آئیں اصول الفقہ کے ہمراہ آپ کو قرآن کریم کے دربار میں لے چلیں!

(پہلی قسط:)

بقلم: محمد محسن گلزار

معلم تدریب المعلمین فی اصول الفقہ وعلوم الحدیث عند الحنفیہ وغیرھم من المحدثین نظراوتطبیقا،

 لاہور پاکستان،سر پرست مجلس ارشاد المطالعة پاکستان۔بانی لیڈر ہاؤس پاکستان۔

حامداً و مصلیا!

                صبح کا وقت تھا، سورج کی کرنیں آنکھوں میں بھلی لگ رہیں تھیں!میں گھر کے قریب ہی ایک باغ میں ٹہل رہا تھا، پرندوں کی دھیمی دھیمی آواز میں تسبیح و تقدیس باری تعالیٰ دل کو چھو رہی تھی، پھولوں کی پنکھڑیوں پر شبنم کے قطروں کی مسکراہٹ آنکھوں کو اپنی اوڑ میں کھینچی چلی جارہی تھی!

                اس منظر کو دیکھ کر میں بھی ذکر الٰہی میں محو تھا۔اچانک مجھے ایک شخص دکھائی دیتا ہے،جو میری طرف قدم اُٹھاتا چلا آرہا ہے، جب قریب آیا تو دیکھا یہ تو مولانا فیضان عزیز صاحب ہیں،جو کل ہی گاؤں اپنے تعلیمی سفر (درس نظامی)کی تکمیل کے بعد لوٹے تھے۔

                وہ باغ میں داخل ہوئے،سلام کیااور میرے ہمراہ ٹہلنے لگے، میری استفسار بھری نگاہوں کے جواب میں گویا ہوئے، حضرت رمضان المبارک کی آمد آمد ہے، درس ِنظامی سے رسمی فراغت کے بعد میں چاہتا ہوں کہ مجھے اس بات کی راہنمائی ہو جائے کہ میں قرآن ِمجید میں کس نہج پر غور کروں، کن اہداف کو سامنے رکھ کر مطالعہ کروں، وہ کیا قواعد و ضوابط، اساسیات و کلیات ہیں، جن کی روشنی میں بندہ قرآن مجید سے ان تمام سوالات کا جواب پائے، جو روئے زمین پر بسنے والے لوگوں کے تین طبقات:

                1-: منکرین خدا و مذھب۔2-: معترضین علی الاسلام۔3-: محبین اسلام۔

                کی طرف سے ہر عالم دین کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، یقینی طور پر قرآن ِمجید اللہ تعالیٰ کی وہ کتاب ہے، جس میں اپنی شرحِ اول احادیث مبارکہ

                شرح ثانی آثار و اقوال صحابہ کرام و تابعین عظام

                شرح ثالث فتاویٰ آئمہ مجتہدین متبوعین کے ساتھ تا قیامت آنے والے ان تمام سوالات جو

                1- علی سبیل الاسترشاد۔

                2- علی سبیل الطعن و الاعتراض والافترائات۔

                3- علی سبیل الجحود و الکفر والانکار۔

                 وارد ہوئے،ہورہے ہیں، ہوں گے،سب کا جواب رکھتی ہے!مولانا صاحب!کیا آپ مجھے کوئی راستہ ایسا بتلا سکتے ہیں! جو مجھے ان سوالات کے جوابات کی کھوج میں قرآن مجید کے وسیع وعریض، حسین و جمیل گلشن رشد و ہدایت میں داخل کروا کر ہر ہر آیت میں موجود نسیم ہدایت کے جھونکوں سے سر شار کر سکے!؟اور انسانی شخصیت جس کی روئے زمین پر تین صورتیں پائی جاتی ہیں:منکرین خدا و مذھب اسلام۔معترضین علی الاسلام۔محبین اسلام۔ان تینوں کے لیے،ان کی رشد و ہدایت کا سامان بھی قرآن مجید سے اخذ کیا جا سکے!؟وہ مسلسل بولتا جارہا تھا،اور میں اس کے اس استفسار و اضطراب کے حسین سنگم پر حیران بھی تھا،حیرانگی سے زیادہ شادمانی اور فرحت و سرور کے جذبات مجھ پر طاری ہو ئے جا رہے تھے!کہ ابھی کل تو یہ مدرسے سے فراغت کی سند حاصل کرنے کے بعد گھر لوٹا ہے، اسے نہ شادی کی فکر ہے! نہ کسی کاروبار کی، اسے معلوم تھا کہ مختلف مدارس و جامعات،مکاتب ومساجد کے اصحابِ حل و عقد مجھ سے مسلسل رابطے میں رہا کرتے ہیں کہ حضرت صاحب! کوئی مدرس بہترین سا عنایت فرمائیں،کوئی آپکی نظر میں خطاب پر دسترس رکھنے والا فاضل ہو تو ہمارے پاس بھیج دیں، والدین مجھے اپنی بچیوں کے مناسب رشتوں کے لیے آئے روز تنگ کرتے رہتے ہیں!

                لیکن یہ کیسا فاضل ہو کر آیا ہے!؟جو کسی تدریس، خطابت،امامت، شادی بیاہ،کاروبار سے مستغنی و لاپرواہ ہو کر زمین پر موجود تمام افراد کے تمام طبقات کی رشد و ہدایت کے لئے بے چین ہے!اور اس کے لیے قرآن مجید سے دوستی، اس تک رسائی، اس سے اخذ و استنباط کرنے کے اسالیب و قواعد کی فکر میں سرگرداں ہے!

                میں نے پوچھا آپ کس مدرسے کے فاضل ہیں؟ وہ گویا ہوا، میں جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا مہاراشٹر کا فاضل ہوں!

                میں نے کہا یہ عالمی فکر و نظر، تمام انسانوں کے درد کا درماں، قرآن مجید کی طرف رجوع، فراغت کے بعد پہلے دن سے ہی جہد مسلسل کا جنوں، آنکھوں میں عجیب نورانی چمک،سینے میں سارے جہاں کا درد!

آخر یہ ماجرا کیا ہے!؟ وہ گویا ہوا کہ یہ سب اساتذہ ٴکرام کی محبت و شفقت،محنت و تربیت کا مبارک ثمر ہے۔میں ان کی گفتگو اور برجستگی اور رائے صائب سے بڑا متاثر ہوا!

                میں نے دل میں سوچا کہ یہ وہی متاعِ عزیز ہے جو میں فضلائے کرام کے جذبات واحساسات کے گلشن میں بڑے عرصے سے تلاش کر رہا تھا!لیکن کبھی کبھی کسی طرف سے کوئی دھیمی دھیمی خوشبو آکر مسام جاں کو معطر کرتی تھی اور تشنگی کی حالت و کیفیت سے دوچار چھوڑ کر اچانک سے غائب ہو جاتی تھی!لیکن اس کو دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ تو خود خوشبوؤں،نورانی خیالات کے رنگ و نور سے معمور مجسم اک گلستاں ہے!

                میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں اپنے زندگی بھر کی محنت و مشقت اور غور وفکر کی کمائی سے حاصل فہم و فراست دینی،حمیت اسلامی، فنی وعلمی رسوخ کے غنائم اس کے سپرد کر کے سکھ کی نیند سو سکتا ہوں، جس کے بعد آنکھوں کے سامنے دوسرے جہاں کا منظر پیش نظر آئے!اب میں نے کہا کہ اے دل و دماغ، فکر و نظر، علم و فضل کی میری سلطنت مبارک ہو!میرے بعد تیرا حقیقی تخت نشین آگیا ہے، میں تجھے محفوظ و مامون،قابل و قدر دان ہاتھوں سونپ کر رخصت چاہتا ہوں!

                آپ کے سامنے پہلے ہم اصول الفقہ الاسلامی کی جامع تصویر(Big Picture)پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں،اس کے بعد صرف سورة الفاتحہ کے اندر سے سارے جہاں کا علاج پیش کریں گے اور یہ سب اصول الفقہ کے تناظر میں ہوگا!

                میں نے مولانا فیضان عزیز کو جواب دیا تو وہ تصویر جاناں کے دیدار کے لیے تڑپ اٹھا!جیسے کتنی ہی راتیں اس نے آنکھوں میں کاٹیں تھیں!اور گویا ہوا حضرت ارشاد!

علم اصول الفقہ ایک جامع تصویر :

                اصول الفقہ اصول الدین، اصول الشریعت ہے جو شریعت کی حدود کا نگہبان بھی ہے اور قیامت تک آنے والی تمام جہات اور گوشوں کا حل پیش کرنے کے لیے اپنے مستحکم اور آفاقی اصول رکھتا ہے۔

                علم اصول الفقہ ایک ایسی کُلّی ہے، جس کی تکمیل وتکوین میں تمام علوم اسلامیہ اور عرفیہ وعقلیہ بطور اجزاء وارکان کے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

عناصرِ تکوین اصول الفقہ:

                سوال:۱- حضرت استاذ محترم! اصول الفقہ کیلیے عناصرِ تکوین کیا ہیں؟

                جواب:- عناصرِ تکوین اصول الفقہ درج ذیل ہیں:

                ۱۔نصوص شرعیہ مع شرحہا (آیات واحادیث اور ان کی توضیح وتشریح میں سیرة طیبہ اور حیاة الصحابہ کے ساتھ ساتھ ان کے فتاوی و آراء علمیہ اور ان کی فہم سلیمہ۔

                ۲۔علوم عربیہ۔…۳۔علوم عقلیہ وعرفیہ۔…۴۔علوم اسلامیہ۔

پھرعلوم عربیہ درج ذیل ہیں:

                ۱۔الصرف والنحو۔۲۔علم اللغة۔۳۔علم البلاغة والنقد الادبی۔۴۔الذوق والعرف والأدب العربی۔

اورعلوم عقلیہ وعرفیہ درج ذیل ہیں:

                ۱۔المنطق والعرف والعقل۔۲۔العرف۔۳۔العقل السلیم۔

اورعلوم اسلامیہ درج ذیل ہیں:

                ۱۔ مقاصد الشریعة وأسرارھا۔

                ۲۔ قواعد الشریعة المأخوذة من الآیات والأحادیث واجماع الصحابة والتابعین۔

                ۳۔ القواعد الأصولیة۔

                ۴۔ اصول التفسیر وعلوم القرآن۔

                ۵۔ أصول الحدیث وعلومہ۔

پھر ان میں القواعد الاصولیہ درج ذیل ہیں:

                ۱۔ القواعد الأصولیة المأخوذة من اللغة والأدب العربی۔

                ۲۔ القواعد الأصولیة المأخوذة من العقل والعرف والمنطق المہذّبة فی ضوء الاسلام۔

                ۳۔ القواعد الأصولیة المأخوذة من مزاج الفقہ الاسلامی وروحہ۔

                سوال:۲- آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ وتابعین کے سامنے اصول الفقہ کی ماقبل التدوین (کتابوں کے مرتب ہونے سے پہلے) کیا صورت تھی؟

                جواب:- اصول الفقہ کی ابتدائی صورت

                آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال پُر ملال کے بعد صحابہ وتابعین اور ان کے شاگردوں بالخصوص ائمہ متبوعین کے سامنے نئے پیش آمدہ مسائل کے حل کے لیے اورسابقہ مسلّمات فقہیہ وشرعیہ کا گہرا ادراک حاصل کرنے کے لیے القواعد الأصولیة یہی تھے جو ماخوذ تھے:

                 ۱۔ قرآن وحدیث۔

                 ۲۔ اجماعات وآراء الصحابة وشرحہم للقرآن والسنة۔

                ۳۔ العرف والعقل السلیم۔

                ۴۔ اللغة والأدب العربی۔

                سوال:۳- امام ابوحنیفہ وامام مالک اور ان کے مشائخ فقہاء کرام نے وہ القواعد الاصولیة کہاں سے لیے تھے؟ جبکہ اس وقت کتاب تو اصول الفقہ میں مدوّن نہیں ہوئی تھیں۔

                جواب:- ائمہ کرام نے ان اصولوں کو اپنے صحابہ وتابعین اساتذہ ٴکرام کے انداز ِاستنباط سے سمجھا، ان سے اسباق وحلقاتِ دروس میں بالمشافہ سنا، اور اکثر کو سابقہ میراثِ اسلام(جو کہ قرآن وحدیث اور صحابہ کرام کی احادیث وآیات کے تناظر میں تشریحاتی آراء اور عملی طور پر اجماع وفتاوی جات کی شکل میں موجود تھی) میں غور وفکر کرکے خود پہلے اخذو استنباط کیا اور پھر ان کو اپنے اجتہاد کے دوران استعمال کرتے ہوئے مسائل ِفقہیہ کا ذخیرہ پیش فرمایا۔

                سوال:۴- ائمہ اربعہ کا زمانہ جو کہ پہلی دو صدی ہجری اور تیسری صدی ہجری کے اوائل پر مشتمل ہے اس میں اصول الفقہ کی صورتحال کا خلاصہ کیا ہے؟

                جواب: پہلی چیز: الکتاب والسنة کے نصوص اور ان کی تشریحات علمیہ وعملیہ از صحابہ وتابعین کبار

                دوسری چیز: القواعد الاصولیة:

                ۱۔ القواعد الأصولیة اللغویة

                ۲۔ القواعد الأصولیة الشرعیة

                ۳۔ القواعد الأصولیة البلاغة والأدبیة

                ۴۔ القواعد الأصولیة المنہجیة العرفیة العقلیة

                یہ قواعد اصولیة مجتہدین متبوعین نے کتاب وسنت میں غور کرکے، اساتذہ کے اسباق سے سُن کر حاصل کیے تھے، جن کی روشنی میں وہ الکتاب والسنة سے اخذو استنباط کیا کرتے تھے۔

پہلی دو چیزوں کے نتیجہ میں تیسری حاصل شدہ چیز:

                المسائل الفقہیة؛جن کو القواعد الأصولیة کی مدد سے مجتہدین نے اخذ کیا تھا، جیسے امام محمد بن الحسن شیبانی رحمہ اللہ کی ظاہر الروایات کتبِ ستة:

                ۱۔ الجامع الصغیر۔۲۔ الجامع الکبیر۔۳۔ الأصل (المبسوط)۔۴۔ السیر الصغیر۔۵۔ السیر الکبیر۔۶۔ الزیادات۔

                سوال:۵- استاذ محترم! موجودہ فقہ واصولی میراث کو ایک نگاہ رُک کر دیکھنے سے اور جی بھر کر سوچنے سے تو اس زمانہ میں اصول الفقہ کی یہی صورت دکھائی دیتی ہے! کیا اصولی رسائل، تحریرات بالکل بھی نہیں تھے؟؟؟!!!

                میرا مطلب اس کے دوران اور بعد میں اصول الفقہ کا کیا بنا؟ آیا کچھ کتابیں بھی مدوّن ہوئیں؟ یا فقاہت کا زاد ومتاع سینوں اور أذہان اور حلقات الدروس میں ہی محوِ گردش تھا؟

                جواب: جی بالکل! کچھ تحریریں، چھوٹے موٹے رسائل وکتب تو پہلی دو صدیوں میں صحابہ وتابعین کرام رضوان اللہ تعالی علیہم ا جمعین کے زمانہ میں متداول تھے، جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اپنے گورنر حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کو اصولی خط، ایسے ہی کچھ آیات واحادیث جن کا متن بذاتِ خود قواعد اصولیة وفقہیہ کی صورت اختیار کیے ہوئے تھا، ایسے ہی امام محمد رحمہ اللہ نے کتاب القیاس، کتاب الاستحسان اور ان سے ملتے جلتے عناوین پر چند تحریریں رقم کی تھیں، جن کی تصریح ان کے شاگرد عیسی بن ابان رحمہ اللہ نے کی ہے اور اسی طرح امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا منہج الاستنباط وترتیب الأدلة فیہ من حیث الترجیح کا بیان ان کی سوانح عمریوں اور فضائل ومناقب کی کتابوں میں بیان کیا گیا ہے۔

                امام شافعی رحمہ اللہ کا الرسالة اور امام دارمی کا مقدمہ سنن دارمی تو آج بھی موجود اور میسر ہے، جبکہ ان کے علاوہ اکثر وبیشتر تحریریں آج دستیاب نہیں ہیں، لیکن آپ کمال دیکھیں کہ ان کے مستنبط کردہ مسائل جن کی بنیاد ِ استنباط القواعد الأصولیة ہی ہیں، وہ مسائل مدوّن شکل میں موجود ہیں۔

                سوال:۶- تیسری اور چوتھی صدی ہجری اور اس کے بعد تو تمام علوم وفنون پر کتب کی تدوین میں کثرت اور تیزی سے اپنی راہ بنا لی تھی، تو استاد محترم! آپ تیسری صدی ہجری سے لے کر پانچویں صدی ہجری تک اصول الفقہ کی صورتِ حال سے آگاہ فرمائیں۔

                جواب:- ایک بات مد نظر رکھیں کہ اصول الفقہ کے تکوینی مراحل میں مندرجہ ذیل ترتیب مد نظر رہنی چاہیے۔

پہلے مرحلے میں اصول الفقہ کا وجود:

                الکتاب والسنة والسیرة الطیبة وحیاة الصحابة والتابعین العلمیة والعملیة۔

دوسرے مرحلے میں اصول الفقہ کا وجود:

                 ۱۔ الکتاب والسنة وجماعات الصحابة والتابعین العلمیة والعملیة۔

                ۲۔القواعد الأصولیة۔

                ۳۔المسائل الفقہیة الجزئیة۔

تیسرے مرحلے میں اصول الفقہ کا وجود:

                ۱۔ الکتاب والسنة + المسائل الفقہیة+ القواعد الأصولیة۔

                ۲۔ القواعد الفقہیة الکلیة جن کو امام کرخی اور ان کے بعد آنے والے فقہا واصولیین نے مسائل فقہیہ سے مستنبط کیا ؛تاکہ مسائل فقہیة کو ذہنی طور پر دسترس حاصل کرنے کے لیے منضبط ومربوط کیا جاسکے۔ اس طرح القواعد الفقہیة الکلیة کا دائرہ ٴکار اکثر ابواب فقہیة ہوتے ہیں۔

چوتھے مرحلے میں اصول الفقہ کا وجود:

                پہلا قدم: المسائل الفقہیة اور القواعد الفقہیة الکلیة کے آپسی فاصلے کو کم کرنے کے لیے الضوابط الفقہیة کو مستنبط کیا۔

                نتیجہ: الضوابط الفقہیة (جن کا دائرہ کار ایک فصل یا ایک باب کے مسائل کو منضبط کرنا ہے) تاکہ چند ضوابط کے ذہن نشین کر لینے سے پوری فصل یا باب کے مسائل پر دسترس حاصل کی جا سکے۔

                دوسرا قدم: المسائل الفقہیة اور الضوابط الفقہیة سے ایک باب اور ایک فصل کے مسائل کو منضبط کر لیا گیا تو دو مشابہ مسائل کے درمیان حد ِفاصل قائم کرنے کے لیے الفروق الفقہیة قائم کیے گئے۔

                نتیجہ: الفروق الفقہیة من حیث الأصول والضوابط۔

پانچویں مرحلے میں اصول الفقہ کا وجود:

                اب تک اصول الفقہ میں مندرجہ ذیل چیزیں دستیاب ہوگئی تھیں:

                ۱۔ القواعد الأصولیة۔

                ۲۔ المسائل الفقہیة۔

                ۳۔ القواعد الفقہیة الکلیة۔

                ۴۔ الضوابط الفقہیة۔

                ۵۔ الفروق الفقہیة۔

                اور الفروق الفقہیة کے ذریعہ اب تک دو متشابہ صورت پر مشتمل دو جزوی مسائل کے درمیان تفریق اور ان کے الگ الگ حکم کے ادراک کے لیے اقدامات کرلیے گئے تھے۔ لیکن اب بھی ایک مسئلہ باقی تھا۔

                سوال:-وہ مسئلہ کیا ہے استادِ محترم!؟ جواب: بلا شبہ سابقہ اصول الفقہ کے اجزاء وارکان کی روشنی میں دو مسائل کو جُدا جُدا کر لیا گیا، لیکن ایک مسئلہ پر عمل پیرا ہونے سے پہلے ایک صورت یہ پیش آتی ہے کہ: ایک مسئلہ میں دلائل کے متعارض، مؤخر ومقدم، ناسخ ومنسوخ میں عدمِ تعیّن کی وجہ سے متعدد اقوال وآرا پائی جاتی ہیں جن سے عمل کی راہ میں تأخیر حائل ہو جاتی ہے۔

                اس پریشانی کو دور کرنے کے لیے اصول الافتا کو مرتّب و مدوّن کیا گیا، جس کی واضح صورت درج ذیل ہے:

۶۔ أصول الافتاء:

                (۱۔ اصول الترجیح ۲۔ اصول التطبیق والتوفیق والجمع ۳۔ اصو ل النسخ ۴۔ قواعد عامة عند العمل بالحدیث)

                ان ضوابط واصول کی روشنی میں ایک مسئلہ کی متعدد صورتوں اور اس کے اندر مختلف آرا میں سے کسی ایک کو راجح اور متعین للعمل کر دیا جاتا ہے۔

                سوال:۷- استاد محترم! کیا کوئی اور اصولی بات بھی ہے، جس کو اس ضمن میں جگہ دی جا سکتی ہے؟

                جواب:- جی ہاں! المسائل الفقہیة کو کتبِ فقہیہ میں مدوّن کرتے وقت تین مسالک کے پیش نظر یہ کام کیا گیا ہے۔ 

(بقیہ آئندہ……)