آسمان علم و ادب کا درخشندہ ستارہ

حضرت مولانا نسیم اختر شاہ قیصر

قرطاس و قلم مقصوداحمد ضیا#ئی

خادم التدریس جامعہ ضیاء العلوم پونچھ جموں و کشمیر

اور اب چرچے ہیں جس کی شوخیِ گفتار کے

بے بہا موتی ہیں جس کی چشم گوہر بار کے

            دنیائے علم و فضل میں ایسے ایسے بافیض لوگ پیدا ہوئے ہیں کہ جنہوں نے اپنے علم و عمل اور فکر و فہم کی بنا پر ناموری کی بلندیوں کو چھوا اور دنیا نے ان کے علم و کمال کا اعتراف کیا؛ زندگی میں بھی اور بعد از مرگ بھی؛ وہ اپنی خوبیوں کی بنا پر اہل ِعلم کے یہاں تذکروں و تبصروں اور قلم و قرطاس کی زینت بنے، گویا کہ ایسے لوگ ” ثبت است بر جریدہٴ عالم دوام ما ” کی خوبصورت تصویر ہوتے ہیں؛ اور وہ وقت اور تاریخ کا ایک بے مثال حصہ بن جاتے ہیں؛ امام العصر رئیس الفقہاء علامہ محمد انور شاہ کشمیری کے پوتے اور معروف قلم کار مولانا سید ازہر شاہ قیصر رحمہ اللّٰہ کے صاحبزادے دارالعلوم وقف دیوبند کے استاذ؛ ادیب اریب حضرت مولانا نسیم اختر شاہ قیصر علیہ الرحمہ پیدائش 1960ء کا شمار بلاشبہ ایسے ہی رجال ِکار میں ہوتا تھا۔ مگر آہ! علم و کمال کا یہ روشن ستارہ مؤرخہ 11 ستمبر 2022ء بروز اتوار حرکت ِقلب بند ہو جانے سے غروب ہوگیا۔ (خدا رحمت کند)

            حضرت مولانا نسیم اختر شاہ قیصر علیہ الرحمہ کی عظیم و ادبی شخصیت گوناں گوں کمالات و صفات سے مزین تھی ،مگر بنیادی طور سے آپ بلند پایہ استاذ اور ایک ممتاز ادیب تھے۔ قدرت نے مولانا مرحوم کو قلم کی لاجواب دولت بخشی تھی؛ بلکہ وہ قلم کے ساتھ پلے بڑھے اور اسی کے ساتھ جوان بھی ہوئے تھے؛ آپ کا اشہبِ قلم تا دمِ حیات رواں دواں رہا؛ مولانا مرحوم کا سانحہٴ ارتحال یقینًا ادب ِاسلامی کا ایک عظیم خسارہ ہے۔ مولانا کو ہم نے ان کی تحریروں سے ہی جانا تھا؛ بطور خاص آپ کی خاکہ نگاری اور پیکر تراشی اپنی مثال آپ تھی، سچ یہ ہے کہ آپ کا قلم لکھتا ہی نہیں تھا ؛بلکہ صفحہٴ قرطاس پر علم و ادب کے موتی بکھیرتا رہتا تھا؛ علم و ادب کے بے تاج باد شاہ حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی قدس سرہ آپ کے اسلوبِ تحریر کے بارے میں رقم طراز ہیں کہ مولانا نسیم اختر شاہ کا اسلوب تحریر بہ یک وقت سادہ بھی ہے اور رنگین بھی، ان کے ہاں صرف آمد ہے آورد کا گذر نہیں۔ ان کا ہر لفظ رس دار اور ہر تعبیر مزے دار ہوتی ہے۔ وہ خلوص سے لکھتے ہیں جو کسی اہل قلم کی سب سے ممتاز صفت ہوسکتی ہے۔ شخصیت کی تہوں میں ڈوب کر لعل و گہر کی تلاش؛ ان کا نمایاں وصف ہے۔ موضوعِ سخن شخصیت کو ہر زاویہٴ نظر سے دیکھنے اور دکھانے کے فن میں بڑی مہارت ہے۔ وہ دور سے نہیں قریب سے دیکھتے ہیں؛ ان کے قاری کو صاف محسوس ہوتا ہے کہ قلم کار کو شخصیت سے جذباتی لگاؤ ہے۔ یہ چہرہ نگاری کا کمال ہے کہ لفظ لفظ سے سچائی کی مٹھاس؛ خلوص کا کیف؛ قربت کی حرارت؛ جذباتی ہم آہنگی کی لذت پڑھنے والے کو بھی بھرپور انداز میں محسوس ہو۔ موصوف میں یہ رنگ بہت بکھرا ہوا محسوس ہوتا ہے؛ چنانچہ کاتب السطور کو زمانہ ٴطالب علمی سے ہی مطالعہ کتب کا چسکا لگ گیا تھا؛ مولانا نسیم اختر شاہ کا مجموعہٴ مضامین ”میرے عہد کے لوگ “؛ جب منصہ شہود پر جلوہ گر ہوا، موصول ہوتے ہی ایک نشست میں پڑھ ڈالا تھایکے بعد دیگرے آپ کی دیگر کتابیں بھی نظر نواز ہوتی گئیں ،جن کے مطالعہ نے عاجز کو آپ کے قلم کا گرویدہ بنا لیا۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ جو#ش ملیح آبادی نے قلم کی عظمت کے بارے میں جو یہ کہا ہے#

 توڑ دیتی ہے چٹانوں کو روانی تیری

 رس پہ آتی ہے بڑھاپے میں جوانی تیری

وہ مولانا مرحوم پر صادق آتا ہے۔

            حضرت مولانا سید فضیل احمد ناصری قاسمی صاحب نے مولانا مرحوم کی حیات میں ان کی خاکہ نگاری و پیکر تراشی کو اپنے ایک مضمون میں بڑے عمدہ پیرایہ میں بیان فرمایا ہے وہ لکھتے ہیں کہ۔ ” مولانا کا قلم خاکہ نگاری اور پیکر تراشی میں بڑی جولانیاں دکھا رہا ہے۔ وہ کسی شخصیت یا ادیب پر مائل بہ سخن ہوتے ہیں تو اس کی ایسی تصویر پیش کرتے ہیں کہ گویا ان کا ممدوح سامنے ہی کھڑا ہے ،اس کی رفتار و گفتار اس کی نشست و برخاست اس کے اوصاف و اخلاق اور اس کی حیات و جہات پر ایسا بھرپور تبصرہ کہ پڑھتے جائیے اور شربت ِروح افزا کے مزے لیتے جائیے،اس فن میں انہیں یدطولٰی حاصل ہے۔ شخصیت نگاری پر ان کی کئی کتابیں آچکی ہیں؛ جن میں… دو گوہر آب دار؛ جانشین امام العصر؛ میرے عہد کے لوگ؛ جانے پہچانے لوگ؛ اپنے لوگ؛ خوشبو جیسے لوگ؛ کیا ہوئے یہ لوگ؛ خاصی مقبول ہیں۔ ان میں سے کسی بھی کتاب کو اٹھائیے اپنا اسیر کر چھوڑے گی۔ نمکینی اور چاشنی ان میں بلاکی ہے، ان میں وہ گھلاوٹ اور شیرینی ہے کہ ایک بار پڑھنے سے سیری نہیں ہوتی۔ ” حضرت مولانا نسیم اختر شاہ قیصر مرحوم کی زندگی کے بہت سے پہلو ہیں جو عالم آشکارا ہیں درحقیقت ان کی زندگی ایک مستحکم زندگی تھی بلاشبہ جس میں ایک بڑے آدمی کے آثار موجود تھے۔

سردء مرقد سے بھی افسردہ ہوسکتا نہیں

خاک میں دب کر بھی اپنا سوز کھو سکتا نہیں

            مولانا نسیم اختر شاہ قیصر کی تصنیف لطیف ”شیخ انظر “(تاثرات و مشاہدات) کے سرِورق کا شعر جب سے نظروں سے گذرا ہے جب جب بھی مولانا کی کوئی تحریر نظروں سے گذرتی رہی وہ شعر بے ساختہ زبان پر جاری ہو جاتا رہا ہے۔ فرمایا کہ

وہ جس کے سینہ میں علم انور؛ وہ جس کے ہونٹوں پہ ذکر انور

وہ شیخ انور کا عکس انور؛ وہ شیخ انظر بھی چل دیا ہے

            خطبات شاہی؛ سید اظہر شاہ قیصر ایک ادیب ایک صحافی؛ مقبول ترین تقریریں؛ اور” حرف تابندہ“ مولانا کی وہ کتابیں ہیں کہ جن کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ عاجز کا مولانا نسیم اختر شاہ قیصر سے شناسائی کا قصہ کچھ یوں رہا کہ۲۰۲۰ء میں ماہنامہ النخیل کی اشاعت خاص ”یادگار زمانہ شخصیات کا احوال مطالعہ“۔ جس کے سرورق کی تعارفی تحریر یہاں ذکر کی جاتی ہے۔ دنیائے اسلام کی ۸۰/ سے زیادہ مشہور زمانہ شخصیات و اہل قلم کے مطالعہ اور علمی سفر کی دل نشیں روداد؛ نئی نسل کے لیے مفید کتابوں کے انتخاب اور مطالعاتی زندگی کی رہنمائی پر مشتمل مدیر ماہنامہ النخیل کے سوال نامہ کے جواب میں لکھی گئی ناقابل فراموش تحریروں کا سدا بہار مجموعہ ؛یہ قابل قدر دستاویز حضرت مولانا ابن الحسن عباسی کی آخری کاوش تھی۔ جب شائع ہوئی تو عاجز کو اس کے حصول کی فکر دامن گیر ہوئی کوشش کامیاب ہوئی اور ماہنامہ شاہراہ علم کے مینیجنگ ایڈیٹر مفتی ہلال الدین بن ابراہیمی علیمی حفظہ اللّٰہ کی خصوصی عنایت سے یہ ضخیم کتاب دستیاب ہوگئی۔ قلیل مدت میں عاجز نے اس کا نہ صرف حرفًا حرفًا مطالعہ کیا بل کہ لگ بھگ ایک ہزار صفحات پر مشتمل کتاب کا عرق کشید کر چند ہی صفحات میں ان احباب کرام کی خدمت میں جو ضخیم الحجم کتابوں سے کتراتے ہیں بطور نوش پیش کر دیا۔ یہ مضمون ماہنامہ شاہراہ علم اکل کوا میں ۲۲/ صفحات پر مشتمل ادارتی نوٹ کے ساتھ شائع ہوا۔ جسے علمی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا اس دوران مادر علمی اول جامعہ ضیاء العلوم پونچھ کے مؤقر استاذ مفتی محمد دانش قاسمی صاحب ایک روز ملے اور فرمایا کہ ماہنامہ النخیل کے مطالعہ نمبر کو مکتبة الانور دیوبند نے شائع کیا ہے۔ مولانا نسیم اختر شاہ قیصر صاحب کا دیوبند سے فون تھا کہ علمی حلقوں میں اس کو متعارف کرایا جائے اس پر راقم کو خیال آیا کہ اس مضمون کو کتابی شکل کیوں نہ دے دی جائے۔ لہذا ”مشک ورق “کے نام سے یہ مجموعہ ترتیب پا گیا۔ موقع غنیمت سمجھتے ہوئے مولانا نسیم اختر شاہ قیصر صاحب کی خدمت میں ہی بذریعہ واٹس ایپ تقریظ کی گذارش کر دی گئی۔ جسے از راہِ لطف و کرم انہوں نے قبول فرمایا اور مجھے وہ مضمون بھیجنے کے لیے فرمایا چند روز بعد حضرت مولانا نے مضمون کی پسندیدگی کا اس طرح اظہار فرمایا کہ ”آپ کی تحریریں دل و دماغ کے دریچوں کو کھول دیتی ہیں دلی مبارکباد “ اس ملاقات کی ایک ایک بات آج مجھے یاد آرہی ہے ان کے خلوص اور محبت کی گرمی َمَیں اپنے سینے میں محسوس کرتا ہوں۔ فرمایا کہ ایک ہفتے کے اندر تحریر ارسال کرتا ہوں۔ ان شاء اللّٰہ۔ چنانچہ جمعہ کے روز دس بجے کے قریب اپنی تحریر ارسال کی ساتھ ہی دریافت بھی فرمایا کیسی ہے؟ اس وقت یہ عاجز بازار میں تھا یہی سوچا کہ بھیڑ بھاڑ کے ماحول سے نکلتے ہی جواب دے دوں گا؛ لیکن تھوڑی ہی دیر میں حضرت مولانا کا فون آگیا سلام دعا کے بعد فرمایا کہ کیسی ہے تحریر؟ عاجز نے عرض کیا ”توقع سے بڑھ کر ہے“۔ یہ سن کر بہت دعائیں دیں اور فرمایا کہ ان دنوں مصروفیت چل رہی ہے آئندہ ان شاء اللّٰہ مزید بہتر لکھنے کی کوشش رہے گی، دعاؤں کی درخواست ہے۔ غرض کہ ایک شہرہٴ آفاق ادیب؛ محرمِ زبان و سخن؛ صحافت کے نکتہ داں؛ عظیم تجزیہ نگار؛ متعدد کتابوں کے مصنف؛ رونق قلم اور ایک مقبول ترین استاذ کے قلم سے ایک طفل مکتب کی کاوش پر تقریظ پڑھ کر بندہ ہیچمداں کو قلبی طور پر جو خوشی ہوئی اسے الفاظ میں بیان کرنا اگرچہ ناممکن نہیں تاہم مشکل ضرور ہے۔ اپنے اس عظیم علمی محسن کے سانحہٴ ارتحال کے موقع پر چند سطریں ہی سہی مگر حق بنتا تھا بہ توفیق الہی یہ چند سطریں مسطور ہوگئیں۔

آخری بات:

             دارالعلوم دیوبند مرکز علم و عرفاں ہے، جہاں ایک سے بڑھ کرایک بزرگ؛ عالم دین؛ مدبر و مفکر اور صاحب فکر و نظر؛ قلم کار صحافی و ادیب ایسے موجود ہیں جو سب ہی ہمارے دلوں کے سرور اور آنکھوں کے نور ہیں۔ تاہم حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی صاحب سابق مدیر ماہنامہ دارالعلوم دیوبند؛ حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی صاحب سابق رئیس تحریر ”الداعی“ عربی و استاذ ادب عربی دارالعلوم دیوبند؛ نبیرہٴ حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد سفیان قاسمی صاحب مدظلہ العالی؛ بحرالعلوم حضرت مولانا غلام نبی قاسمی کشمیری صاحب؛ حضرت مولانا نسیم اختر شاہ قیصر اور حضرت مولانا ندیم الواجدی صاحب مدیر ترجمان دیوبند وہ اصحاب ِعلم و فضل ہیں کہ جن کی تحریروں سے اس عاجز کو استفادہ کا بھرپور موقع ملا۔ دلی دعا ہے کہ اللّٰہ عزوجل ہمارے ان علمی محسنوں کو جزائے خیر عطا کرے اور شایان شان بدلہ عطا فرمائے۔ المختصر! حضرت مولانا نسیم اختر شاہ قیصر صاحب ہم سے کیا جدا ہوئے کہ آسمان علم و کمال کا ایک باوزن؛ باکردار اور پیکر ِعلم و عرفاں کا تابندہ ستارہ غروب ہوگیا ہے؛ لیکن اس مرد میداں کے مختلف علمی و عملی کارنامے اور حسنِ اخلاق کی میراث ہمارے درمیان باقی ہے، جس کو یقیناً ہم سلیقے سے تقسیم کرسکتے ہیں اور ان کے طرز پر چل کر انہی جیسی مقبولیت و محبوبیت حاصل کرکے دین و ملت اور تعلیم و تربیت کے حوالے سے زیادہ مفید بن سکتے ہیں۔ (وباللّٰہ التوفیق)۔ دعا ہے اللّٰہ رب العزت جوار رحمت میں جگہ دیں اعلٰی علیین میں مقام کریم سے نوازیں اور حسانات کو قبول فرما کر مغفرت ِکاملہ و درجات عالیہ عطا فرمائیں۔

 آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے

 سبزہ نو رستہ اس گھر کی نگہبانی کرے