آئیں اصول الفقہ کے ہمراہ آپ کو قرآنِ کریم کے دربار میں لے چلیں!

چوتھی اور آخری قسط:

بقلم: محمد محسن گلزار

معلم تدریب المعلمین فی اصول الفقہ وعلوم الحدیث عند الحنفیة وغیرہم من المحدثین نظرا و تطبیقا۔

لاہور پاکستان، سرپرست مجلس ارشاد المطالعہ پاکستا۔ بانی لیڈر ہاوٴس پاکستان۔

            سوال: استاد محترم! آپ نے تو چند سطور میں میرے بغیر سوال کیے ہی بیس اصطلاحات کے مواقع استعمال واستخدام کا بہت واضح بیان ہمارے سامنے پیش کردیا ہے، ان بیس اصطلاحات عام، خاص، ظاہر، نص، حقیقت، مجاز وغیرہ کے بارے میں اور کیااہم بات ہم اپنے پیش نظر رکھیں؟

            جواب: ان بیس اصطلاحات کے احکام کے ساتھ ساتھ ان کے ذیل میں پائے جانے والے القواعد الأصولیة کو مد نظر رکھناہے، اور عموم وخصوص، اطلاق وتقیید، وجوب وندب کے تعارض کے وقت جس باب سے اس مسئلے کا تعلق ہے، اس باب سے متعلق قواعد ِفقہیہ کلیہ اورالضوابط الفقہیة اور اصول الافتا یعنی قواعد فی باب الترجیح والتطبیق والنسخ وقواعد عامة عند العمل بالکتاب والسنة کو بھی مد نظر رکھنے سے رفع ِتعارض یا ترجیح دینا آسان اور ممکن ہو جاتا ہے۔

            الحمد للہ رب العالمین۔۔۔ ولا الضالین

            عبارت النص: عبارة النص سے مراد وہ معانی ہیں ،جو الفاظ سے متبادر الی الفہم ہو رہے ہوں اور الفاظ کی صفاتِ اصولیہ خصوص، عموم، اطلاق، تقیید، ظاہر، نص، مفسر، محکم،حقیقت، مجاز، عبارة النص میں داخل ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ الفاظ کے لغوی معانی کے ساتھ ساتھ عموم وخصوص، اطلاق وتقیید وغیرہ کے ماتحت جو جو معانی سمجھ میں آتے ہیں، وہ سب عبارة النص سے سمجھے جانے والے معانی ہی کہلاتے ہیں۔

اب آتے ہیں عبارة النص کی روشنی میں حاصل ہونے والے معانی کی طرف:

            ”الحمد“ عام ہے اور اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہے، جس کا ما حصل یہ ہوا کہ جتنی بھی اقسام وانواع واندازِ تعریف ہیں، وہ سب صرف اور صرف اللہ تعالی کے لیے خاص ہیں، چاہے وہ تعریفیں قلم سے صادر ہیں یازبان سے، تصورو خیال کے احاطہ میں آئیں یادلیل وبرہان کے، سبھی صرف اور صرف اللہ تعالی کے لیے ہی ہیں؛ کیوں کہ وہ تمام جہانوں کا حقیق مالک، خالق، رازق، اور ہر وقت ہر آن تربیت کرنے والا ہے، ہر وقت ان کو تھامے ہوئے ہے، ان کو حیات بخشے ہوئے ہے، ان کے اندر تازگی، زندگی، حرکت، طاقت، سوچ، تدبیر سبھی اپنے وجود میں اور وجود سے اپنی صفات سے فائدہ اٹھانے میں، اس کی بنائی گئی کائنات سے مستفید ہورہے ہیں، اس کے عطا کردہ خود کے وجود سے وہ کائنات میں موجود ومحسوس ہیں، زمین وآسمان اور جو کچھ اس میں ہے سبھی اس کی رحمانیت، رحیمیت، رزاقیت، قیّومیت کے سبب ہر زندہ وپائندہ شے کی خادم اور زندگانی کے سفر میں زاد راہ بنی ہوئی ہے۔ یہ سب معانی رب العالمین کی عبارة النص سے رحمن سے رحیم سے عبارةً نکل کر سامنے آرہے ہیں۔

            اللہ رب العالمین جیسے دنیا میں سب کو پالنے والا ہے، ان پر رحم کرنے والا ہے، ایسے ہی اس زندگی کے بعد قیامت کے دن سب کا حساب کتاب کرنے والا ہے، مظلو م کے لیے ظالم سے اس کا حق لینے والا ہے۔

مقاصد عالیہ آفاقیہ کی روشنی میں عبارة النص کے معانی:

            شریعت ِاسلامیہ کے مقاصد ِعالیہ آفاقیہ چار ہیں:

            ۱۔ العبودیة للہ تعالی۔ٰ

            ۲۔ اقامة العدل والحقوق والحریة فی ضوء الاسلام علی وجہ الارض کلہا۔

            ۳۔ عمارة الأرض۔

            ۴۔ الائتلاف والاعتصام والمحبة بین الناس۔

            ”الحمد للہ رب العالمین الرحمن الرحیم مالک یوم الدین“ سے تعریف وعبادت کے لائق صرف اور صرف اللہ رب العالمین ہے، جو سب کو پالنے والا ہے اور جو اللہ تعالی کو رب مانے گا اس کی عبادت کرے گا تو وہی بندہ اللہ تعالی کے احکام کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنن ِمبارکہ پر چلتے ہوئے پورا کرے گا ،تو اس کے نتیجہ میں انسانیت کے اندر محبت ومودت کی فضا بھی قائم ہوگی اور قیامت کے عقیدہ پر ایمان کی وجہ سے عدل وانصاف، حقوق وحریت کی اسلام کے مطابق ادائیگی بھی عمل میں آئے گی، اور جب عدل وانصاف، حقوق کی اسلام کے ماتحت ادائیگی ہوگی، تو عمارة الارض زمین کی تعمیر اور شادابی کا عمل بھی رواں دواں رہے گا اور زمین پر خلق خدا کے لیے زندگی خوشگوار اور آسان ہوگی اور اللہ تعالی کی حمد وعبادت کرنے والا بندہ ان تمام چیزوں کی آبیاری شریعت اسلامیہ کے التزام کے ساتھ یقینی بنائے گا۔

            ۱۔ عمارة الارض: رب، رحمن، رحیم سے بھی ثابت ہورہی ہے۔

            ۲۔ اقامة العدل: مالک یوم الدین سے ثابت ہورہی ہے۔

            ۳۔ العبودیة للہ تعالی: الحمد للہ، ایاک نعبد وایاک نستعین سے ثابت ہورہی ہے۔

            ۴۔ الائتلاف والاعتصام والمحبة بین الناس علی وجہ الأرض: الحمد للہ رب العالمین الرحمن الرحیم مالک یوم الدین سبھی سے ثابت ہورہی ہے۔

            سورة الفاتحة کے عبارت النص سے توحید، رسالت، قیامت ثابت ہورہی ہے۔ اور زندگی میں سفر کیسے کرنا ہے، کن چیزوں کو اختیار کرنا ہے، کن چیزوں کو چھوڑنا ہے وہ سب” ایاک نعبد وایاک نستعین اہدنا الصراط المستقیم صراط…“ الخ کی روشنی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہٴ حسنہ اور اس اسوہٴ حسنہ کا تفصیلی نقشہ حیاة الصحابہ والتابعین والصدیقین والشہداء میں ہے، تمام سے عیاں ہورہا ہے۔ اس کو مکمل طور پر اپنانا اور جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے صحابہ وتابعین، صدیقین، صالحین، شہدائے کرام کی زندگی سے ہٹا، اس کا انکار کرکے جیسے بالعموم کافر اور بالخصوص یہود ونصاری یا اس کو عملًا ترک کرتے ہوئے ،اس زندگی سے دور رہے اور اگرچہ اعتقاداً اس کو مانا کیے؛ جیسے فاسق وفاجر، بد عمل مسلمان اور اپنے حصہ کی ناراضگی اور رب کی رحمت سے دوری لیے بھٹکتے رہے، ان کے رستے سے علمی مشابہت اختیار کرنے سے بچنا اور دوری اختیار کرنا صراط مستقیم ہے۔

            جو رحمن ورحیم ومالک یوم الدین کی عنایات کریمانہ دنیا وآخرت میں سمیٹنے کے لیے شرط ہے، اور جو یہ شرط کامل طور پر ادا کرے گا، اس کی زندگی رب کی زمین پر تمام مخلوقات کے لیے بالخصوص انسان وجن کے لیے عملی طور پر اور دیگر مخلوقات کے لیے پھل کھانے اور رحمت خداوندی سے لطف اندوز ہونے کے لیے اللہ تعالی کی بندگی کے راستے کھولے گی، عدل وانصاف قائم کرے گی، آپس کی محبت، الفت، بھائی چارہ قائم کرے گی، زمین کو شاداب وآباد اور جنت نظیر بنائے گی۔

شریعت کے مقاصد عالیہ آفاقیہ کی زیر نگرانی انسان کے چھ مقاصد ِحیات کی فراہمی:

            کیوں کہ جو صرف رب کی تعریف کرنے والا ہوگا اللہ تعالی کے انعام یافتہ بندوں کی راہ پر چلتے ہوئے نافرمانوں اور گمراہوں کی زندگی سے اپنا دامن بچاتے ہوئے اور قیامت کے دن حساب وکتاب کی فکر کرتے ہوئے اپنے سفر کو جاری رکھے گا۔

 (۱)…حفاظت دین:

            ۱۔ اپنے دین اسلام میں ترقی کرتے ہوئے دوسروں کو اسلام کی راہ اپنانے کا ذریعہ بنے گا، نیز دینی طور پر گمراہوں، کافروں، یہود ونصاریٰ، زندیقین وملحدین کو جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعہ دوسروں کے دین کو نقصان پہنچانے سے روکے گا، مسلمانوں کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت علمی وفکری طور پر کرتے ہوئے اور گمراہوں کی گمراہی وکفر کاابطال کرتے ہوئے دیگر انسانوں کے لیے اسلام کی راہ آسان وقریب کرے گا، اور جہاد بالسیف کے ذریعہ کفروعناد کے سرغنوں کاخاتمہ کرکے اورعام انسانوں کے لیے اسلام کے مشاہدہ کو اسلام کے مطالعہ کو، اسلام کی عملی برکات سے بقدر حصہ متمتع ہونے کے اسباب کو مہیا کرے گا۔ نیز…

            ۲۔جو شخص اسلام کو عملا قبول نہ کرے، تو اس کو اس کے دین وعقیدہ کے مطابق عبادات واعمال پر عمل پیرا ہونے کے لیے فضا ہموار کرے گا اور جو شخص دین وعقیدہ کی آڑ میں حدودِ اسلامیہ کو پامال کرنے کی کوشش کرکے بے چینی، انارکی کا باعث بننے کی کوشش کرے گا، اس کا ناطقہ بند کرکے وہ اسلام کو تمام انسانوں کے لیے معاشرہ میں رحمت ثابت کرے گا۔

(۲)…حفاظت ِجان:

            المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ۔ مسلمان اپنی جان کو اللہ تعالی کے پاس امانت سمجھتا ہے اور اس کی حفاظت کرنا اپنے امین ہونے کے لیے فرض سمجھتا ہے، اور اماطة الاذی عن الطریق کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھتا ہے، اس لیے اس کی ملاقات ہی السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ کے پیارے الفاظ سے شروع ہوتی ہے، جو ایمان وجان، مال، عزت وآبرو کی سلامتی کی دعا پر مبنی ہے، وہ سب کی جان اپنے آپ سے اور دوسروں سے محفوظ رکھنے کے لیے ہر دم مستعد وپُر عزم ہے،وہ مخلوق ِخدا کے لیے ہر شر وظلم کے خلاف ایک ڈھال اور سیسہ پلائی دیوار ہے؛ کیوں کہ وہ صراطِ مستقیم پہ چلنے والا ہے اور صراط مستقیم اس کو اس کی تلقین کرتا ہے۔ ایسے ہی:

            (۳)… حفاظت مال۔

            (۴)…حفاظت ِعزت۔

            (۵)… حفاظت نسب۔

            (۶)…حفاظت ِعقل۔

            صراط مستقیم جیسے اپنے اوپر چلنے والے کو مال، عزت، نسب، عزت، عقل میں پروان چڑھاتاہے، ایسے ہی مالک یوم الدین پر ایمان اس کو دیگر کے مال وعزت، جان وایمان، عزت ونسب سے تعرّض کرنے سے منع کرتا ہے۔ ایاک نعبد وایاک نستعین والی راہ حیات اس چیز پر اس کو ثابت قدم رکھتی ہے؛کیوں کہ ایاک خاص ہے، جس کا مستفاد یہ نکلتا ہے کہ بندگی واطاعت صرف اور صرف تیری ہے،نہ نفس کی تابعداری نہ شیطان کی فرمانبرداری، اور جس راستے پر مسلمان چلنے کا پابند ہے وہ خاص الوصف ہے” الصراط المستقیم“ جو اپنے معنی پر قطعی الدلالة ہے، جس کو” صراط الذین انعمت علیہم،غیر المغضوب علیہم ولا الضالین“ سے مفسر کردیا گیا ہے۔ اور اساس اسلام کا بیان ہے، اس لیے غیر مبدّل اور محکم ہے، جو کبھی بھی منسوخ نہیں ہو سکتا، ٹل نہیں سکتا، مؤخّر نہیں ہوسکتا؛ جیسے: اللہ تعالی پر ایمان ضروری ہے کہ وہ اکیلاہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اور جس طرح اس بات پر ایمان ضروری ولازم ہے کہ اللہ تعالی رب العالمین ہے، قیامت کے دن کا مالک ہے، ایسے ہی” الصراط المستقیم“ کی اس تفسیر پر ایمان ضروری ہے کہ وہ انبیاء، صدیقین، شہداء، صالحین کا راستہ ہے، جس میں نفس وشیطان، یہود ونصاری، فاسق وفاجر، زندیق وملحد، کافر ومشرک کی ہر اعتبار سے مخالفت ضروری ہے، اور صراط ِمستقیم کو تادمِ آخر تھامنا اور موت تک اس پر چلتے رہنا فرض ِعین ہے۔

            یہاں پر جو جو خاص استعما ل ہوا ہے، اس میں سب حقیقت اور صریح ہے جس کی تاویل مجاز کے ساتھ نہیں ہو سکتی!

            سورة الفاتحة پر جمیع مباحث اصول الفقہ کی روشنی میں بات کریں گے تو یہ ایک ضخیم کتاب کی متقاضی ہے! جس کی یہاں گنجائش نہیں ہے ؛البتہ اس پر الگ سے تفصیلی کتاب پر کام جاری ہے،جس میں سورة الفاتحة کے ساتھ ساتھ سورة البقرة اور ھدایہ جلد اول کے جمیع مستدلات حدیثیہ کا لفظ بلفظ،آیت بآیت اجراء کروایا جائے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ، جو دو،تین جلدوں میں شائع ہوگا ان شاء اللہ تعالیٰ!

            میں خاموش ہوگیا اور مولانا فیضان عزیز آنکھوں میں اثبات کا تمغہ مجھے تھمانے میری طرف مسکراہٹ بکھیرتے دیکھنے لگے اور کہامجھے میرے من کی مراد ،آنکھوں کا نور،دل کی بے چینی کا مداوا،زندگی کی محنت کا محور مل گیا ہے!الحمد للہ والشکر للہ!

            ایک سوال جانے سے پہلے کرنا چاہتا ہوں کہ ہم فقہ حنفی کا مطالعہ کیسے کریں کہ اس کی مہارت محبین اسلام کے سوالات کا جواب دینے میں مدد کر سکے!؟

آپ فقہ حنفی کا مطالعہ کیسے کریں؟

             جواب : اس سلسلے میں عرض ہے کہ آپ یہ جان لیں کہ فقہ میں کتب دو مسالک پر مرتب کی گئی ہیں

1 -مسلک التاصیل:

            جن میں فصل کے شروع میں پہلے اصول وقواعد بیان کرتے ہیں اور ان کے بعد ان سے متفرع ہونے والی جزئیات فقہیة بیان ہوتی ہیں۔

 2 مسلک التاویل:

            جن میں پہلے مسئلہ اور اس کے بعد اس کی دلیل بیان کرتے ہیں، اور اکثر شروحات ِفقہ اسی مسلک پر واقع ہوئی ہیں ، ان دو مسالک میں درج ذیل ترتیب سے مطالعہ کا آغاز کریں ۔

             مسلک التاصیل میں آپ کو ”شرح الزیادات قاضی خان“ کا مطالعہ کرنا چاہیے، جس میں ابواب وفصول کے آغاز میں شروع سے آخر تک ایک ہزار سے زائد ضوابط فقہیة بیان کر کے ان کی تطبیقات بیان کی گئی ہیں۔

            اور اس کے بعد آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ امام محمد رحمة اللہ علیہ کی ظاہر الروایہ کا مجموعہ کتب ستہ:

            الجامع الکبیر۔

            الجامع الصغیر۔

            الزیادات۔

            السیر الصغیر۔

            السیر الکبیر ۔

            المبسوط۔ (کتاب الاصل) فقہ حنفی کی بنیاد ہے، اس لیے پہلے ان کی جامع ترین شرح المحیط البرہانی کا مطالعہ کریں۔

             اگر مزید ہمت، وقت اجازت دے تو المبسوط للسرخسی،جو کہ امام محمد کی کتب ستہ کی شرح ہے اس کا مطالعہ کریں۔

            ان کے بعد آپ کلی مسائل والی کتب یعنی ایسی کتابوں کا مطالعہ کریں، جن میں جزوی مسائل کے بجائے کلی مسائل بیان ہوئے ہیں ۔کلی مسائل سے مراد میری یہ ہے کہ ایک فصل یہ بیان ہوتا ہے کہ

            اس فصل میں اس عنوان پر کیا شرائط ہیں؟

            کتنے ارکان صحت ہیں؟

            کتنے اسباب فساد ہیں؟

            کیا کیا چیز مفقود ہوئی تو کیا حکم ہے؟وغیرہ

کلی مسائل والی کتابوں میں سر فہرست:

            1.خزانة الفقہ سمرقندی۔

            2.تحفة الفقہاء سمر قندی۔

            3.النتف فی الفتاوی للسغدی ہیں ان کو پڑھنے سے ذہن میں فقہی ذوق میں بہت اضافہ ہو گا،ان کے بعد مسلک التاویل میں اُن کتابوں کو پڑھنے میں مقدم کرنا چاہیے، جن میں اصول الفقہ کے اکثر حصوں کا اجراء زیادہ ہو ،جیسے:

            1.شرح مختصر الطحاوی للجصاص۔

            2.التجرید للامام القدوری۔

            3.احکام القرآن از جصاص۔

            4.شرح معانی الآثار للطحاوی۔

            5.شرح مشکل الآثار للطحاوی۔

            6.بدائع الصنائع للکاسانی۔

            ان کے بعد آپ جب کثیر الجزئیات موسوعاتی کتب پڑھیں گے، تو آپ کو ان کے سمجھتے ہوئے بالکل کوئی دقت نہیں ہوگی۔

            کثیر الجزئیات موسوعاتی کتب کی مثال جیسے:

            1.البحر الرائق۔

            2.ردّ المحتار علی الدّر المختار (الشامی)۔

            3.فتاوی عالم گیری۔

            4.فتاوی تاتارخانیہ۔

            ان کے بعد بہترین اردو فتاویٰ جات کا مطالعہ کریں؛ کیوں کہ اب جزئیات کا علم انہیں میں زیادہ ہوتا رہے گا۔

            اللہ تعالیٰ آپ کو علم وفضل کے اعلیٰ ترین مراتب سے نوازے آمین!

            میں نے ان دعائیہ کلمات کے ساتھ خاموشی اختیار کی اور مولانا فیضان عزیز صاحب اپنی زندگی کا مقصد پاکر شاہراہِ علم و عمل پر روانہ ہوگئے۔۔۔۔

            میں بہت پر سکون محسوس کررہا تھا کہ مؤذن نے اذان ِفجر کا آغاز کیا اور اذان کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی!اور مجھے مولانا فیضان عزیز صاحب کی یاد ستانے لگی!اتنے برس بعد وہ خواب میں تو مل گئے اور کچھ لمحے ملاقات و دل بستگی بھی میسر آئی!لیکن نہ جانے اس بدذوقی کے ماحول میں مجھے درحقیقت مولانا فیضان عزیز صاحب جیسے نوجوانوں سے کب ملنا نصیب ہو گا!

            اس سوچ وفکر میں وضو کرنے کے لیے میں نے بستر کا نرم گداز چھوڑ دیا اور مسجد کی طرف فیضان عزیز کی ملاقات کی خواہش لئے چل دیا!