معارفِ تھانوی
آج کل کے علما کی پرواز:
آج کل جس کو بھی ذرا بولنے کا سلیقہ ہو جائے اور دو چار تقریریں کر دے ، وہی لوگوں کے نزدیک عالم اجل اور فاضل بے بدل،بل کہ علامہٴ زماں ہو جاتا ہے، خواہ در حقیقت جاہل اور بددین ہی ہو۔
(الفصل والوصل ص: ۴۱۴)
آج کل جہاں کسی نے عربی کی دو چار کتابیں پڑھ لیں، اسے مولوی کہنے لگتے ہیں۔ حالاں کہ یہ شخص حقیقت میں مولوی نہیں۔ اصل مولوی وہ ہے ، جو احکامِ شریعت اچھی طرح سمجھ کر ان کے مطابق ظاہراً و باطناً عامل ہو، جو اللہ والا ہو اور اللہ والا شریعت سے جاہل نہیں ہوسکتا۔ تو محض عربی کتابیں پڑھ لینے یا عربی بول لینے اور لکھ لینے سے یا چرب زبانی اور ذہانت کی باتیں کر لینے اور عربی کتابوں سے انسان مولوی نہیں ہوسکتا۔ (تعمیم التعلیم ص: ۲۷)
آج کل بعض لوگوں کو اس کا خبط ہو گیا ہے کہ وہ عربی میں تقریر کر لینے کو بڑا کمال اور فخر سمجھتے ہیں۔ میں کہا کرتا ہوں کہ تم کیسے بھی صاحب علم ہو جاؤ حتیٰ کہ ابوالعلم ہو کر بھی ایسی عربی نہیں بول سکتے، جیسی ابو جہل بولا کرتا تھا۔ اگر عربی میں گفتگو کر لینا ہی علم ہے اور یہ کوئی بڑا کمال ہے تو ابو جہل کو تم سب سے بڑا عالم (اور باکمال) ہونا چاہیے، حالاں کہ وہ ابو جہل ہی رہا۔ عربی بول لینے سے ،عربی میں تقریر کر لینے سے وہ ابو العلم تو کیا ہوتا ابن العلم بھی نہ ہوا۔ (مطاہر الاموال ص:۲ ۶)
اصل چیز عمل ہے:
اصل چیز عمل ہے۔ بغیر عمل سب بے کار ہے، خواہ علم ِظاہر ہو یا علم باطن ۔ اصل فضیلت عمل ہی کو ہے، عمل ہی سے دین کی تعمیل ہوتی ہے۔ دیکھئے صحابہ رضی اللہ عنہم کو کتابی علم کہاں تھا، مگر قبولیت اظہر من الشمس ہے۔ (اس کی وجہ یہی ہے کہ) علم سے زیادہ ان کے پاس عمل تھا۔ (الافاضات الیومیہ۳/۲۱۱)
عمل کے بغیر یہ تحقیقات و نکات کچھ کام نہ آئیں گے:
میں علما سے بھی کہتا ہوں کہ آپ کی یہ تقریریں اور نکات و اسرا رسب رکھے رہ جائیں گے اور سالکین سے بھی کہتا ہوں کہ یہ مواجید واذواق اور معارف و حقائق بغیر تعلق صادق کے بے کار ہیں۔
حضرات! نوکر کا فیشن کام نہیں آتا کہ وہ بنا ٹھنا ر ہے اور باتیں بنایا کرے،بل کہ اس کی خدمت کام آتی ہے۔
امام غزائی نے لکھا ہے کہ حضرت جنید کو کسی نے خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ آپ کے ساتھ کیا معاملہ ہوا؟ فرمایا: ساری عبادتیں اور اسرار و نکات اور ارشادات غائب ہو گئے، ان سے کچھ کام نہ چلا۔ بس وہ چھوٹی چھوٹی چند رکعتیں کام آئیں، جو آدھی رات میں پڑھ لیا کرتے تھے۔
صاحبو! بڑی چیز یہ ہے کہ انسان اصل عمل اور مقصود کو لازم سمجھے۔اگر مقصود کے ساتھ غیر مقصود بھی حاصل ہو جائے تو نورٌ علی نورٍ ہے ، ورنہ کچھ نفع نہیں اگر مقصود حاصل نہ ہوا۔ آج کل غضب یہ ہے کہ علما وصوفیا سب غیر مقصود کے در پے ہیں، مقصود سے اکثر غافل ،بل کہ کوسوں دور ہیں۔ (غایة النجاح فی آسیة النکاح حقوق الزوجین ص: ۵۲۷)
علم کے بعد عمل واخلاص اور قال کے بعد حال کی ضرورت معرفت:
خدا تعالیٰ کوعمل کے ساتھ باطن کی بھی خبر ہے، وہ سب کے باطن کو بھی دیکھ رہے ہیں کہ کس میں اخلاص ہے اور کس میں نہیں۔ محض علم پر ناز نہ کرنا، کیوں کہ یہی علم تو شیطان اور بلعم باعور کو بھی حاصل تھا۔ شیطان بقول مشہور ملائکہ کا معلم (استاذ) بھی تھا اور بلعم باعور اپنی قوم کا واعظ بھی تھا اور دونوں شخص علم کے ساتھ عمل ظاہر کے بھی جامع تھے۔ بڑے عابد اور جفاکش مجاہدہ کرنے والے تھے، مگر ان کے باطن میں اخلاص اور خدا تعالیٰ کی محبت و معرفت پوری نہ تھی۔ اس لیے یہ علم و عمل سب بے کار ہو گیا۔ پس عمل کے ساتھ ایک اور چیز کی بھی ضرورت ہوئی، جس کا نام حال باطنی ہے۔ بغیر حال کے علم و عمل قابل اعتبار نہیں اور یہ حالت کتب بینی سے حاصل نہیں ہوتا، یہ کسی صاحب حال کی جوتیاں سیدھی کرنے سے نصیب ہوتا ہے۔
غرض علم و عمل اور حال ان تینوں کا حاصل کرنا ضروری ٹھہرا اور محض علم و عمل حاصل ہو گیا، مگر حال نہ ہو تو اس کے بارے میں ارشاد ہے:﴿ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیْرٌ﴾ یعنی خدا تعالیٰ باطن کو بھی دیکھتے ہیں، محض ظاہری عمل کو نہیں دیکھتے۔
محض قیل و قال سے کچھ نہیں ہوتاا ور اس سے حال حاصل نہیں ہوتا۔ہاں اگر اس کے بعد کسی صاحب حال کو لپٹ جائے تو پھر یہ علم رسمی بہت کارآمد ہے، جاہل صوفی سے عالم صوفی افضل ہوتا ہے۔
حال وہ چیز ہے کہ اس کے بغیر کوئی عمل کامل نہیں ہوسکتا۔ بغیر حال کے عمل کی ایسی مثال ہے جیسے ریل گاڑی کو آدمی ٹھیلتے ہوں آخر کب تک ٹھیلیں گے اور کیا اسی طرح منزل مقصود تک پہنچ سکتے ہیں؟بہت مشکل ہے۔
(حقوق و فرائض)