مفتی عبد الغفور اشاعتی گوگانوی/استاذ جامعہ اکل کوا
محترم قارئین! آج کے اس پرفتن ا و رپر آشوب دور میں مسلمانوں کو تباہ و برباد ، نیست و نابود کرنے کی سازشیں ہورہی ہیں ۔ عالمی پیمانے پر مسلمانوں کے خلاف تحریکیں چلائی جارہی ہیں ۔ ہر ملک اور ہر خطہ میں مسلمانوں کے املاک کو نذر ِآتش کیا جارہا ہے،بہو بیٹیوں کی عصمت دری کی جارہی ہے، مسلمانوں کی عظمت و تقدس کو پامال کیا جارہاہے ، گویا مسلمان ہر طریقہ سے ظلم وبربریت کا شکار ہوچکا ہے۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر امت ِمسلمہ پراتنے برے ایام کیوں آرہے ہیں؟ اگر ہم اس کے اسباب وعلل پر غور کریں تو یہ بات روز ِروشن کی طرح عیاں ہوجائے گی کہ ہم نے اپنا ایک عظیم سرمایہ کھودیاہے۔ ہم سے اتحاد و اتفاق کی عظیم پونجی لٹ گئی ہے ؛ حالاں کہ ہم کومعلوم ہے کہ اتحاد و اتفاق ایک گراں قدر سرمایہ ہے ، جس نے عرب وعجم ، ایران و چین ، کالے اور گورے کی عصبیت کو ختم کردیا۔ اتحادِ ملت ایک عظیم اثاثہ ہے ،جس کے ہوتے ہوئے معاشرہ تباہ نہیں ہوسکتا۔ یہی وہ اتحاد ہے کہ جب ہم نے اسے گلے لگایا تھا اور افتراق وانتشار کی چنگاریاں شعلہ نہ بنی تھیں تو ہم پوری دنیا پر قابض تھے ، لیکن جب افتراق وانتشار کی چنگاریاں ہمارے اندر شعلہ بن کر بھڑکنے لگیں ، اتحاد ِملت ہم کو برا معلوم ہونے لگا ، بغض وعداوت کو ہم نے گلے لگایا تو ہمارا معاشرہ فتنہ وفساد سے دوچار ہونے لگا ۔ ہمار ا عزم واستقلال ختم ہوتا چلا گیا۔ کافروں کے دلوں سے ہمارا رعب و دبدبہ نکلتا چلاگیا۔ ہماری عزت وناموری ذلت وخواری میں بدلنے لگی اور رسوائی ہمارا مقدر بن کر رہ گئی
آبر و باقی تیری ملت کی جمعیت سے تھی
جب یہ جمعیت گئی دنیا میں رسوا تو ہوا
یاد رکھیں! کسی بھی قوم وملت کی کام یابی وکامرانی اس کے افراد کے باہمی اتحاد میں مضمر ہے۔ جس طرح پانی کا قطرہ قطرہ مل کر دریا بنتا ہے ، اسی طرح مسلم امہ کے متحد اورمجتمع ہونے سے ایسی اجتماعیت تشکیل پاتی ہے کہ جس پر نگاہ ڈالتے ہی دشمن وحشت زدہ ہوجاتا ہے اورکبھی بھی اس کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔قرآن ِمجید نے ہمیں اپنے زمانہٴ نزول سے ہی یہ راز سکھا دیا تھاکہ
﴿ترہبون بہ عدو اللہ وعدوکم ﴾۔
ترجمہ: ” تم اس (طاقت وصف بندی ) کے ذریعہ اپنے اور خدا کے دشمنوں کو خوف زدہ کرو۔ “
قرآن مجید کی دیگر متعدد آیات میں مسلمانوں کو متحد رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
﴿واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا ﴾۔(آل عمران:۱۰۲)
” اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔“
آیت ِمبارکہ میں فردِ واحد کے بجائے پوری امت سے خطاب ہے ۔ اعتصام بحبل اللہ؛ یعنی اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کے حکم پر اکتفا نہیں کیا ،بل کہ کہا ہے : ”جمیعا“ کہ سب مل کر خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھامیں۔ بالفاظ دیگر اس آیت ِکریمہ میں اتحاد ِامت کاحکم دیا اور تفرقہ سے بالکل منع کیاگیا۔
مفسرین کرام کے نزدیک ” حبل اللہ “ سے مراد کتاب وسنت ہیں۔ لہٰذا اتحاد واتفاق کی دو مضبوط بنیادیں موجودہیں۔ اللہ تعالیٰ کا پیغام اور اس کی تعلیم و ہدایت قرآن ِکریم کی شکل میں موجود ہے۔ اس میں انسان کے لیے زندگی گزارنے کا طریقہ بیان کیا گیا ہے، جس کی عملی شکل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ِگرامی کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے، اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ کتاب و سنت کی بنیادپر متحد ومتفق ہوں۔ آج اتحاد کی طاقت واہمیت کو تو ہر شخص محسوس کرتاہے اور باہمی نفرت وعداوت اور آپس کی پھوٹ کے نقصانات سے ہر فرد ِملت باخبر ہے، مگر باہم اتحاد اورمحبت ویگانگت پیدا ہونے کی بنیادی شرط کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھامنا اور دین سے پوری پوری وابستگی ہے ، جس کے لیے طبیعتیں آمادہ نہیں ہورہی ہیں
دامنِ دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں ؟
اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی
ایمان کو ترقی دینے اور وابستگی دینے والی بہت سی چیزیں ہیں۔ ان کی تفصیل کی یہاں گنجائش کہاں؟ بس اس کا خلاصہ یہ ہے کہ پوری زندگی ؛سرکے بال سے لے کر پیر کے ناخن تک اور صبح سے لے کر شام تک پورے چوبیس گھنٹے کی زندگی اللہ کے حکم کے مطابق اور نبی علیہ السلام کے طریقہ کے مطابق بن جائے۔
ایک جگہ اتحاد واتفاق کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے :
﴿انما المومنون اخوة فاصلحوا بین اخویکم واتقوا اللہ لعلکم ترحمون﴾۔ (حجرات:۱۰)
حقیقت تو یہ ہے کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں، اس لیے اپنے دو بھائیوں کے درمیان تعلقات اچھے بناوٴ اور اللہ سے ڈر و؛تاکہ تمہارے ساتھ رحمت کا معاملہ کیا جائے ۔
ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کا بھائی کہا ہے کہ جس طرح دو بھائی آپس میں مل جل کر رہتے ہیں ، ان کے درمیان پیارومحبت کا معاملہ رہتا ہے، ایک دوسرے کے معاون ومددگار ہوتے ہیں ، اسی طرح مسلمانوں کو آپس میں بھائی بھائی ہوکر متحد و متفق ہونا چاہیے۔
اتحاد و اتفاق کا یہ درس قرآن ِکریم نے دیا۔ اس کی مزید تفصیل کے لیے ایک نظر احادیث ِمبارکہ پر بھی ڈالتے ہیں؛ چناں چہ ایک حدیث میں اتحاد و اتفاق کی تعلیم دیتے ہوئے پوری ملت کو ایک جسم کی طرح قرار دیاہے۔
عن النعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : مثل الموٴمنین فی توادہم وتراحمہم وتعاطفہم مثل الجسد ، اذا اشتکی منہ عضو تداعی لہ سائر الجسد والحمی ۔ (متفق علیہ)
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” باہمی محبت وہمدردی اور مہربانی کرنے میں ایمان والوں کی مثال ایک جسم کی سی ہے۔ کہ جب اس کے کسی ایک عضو میں کوئی تکلیف ہوتی ہے ، تو سارا جسم بے خوابی اور بخار میں اس کا شریک ِحال رہتا ہے۔ “
اسی طرح مسلم شریف میں ارشاد نبوی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” تمام مومنین ایک ہی آدمی کی طرح ہیں کہ جب اس کی آنکھ بیمار ہوتی ہے تووہ سارا ہی بیمار اوربے چین رہتا ہے اور جب اس کا سر بیمار ہوتا ہے تو وہ سارا ہی بیمار اور بے کل رہتا ہے۔ “
جیسا کہ آدمی کے کسی ایک عضو میں تکلیف ہو تو پورا جسم بے چین رہتا ہے اوراگر تکلیف ذرا سخت ہوتو اس ایک عضو کی وجہ سے پورا جسم بخار میں تپنے لگتا ہے ۔ یہی ایمان والوں کی شان ہے کہ اللہ کے جتنے بندے اس کی ڈوری سے وابستہ ہوجائیں اور اس لڑی میں پرو دیے جائیں، ان کو ایک جان اور چند قالب ہو جانا چاہیے۔
ایک روایت میں ہے کہ امت ِمسلمہ ایک دیوار کی طرح ہے :
عن ابی موسی رضی اللہ عنہ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ”المومن للمومن کالبنیان یشد بعضہ بعضا وشبک بین اصابعہ ۔“( متفق علیہ )
حضرت موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں میں انگلیاں ڈال کر دکھاتے ہوئے فرمایا کہ ایک مومن دوسرے مومن کے لیے دیوار کی طرح ہے ، ان میں کا ایک دوسرے کو طاقت بخشتا ہے۔
جس طرح دیوار کی ایک اینٹ دوسری اینٹ کو طاقت دیتی ہے، اسی طرح ایک مومن دوسرے مومن کو مضبوط بناتا ہے ۔ اگر ایک مومن دوسرے مومن کو اپنی قوت نہ سمجھے اور اسے خدا نخواستہ ضائع ہونے دے تو وہ خود اپنی موت کا سامان کرتا ہے۔
ربط و ضبط ملت بیضا ہے مشرق کی نجات
ایشیا والے ہیں اس نکتے سے اب تک بے خبر
ایک حدیث میں ہے کہ ملی اخوت کی حفاظت ، نماز روزہ سے بھی بڑھ کر ہے ۔ حضرت ابو الدردا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میں تمہیں ایسا عمل نہ بتادوں جو روزوں، صدقہ وخیرات سے اور نماز سے بھی افضل ہے؟ وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا کیوں نہیں؟ ضرور ارشاد فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ عمل باہمی تعلقات کا سدھار ہے ۔ باہمی تعلقات کا بگاڑ مونڈدینے (صفایا کر دینے)والی چیز ہے۔
اور ایک روایت میں اس طرح ہے : حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمہارے اندر تم سے پہلی قوموں کی بیماری سرایت کر آئی ہے۔ حسد اور باہمی دشمنی یہ مونڈ دینے والی چیز ہے ۔ میں بالوں کی مونڈنے کی بات نہیں کررہا ہوں بل کہ یہ دین کو مونڈ دیتی ہے۔ (ترمذی)
دنیا جانتی ہے کہ نماز روزہ اسلام کے اہم ارکان اور اس کے بنیادی احکام میں سے ہیں؛ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے باہمی تعلقات کی دوستی کو ان ارکان ِاسلام سے بھی زیادہ اہمیت دے رہے ہیں اور خود اس کی وجہ بھی ارشاد فرمارہے ہیں کہ آپس کا بگاڑ انجام ِکار سارے دینی نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے۔ اور آپس کی دشمنی اور غیظ و غضب دین اور تمام دینی تقاضوں پر غالب آکر معاشرے کی ہرہر چیز کو اپنے تابع کرلیتی ہے۔
اسی طرح اتحاد واتفاق کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک قبیلہ کی دو جماعتوں میں صلح کرانے کی خاطر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں تاخیر کو گوارا فرمایا ؛جیساکہ بخاری ومسلم شریف میں قبیلہ بنی عمر بن عوف کے درمیان جب کچھ انتشار پیش آیا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے درمیان صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنائے ملت کو جن بنیادوں پر اٹھایا تھا، ان کی رو سے علاقائیت ، قومیت، برادریوں اور پارٹیوں کے تمام رشتے اور تمام اکائیاں تحلیل ہوکر ﴿ان ہذہ امتکم امة واحدة ﴾کی مقدس وحدت میں ضم ہوکر لازوال وجاوداں ہوگئیں اور تمام چھوٹی چھوٹی آب جویں اور چشمے؛ اخوتِ اسلامی کے سمندر میں شامل ہوکر خود ایک بحر ِبیکراں بن گئی تھیں۔
یہ ہندی ، وہ خراسانی ، یہ افغانی وہ تورانی
تواے شرمندہٴ ساحل اچھل کر بے کراں ہوجا
کس قدر حسرت و افسوس کا مقام ہے کہ جس دشمن کی تلوار میدان کارزار میں صدیوں تک ہمیں زیر نہ کرسکی ، آج اس کی مکاریوں نے ہمیں مات دے دی ۔ہمارے اتحاد کو پارہ پارہ کرکے کہیں مذاہب و مسالک اورمکاتب ِفکر کے اختلافات کو افتراق کا سامان بناکر منافرت کی دیوار یں کھڑی کرکے ہمیں ایک دوسرے کے مقابلے پرکھڑا کردیا گیا۔ کہیں عربی وعجمی اور قومی و ملکی خانوں میں بانٹ کر زمین کے چھوٹے چھوٹے ٹکروں پر حکمرانی کے کھلونے دے کر ہمیں کٹھ پتلی کا ناچ نچارکھا ہے اورہمارے بھائی دشمن کے ہتھیاروں سے خود اپنے ہی بھائیوں کا خون بہا رہے ہیں۔
محتر م قارئین کرام !ہمیں اتحاد و اتفاق کی جو تعلیم دی گئی ہے ، اس کے ہرگز یہ معنی نہیں کہ تمام مسلمان اپنی انفرادی رائے ، اعتقادات ومسلک سے دستبردار ہوجائیں؛ بل کہ اتحاد سے مراد مقصود یہ ہے کہ ہر شخص اپنے اعتقادات پر قائم رہتے ہوئے ان پرعمل کرے اور دوسروں کی رائے ودلیل کے حوالے سے احترام، وسعت قلبی اوررواداری کا اظہار کرے اور تعصب سے پرہیز کرے ؛کیوں کہ تعصب تنازع وتصادم کوجنم دیتا ہے ۔ جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور قرون ِاولیٰ کے مسلمان ؛باوجود اختلاف ِرائے ،احترام ِباہمی کا خیال رکھتے ہوئے اخوت ومحبت سے زندگی بسر کرتے رہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اختلاف وافتراق اورباہمی انتشار و بدامنی کی مذمت بیان کرتے ہوئے اسے بد ترین عذاب قرار دیا ہے۔
﴿قل ہو قادر علی ان یبعث علیکم عذابا من فوقکم او من تحت ارجلکم او یلبسکم شیعا ویذیق بعضکم بأس بعض انظر کیف نصرف الآیات لعلہم یفقہون﴾۔
ترجمہ: کہو کہ وہ اس بات پر پوری طرح قدرت رکھتا ہے کہ تم پر کوئی عذاب تمہارے اوپر سے بھیج دے یا تمہارے پاوٴں کے نیچے سے (نکال دے) یا تمہیں مختلف ٹولیوں میں بانٹ کر ایک دوسرے سے بھڑا دے اور ایک دوسرے کی طاقت کا مزہ چکھادے ۔دیکھو! ہم کس طرح مختلف طریقوں سے اپنی نشانیاں واضح کررہے ہیں؛ تاکہ یہ سمجھ سے کام لے لیں ۔ (انعام: ۶۵)
ابن اثیر نے کہاہے ”شِیَعاً“ سے مراد ہی امت اسلام کے درمیان تفرقہ بازی پھیلانا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے پیغمبر علیہ السلام کو ایسے لوگوں سے لاتعلقی کا حکم فرمایا جو آپس میں اختلاف ایجاد کرتے اور پھر اس پر اصرار کرتے ہیں۔﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ فَرَّقُوْا دِیْنَہُمْ وَکَانُوْا شِیَعًا لَّسْتَ مِنْھُمْ فِیْ شَیْْءٍ ط اِنَّمَآ اَمْرُھُمْ اِلَی اللّٰہِ ثُمَّ یُنَبِّئُھُمْ بِمَا کَانُوْا یَفْعَلُوْن ﴾ (انعام: ۱۵۹)
(اے پیغمبر! ) یقین جانو کہ جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ پیدا کیا ہے اور گروہ میں بٹ گئے ہیں ان سے تمہارا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ (انعام: ۱۵۹)
اختلاف وانتشار کو کم زوری و کم ہمتی کا سبب بتایا ہے ۔
﴿ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَتَذْھَبَ رِیْحُکُمْ﴾ (انفال:۴۶)
اور آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ تم کم زور ہوجاوٴگے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ (انفال:۴۶)
مندرجہ بالا آیات و روایات میں مسلمانوں کو پیغام دیا گیا ہے کہ خواب غفلت سے بیدار ہوں اور اپنے دین، اپنی تہذیب، اپنے اخلاق ، اپنے اصولِ معاشرت اور فی الجملہ اپنی انفرادیت ؛یعنی ملی وحدت کو محفوظ رکھیں۔ اور ہر طرح کی تفریقیں مٹاکر اپنے اندر ایک ملت ہونے کا احساس پیدا کریں۔ کیوں کہ آج دشمنان اسلام اپنے تمام تر وسائل و ذرائع کو بروئے کار لاکر ایسی تدبیریں ایجاد کررہے ہیں تاکہ وہ امت مسلمہ کا قومی تشخص ،تہذیب و تمدن اور انفرادیت وبصیرت اوران کے شعور چھین لیں۔
مسلکی اختلاف :
لیکن ان سب کے علاوہ ایک نوع فروعی واجتہادی اختلاف کی ہے۔ جیسا کہ مشہور فقہا ئے اربعہ امام ِمالک ، امامِ ابوحنیفہ ، امام ِشافعی اور امام ِاحمد بن حنبل رحمہم اللہ کی وہ علمی آرا؛ جو قرآن وسنت کے نصوص کی تفہیم اور احکام ِخداوندی کی تشریح میں منقول ہے، انہیں مسلک سے بھی تعبیر کیا جاتاہے۔یہ اختلاف ایسے ہی محمود ہے، جس طرح انبیا کی شریعتیں الگ الگ رہی ہیں۔
فروعی مسائل میں ہر مجتہد کی رائے مختلف ہوئی ہیں ، کسی کو باطل نہیں کہا جاسکتا ۔ اس قسم کا اختلاف امت کی آسانی کے لیے ہے۔ حضرت عمر بن عبد العزیز کا جملہ بہت ہی وقعت رکھتا ہے :
” مایسرنی لوان اصحاب محمد لم یختلفوا، لأنہم لولم یختلفوا لم تکن رخصة ۔
(جامع بیان العلم لابن عبدالعزیز : ۲/۷۸، بحوالہ ماہنامہ دارالعلوم فروری ۲۰۱۶ء)
مجھے اس بات سے مسرت نہ ہوتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے اختلاف نہ ہوتا ۔ اس لیے کہ ان میں اگر اختلاف نہ ہوتا تو گنجائش اور رخصت نہ رہتی ۔
حضرت امام مالک رحمہ اللہ سے خلیفہ وقت نے درخواست کی کہ آپ موٴطا کے متعدد نسخے تیار کردیں ، ہم اس کو سلطنت کے ہر شہرمیں بھیج کر سب کو شاہی فرمان کے ذریعہ اس پر متفق کردیں گے ۔مگر امام مالک اس کے لیے راضی نہیں ہوئے اور اس ارادے سے باز رہنے کی تلقین فرمائی اور فرمایا : لوگوں کے پاس مختلف حدیثیں پہنچی ہیں وہ ان روایات کے موافق عمل پیرا ہیں ۔بعد کے خلیفہ نے بھی اس قسم کا مشورہ دیا تو آپ نے پسند نہیں فرمایا؛کیوں کہ اس کی وجہ سے امت مصیبت میں مبتلا ہوسکتی تھی ۔ (مقدمہ اوجز المسالک:۱۰/۱۹)
صحابہٴ کرام سے لے کر علمائے امت تک؛ فروعی مسائل میں اختلاف رہا ہے ۔ پھر یہ مسلکی اختلاف اجتہادی مسائل میں حق وباطل کا اختلاف نہیں ، بل کہ صواب واحتمالِ خطاکا اختلاف ہے، جس میں صواب کے پہنچنے والا گو ایک ہی ہوگا ، مگر اجر و ثواب کے دونوں مستحق ہوتے ہیں ۔ اس کی صراحت ووضاحت حدیث میں بھی فرمائی گئی ہے ۔ اس لیے ایسا اختلاف کو مذموم نہیں، بل کہ محمود کہا جائے گا۔
موجودہ حالات میں مسلمانوں کا متحد ومتفق ہونا اور اختلاف و افتراق سے اپنے آپ کو بچانا ازحد ضروری ہے ۔ خصوصاً بھارت کے مسلمانوں کے لیے اتحاد واتفاق ناگزیر ہے۔ غور کیا جائے تو ہم مسلمانوں کے موجودہ حالات کئی اعتبار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی سے مشابہت رکھتے ہیں ۔ مکی زندگی میں مسلمان اقلیت میں تھے ، بھارت میں بھی مسلمان اقلیت میں ہیں۔ مکی زندگی میں مسلمانوں کو ظالم مشرکین کی مخالفت کا سامنا تھا،بھارت میں بھی مسلمانوں کو غالب مشرکین کی مخالفت کا سامنا ہے ۔ مکی زندگی میں مسلمان اسباب و سامان کے لحاظ سے کم زور تھے ، بھارتی مسلمان بھی غیروں کے مقابلے میں اسباب و معیشت میں کم زور ہیں ۔
غرض یہ کہ مجموعی طورپر بھارتی مسلمانوں کے حالات مکی دور کے عین مطابق ہیں ۔ اس لیے ہمیں دیکھنا چاہیے کہ مکی دورمیں نبی ٴکریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایجنڈا کیا تھا؟ مخالفت، ظالم اور اقلیت کی صورت ِحال میں آپ نے جو نظام العمل اپنایا تھا ، وہی نظام العمل بھارتی مسلمانوں کو کام یابیوں سے ہم کنار کرسکتاہے ۔ سیرت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی دورکا جائزہ لیں تو ہمیں پتا چلے گا کہ مکی زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت ، عبادت اور خدمت کا خاص طور پر اہتمام فرمانے کے ساتھ وحدت پر بھی زور دیا تھا ۔ مسلمانوں کو شیر وشکر کی طرح متحد رکھا تھا؛ کیوں کہ اتحاد بھی امت مسلمہ کی کام یابی وکامرانی کی اصل بنیاد ہے ۔ مکی زندگی میں مسلمان کم زور اور اسباب و وسائل سے محروم ضرور تھے ، لیکن ان میں آپسی اتحاد اور اجتماعیت ایسی تھی کہ ظالموں کے ہزار ظلم کے باوجود اُن کا شیرازہ منتشر نہ ہوسکا ۔ مکی زندگی کے تعلق سے کبھی نہیں سناگیا کہ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم میں اسلام اور دین کے تعلق سے بے اعتمادی یا انتشار پیدا ہوا ہو۔کوئی گروہ بھلے کتناہی کم زور ہواور اس کی تعداد خوا ہ کتنی ہی مختصر ہو؟ اگر اس میں اتحاد ہو تو وہ کبھی شکست نہیں کھا سکتا۔
موجودہ دور کے بھارتی مسلمان غیروں کے مقابلہ میں ۲۰/ فیصد ہیں اور ملک کی سب سے بڑی اقلیت کہلاتے ہیں۔ ملکی انتخابات میں وہ کسی پارٹی کو حکمراں بنانے کا موقف رکھتے ہیں ، لیکن ان کے آپسی انتشار نے انہیں بے وزن بنا کررکھ دیا ہے ۔ انتخابات کے موقع پر مسلم ووٹوں کی تقسیم ایک ایسی حقیقت ہے، جس کا اعتراف ہر شخص کو ہے ، لیکن اس کے باوجود امت ِمسلمہ متحد ہونے کو تیار نہیں ۔
بہر حال ! ابھی بھی وقت ہے کہ متحد ہوجائیں اور اجتماعی طور پر اتحاد ویکجہتی کا ثبوت پیش کریں ۔
ہے زندہ فقط وحدت افکار سے ملت
وحدت سے ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد
ملی اتحاد کے لیے ملت کے مختلف طبقات کے درمیان فاصلے گھٹانے اور ہر ایک کودوسرے سے قریب لانے کی ضرورت ہے ۔ منجملہ تدابیر میں سے ایک اہم تدبیر یہ بھی نظر آتی ہے کہ ملت کے ہر طبقے کے لوگ دوسرے طبقات سے معاشرتی تعلقات اور میل جول بڑھائیں ۔ مثال کے طورپر اگر ایک طبقے کا کوئی اہم شخص خدا نخواستہ بیمار ہوجائے تو دوسرے طبقے کے لوگ بالخصوص؛ ان کے نمایاں لوگ اس کی مزاج پرسی کریں، جو ایک شرعی اور معاشرتی حق ہے ۔ موت و میت اور خوشی وغمی میں ایک دوسرے کے شریک رہیں۔ اسی طرح ان تمام چیزوں سے پرہیز کریں، جس سے باہمی فاصلے بڑھ سکتے ہیں اور دلوں میں دور یاں پیدا ہوسکتی ہیں مثلاً :
۱- ایک دوسرے کے ساتھ غلط فہمیاں نہ پیدا ہونے دیں۔ ایسے ہر طرز ِعمل سے احتیاط کریں ،جس سے کسی کو غلط فہمی پیدا ہو سکتی ہے۔
۲- کسی کے متعلق کوئی بات سنے تو جب تک تحقیق نہ ہوجائے اس پر یقین نہ کریں ، ہمیں قرآن ِمجید نے اس کی تاکید فرمائی ہے۔
۳- کسی شخص کی غلطی کو بس اس کی ذات تک محدود سمجھا جائے۔
۴- ان تمام الفاظ والقاب واصلاحات ، ان تمام جملوں ، مقولوں اور لطیفوں سے اور ایسے طرز ِگفتگو اور طرز ِتحریر سے پرہیز کریں، جس سے کسی بھی بھائی یا کسی بھی طبقے کی توہین ہوتی ہو۔زبان و قلم کے مخفی تیر و نشتر اور ذوق ِتکلم کے وہ لطیف اشارے کنائے سے بچیں ،جن پر ظاہری شریعت گریباں گیر نہ ہوسکے۔
شریعت کیوں گریباں گیر ہو ذوق تکلم کی
چھپا جاتا ہوں اپنے دل کا مطلب اشارے میں
اور بھی بہت سی چیزیں ہیں ، جن سے احتیاط کرنے کی ضرورت ہے اور بہت سی چیزیں ہیں، جن کو برتنے کی ضرورت ہے ،ان میں سے اہم خوش خلقی بھی ہے ۔ ہر فرد ملت سے اچھے اخلاق سے پیش آنا چاہیے۔ اسی طرح کسی کو ہماری مدد کی ضرورت ہو یا کسی کو ہمارے سفارش کی ضرورت ہو یا ہماری تھوڑی سی توجہ سے کسی کا کوئی کام بنتا ہو تو اسلامی اخوت و ہمدردی کی خاطر اس کی مدد کریں ۔ ہر ایک کے ساتھ تواضع سے پیش آئیں۔
اخیرمیں حکیم الامت حضرت تھانوی علیہ الرحمہ کے ملفوظ پر اپنی خامہ فرسائی اور بے ربط سطور کو اختتام کے حوالے کرتاہوں:
حضرت فرماتے ہیں : ” اس گئی گزری حالت میں بھی مسلمانوں کے اندر اوروں سے زیادہ سلطنت کرنے کے صفات موجود ہیں ۔مثلاً :عدل وانصاف ترحم وغیرہ۔ مگر بس کمی یہ ہے کہ ان میں نظم نہیں اورنظم نہ ہونے کا سبب یہ ہے کہ ان میں اتفاق واتحاد نہیں۔ اور اتحاد و اتفاق کی جڑ میرے شیخ حاجی امدا داللہ مہاجر مکی رحمة اللہ علیہ نے عجیب فرمائی ،جس کی تمام عقلا کو بھی خبر نہیں۔فرماتے تھے کہ اتفاق کا جز تواضع ہے ۔ اگر ہر شخص دوسرے کو اپنے سے افضل سمجھنے لگے تو پھر نااتفاقی کی نوبت ہی نہ آوے؛ کیوں کہ نا اتفاقی تواس سے پیدا ہوتی ہے کہ ہر شخص اپنے کو دوسرے سے افضل سمجھتا ہے۔
اللہ رب العزت امت ِمسلمہ کو اتحاد و اتفاق جیسے قیمتی سرمایہ سے مالا مال فرما کر کھوئی ہوئی ملی اخوت وبھائی چارگی سے ہم کنارفرمائے۔ آمین!