نگارش:ابوعالیہ نازقاسمی،اِجرا،مدھوبنی/جامعہ اکل کوا
فتنہ کے معنی:
(۱) جھگڑا،فساد،ہنگامہ،بلوہ،بغاوت،سرکشی (۲)آزمائش،گمراہی، مال،اولاد (۳) ایک عطر کانام (۴)دیوانگی(۵)نہایت شریر،شوخ،آفت کاپرکالا۔(فیروزاللغات :ص۹۲۴)
مصائب اورنقصانات کوبھی فتنہ کہتے ہیں۔اوراللہ تعالیٰ بداعمالیوںکی جوسزادیتاہے، اُس کوبھی فتنہ کہتے ہیں۔اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کو فتنہ فرمایاہے (تبیان القرآن:ج۳/ص۲۵۷)
اربوںسال پہلے:
ایک آواز اٹھی تھی!کہ اے پروردگار عالم !ــکیا آپ ایسوںکو اپنا خلیفہ اورنائب بنائیں گے جوزمین میں فساد پھیلائیں گے اور خوں ریزی کریں گے ۔ہمیں یہ عظیم الشان منصب اورعہدہ کیوں نہیں دیتے ؟کیاہم اِس عہدے کے اہل نہیںہیں؟ جب کہ ہروقت ہم آپ کی تسبیح اور پاکی بیان کر تے رہتے ہیں ۔
کیاکسی کومعلوم ہے کہ یہ کس کی آواز تھی ؟ کس کے خلاف تھی ؟کسے خلیفہ بنایا جارہاتھا؛کس کے سرپرتاج خلافت سجایا جا رہا تھا؟ وہ کون تھاجوفسادبرپاکرنے والاتھا؟کس کے سامنے کہا جارہا تھا کہ وہ فسادکابیج بوئے گااور خون بہائے گا ؟کسے اتنی ہمت اورجرأت ہو گئی ایسی بات کہنے کی ؟؟
تاریخ سے اگر پوچھیے تو جواب گہری خاموشی میں ملے گا ؛لیکن اِسی بات کو قرآن کریم سے معلوم کیجیے تو اربوں سال پہلے کے اِس عجیب وغریب مکالمہ کے بارے میں سب کچھ بتائے گا ۔
یہ توچندسکوںپربِک جائے گا:
یہ آواز فرشتوں کی تھی ؛کہا جارہا تھا عالم الغیب والشہادۃ کے سامنے ؛ہم سب کے پدرِ بزرگوار حضرت آدم علیہ السلام اور اُن کے واسطے سے ہم تمام انسانوں کے بارے میں؛کیوں کہ فرشتوں کی نگاہِ بصیرت ہم انسانوں کے کرتوت دیکھ رہی تھی۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ ہم اِس دنیا میں آنے کے بعد ایک دوسرے کی گردن کاٹیںگے، نہ خود سکون سے رہیں گے اور نہ دوسروں کو رہنے دیں گے ۔’’جیواورجینے دو‘‘ کے اصول کو ٹھکرا کر {ہٰذَا اَسَاطِیْرُ الْاَ وَّلِیْنَ}کے خانے میںڈال دیا جائے گا۔وہ دیکھ رہے تھے کہ یہ انسان چندکھنکھناتے سکوںکی جھنکار پر اپنا دین وایمان بیچ ڈالے گا،اپنے حقیرسے مفادات ونظریا ت اور رہائش وآسائش کی خاطراپنے دین وایمان کو قربان کردے گا۔ہروہ کام کرے گا، جس سے گمرہی پھیلے اور غلط کاریوںکی پگڈنڈی پرسرپٹ دوڑنے لگے گا۔اگر کچھ نہیں ہو سکے گا تو کسی پر تکفیر اور کسی پرتفسیق کا گولہ پھینک کرہی اپنے دل کی بھڑاس نکالے گا اوراپنے قلب مضطرکوسکون بخشنے کی کوشش کرے گا۔ آج کے حالات کاجائزہ لیںتویہ بات صدفی صددرست نظرآرہی ہے۔ شایدیہی وجہ ہے کہ ؎
جو کر کے نیکیاں دریا میں ڈال دیتا ہے
زمانہ اُس پر بھی کیچڑ اچھال دیتا ہے
ہر صبح کا ایک نیا پیغام :
آج ہم جس پر فتن دور سے گذر رہے ہیں اورجس معاشرے میں زندگی کی سانسیں لے رہے ہیں ،وہ فتنوں کی طغیانی اور عروج کا دور ہے ،ہر نئی صبح ایک نئے فتنہ کی خوش خبری دیتی ہے ۔ روزانہ مشرق کی وادی سے نکلنے والا سورج کسی فتنہ کا پیغام لے کر آتا ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک ایسا لا متناہی سمندر ہے ، جس کا کوئی کنارا نہیں۔ علمی وعملی فتنوںکاسیلاب ہے،جوکہ ہرسمت سے اُمڈاچلاآرہاہے اورکچھ سمجھ میںنہیںآتاکہ کہاں جا کررکے گا۔ ذرا تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں تواچھی طرح معلوم ہوجائے گاکہ مسیلمہ کذاب سے لے کر شکیلیت تک نہ جانے کتنے فتنہ پر ور ملعون اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اس عقیدے کوکم زور کرنے کے لیے حملہ آور ہوئے ،لیکن اپنے ناپاک مقصد میں ہمیشہ ناکام ہی ہوئے۔ جیسے خوارجیت ، سبائیت ، رافضیت ، دہریت ، شیعیت ، بریلویت ، سلفیت،پرویزیت ،اِشتراکیت، جدیدیت، مابعد جدیدیت،غامدیت اور قادیانیت ۔ اب پھر ایک نیا فتنہ خم ٹھونک کر میدان میں اترا ہے ’’شکیلیت ‘‘لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ہر دور میں علمائے اسلام اور فرزندانِ توحید نے اُن فتنہ پردازوں کی کمر ہی نہیں توڑی ؛ بل کہ اُن کے ارادوں اور سازشوں کی پول کھول کر امت مسلمہ کے ایمان کی حفاظت فرمائی ہے اورآئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔
ہمارے دورکاالمیہ:
موجودہ دورکاالمیہ یہ ہے کہ ہرطرف سے باطل برسرپیکار،کہیںعقائدِاسلامیہ پریلغار،کبھی احکام ِشرعیہ کاانکار،کوئی سننِ ہدیٰ سے بے زار، میڈیا؛رسائل واخبار،ہرایک کاکردار؛تعمیرکے نام پرتخریب کار،اہل مغرب کا آلۂ کار،ہویٰ وہوس کاشکار،دولت کاپرستار،جھوٹی شہرت کاطلب گارنظرآتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ اسلامی عقائد و اعمال کوفرسودہ ، موجودہ راہِ ترقی میںسب سے بڑی رکاوٹ اوردیوارِچین سمجھ کراسلام کے چراغ کوبجھانے اور حق کومٹانے کی ہر ممکن کوششیں کر رہاہے۔حالاںکہ قرآنی ارشادیہ ہے :{اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا }۔
حیرانی کی بات :
حیرانی اور پریشانی کی کہانی یہ ہے ہرکوئی اپنے آپ کو حق پر سمجھتاہے اور دوسروں پر تکفیر کی مشین گن چلاتا ہے ۔ ہر کوئی یہی نعرہ ٔ مستانہ بلند کرتا ہے کہ { اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ}کہ ہم ہی مصلح اعظم بن کرپیداہوئے ہیں اور باقی سب توویسے ہی ہیں۔جواُن کے ساتھ مل کرراگ الاپے،اُن کی ڈفلی بجائے وہ مسلمان اورجنت الفردوس کا حق دارہے۔اورجواُن کی نہ مانے وہ کافراورجہنم کا سزاوار ہے۔ہماری حالت تویہ ہے کہ ہم میں کا ہر ایک دوسرے کو کافرسمجھتاہے ،صرف ایک غیرمسلم ہی ہے،جو ہمیںمسلمان سمجھتاہے۔ اِسی لیے توہندستان کے پہلے وزیر تعلیم اور شہنشاہِ علم و دانش مولانا ابو الکلام آزادبن مولاناخیر الدین (و:۸؍ذی الحجہ ۱۳۰۵ھ مطابق ۱۷؍اگست ۱۸۸۸ء بروز : جمعہ / م:۲؍شعبان۱۳۷۷ھ مطابق۲۲؍فروری۱۹۵۸ء بروز:سنیچر)نے کہاتھا :کہ چودہ صدیوں میں ہم نے اِتنے مسلمان نہیں کیے جتنے اِس ایک صدی میں کافر بنادیے ہیں ۔
اب جوچاہے سو کر :
حالاں کہ ربِّ دوجہان ،خالقِ انس وجان کافرمان،قرآن کریم کااعلان یہ ہے :{ لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّ مِنْھَاجًا} ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت (قانونِ زندگی )اور ایک منہاج (قانونِ زندگی کے نفاذواِجراکا طریق کار )مقرر کر دیا ہے ۔
قربان جائیں رب کریم کی حکمت ومہربانی پر ،کہ انہوں نے اپنے ماننے والوں کے ساتھ ایسا معاملہ نہیں کیا کہ سب کو کھلی چھٹی مل جائے ۔ مکمل آزادی کے ساتھ جہاںچاہے منہ مارتاپھرے، چندٹکوںکے عوض دین وایمان کاسوداکرتا رہے، قبروں؛بل کہ ہردرپرسرجھکاتارہے،جو جیسے چاہے عمل کرے ،رب چاہی نہیں؛سب چاہی زندگی گذارتے ہوئے اِس دنیاسے رخصت ہو جائے ؛بل کہ سبھی کے لیے ایک قانونِ زندگی بنا کر اس کا پابند کردیااورفرمایا:{ وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَالْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ }۔
وجہ اِس کی یہ ہے:
کہ ہم نے {وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ }کی راہ چھوڑ کر صرف مادیات اور دنیا کی آسائش و زیبائش کوہی مقصد حیات سمجھ لیا ہے ۔ ’’نہ خوفِ خداہے نہ شرم پیمبر‘‘ اِس لیے نہ مرنے کا یقین ،نہ آخرت کا تصور،نہ حساب و کتاب کی فکر ؛بل کہ سارے نظام کا مرکز اور بھاگ دوڑ کا محور صرف پیٹ رہ گیا ہے اور بس۔اور اِس پر مستزاد؛یاکہہ لیجیے’’کریلانیم چڑھا‘‘ یہ ہے کہ جن حضرات کوبھی اللہ رب العزت نے’’ راسخین فی العلم‘‘ کے بلند مقام پر پہنچایا ہے اور اُن میں پیش آنے والے فتنوں کے دفاع کی صلاحیت اور اہلیت موجود ہے، وہ یا تو حالات کی نزاکت کے پیش نظر {اِنِّیْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا}پرعمل پیرا ہوکر چُپی کاروزہ رکھے ہوئے ہیں۔ یاپھر اُن کے وسائل اتنے محدود ہیں کہ اگر کچھ کرنا بھی چاہیں تو’’چاہ آسان نباہ مشکل‘‘کے تحت کچھ کر نہیں سکتے۔کسی کو کافر کہہ دینا جس قدر آسان معلوم ہوتاہے اتنا ہی بڑا یہ جرم بھی ہے، بل کہ مفتیان کرام نے لکھا ہے کہ ادنیٰ مسلمان کوبھی کافر کہنے والاخودکافرہوجاتاہے۔آئیے!اب یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کفر کی تعریف کیا ہے اور کفر کی اقسام کیا ہیں ؟
کفرکی تعریف:
حقیقت یہ ہے کہ جس طرح ایمان کی تعریف ہے کہ ’’تصدیق ماعلم مجئی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بہ ضرورۃً ‘‘یااس کاجواختصارکیاگیاہے ’’تصدیق ماثبت من الدین ضرورۃً‘‘تواسی طرح کفر کی بھی تعریف ہے کہ ’’انکار ماثبت من الدین ضرورۃً‘‘ یعنی دین کی جوبھی باتیںضرورۃً ثابت ہیں،ان کے انکارکوکفرکہاجائے گا۔
ضرورۃً کے معنی بداھۃً کے ہیں ۔بعض حضرات نے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ جو چیز بھی قرآن و سنت سے ثابت ہو اور وہ قطعی الثبوت بھی ہو اور قطعی الدلالۃ بھی ہو وہ ’’ضرورۃً‘‘ میں شامل ہے۔
قطعی الثبوت کے معنی:
قطعی الثبوت کے معنی یہ ہیں کہ وہ قرآن سے یا کسی حدیث متواتر سے ثابت ہو۔چاہے تو اتر جس طرح کا بھی ہو یعنی تواتر في الاسناد، تواتر في الطبقہ،تواتر في التعامل یا تواتر في القد ر المشترک ہو۔ یعنی چاروں میں سے جو بھی قسم تواتر کی یائی جائے گی تو اس حکم کو قطعی الثبوت کہیںگے۔
قطعی الدلالۃ کے معنی:
اور قطعی الدلالۃ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ قرآن کی جس آیت یا جس حدیث سے وہ مسئلہ نکل رہا ہے اس آیت یا حدیث کی دلالت اس مفہوم پر بالکل واضح اور یقینی ہو ۔یعنی اس میں کسی دوسرے معنی کا احتمال نہ ہو،بل کہ ایک ہی معنی کے لیے وہ متعین ہو اور احتمال سے مراد احتمال ناشی عن الدلیل ہے ۔مثلاً قرآن مجید میں {اَقِیْمُوا الصَّلوٰۃ}کا حکم دیا گیا ہے تو یہ قرآن کی آیت ہے ،لہٰذا قطعی الثبوت ہے اور اس میں کسی دوسرے معنی کا احتمال نہیں اور اس کی دلالت بھی واضح ہے کہ نماز قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔لہٰذا نماز کی فرضیت قطعی الثبوت بھی ہوئی اور قطعی الدلالۃ بھی ۔
بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ ’’ماثبت من الدین ضرورۃ ‘‘کے معنی یہ ہیں کہ جو چیز بھی قطعی الثبوت اور قطعی الدلالۃ ہو اُن میں سے کسی چیز کا انکار موجب کفر ہے ۔
بعض حضرات نے مزید اضافہ کیا اور کہا کہ ہر قطعی الثبوت یا ہر قطعی الدلالۃ چیز کا انکار موجب کفر نہیں ہوتا،بل کہ ان قطعیات کا انکار کرنا موجب کفر ہے کہ جن کے بارے میں ہر عام و خاص مسلمان کو معلوم ہو کہ یہ دین کا حصہ ہے۔پھر اگر وہ اس کا انکار کرتا ہے تو یہ کفر ہوگا ،لہٰذا اگر کوئی قطعی چیز ہے مگر لوگوں کو عام طور سے معلوم نہیں ہے تو اس صورت میں اس کا انکار کرنا موجب کفر نہیں ہوگا اگر چہ موجب فسق ہوگا۔
قول فیصل:
اس میں قول فیصل یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایسی چیز کا انکار کرتا ہے جو قطعی الثبوت اور قطعی الدلالۃ ہے ، لیکن عام طور سے لوگوں میں دین کا حصہ ہونے کی حیثیت سے مشہور نہیں ،تو اس کے اوپر فورا ًحکم بالکفر نہیں لگائیں گے ؛بل کہ اس کو متوجہ کیا جائے گا کہ آپ جس چیز کا انکار کر رہے ہیں وہ قطعی الثبوت اور قطعی الدلالۃ ہے اور اس کی قطعیت کے دلائل بھی اس کے سامنے پیش کئے جائیں گے۔اگر وہ مان لیتا ہے تو وہ مسلمان رہے گا ،لیکن اگر اس کو قطعیت کے بارے میں خبر دے کر د لائل بھی اس کے سامنے پیش کیے گئے اس کے باوجود وہ اپنے انکار پر مصر رہے تو پھر اس پر کفر کا حکم لگائیں گے ۔
یہ بھی یاد رہے کہ:
کسی شخص پر قطعی بات کے انکار کرنے سے کفر کا حکم بھی اس وقت لگائیں گے جب کہ اس شخص کی طرف سے انکار بھی قطعی طور پر ثابت ہو۔ لہٰذا اگر انکار قطعی طور پر ثابت نہ ہو تو اس پر کفر کا حکم نہیں لگائیں گے، مثلاً اس نے کوئی ایسامحتمل جملہ بولا جس میں احتمال ہے کہ اس سے’’ ما ثبت من الدین ضرورۃً ‘‘کے انکار کے معنی بھی ہو سکتے ہیں اور کوئی دوسرے معنی بھی ہو سکتے ہیں تو محض اس احتمال کی وجہ سے اس کے اوپر کفر کا حکم نہیں لگا یا جائے گا۔
نیز یہ بھی کہ:
ہم ظاہر کے مکلف ہیں کسی کے دل میں کیا ہے اس کے مکلف نہیں ہیں۔یعنی دنیا کے اعتبار سے اگر ایک شخص کسی بات کا اقرار کرتا ہے تو ہم اس کا دل چیر کر دیکھنے کے مکلف نہیں ہیں؛لہٰذا اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ میں عقیدہ کفر کا حامل نہیںہوںاور ہم کہہ دیں کہ تو ضرور عقیدۂ کفر کا حامل ہے اس لیے کہ تیرے دل میں ہے ۔تو اب تک ایسے کوئی مشین ایجاد نہیں ہوئی جو دل میں پیدا ہونے والے خیالات کو دیکھ سکے۔
لہٰذا محض اس شبہ کی بناپر کہ اس کے دل میں کفر ہے اس کے اوپر کفر کا حکم نہیں لگایا جائے گا،لیکن جب کوئی شخص ان سب چیزوں کو عبور کر جائے اور قطعی الثبوت و قطعی الدلالۃ اور ’’ما ثبت من الدین ضرورۃً‘‘ کا صریح لفظوں میں انکار کرنے لگ جائے اور پھر اس کا التزام بھی کھلم کھلا کرنے لگے تو پھر اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس کو کافر کہا جائے۔اور یہ کافر کہنا کوئی گالی نہیں ہے بل کہ ایک حقیقت کا اظہار ہے کہ اس نے کفر کی بات کہی ہے ، جس کی وجہ سے اس کو کافر کہا جا رہا ہے۔
علماکا فر بناتے نہیں ،بتاتے ہیں:
لوگ اکثر کہتے رہتے ہیں کہ’’علما لوگوں کو کافر بناتے رہتے ہیں‘‘۔
اس سلسلے میں حضرت حکیم الامت ؒ (و: ۵؍ ربیع الثانی ۱۲۸۰ھ ،بروز: بدھ / م: ۱۵؍ رجب المرجب ۱۳۶۲ھ مطابق ۱۹؍ جولائی ۱۹۴۳ء ، بروز: پیر ) فرماتے تھے کہ علما کافر بناتے نہیں بل کہ کافر بتاتے ہیں ۔یعنی کفر تو یہ لوگ خود کرتے ہیں ،البتہ علما اُس کی نشاندہی کرتے ہیں۔ جیسے ڈاکٹر کے پاس ایک مریض جائے اورڈاکٹر اسے چیک کرنے کے بعد بتائے کہ آپ کو کینسر ہے تو کوئی یہ نہیں کہے گا کہ اسے ڈاکٹر نے کینسر کر دیا ہے ،بل کہ ڈاکٹر نے توصرف کینسر کی نشاندہی کی ہے۔لہٰذا اِسی طرح یہ کہنا کہ علما کافر کرتے رہتے ہیں یہ بات صحیح نہیں ہے۔البتہ جو حقیقت میں اپنے اختیار و عمل سے کفر کی حد تک پہنچ جائے تو اس کو پھر کافر قرار دیا جاتا ہے۔
اور اگر یہ کیفیت نہ ہو تو پھر اس کے معنی یہ ہوں گے کہ دین اسلام اور کفر ایک دوسرے سے ملتبس ہیں۔ اور بندہ خدا کی توحید ،رسالت ،قرآن اور آخرت کا انکار کرتا رہے گا،لیکن وہ پھر بھی مسلمان کا مسلمان رہ جائے گا، حالاںکہ اس نے سب حدود پامال کردیے ہیںاور یہ ظاہر ہے کہ اسلام کی حقیقت یہ نہیں ہے کہ آدمی جو چاہے کہتا رہے اور کرتا رہے پھر بھی اس کا اسلام برقرار رہے۔(انعام الباری ازمفتی محمدتقی عثمانی:ج۱/ص۳۲۸)
کفرکی قسمیں: کفرکی دوقسمیںہیں: (۱)کفراعتقادی اور(۲)کفرعملی
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:{ ٰٓیاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تُطِیْعُوْافَرِیْقًامِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُواالْکِتٰبَ یَرُدُّوْکُمْ بَعْدَاِیْمَانِکُمْ کٰفِرِیْنَ }
ترجمہ: اے ایمان والو!اگرتم کہنامانوگے کسی فرقہ کاان لوگوںمیںسے جن کوکتاب دی گئی،یعنی اہل کتاب میںسے تووہ لوگ تم کوتمھارے ایمان لائے پیچھے اعتقاداً یاعملاً کافربنادیںگے۔
اثنائے ترجمہ میںتعمیم کفرکے لیے جواعتقاداًیاعملاً کہاگیااس کاحاصل یہ ہے کہ ایک معنی کفرکے تو متعارف ہیںاوروہ کفراعتقادی ہے ۔اورایک معنی یہ ہیںکہ اعتقاداًتومومن ہو،مگرکام کافروںجیساکرے ،اُس کو بھی مجازاً کفرکہہ دیتے ہیں۔کفرعملی سے یہی مرادہے ۔(بیان القران:ص۲۵۸)
اب دوردوسراہے:
لیکن آج معاملہ بالکل الگ ہے ،یہ دیکھنے اورسمجھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیںکرتے کہ جس پرکفرکی گولہ باری کی جارہی ہے،اُس کے عقائدواعمال کیسے ہیںاورکیاہیں؟اب توحال یہ ہے کہ کسی کی تحقیرسے دوہاتھ اوپراٹھ کر تکفیر کرنایاکفرکی مشین گن چلانابھی کوئی مشکل نہیںرہا۔ہمارے پیٹ کی ترقی،جھوٹی شہرت اورذاتی مفادکی راہ میں دیواربن کر کھڑ ا ہونے والاہرکوئی کافراورخارج ازاسلام ؛یعنی اُن کااسلام کوسلام ہے ۔ حالاں کہ اسلام کے اندر تکفیر کے بھی کچھ اصول اورضابطے ہیں جن کی رعایت کرناضروری ہے ۔ شریعت مطہرہ میںبے لگامی نہیں ہے۔توآئیے اب تکفیر کے چند اصول کا مطالعہ کرتے چلیں۔
تکفیرکے چنداہم اصول:
اصولِ تکفیرکے سلسلے میںہمارے معاشرے میںبڑی افراط وتفریط پائی جاتی ہے۔ ایک طرف بعض ایسے لوگ ہیںکہ جوذراذراسے اختلاف کی بناپردوسروںپرکفرکے فتوے لگادیتے ہیںاوریہ نہیںدیکھتے کہ تکفیر یعنی کسی کوکافرقراردینابہت ہی سنگین کام ہے ۔اوردوسرے بعض لوگ ،خاص طورپرجوجدیدتعلیم یافتہ طبقہ ہے وہ دوسری طرف انتہاپرچلے گئے ۔کہ کوئی شخص کتناہی کافرانہ عقائدرکھے ،اس کے باوجوداگروہ اپنے آپ کومسلمان کہتا ہے تویہ کہتے ہیںکہ اس کوکافرنہ کہو۔چناںچہ اُن کے نزدیک قادیانی بھی مسلمان ،منکرین حدیث بھی مسلمان اور آغاخانی بھی مسلمان ہیں۔اوریہ ان سب کومسلمان قراردینے کی کوشش کرتے ہیں۔جب کہ حق ان دونوں انتہاؤںکے درمیان ہے ۔(انعام الباری ازمفتی محمدتقی عثمانی:ج۱/ص۳۲۱)
اب اُن اصول کوہم حکیم الامت حضرت تھانویؒکی کتاب کے حوالہ سے یہاںنقل کررہے ہیں۔
ایک صاحب نے دریافت کیاکہ ایک مدعیٔ اسلام کی تکفیرکیسے ہوسکتی ہے؟کافر اور مسلمان ہونے کا آخر معیارکیاہے؟فرمایاکہ اصولِ ذیل اس امتیازکے لیے کارآمدہوںگے،جو بدلائل ثابت ہیں۔ (۱)حلول کاقائل ہوناکفرہے۔جیساکہ بعض لوگ سرآغاخاں کے اندرخدائی حلول کے قائل ہیں۔ لقولہ تعالیٰ{ لَقَدْکَفَرَالَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ ھُوَالْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَ }
(۲)جورسوم وعادات کفارکے ساتھ ایسی خصوصیت رکھتے ہوںکہ بہ منزلہ اُن کے شعارہو گئے ہوں۔ اگر عرفاً وہ شعارمذہبی سمجھے جاتے ہوںتووہ بھی کفرہیں۔اِسی اصل پرفقہانے شدّزُنارکوکفرفرمایاہے۔اسی طرح تصویر کی پرستش کرنایاکرشن،(یاسائی بابا) وغیرہ کی تصویرعبادت خانہ میںرکھنا،جوشعار کفارکاتھایابجائے بسم اللہ کے لفظ’’اوم‘‘ لکھناکہ یہ بھی ان کاشعارہے۔لقولہ تعالیٰ{ مَا جَعَلَ اللّٰہُ مِنْ م بَحِیْرَۃٍ وَّ لَاسَآئِبَۃٍ وَّ لَا وَصِیْلَۃٍ وَّلَاحَامٍ وَّلٰکِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ }۔
(۳)اگروہ رسوم وعاداتِ کفارشعارمذہبی نہ سمجھے جاتے ہوںتوتشبہ بالکفارہونے کے سبب معصیت و حرام ہیں۔جیسے دیوالی سے بہی کھاتہ کاحساب شروع کرنا،یامقتداؤں کولفظ ’’خداوند‘‘سے خطاب کرنا،یااُن سے دعا مانگنا ۔ جیساکہ آغاخانیوںکاطرزہے ۔لقولہ تعالیٰ{ وَلَا تَرْکَنُوْٓا اِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ}۔
(۴)عاداتِ مخصوصہ بالمسلمین دلیلِ اسلام ہیں،بشرطیکہ کوئی یقینی دلیل کفرکی نہ ہو۔ورنہ کفرہی کاحکم کیا جائے گا۔اوراسلام کی وجہِ واحدکوکفرکی وجوہ متعددہ پرترجیح اسی وقت ہے،جب کہ وہ وجوہ کفرمحتمل ہوںمتیقن نہ ہوں ۔ لقولہ صلی اللہ علیہ وسلم:’’من صلیٰ صلوٰتناواستقبل قبلتنا واکل ذبیحتنافذالک المسلم‘‘۔
(رواہ البخاری:ج۱/ص۵۶ )
ولقولہ تعالیٰ{ اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ یُّفَرِّقُوْا بَیْنَ اللّٰہِ وَرُسُلِہٖ وَ یَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّنَکْفُرُ بِبَعْضٍ وَّ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلاً اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ حَقًّا}
(۵)موجبات کفر کے ہوتے ہوئے محض دعویٰ اسلام و صلوٰۃ و استقبال بیت الحرام ؛ترتب احکام اسلام (مثلاً اس پر نماز جنازہ کا پڑھنا اور مقابر مسلمین میں دفن کرنا )کے لیے کافی نہیں جب تک کہ اُن موجبات سے تائب نہ ہو جاوے ۔لقول النبی صلی اللہ علیہ و سلم :آیۃ المنافق ثلث رواہ الشیخان زاد مسلم و ان صام و صلی و زعم انہ مسلم ۔
(۶)با وجود ثابت کفر کے اسلام ظاہر کرنے والوں کے ساتھ بنا بر مصالح اسلامیہ مسلمانوں کا برتائو کرنا مخصوص تھا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد مبارک کے ساتھ؛ اب وہ حکم باقی نہیں رہا۔عن حذیفۃ قال انما النفاق کان علی عھد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فاما الیوم فانما ھوالکفر والإیمان وفي اللمعات في شرح الحدیث ای حکمہ بعد م التعرض لأھلہ۔
والسترعلیھم کان علی عھدرسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لمصالح کانت مقتصراعلی ذالک الزمان۔ اما الیوم فلم یبق تلک المصالح فنحن ان علمنا انہ کافر سرا قتلنا ہ حتی یومن:بل کہ بعض احکام کے اعتبار سے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخیر عہد میں معاملہ کا لمسلمین میں تغیر ہو گیا ۔ چنا ں چہ آیت {وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓی اَحَدٍ مِّنْھُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ}مُصرِّح ہے ۔
(۷)جو کافر اصول اسلام کا بھی ُمقِر ہو،اس کے حکم بالاسلام کے لیے محض تلفظ بکلمتی الشہادہ کافی نہیں جب تک اپنی کفریات سے تبری کا اعلان نہ کر دے ۔کمافي رد المحتار أحکام المرتد تحت قول الدر المختارلأن التلفظ بھا صار علامۃ علی ا لإسلام مانصہ افاد قولہ صارإلی ان ما کان في زمن الإمام محمد تغیر، لانھم في زمنہ ما کانو ا یمتنعون عن النطق بھا فلم تکن علامۃ الإسلام فلذا شرط معھا التبری۔اما في زمن قاریٔ الھد ایۃ فقد صارت علامۃ الإسلام، لانہ لا یاتی بھا الالمسلم کمافي زمانناہٰذا۔(ج۶/ص۳۶۶)
(۸)جس شخص کا کفر ثابت ہو جائے اس کے اقوال و افعال محتملہ للکفروالاسلام میں تاویل کرنے سے اس کا کفر مانع نہ ہوگا۔مثلا دیوالی سے بہی کھاتہ کا شروع کرنا یا مقتدائوں کو لفظ ’’خدا وند ‘‘سے خطاب کرنا ،ان سے دعا مانگنا،ان کا صدور اگر مسلمان سے ہوتا تو اس میں تاویل کرکے مباح یا معصیت پر محمول کیا جاتا مگر جب اس کا صدور کا فر سے ہے تو تاویل کی ضرورت ہی نہیں ۔في مختصر المعانی بحث الإاسناد ما نصہ و قولنا في التعریف بتاویل یخرج نحو ما مر من قول الجاھل انبت الربیع البقل الخ و فیہ بحث وجوب القرینۃ اسناد المجازی ما نصہ عطف علی الإستحالۃ ای و کصد ور عن الموحد في مثل الشاب الصغیر۔پس کسی مصلحت دنیوی کے سبب کافر کو مسلمان کہنا اور اس کے ساتھ مسلمانوں کا سا معاملہ کرنا ہر گز مناسب نہیں کیوں کہ جب کفر یات کے ہوتے ہوئے کسی کو مسلمان کہا جائے گا تو ناواقف مسلمانوں کی نظر میں ان کفریات کا قبح خفیف ہو جاوے گا اور وہ آسانی سے ایسے گمراہوں کے شکار ہو سکیں گے تو کافروں کو اسلام میں داخل کہنے کا انجام یہ ہوگا کہ بہت سے مسلمان اسلام سے خارج ہو جاویں گے۔ کیا کوئی مصلحت اس مفسدہ کی مقاومت کر سکے گی۔چناں چہ ارشاد ہے {قُلْ فِیْھِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌوَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَاِثْمُھُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِھِمَا}(مسئلہ تکفیر از ص:۱۸۷تا ۱۹۰)
اصول وقواعدمنطبق کون کرے؟
اصول تکفیرکے سلسلے میںایک اہم بات یہ بھی یادرکھنی چاہیے کہ اصول وقواعدتوبیان کردیے جاتے ہیں، لیکن مسئلہ وہاںپیداہوتاہے،جب اُن اصول کوکسی جزوی صورت پرمنطبق کرنے کی نوبت آئے ۔یعنی اُس خاص جز پر کون سااصول منطبق ہوگا؟ مثلا ً :ہم نے کہا کہ اگر کوئی ایسے قطعی الثبوت اور قطعی الدلالۃ کا جو ہر خاص و عام کو جزو دین ہونے کے اعتبار سے معلوم ہے اس کا انکار کرتا ہے تو وہ کافر ہوگا۔
لیکن اگر ایک جز وی مسئلہ پیش آ جاتا ہے تو پہلا سوال یہ کہ قطعی الثبوت اور دوسرا یہ کہ قطعی الدلالہ ہے یا نہیں۔ یا اُس میں ایک سے زائد معنی کا احتمال ہے یا نہیں یا یہ ما ثبت من الدین ضرورۃ ًہے یا نہیں؟
اگر یہ دونوں باتیں ثابت ہو جائیں تو تیسری بات سب سے مشکل ہے کہ اس جزو کے بارے میں یہ معلوم کرنا کہ آیا یہ ایسے مشہور ہے کہ ہر خاص و عام اور ہر کس و ناکس کو اس کے بارے میں علم ہو؟
اِن مذکورہ باتوں کے فیصلوں میں بعض اوقات اختلاف ہو جاتے ہیں اور اختلافات کی وجہ تردد ہوتا ہے کہ ایک عالم کہتا ہے کہ یہ ماثبت من الدین ضرورۃ ًمیں داخل ہے اور دوسرا کہتا ہے کہ داخل نہیں ہے ۔یعنی فیصلہ کرنے میں تردد ہوا اور ترددکی وجہ سے اختلاف بھی ہو گیا۔
اختلاف کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ جس شخص کی طرف انکار ما ثبت من الدین ضرورۃً کی نسبت کی جا تی ہے تو سوال ہوتا ہے کہ اس کے کلا م سے واقعۃًانکار ما ثبت من الدین ضرورۃً ثابت ہو رہا ہے یا نہیں یا اس میں اور معنی کا بھی احتمال ہے ؟ اگر بالفرض انکار ثابت ہو رہے ہیں تو آیا لزوم ہے یا التزام ؟ یا وہ شخص جو تاویل کر رہا ہے وہ تواتر کے مخالف ہے یا نہیں؟لہٰذا سوال یہ ہوتا ہے کہ ایسے موقع پر جب یہ تردد یا اختلاف ہوتو کیا کیا جا ئے؟
اِس سلسلے میں ایک عام آدمی کا کام یہ ہے کہ اگر علما کے اندر کسی مسئلہ میں اختلاف پیدا ہو تو سیدھی بات یہ ہے کہ وہ علما میں سے جس کو زیادہ اعلم سمجھتا ہے اُس کے فتویٰ پر عمل کرلے تو اس کی ذمہ داری ختم ہو جائے گی۔
اوراگر علما کا کسی مسئلہ میں آپسی اختلاف ہو تو ان کا کام یہ ہے کہ جس جانب جس مفتی کا رجحان ہو گیا وہ اس پر عمل کرے اور دوسرے فقیہ پر جس کا رجحان دوسری طرف گیا ہے اس سے اختلاف تو کرے،لیکن ملامت نہیں۔ کیوں کہ اختلاف کرنا الگ اور ملامت کرنا الگ بات ہے ۔ملامت کرنا اس لیے جائز نہیں کہ وہ بھی کسی دلیل شرعی سے متمسک ہیں۔
اور اگر کسی کے دل میں رجحان ایک جانب نہ ہو بل کہ جانبین متساوی ہوں تو ایسی صورت میں وہ توقف کرے یعنی وہ نہ ایسے شخص کو مسلمان کہے اور نہ کافر ۔ البتہ چوں کہ مسلمان ہونے کایقین نہیں اِس لیے مناکحت وغیرہ سے پرہیز کرے اور اس کا ذبیحہ وغیرہ نہ کھائے۔اور کافر ہونے کا بھی یقین نہیں اس لیے کفر کا فتویٰ نہ لگائے اور ارتداد و زندقے کے احکام بھی جاری نہ کرے۔
آئیے ! دعا کریں :
اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا کریں کہ خداوند عالم ہم تمام کو اعتقادی کجی اور عملی بے راہ روی سے محفوظ رکھے اور صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھتے ہوئے حالتِ ایمان میں موت نصیب فرمائے اور ہر طرح کے شرورو فتن سے ہم تمام کی حفاظت فرمائے ۔آمین یا رب العالمین!
آج جو کفر سے مصروف ہیں سرگوشی میں
ہوش آئے گا اُنہیں موت کی بے ہوشی میں