(تیسری قسط:)
بقلم: محمد محسن گلزار
معلم تدریب المعلمین فی اصول الفقہ وعلوم الحدیث عند الحنفیہ وغیرھم من المحدثین نظراوتطبیقا،
لاہور پاکستان،سر پرست مجلس ارشاد المطالعة پاکستان۔بانی لیڈر ہاؤس پاکستان۔
سوال:۱۰- استاذ محترم! اب کسی چارٹ (نقشہ) کے ذریعے اصول کے اجزاء وارکان ،اس کے مخاطبین کو واضح فرمائیں؛ تاکہ اکٹھی جامع تصویر اصو ل الفقہ کی سطروں کے سامنے آجائے۔
جواب: اصول الفقہ اصول الشریعت ہے، اور شریعت ِاسلامیہ کے سامنے درج ذیل لوگ مخاطب ہیں:
شریعتِ اسلامیہ کے مخاطب:
۱۔ منکرین خدا ونبوت وشریعت۔(دہریے، کمیونسٹ)
۲۔ معترضین علی الاسلام۔
۳۔ محبین ومتبعین اسلام۔
پہلی دو کی دو قسمیں ہیں: ۱۔ الکفار مثل المستشرقین ۲۔ المرعوبین بالمستشرقین من المسلمین۔
ان کے لیے درج ذیل عنوانات پر کتب ملاحظہ فرمائیں:
۱۔علم الکلام القدیم۔
۲۔ اصول الغزوی الفکری الجدید۔ اصول الرد علی الالحاد الجدید۔
۳۔ مقاصد الشریعة۔
۴۔ اسرار الشریعة۔
۵۔ القواعد فی مقاصد الشریعة۔
محبین ومتبعین اسلام کی تین قسمیں ہیں:
۱۔عامة المسلمین۔
۲۔طلاب العلم الدینی۔
۳۔الفقیہ وعلماء الاسلام من المفسرین والمحدثین وغیرہم۔
ان تینوں کے لیے درج ذیل عنوانات پر کتب ملاحظہ فرمائیں:
۱۔ ادلة الاسلام یعنی نصوص الکتاب والسنة وشرحہا من الصحابة والتابعین۔
۲۔ القواعد الأصولیة۔
۳۔ القواعد الفقہیة۔
۴۔ الضوابط الفقہیة۔
۵۔ الفروق الفقہیة۔
۶۔ اصول الافتاء: (۱۔اصول الترجیح۲۔اصو ل التطبیق ۳۔اصول النسخ ۴۔القواعد العامة عند العمل بالحدیث والکتاب)
۷۔ المسائل الفقہیة:
اس کے تحت درج ذیل عنوانات ہیں:
۱۔ کتب الفتاوی۔
۲۔ مسلک التاصیل پر مرتب شدہ کتب فقہ جن میں پہلے اصول بعد میں جزئیات دیتے ہیں، جو فقہی ملکہ کی تکوین میں نہایت مدد گار ہیں۔ شرح الزیادات للقاضی خان خاص طور پر قابل ذکر ہے۔
۳۔ مسلک التاویل پر مرتب شدہ کتب جیسے: ہدایة، بنایة، فتح القدیر وغیرہ، ان میں پہلے مسئلہ اور اس کے بعد دلیل لاتے ہیں۔
آپ اصول فقہ کا اجراء کیسے کریں؟
سوال:۱۱- استاذ محترم! الحمد للہ اصول الفقہ کی بڑی تصویر تو اب آنکھوں کے سامنے آگئی ہے، کیا اس تصویر کے عین مطابق آپ سورة الفاتحة کا اجرا پیش فرما کر ممنون فرمائیں گے؛ تاکہ آئندہ کے لیے نقوشِ منزل عیاں اور سفر کے لیے زاد ومتاع آشکار ہوجائے؟
جواب: سب سے پہلے ہم ایک خطة الاجراء والتدریب بنالیں؛ تاکہ اس کی روشنی میں سورة الفاتحة کو حل کرسکیں۔
کسی بھی آیت وحدیث پر اصول الفقہ کا اجراء کیسے کریں؟
درج ذیل مراحل کو طے کرتے ہوئے ہم اجراء کریں گے:
۱۔ حل المفردات فی ضوء القواعد فی تفسیر النصوص من الخاص والعام والمشترک والمؤول وما توجد فیہا من القواعد الأصولیة(یعنی پہلی تین تقسیمات :
کتاب اللہ: ۱۔ خاص، عام، مشترک، مؤول ۲۔ ظاہر، نص، مفسر، محکم ۳۔ حقیقة، مجاز، صریح، کنایة)
۲۔ الأخذ والاستنباط فی ضوء الدلالات الأربعة للألفاظ علی معانیہا (یعنی عبارة النص، اشارة النص، دلالة النص، اقتضاء النص)
۳۔ تبیین المعانی فی ضوء أسالیب القرآن البلاغیة۔
۴۔ توضیح المعانی المکتسبة والمأخوذة فی ضوء القواعد الفقہیة الکلیة الرئیسیة۔
۵۔ الزیادة فی التوضیح فی ضوء الضوابط الفقہیة۔
۶۔ بیان تاثیر النصوص(الآیات والأحادیث) علی الانسان المؤمن فی تکوین الشخصیة الاسلامیة ذات خصال عشرة من الصفات الاسلامیة۔
۷۔ بیان تأثیر الشخصیة الاسلامیة فی تحصیل المقاصد العالیة واثباتہا علی الأرض وتزیینہا بہا۔
۸۔ بیان تأثیر المقاصد العالیة فی تحصیل مقاصد الانسان فی الحیاة الضروریة الستة لیقضی الحیاة بأحسن طریق وأجمل سلیقة۔
۹۔تبیین المعانی فی ضوء المبادئ العامة والقواعد فی المقاصد العامة للتشریع الاسلامی۔
۱۰۔ تبیین المعانی فی ضوء قواعد الترجیح بین المصالح۔
۱۱۔ تبیین المعانی فی ضوء أسرار الشریعة۔
۲۱۔ تبیین المعانی فی ضوء مناہج القرآن فی الجدل والمناظرة۔
۱۳۔ تبیین المعانی فی ضوء اصول الرد علی الالحاد الجدید والزندقة والدہریة الموجودة فی عصرنا ہذا مع الموازنة بین عمومات الشریعة الاسلامیة واصول الکفر الجدید وأقدارہ المکتوبة فی دستور الأقوام المتحدة۔
سورة الفاتحة سے اصول الفقہ کااجراء:
﴿الحمد للہ رب العالمین الرحمن الرحیم مالک یوم الدین ایاک نعبد وایاک نستعین اہدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم ولاالضالین﴾
۱۔ حل المفردات الأصولیة فی ضوء تقسیم کتاب اللہ الأول:
خاص، عام، مشترک، مؤول، مطلق، مقید، امر، نہی:
﴿اَلْحَمْدُ﴾: ایک معنی کے لیے وضع ہوا ہے، اس لیے خاص ہے، اور خاص کی معنوی اقسام میں سے خاص الجنس ہے، کیونکہ تعریفیں مختلف ذرائع سے، مختلف مقاصد کے لیے، مختلف انداز میں کی جاتی ہیں اور مطلق، مقید میں سے الحمد مطلق ہے جس کو لام تخصیص کے ساتھ رب العالمین کیلیے مقید کیاگیا ہے، اور الحمد پر الف لام استغراقی ہے جس کی وجہ سے یہ عام بھی ہے۔
﴿رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، اَلرَّحْمنِ، الرَّحِیْمِ، ملِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ﴾
﴿رَبِّ الْعَالَمِیْنَ﴾ میں رب خاص الفرد ہے۔
﴿الْعَالَمِیْنَ﴾ صیغة الجمع ہونے کی وجہ سے عام ہے۔ اور عام ہونے کی دوسری وجہ الف لام کا استغراقی صورت میں آنا ہے۔
﴿اَلرَّحْمنِ، الرَّحِیْمِ﴾ خاص الوصف ہیں۔
﴿ملِک﴾بھی خاص الوصف ہے۔
﴿ یَوْمِ الدِّیْنِ﴾ خاص العین، خاص الفرد ہے کیونکہ اس کے مزید افراد نہیں ہیں۔
﴿اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ﴾
﴿اِیَّاکَ﴾ ضمیر خاص الفرد ہے۔
﴿ نَعْبُدُ﴾ مصدری معنی عبادت کرنا خاص الوصف ہے ۔اور ”نَحْنُ“ ضمیر فاعل کے اعتبا ر سے عام ہے جو سب ایمان والوں کو شامل ہے، اور یہی صورت حال ایاک نستعین میں ہے۔ مطلق، مقید میں سے مطلق عبادت ہے جو ہر طرح کی عبادت کو شامل ہے، جس کو مقید کر دیا گیا ہے رب العالمین کی عبادت کے ساتھ اور یہی صورت حال ایاک نستعین میں ہے۔
﴿اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَO صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَاالضَّالِّیْنَ﴾
﴿اِہْدِ﴾ فعل خاص اور امر بمعنی دعا ہے۔
” نا“ ضمیرعام ہے۔
﴿الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم﴾ خاص الوصف اور مقید بالوصف ہے اور مقید بالاضافت ہے۔
﴿ الَّذِیْنَ ﴾ اسمائے مبہمة میں سے ہے، عام ہے نیز جمع کاصیغہ ہونے کی وجہ سے بھی عام ہے۔
﴿ اَنْعَمْتَ﴾ فعل انعام کرنا خاص الوصف ہے ۔اور مخاطب کی ضمیر خاص الفرد ہے۔
” علی“ حرف جار خاص ہے لانہ وضع لمعنی معلوم واحد۔
” ہم“ ضمیر عام ہے۔ مطلق، مقید میں سے مقید ہے منعم علیہ ہونے کے ساتھ۔ غیر خاص اور مقید بالاضافت ہے۔
﴿الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِم﴾ خاص الوصف ہیں اور جمع ہونے کی وجہ سے عام بھی ہیں۔
” واؤ“ یہاں جمع کے لیے ہے، خاص الفرد ہے۔
” لا“ نفی خاص الوصف ہے۔
﴿ اَلضَّالِّیْنَ﴾ صیغة الجمع ہونے کی وجہ سے عام ہے اور مصدر معنی کے اعتبار سے خاص ہے۔
۲۔الفاظ کے اپنے معنی میں ظاہر ہونے کے اعتبار سے ظاہر، نص، مفسر، محکم:
﴿الحمد للہ رب العالمین الرحمن الرحیم مالک یوم الدین ﴾
”تمام تعریفین اللہ رب العالمین کے لیے ہیں جو کہ قیامت کے دن کا مالک بھی ہے اور بہت مہربان نہایت رحم کرنے والا بھی ہے۔“
یہ معانی الفاظ سے متبادر الی الفہم ہیں اور عند سماع الکلام سمجھ میں آرہے ہیں۔ اس لیے یہ ظاہر ہیں۔
تعریفیں صرف اور صرف اس رب کی ذات کے ساتھ خاص ہیں جو تمام جہانوں کی پرورش میں مہربان ہونے میں، رحم کرنے میں، قیامت کے دن کا مالک ہونے میں وہ یکتا اور لاشریک ہے، اس معنی میں یہ نص ہے، کیونکہ یہ معانی بتلانا یہاں مقصود بھی ہے، اور تعریفوں کے مستحق وسزاوار ہونے کی تفسیر بھی یہاں رحمن، رحیم، مالک یوم الدین سے کردی گئی ہے، اس لیے یہ مفسر بھی ہے۔اور ان معانی پر اگر غور کریں تو یہ اخبار الہیہ بھی ہیں جن میں نسخ نہیں ہوتا اور ان کے معانی میں کوئی تاویل کی گنجائش نہیں ہوتی، اس لیے یہ محکم بھی ہے۔
﴿ایاک نعبد وایاک نستعین﴾
” ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔“
عبادت اور مدد مانگنا صرف اور صرف اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہے یہ اس معانی کو بیان کرنے میں نص ہے اور ضمیر کی تقدیم کے ساتھ مستحق عبادت ونصرت طلبی میں اللہ تعالی کو مفسر بھی کردیاہے اور یہ اللہ تعالی کی طرف سے تعلیم ہے اپنے بندے کے لیے اور اس میں جو معانی بیان ہورہے ہیں وہ نسخ کو قبول نہیں کریں گے اس لیے یہ محکم بھی ہے۔
﴿اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَO صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَاالضَّالِّیْنَ﴾
طلب ہدایت اور ہدایت بھی ایسے سیدھے راستے کی جس پرانعام یافتہ لوگ چلے ہوں۔
ان معانی میں یہ نص ہے۔
﴿الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ﴾کی ایجابی اور سلبی دونوں صورتوں کو بیان کرکے اس کو مفسر بنادیا گیاہے، یعنی انعام یافتہ لوگوں کاراستہ نہ کہ ان لوگوں کا راستہ جن پر تیرا غضب اور لعنت ہوئی اور وہ نہ گمراہ لوگوں کاراستہ۔اور یہ ہدایت ربّانی کے آئینہ میں تعلیم دعا ہے، جس میں نسخ نہیں ہوسکتا اس لیے یہ محکم بھی ہے، اور یہ تمام معانی عند السماع متبادر الی الفہم ہیں اس لیے ظاہر بھی ہیں۔
۳۔ الفاظ کے اپنے معانی میں استعمال کے اعتبار سے حقیقت، مجاز، صریح،کنایة:
الحمد حقیقت مجاز میں سے حقیقت ہے، صریح کنایة میں سے صریح ہے۔
رب العالمین، الرحمن،الرحیم، مالک یوم الدین تمام حقیقت اور صریح ہیں۔
ایاک نعبد وایاک نستعین میں تمام الفاظ حقیقت اور صریح ہیں۔
اہدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم ولاالضالین میں بھی تمام الفاظ حقیقت اور صریح کی قبیل سے ہیں۔
۴۔ الفاظ سے معانی مستنبط کرنے کے اعتبار سے:
عبارة النص، اشارة النص، دلالت النص، اقتضاء النص:
عبارة النص، اشارة النص وغیرہ کے ماتحت معانی کی تخریج کی طرف بڑھنے سے پہلے ہم اگر غور کریں تو واضح ہوگا کہ جیسا بلاغت کے اعتبار سے الفاظ اور ان کے معانی اور ان کے مواقع استعمال میں بہت گہری مناسبت ہوتی ہے، اور یہ گہری مناسبت کلام کے عالی وبلیغ ہونے کاپتہ دیتی ہے؛ ایسے ہی اصول الفقہ کے اندر علم الدلالات، قواعد تفسیر النصوص، الالفاظ الأصولیة من الخاص والعام والمشترک والمؤول والظاہر والنص۔۔۔۔الخ بھی اپنے موضوعات کے عین مطابق وموافق استعمال ہوتے ہیں۔
جیسے: آپ سورة الفاتحہ میں کتاب اللہ کی تین تقسیمات کے ماتحت آنے والی اصطلاحات کے تجزیہ سے سمجھ سکتے ہیں کہ جہاں معنی موضوع لہ متعین اور غیر متردد فیہ ہے،وہاں پہلی تقسیم میں سے خاص دوسری تقسیم میں سے مفسرومحکم اور تیسری تقسیم میں سے حقیقت وصریح کو استعمال کیا ہے؛ البتہ استیعاب کے لیے عام کو لایا گیا ہے، جو کہ عبارت میں ظاہر اور نص کا کردار بھی ادا کررہا ہے، جیسے الحمد کا تمام تعریفوں کا احاطہ کرکے رب العالمین کے لیے خاص ہوجانا الف لام استغراقی کی وجہ سے ظاہر اور اس مقصد میں نص ہے۔
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ تمام مصطلحات تمام تقسیمات میں سے متعین، غیر متردد، غیر مؤول کیوں چنی گئی ہیں، کیونکہ موضوع عقائد، شعار مسلم، منہج شریعت، اصول اسلام ہے، جس کے اندر مفسّر ومحکم،حقیقت وصریح انداز قرین قیاس ہے، ایسے ہی مشترک ومؤول کی بجائے خاص وعام آنا بر محل ہے۔
کیونکہ سورة الفاتحة ام الکتاب ہے، خلاصة الکتاب ہے، مقدمة الکتاب ہے، دیباچہء قرآن ہے، اس لیے اس میں نسخ وتاویل وتخصیص کے لیے مجال نہیں ہے، اس لیے ایسی اصطلاحات جن کے حکم کے اندر تاویل وتخصیص، نسخ وتأخر کی گنجائش ہوتی ہے، ان کااستعمال جزوی احکام کے اندر کیا جاتا ہے، جو اپنے اندر مجالِ اجتہاد رکھتے ہیں۔
اور سورة الفاتحة میں محکمات کابیان ہورہا ہے اور محکمات، اساسیات، اصول، شعار کابیان بھی قطعی الدلالة والثبوت وحکم والی اصطلاحات کے ساتھ ہوگا اور ایسا ہونا کلام کے اندر فطری وبدیہی امر ہے۔
اس بات سے آپ یہ سمجھ لیں کہ جب بھی عقائد ِاسلامیہ، اخلاق ِاسلامیہ، اصول واساسیات ِاسلامیہ پر بات ہوگی، تو و ہ اصطلاحاتِ اصولیہ استعمال ہوں گی، جن کاثمرہ وحکم قطعی الدلالة ہوگا، جیسے خاص، عام، حقیقت، صریح، مفسر، محکم، نص، عبارة النص، اشارة النص، اور دینی احکام کے اندر جب بہت ہی اساسی احکام وارکان کا بیان ہوگا؛ جیسے مقادیر زکوة ومیراث، مناسک وارکانِ حج، مقادیر حدود وقصاص، تب بھی وہی اصطلاحات اصولیہ استعمال ہوں گی، جن کا حکم وثمرہ قطعی الدلالة اور عملا واجب وفرض ہوگا، اور جب جزوی احکام بیا ن ہوں گے تو جہاں رفع الحرج، تقدیم الیسر والسماحة مقصود ہوگی وہاں مشترک، مجاز، کنایة، عام مخصوص عنہ البعض، دلالة النص، خفی، مشکل،مجمل،ظاہر جیسے اصطلاحات استعمال ہوں گی، جہاں تأویل وتخصیص اور مجال اجتہاد اور اختلاف کے لیے راہ کھلی ہوگی۔
(جاری……)