزما حالات کا پتہ دے رہی تھیں۔
بالآخر آفتابِ علم آفتابِ عالَم سے سبقت لے گیا اور افقِ گجرات پر ہمیشہ کے لیے رو پوش ہوگیا اور ایک بار پھر حیاتِ انسانی کی ناپائیداری کا سبق دیتا گیا ؎
روشنی ہم کو جو دیتا تھا وہ زیرِ خاک ہے
ایک ستارہ اور ڈوبا آسماں غم ناک ہے
ہے لہو میں تر بہ تر شامِ غروبِ آفتاب
دِن کے ڈھلنے کا یہ منظر کتنا وحشت ناک ہے
انسان کی زندگی ایک شمع کے مانند ہے جو اپنی سکت کے مطابق حالات و مصائب کے تیز جھکّڑوں کا مقابلہ کرتی ہوئی بالآخر گل ہو جاتی ہے، اُس کا عروج زوال کی دلیل اور ترقی تنزل کا نشان ہے، اگر زوال عروج کا تعاقب بند کردے اور آمد و رفت کا سلسلہ ختم ہو جائے تو دنیا میں سانس لینے کی جگہ باقی نہ رہے؛ مگر قدرت کا یہ قانون اَٹل ہے کہ ہر ایک کو اپنے محور کا ایک مقررہ وقت تک طواف کر کے آگے بڑھ جانا ہے اور بعد والوں کے لیے جگہ خالی کر دینا ہے۔ عربی کے بے مثال شاعر ابو الطیب متنبّی نے اِس حقیقت کی کتنی خوب صورت ترجمانی کی ہے ؎
سبقنا إلی الدنیا فلو عاش أھلھا
منعنا بھا من جیئۃ و ذھوب
ہزاروں ستاروں کا خون ہوتا ہے تب ہی عروسِ صبح کی دید نصیب ہوتی ہے، اِس معنیٰ کر زوال عروج کا اور غروب طلوع کا قاصد معلوم ہوتا ہے؛ مگر غروبِ آفتاب کی تاریکی بھی تو صبر آزما ہوتی ہے، جس کے بعد کروڑوں جتن کئے بغیر عروسِ صبح کا زرّیں چہرہ دیکھنا نصیب نہیں ہوتا ؎
سالہا باید تا یک سنگِ سرخ ز آفتاب
لعل گردد در بدخشاں یا عقیق اندر یمن
کسی نے سچ کہا ہے ’’ستارے تو روز ٹوٹ کے گرتے تھے، غضب ہوگیا آج توآفتاب ہی گر گیا‘‘۔
وہ ذاتِ گرامی جس نے اپنی عمرگلہائے علم کو لالہ زار بنانے میںصرف کر دی، جس کی علم دوستی، علما پروری، وسعتِ فکر و نظر، اخلاق کی شیرینی، رجال سازی اور خاک ساری کا پرچم عرب و عجم پر یکساں طور پر لہرا رہا تھا، جس کی دور رَس نگاہ نے سیکڑوں خزف ریزوں کو شہ پاروں میں تبدیل کر دیا، جس کی ادنیٰ توجہ ترقی کی ضامن تھی، جس کے اخلاقِ فاضلہ میں خلقِ محمدیؐکی جھلک نظر آتی تھی، جس کی بیش بہا خدمات سے سر زمینِ گجرات کا چپہ چپہ تاباں و درخشاں بن گیا تھا، جو ابرِرحمت بن کر پون صدی تک ہفت اقلیم پر برستا رہا، جس نے اپنا دستور العمل….
اُن کا جو کام ہے اہلِ سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
….کو بنا لیا تھا، وہ آفتاب ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا، اُس کے غروب ہونے سے ایک عہد کا خاتمہ ہو گیا، ایک باب بند ہو گیا، ایک روایت نے دَم توڑ لیا، علمی مئے خانے بے رونق ہو گئے اور جام و پیمانہ وقفِ گریہ ہو گئے، تشجیع اور قدر افزائی گوشۂ خمول میں چلی گئی، مدارس بے نور ہو گئے، اربابِ قلم دَم بخود رہ گئے اور ثقافت نے جان دے دی۔
آپ کے سانحۂ اِرتحال نے علامہ ابن حجر عسقلانیؒ کی رحلت، علامہ عز الدین ابن عبد السلامؒ کی فرقت،علامہ ابن تیمیہؒ کے اِرتحال، علامہ ابن خلدونؒ کے انتقال، مولانا وحید الزماں کیرانویؒ کی وفات اور شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ اور مفکرِ اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی میاں ندویؒ کے اِس دنیا سے کوچ کرنے کی یاد تازہ کر دی ؎
بچھڑا کچھ اِس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اِک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
حضرت مفکرِ ملت نوّر اللہ مرقدہٗ دورِ آخر کی اُن عظیم شخصیات میں سے تھے جن کے انفاسِ قدسیہ کی برکت سے علمی وقار قائم تھا، آپ نے اپنے فکرِشاہین، عقابی نظر، وسعتِ ذہنی اور اخلاقِ عالیہ سے لوگوں کے ذہن و قلب پر بہت گہرا اثر چھوڑا ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ کے سانحۂ ارتحال پر پورا عالَم سو گوار ہے۔ شہرۂ آفاق مصنّف و محقق، آکسفورڈ یونی ورسٹی کے شعبۂ اسلامیات کے پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم ندوی صاحب نے بالکل درست فرمایا ہے کہ ’’إنّہ قد مَلَک قلوب الناس بأخلاقہ الفاضلۃ و استأسر نظراتھم بمحاسنہ الجَمّۃ‘‘۔
حسنِ تدبیر کا یہ حال تھا کہ انتہائی نا مساعد حالات اور نا مکمل اسباب کے باوجود مختصر ترین مدت میں ’’دار العلوم فلاحِ دارین ترکیسر‘‘ کو رشکِ مدارس بنا دیا، رجال سازی کے بے مثال وصف نے محدثین، مفسرین، فقہا اور قرا کی ایک ایسی جماعت پیدا کر دی جو بیش تر مدارس کی مسانید تدریس کی زینت بنی ہوئی ہے۔ عربی زبان و ادب سے انتہائی وارفتگی کا تعلق پایا تھا۔ دینی حمیت رگ و ریشے میں اِس طرح سرایت کر گئی تھی کہ ’’لومۃ لائم‘‘ کی پروا نہ رہی تھی، وسعتِ قلبی کا یہ حال تھا کہ ہر مکتبِ فکر کے لوگ کشاں کشاں درِ دولت پر چلے آتے تھے اور فرحت بداماں ہو کر واپس ہوتے تھے، آپ کے لیے سب اپنے تھے کوئی غیر نہ تھا، ہر ایک کی ترقی آپ کا سب سے بڑا مِشن تھا جس کے لیے آخری سانس تک مصروف رہے، اِن سب اوصاف و کمالات کے باوجود خاکساری و سادگی کا بے مثال نمونہ تھے جس نے آپ کی ذات میں بے انتہا کشش پیدا کر دی تھی، سلوک میں بھی اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آپ کو مقامِ جلیل پر فائز فرمایا تھا، خلاصہ یہ ہے کہ آپ حقیقی معنوں میں ہند میں سرمایۂ ملت کے نگہبانوں اور دعوت و عزیمت کے قافلہ سالاروں میں سے تھے، مجموعی اعتبار سے گجرات کے ماضی قریب میں آپ کی نظیر ملنی بہت مشکل ہے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک بے مثال تحفہ آپ کی صورت میں عطا فرمایا تھا، افسوس ہے جس کی ہم قدر شناسی نہ کر سکے، آپ کا غم مدت تک تازہ رہے گا، آپ کا اِرتحال کوئی ایسا حادثہ نہیں ہے جس کی تلخی جلد بھولی جا سکے ؎
خانقاہیں دل شکستہ، مدرسے ہیں سر نِگوں
علم پر آئی ہے وہ آفت کہ سینہ چاک ہے
بلبلِ باغِ رسالتؐ اب نہ چہکے گا کبھی
غنچے افسردہ ہیں، پیراہن گُلوں کا چاک ہے
اِس حادثۂ ہوش رُبا پر اِس کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے کہ إنّ للّٰہ ما أخذ، ولہ ما أعطیٰ، و کلٌّ عندہٗ لأجل مسمّی، اللّٰھمّ اغفر لشیخنا و ارحمہٗ رحمۃ الأبرار، و سکّنہ في جنّۃ الفردوس مع النبیین و الشھداء و الصالحین، یا عزیز یا غفّار! اللھم أکرم نزلہٗ، ووسّع مدخلہٗ و أدخلہٗ دارًا خیرًا من دارہ و أھلًا خیرًا من أھلہ، اللھم اغسلہٗ بماء الثلج و البرد، و نقّہ من الخطایا کما نقّیت الثوب الأبیض من الدّنس،إنّ العینَ تدمع و القلبَ یحزن و إنّا بفراقک یا شیخنا لمحزونون!