آئینہ سورہٴ کہف

انوار قرآنی:

 مفتی عبد المتین کانڑ گانوی

(استاذ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا)

آئینہ سورہٴ کہف

            روز بروز فتنے کی بہتات اور مسلمانوں کو آئے دن ایک نیا چیلینج ہے،ایسے وقت میں ہر ایک کے ذہن ودماغ میں سب سے پہلے یہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کا حل کیا ہے ؟ اس کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟کس طرح اپنے ایمان،جان،مال،آبروعزت کی حفاظت کی جائے ،آخر وہ کونسا کام ہے ،کیا اقدامات ہیں، جو یہاں بھی سرخرو کریں اور وہاں بھی۔لہذا اس سلسلے میں ہر طرح کی رہنمائی قرآن وحدیث میں موجود ہے ،خصوصاً سورہٴ کہف کو فتنے سے گہرا تعلق ہے اور اس میں سلامتیٴ ایمان اور ترقی وعروج کی تمام باتیں ہیں ،بریں بنا اس سورت کی روشنی میں حالاتِ حاضرہ کو مد نظر رکھتے ہوئے ایمان کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اس کے تقاضے کو پورا کرنے کی بھی رہنمائی کی جائے گی؛تاکہ ایمان ومادیت کے اس کشمکش میں مادیت کو مغلوب کرکے ایمان کو غالب کیا جا سکے۔ ان شاء اللہ

(۱)        اسمائے سورت:     (۱) سورة الکہف۔ (۲) سورةُ أصحابِ الکہف۔

وجہ تسمیہ”سورہٴ کہف“:       ”کہف“ عربی میں ”غار“ کو کہتے ہیں، اور ”اصحابِ کہف“ کے معنی ہیں ”غار والے“۔ اس سورت میں چوں کہ غار میں چھپنے والے نوجوانوں کا واقعہ تفصیل سے بیان فرمایا گیا ہے، جنہیں ”اصحابِ کہف“ کہا جاتا ہے۔لہٰذا اسی ”غار“ کے نام پر اس سورت کو ”سورة الکہف“ یا ”سورةُ أصحابِ الکہف“ کہا جاتا ہے۔یہ تسمیة الکل باسم الجزء کے قبیل سے ہے۔

(۲) تعارُف سورہٴ کہف:       

تعدادِ آیات : قراء مکہ ومدینہ کے نزدیک…ایک سو پانچ…۱۰۵

                        قراء شام کے نزدیک…ایک سو چھ…۱۰۶

                        قراء کوفہ کے نزدیک… ایک سو دس…۱۱۰

                        قراء بصرہ کے نزدیک…ایک سو گیارہ …۱۱۱

تعدادِ رکوعات:      بارہ… ۱۲

تعدادِ کلمات:         ایک ہزار پانچ سو اُناسی… ۱۵۷۹

تعدادِ حروف:        چھ ہزار تین سو چھ …۶۳۰۶

تعداد اجزائے آیاتِ احکام:     تریسٹھ …۶۳

تعداد مسائلِ مستخرجہ:         دو سو ساٹھ…۲۶۰

تعداد مسائلِ تصوف وسلوک: انتالیس …۳۹

تعداد اسبابِ نزول: پانچ … ۵/ہیں۔ (آیت: ۲۸، ۸۳، ۱۰۹، ۱۱۰) اور ۲۸/ ویں آیت میں دو سببِ نزول ہیں۔

ترتیبِ مصحفی: سورہٴ اِسراء/بنی اسرائیل کے بعد، اور سورہٴ مریم سے پہلے۔(۱۸/ نمبر)

ترتیبِ نزولی:        سورہٴ غاشیہ کے بعد اور سورہٴ نحل یا سورہٴ شوریٰ سے پہلے۔(۶۹/ نمبر)

ترتیب باعتبار حزب یا منزل: چوتھی منزل میں سورہٴ کہف شامل ہے۔

مکی ومدنی: (۱)بروایت فرقد: شروع کی ۸/ آیتیں مدینہ میں نازل ہوئیں۔

(۲) بروایت ابن عطیہ : مکمل سورہٴ کہف بالاتفاق مکی ہے۔ اور یہی قول أصح (زیادہ صحیح) ہے۔(۱)

(۱) (المفاتیح الدعویة فی سورة الکہف لعبد الحي حسین ، التحریر والتنویر لابن عاشور، أحکام القرآن تھانوی ، علوم القرآن ، البرہان فی علوم القرآن ، مسائل تصوف قرآن کی روشنی میں)

حذفِ الف : سورہٴ کہف میں بطورِ اختصار چند جگہوں سے الف حذف کیا گیا ہے ، وہ جگہیں یہ ہیں:

تزٰور عن کہفم ۔ (آیت : ۱۷)… لا مبدل لکلمٰتہ ۔ (آیت : ۲۷)تذروہ الریح ۔ (آیت : ۴۵)… نفسًا زکیة ۔ (آیت : ۷۴) (امام ابو عمرو الدانی رحمہ اللہ زاکیة پڑھتے ہیں)۔ (۲)

(۲) (صفوة التفاسیر)

لتخذت علیہ ۔ (آیت : ۷۷)… لکلمت ربي ۔ (آیت : ۱۰۹)(۳)

(۳) (قرآنی معلومات اور تحقیق، موٴلف: امام ابی عمرو عثمان بن سعید الدانی، مترجم: پروفیسر عبد الرزاق صاحب)

اسم کہف: حضرت مقاتل نے کہف(غار) کا نام ”مانجلوس“ لکھا ہے۔

تعدادِ اصحابِ کہف: صحیح قول کے مطابق اصحابِ کہف کی تعداد سات تھی، اور آٹھواں اُن کا کتا ”قطمیر“ تھا۔

اسمائے اصحابِ کہف: جیسے اسماء اصحابِ کہف میں اختلاف ہے، ایسے ہی اُن کے نطق میں بھی کثیر اختلاف ہے: (۱) مُکْسَلْمِیْنَا ۔ تَمْلِیْخَا ۔ مَرْطُوْنُسْ ۔ سنونس ۔ سارینوتس ۔ ذو نواس ۔ کعسططیونس ۔(۴)(۴)(معارف القرآن شفیعی)

(۲) یملیخا(یہ کھانا خریدنے گیاتھا) ۔ مکسلمینا ۔ کشفوطط ۔ طبیونس ۔ کشافطیونس ۔ اذرفطیونس ۔ یوانس بوس ۔

(۳) مکسلمینا ۔ مخشلیشا ۔ تملیخا ۔ مرطونس ۔ کنشطونش ۔ بیرونس ۔ دینموس ۔ (پہلے بادشاہ کا نام دقیانوس ، اور دوسرے بادشاہ کا نام تدرسیس ، اور کتے کا نام قطمیر یا قطمیروا ہے)۔(۵)

(۵) (فتح الباري : ۶/۶۱۸)

فوائد اسمائے اصحابِ کہف:   بعض لوگ ان اسماء کو تعویذات میں لکھتے ہیں۔ مختلف مقاصد(مثلاً: کھیتی کی حفاظت، آسیب سے حفاظت وغیرہ) کے لیے یہ تعویذ مجرب بھی ہے۔(۶)(۶) (تفسیر محمود :۲/۳۷۱)

             (از قطبِ عالم مولانا گنگوہی رحمہ اللہ): اسماء اصحابِ کہف بعبارتِ ذیل کاغذ پر لکھ کر جس مکان میں مریض یا مریضہ ہو، اس کی دیواروں پر جگہ جگہ چسپاں کردیئے جاویں، اور بیس کا نقش مندرجہ ذیل ایک کاغذ پر لکھ کر مریض کو دکھایا جاوے، دیکھنے سے گھبرائے گا، اور انکار کرے گا، مگر زبردستی اس کی نظر اس پر ڈلوائی جائے، اور جبراً نقش کو تعویذ بناکر اس کے گلے میں ڈال دیا جاوے۔ اسمائے اصحابِ کہف یہ ہیں: ” إلٰہي بِحُرْمَةِ – یَمْلِیخَا ، مُکْسَلْمِینَا ، کَشْفُوطَطْ ، لَمْبُونَسْ ، کَشَافَطْیُونَسْ ، یُوانِسْ بُوْسْ ، وکلبُہم قِطمِیر – وعلی اللّٰہ قصدُ السبیل ومنہا جائر ولو شآء لہدٰکم أجمعین – وصلی اللّٰہ علی سیدنا ومولانا محمد وآلہ وصحبہ وبارک وسلم “ ۔ (۷)(۷)(اشرف العملیات)

(۳) سببِ نزولِ سورہٴ کہف:

(۱) بقول مفسرین عظام: حافظ ابو جعفر ابن جریر طبری حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے اس سورت کا شانِ نزول یہ نقل کرتے ہیں کہ قریش نے نضر بن حارث اور عقبہ بن أبی معیط دو آدمیوں کو مدینہ منورہ کے یہودی علماء کے پاس یہ معلوم کرنے کے لیے بھیجا کہ تورات وانجیل کے یہودی علماء محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دعوائے نبوت کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ چنانچہ وہ یہودی علماء کے پاس گئے، تو انہوں نے کہا کہ تم لوگ محمد سے تین سوالات کرو، اگر وہ ان کا صحیح جواب دے دیں، تو سمجھ لینا کہ واقعی وہ اللہ کے سچے نبی ہیں، ورنہ اُن کا دعویٴ نبوت صحیح نہیں، وہ تین سوالات یہ ہیں:

۱-         اُن نو جوانوں کا عجیب وغریب واقعہ بیان کریں، جو کسی زمانے میں شرک سے بچنے کے لیے اپنے شہر سے نکل کر کسی غار میں چھپ گئے تھے۔

۲-         اُس شخص کا حال بتائیں، جس نے مشرق سے مغرب تک پوری دنیا کا سفر کیا تھا۔

۳-         رُوح کی حقیقت کیا ہے؟

            چنانچہ یہ دونوں شخص مکہ مکرمہ واپس آئے، اور اپنی برادری کے لوگوں کو ساتھ لے کر انہوں نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ تین سوالات دریافت کیے، تیسرے سوال کا جواب سورہٴ اِسراء (آیت نمبر:۸۵) میں ہے، اور پہلے دو سوالات کے جواب میں یہ سورت نازل ہوئی۔ (۸)

(۸) (توضیح القرآن:ص/۶۲۳، سورہٴ کہف، ط: مکتبہ یوسفیہ دیوبند،ودیگر تفاسیر)

(۲) بقول محدث اسلام ومفکر اسلام رحمہما اللہ: محدث اسلام حضرت شاہ ولی اللہ اور مفکر اسلام حضرت ابو الحسن علی میاں ندوی رحمہما اللہ کے نزدیک در حقیقت نزولِ آیات کے واقعات واسباب اکثر اتنی اہمیت نہیں رکھتے ہیں، جتنی بہت سے علماء مفسرین نے بیان کی ہے،اور بڑی دراز نفسی اور دردسری سے کام لیا ہے،… نزولِ سورہٴ کہف کا سببِ اصلی یہودیوں کے سوالات کا جواب ہی نہیں، بلکہ انسانی نفوس کی تہذیب وآراستگی، عقائد ِباطلہ کا خاتمہ اور اعمالِ فاسدہ کا انسدادہے، چنانچہ کسی عاقل وبالغ گروہ میں عقائد باطلہ کا وجود بذاتِ خود آیات واحکام کے نزول کا کافی ووافی سبب ہے، اسی طرح اعمالِ فاسدہ اور مظالم کا وجود آیاتِ احکام کے نزول کا محرک اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی جن نعمتوں، نشانیوں اور عبرت انگیز واقعات کا ذکر آیا ہے، اس سے غفلت وبے پرواہی آیاتِ تذکیر کا سبب ہے۔ہاں! البتہ بعض آیات کے جن میں خود کسی ایسے واقعہ کی طرف اشارہ ہے، جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یا اس سے قبل پیش آیا، چنانچہ سامع کا خلجان دُور کرنے کے لیے جو اس اشارہ سے پیدا ہوتا ہے، اس موقع پر واقعہ کی تفصیل ضروری ہے۔ (۹)

(۹) (مستفاداز :معرکہ ایمان ومادّیت: ص/۴۱، ۴۲، بحوالہ الفوز الکبیر)

اصحابِ کہف اورمکی مسلمانوں کے حالات میں مناسبت:   

اصحابِ کہف کا یہ قصہ بہت مناسب وقت اور صحیح موقع ومحل میں بیان کیا گیا ہے، اس لیے کہ مکہ کے مسلمان اس وقت اسی قسم کے حالات سے دوچار تھے، جن کا سامنا قیصر (رومن ایمپائر) کے ظلم وتشدد اور استبداد کے نقطہٴ عروج میں اصحابِ کہف کو کرنا پڑا، یہ وقفہ جس میں وہ زندگی گزار رہے تھے، اس وقفہ سے بہت مشابہ تھا، جس وقفہ میں ترکِ وطن اور غار میں رُوپوشی سے پہلے یہ صاحبِ ایمان نوجوان تھے، اس سلسلے میں قرآنِ مجید کی اس بلیغ ومعجزانہ تصویر سے بڑھ کر کوئی تصویر نہیں ہوسکتی، جن میں مکہ کے مسلمانوں کا پورا نقشہ بیان کردیا گیا ہے۔ (۱۰)(۱۰)(معرکہٴ ایمان ومادیت)

(۴)        فضیلتِ سورہٴ کہف:

            (۱)(عن أبی فروة) جب سورہٴ کہف نازل ہوئی، تو ستر ہزار فرشتے اس کے ہمراہ آئے تھے، آسمان وزمین کے مابین کا حصہ بھر گیا تھا، اور اس کی تلاوت کرنے والے کو بھی اتنا ہی ثواب ملتا ہے۔ جو شخص جمعہ کے دن اس سورہ کی تلاوت کرتا ہے، اُس دوسرے جمعہ تک کے گناہ بلکہ مزید تین دن کے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں، اور ایسا نور دیا جاتا ہے، جو آسمان تک پہنچ جاتا ہے، اور وہ فتنہٴ دجال سے محفوظ ہوجاتا ہے۔(۱۱)(۱۱) (تفسیر قرطبی)

            (۲) (عن أبی الدرداء رضی اللہ عنہ)جس شخص نے سورہٴ کہف کی اول دس آیتیں یاد کرلی، وہ دجال کے فتنہ سے محفوظ ہوگیا۔ (۱۲)(۱۲) (صحیح مسلم، ابو داوٴد، ترمذی، نسائی، مسند احمد)

            (۳) جس شخص نے سورہٴ کہف کی آخری دس آیتیں پڑھ لیں، وہ دجال کے فتنہ سے محفوظ ہوگیا۔

            (۴) جس شخص نے جمعہ کے دن سورہٴ کہف پڑھ لی، وہ آٹھ دن تک ہر فتنہ سے محفوظ رہے گا۔

            (۵) (عن أبی سعید الخدری رضی اللہ عنہ)جو شخص جمعہ کی رات میں سورہٴ کہف پڑھے، تو اس کے اور کعبة اللہ کے درمیان ایک نور قائم ہوجاتا ہے۔(۱۳)(۱۳) (سنن دارمی وسنن بیہقی، سنن سعید ابن منصور)

            (۶)(عن أنس رضی اللہ عنہ)جو شخص سورہٴ کہف کی تلاوت کرتا ہے، اُس کے لیے آسمان وزمین کے درمیان کی جگہ نور سے بھر دی جاتی ہے، اور قبر کے فتنہ سے اس کی حفاظت ہوتی ہے۔

            (۷)(عن أبی الدرداء)جو شخص سورہٴ کہف کی ابتدائی تین آیتیں پڑھے، وہ فتنہٴ دجال سے محفوظ رہے گا۔(۱۴)(۱۴) (سنن الترمذی : أبواب فضائل القرآن ، باب فضل سورة الکہف)

            (۸) (عن سمرة بن جندب) جو شخص سورہٴ کہف کی ابتدائی دس آیات یاد کرلے، اس کو فتنہٴ دجال کچھ نقصان نہ دے گا۔اور جس نے پوری سورہٴ کہف تلاوت کی وہ جنت میں داخل ہوگا۔(۱۵)

(۱۵) (الجامع لأحکام القرآن للقرطبی)

            (۹) (عن علی رضی اللہ عنہ) جو شخص جمعہ کے دن سورہٴ کہف کی تلاوت کرے، تو آٹھ دن تک اُس کی ہر فتنہ سے حفاظت ہوگی، اور اگر اس مدت میں دجال کا خروج ہوگیا، تو اس کے فتنہ سے بھی حفاظت ہوگی۔(۱۶)

(۱۶) (الأحادیث المختارة للضیاء المقدسي ، تفسیر القرآن العظیم المعروف ب ” تفسیر ابن کثیر“)

(۱۰) (عن أبی ہاشم) جو شخص کما حقہ سورہٴ کہف کی تلاوت کرے، جیسا کہ وہ نازل کی گئی، تو وہ قیامت کے دن اُس کے لیے نور کی شکل میں ہوگی۔ (۱۷)

(۱۷) (المعجم الأوسط للطبراني ، تفسیر القرآن العظیم المعروف ب ” تفسیر ابن کثیر“)

            (۱۱)صحیحین میں حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ ایک شخص سورہٴ کہف کی تلاوت کر رہے تھے، گھوڑا پاس میں بندھا ہوا تھا، اچانک گھوڑا بدکنے لگا، انہوں نے آسمان میں دیکھا کہ ایک بادل اُن کو ڈھانپے ہوئے ہے، اور قریب ہوتا جارہا ہے، جب اس بات کا ذکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” فإنہا السکینة تنزلت عند القرآن ، أو : تنزلت للقرآن “ ۔ (وہ سکینہ تھی جو تلاوتِ قرآن کی برکت سے نازل ہورہی تھی)۔(۱۸)

(۱۸) (صحیح بخاري : رقم : ۳۶۱۴ ، کتاب فضائل القرآن ، باب فضل سورة الکہف ، صحیح مسلم : رقم : ۷۹۵)

مختلف روایات میں جمع وتطبیق :

            الغرض! فضیلتِ سورہٴ کہف میں وارد رِوایات دو قسم کی ہیں:

            (۱) وہ روایات جن میں تلاوتِ سورہٴ کہف کو فتنہٴ دجال سے حفاظت کا ذریعہ بتلایا گیا ہے۔

             (۲) وہ روایات جن میں سورہٴ کہف کو بروز جمعہ پڑھنا باعث نور کہا گیا ہے۔

            پہلی قسم کی روایات ؛آیاتِ محفوظہ وآیاتِ مقروء ہ کی مقدار میں مختلف ہیں، مثلاً : دس آیات حفظ کرنا یا پڑھنا ضروری ہے،…یا پانچ آیات،…یا تین آیات، … یا مکمل سورہٴ کہف مع رعایتِ صحت وتجوید، … یاابتدائی دس آیات، … یا آخری دس آیات، … یا مطلقاً کوئی بھی دس آیات، …یا ابتدائی چند آیات، … یاوسطِ سورہ کی چند آیات۔ … ان مختلف روایات میں جمع وتطبیق کی صورت یہ ہے کہ مکمل سورہٴ کہف حفظ کرلی جاوے، تاکہ تمام روایات پر عمل ہوجائے۔

            دوسری قسم کی روایات دو ہیں، دونوں مرفوع وموقوف ہیں: ایک وہ جس میں جمعہ کے دن سورہٴ کہف پڑھنے پر ”أضاء لہ من النور ما بینہ وبین البیت العتیق“ کی خبر دی گئی ہے۔ اور دوسری روایت جس میں جمعہ کے دن سورہٴ کہف پڑھنے پر ”أضاء لہ من النور ما بین الجمعتین“ کی خبر ہے۔ تمام اہلِ علم نے ان روایتوں کی تصحیح وتحسین فرمائی ہے، البتہ ابو نعمان محمد بن فضل نے ”یوم الجمعة “ کی بجائے ”لیلةالجمعة“ کی قید لگائی ہے۔(۱۹)(۱۹) (تسریح الطرف فیما ورد في فضل سورة الکہف ، فریح بن صالح البہلال)

نوٹ :     سورہٴ کہف جمعہ کی رات میں یا جمعہ کے دن پڑھنا مسنون ہے۔(۲۰)(۲۰) (تفسیر منیر)

جمعرات کے دن غروبِ شمس کے بعد سے جمعہ کے دن غروبِ شمس تک سورہٴ کہف کو پڑھا جاسکتا ہے۔

تلاوتِ سورہٴ کہف اور فتنہٴ دجال میں معنوی مناسبت:

قرآن مجید میں چھوٹی بڑی (قصارِ مفصل اور طوالِ مفصل) ہر طرح کی سورتیں موجود تھیں، ان سب کو چھوڑ کر سورہٴ کہف کا انتخاب کیا گیا، اور یہ خاصیت اس میں رکھی گئی کہ جو اس کو پڑھے یا حفظ کرے، وہ فتنہٴ دجال سے محفوظ رہے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس منفرد سورت میں عہد آخر کے اُن تمام فتنوں سے بچاوٴ کاسب سے زیادہ سامان ہے، جس کا سب سے بڑا عَلَم بردار دَجّال ہوگا۔اس میں اس تریاق کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے جو دجال کے پیدا کردہ زہریلے اثرات کا توڑ کرسکتا ہے، اور اس کے بیمار کو مکمل طور پر شفایاب کرسکتا ہے۔ اگر کوئی شخص اس سورت سے پورا تعلق پیدا کرلے، اور اس کے معانی اپنے دل وجان میں اُتارلے(جس کاراستہ اس سورہ کا حفظ اور کثرتِ تلاوت ہے) تو وہ اس عظیم اور قیامت خیز فتنہ سے محفوظ رہے گا۔ اور اس کے جال میں ہرگز گرفتار نہ ہوگا۔

اس سورہ میں ایسی رہنمائی، واضح اشارے بلکہ ایسی مثالیں اور تصویریں موجود ہیں، جو ہر عہد میں اور ہرجگہ دجال کو نام زد کرسکتی ہیں، اور اس بنیاد سے آگاہ کرسکتی ہیں، جس پر اس فتنہ اور اس کی دعوت وتحریک قائم ہے۔ مزید برآں یہ کہ یہ سورہ ذہن ودماغ کو اس فتنہ کے مقابلہ کے لیے تیار کرتی ہے۔ اس کے خلاف بغاوت پر اُکساتی ہے، اس میں ایک ایسی روح اور اسپرٹ ہے جو دجالیات اور اس کے علم برداروں کے طرزِ فکر اور طریقہٴ زندگی کی بڑی وضاحت اور قوت کے ساتھ نفی کرتی ہے، اور اس پر سخت ضرب لگاتی ہے۔ (۲۱)

(۲۱)(دجال کون ؟کہاں؟ کب؟، معرکہٴ ایمان ومادیت)

اہلِ ایمان کو چاہیے کہ سورہٴ کہف کی تلاوت کا اہتمام کریں، ان آیات میں ایسی قدرتی تاثیر ہے کہ ایسے لوگوں کو دجال کوئی نقصان نہ پہنچاسکے گا۔ اور دجالی فتنے کے ظہور سے پہلے ان آیات کے وِرد کا فائدہ یہ ہوگا کہ دجالی قوتوں کے منفی پروپیگنڈے کا اثر انسان کے دل ودماغ اور ایمان وعمل پر کم سے کم ہوگا۔(۲۲)(۲۲) (دجال کون ؟کہاں؟ کب؟)

ابن خزیمہ کا قول ہے: میں نے ابو الحسن الطنافسی کو کہتے سنا، فرما رہے تھے: میں نے عبد الرحمن المحاربی کو کہتے سنا ہے کہ: اس حدیث کو (یعنی جس میں جمعہ کے دن سورہٴ کہف پڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے)، ہر استاد کے تربیتی نصاب میں شامل کرنا چاہیے، تاکہ وہ مکتب کے تمام بچوں کو سکھادے۔“ (۲۳)

(۲۳) (دجال کون ؟کہاں؟ کب؟)

اندازہ کیجیے! اتنے زمانہ پہلے ہمارے اکابر کو فتنوں سے بچنے کا اس قدر اہتمام تھا۔ آج ہم فتنوں کے بھنور میں پھنسے ہاتھ پاوٴں مار رہے ہیں، اور مزید عظیم فتنے ہمارے سر پر کھڑے ہیں۔ ہمیں تو ان چیزوں کا بہت اہتمام کرنا چاہیے، بالفرض اگر حقیقی عظیم فتنے ہمارے دور میں ظاہر نہ ہوئے تو چھوٹے دجالوں کے جھوٹے پروپیگنڈے اور میڈیا وار سے تو ان آیات کی برکت ہمیں ضرور محفوظ رکھے گی۔ (۲۴)

(۲۴) (دجال کون ؟کہاں؟ کب؟)

سورہٴ کہف کے معانی وحقائق پر غور کرنے کے بعد محسوس ہوا کہ سورہٴ کہف صرف ایک موضوع پر مشتمل ہے، جس کو میں ”ایمان ومادیت کی کشمکش“ یا ”غیبی قوت اور عالمِ اسباب“ سے تعبیر کرسکتا ہوں، اس میں جتنے اشارات، حکایات، وواقعات اور مواعظ اور تمثیلیں گزری ہیں، وہ سب انہیں معانی کی طرف اشارہ کرتی ہیں، کبھی کھل کر، کبھی درِ پردہ۔

یہ سورت دجالی تہذیب وتمدن کی،-جو سترہویں صدی عیسوی میں پیدا ہوئی، پروان چڑھی (یورپی وصلیبی اقوام کی عالمِ اسلام پرفیصلہ کن یلغارکا آغاز)اور بیسویں صدی میں پک کر تیار ہوئی- نیز اس کے نقطہٴ عروج اور اختتام اور اس کے رہبرِ اعظم کی – جس کو زبانِ نبوت میں ”دجال“ کہا گیاہے- سچی اور بولتی ہوئی تصویر انسانوں کے سامنے پیش کرتی ہے۔(۲۵)

(۲۵) (مستفاد: معرکہٴ ایمان ومادیت)

عہد حاضر کی مادی تہذیب کا سب سے بڑا حربہ ملمع سازی اور فریب کاری ہے، جو دجال اور دجالی کارندوں کا ہتھیار ہے۔تہذیب وتمدن کی تشکیل اورانسانیت کی رہنمائی میں عیسائیت ویہودیت کا ملتا جلتا (ملمع سازی وفریب کاری کا گھناوٴنا) کردار آج پوری دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے، (اس سورہ کو پڑھ نے سے ہم اس ملمع سازی وفریب کاری سے بچ سکتے ہیں)۔(۲۶)(۲۶) (مستفاد: معرکہٴ ایمان ومادیت)

(۵)  ماقبل سورت سے ربط:

            (۱گزشتہ سورت (بنی اسرائیل/اسراء) کا آغاز تسبیح سے ہوا، اور اختتام تحمید پر ہوا۔ اور قرآن وحدیث میں تسبیح وتحمید ایک دوسرے کے ساتھ مقرون ہیں ﴿فسبح بحمد ربک﴾ اور ﴿سبحان اللّہ وبحمدہ سبحان اللّہ العظیم﴾ ، اس لیے سورت کا آغاز تحمید سے ہوا، جو گزشتہ سورت کی ابتدا اور آغاز کے ساتھ مناسب ہے، اور گزشتہ سورت کے خاتمہ کا عین ہے۔

            (۲) کفارِ مکہ نے علمائے یہود کے کہنے پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تین سوالات کیے تھے، اُن میں سے ایک سوال (جو روح سے متعلق تھا)کا جواب سورہٴ اِسراء میں بیان کیا گیا، اب اس سورت میں دیگر دو سوالوں کا جواب مذکور ہے۔

            (۳)روح سے متعلق سوال کے جواب کے بعد فرمایا: ﴿وما اوتیتم من العلم الا قلیلا﴾کہ تم کو بہت ہی تھوڑا علم دیا گیا ہے۔اسی طرح یہاں دوسرے سوال کے جواب کے بعد، یعنی اصحابِ کہف کے قصہ کے بعد حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہما السلام کا قصہ ذکر فرمایا، تاکہ معلوم ہوجائے کہ بندہ کو جو علم دیا گیا ہے وہ قلیل ہے،گویا قصہٴ موسیٰ وخضر ﴿وما اوتیتم الخ﴾کی ایک دلیل ہے۔

            (۴)پہلی سورت میں مقامِ نبوت کے علو اور عروج کا، اور اس کی عزت ورفعت کا اور معجزاتِ نبوت کا ، اور نبی کی آیاتِ بینات کا بیان تھا، اور اس سورت میں مقامِ ولایت کا، اور اولیاء اللہ کی کرامتوں کا اور عُزلت ، گوشہ نشینی، فقیری اور درویشی کا بیان ہے۔

            (۵)گزشتہ سورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکینِ مکہ کی ایذا رسانی کے وقت یہ دعا بتلائی گئی:﴿وقل رب ادخلني مدخل صدق واخرجني مخرج صدق﴾ چناں چہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مکہ مکرمہ سے نکلنا خروجِ صدق ہوا، اور مدینہ میں داخل ہونا دخولِ صدق ہوا، اسی طرح اصحابِ کہف کا اپنے شہر سے نکلنا جہاں کفر وشرک کا فتنہ بپا تھا، یہ خروجِ صدق ہوا، پھر شہر سے نکل کر کہف (غار) میں عزلت گزیں وگوشہ نشیں ہوجانا یہ دخولِ صدق ہوا۔(۲۷)(۲۷) (معارف القرآن کاندھلوی وغیرہ)

            (۶)سورہٴ اسراء میں یہود کو بطورِ تنبیہ چیلنج کیا گیاتھا: ﴿وما اوتیتم من العلم الا قلیلا﴾(الآیة/۸۵)تم کو بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ اور سورہٴ کہف میں علم کے سلسلے میں قصہٴ موسیٰ وخضر علیہما السلام کے ذریعے دلیل قائم کی گئی: ﴿فوجدا عبدًا من عبادنا اٰتیناہ رحمة من عندنا وعلّمناہ من لّدنّا علما﴾ ۔ (الآیة/۶۵)

            (۷) سورہٴ اسراء کی آیت /۱۰۴ :﴿فاذا جاء وعد الاخرة جئنا بکم لفیفًا﴾ میں وعدہٴ آخرت کا ذکر تھا، اس کی تفصیل وتشریح سورہٴ کہف کی آیت/۹۸ تا ۱۰۱:﴿فاذا جاء وعد ربي جعلہ دکّآء وکان وعد ربي حقًّاوترکنا بعضہم یومئذ یموج في بعض ونفخ في الصور فجمعناہم جمعًا وعرضنا جہنم یومئذ للکٰفرین عرضا الذین کانت اعینہم غطاء عن ذکري وکانوا لا یستطیعون سمعًا﴾میں مذکور ہے۔(۲۸)

(۲۸) (المفاتیح الدعویة في سورة الکہف)

سوال:     تین سوالات ایک ساتھ کیے گئے، تو تینوں کے جوابات ایک ہی سورت میں ذکر کرنے کے بجائے دو سورتوں میں کیوں؟

جواب:    (۱)پہلا سوال جو روح سے متعلق تھا، اس کی وضاحت وتفصیل بیان نہیں کی گئی، بلکہ مختصراً جواب دیا گیا، اور بقیہ دو سوالوں کا جواب مفصل وموضح دیا گیا، اس لیے ایک سوال کا جواب سورہٴ بنی اسرائیل میں، اور بقیہ دو کے جواب سورہٴ کہف میں ہیں۔

(۲)روح سے متعلق سوال کا جواب سورہٴ اسراء میں ہے، کہ ”روح“ اور ”اسراء/معراج“ میں مناسبت ومشارکت ہے،جیسے معراج واسراء کی حقیقت کا ادراک عقولِ انسانی نہیں کرسکتیں، ایسے ہی روح کی حقیقت کا ادراک کرنے سے بھی عقلیں قاصر ہیں۔

(۳) معراج واسراء میں بلندی کی طرف عُروج ہوتا ہے، اور روح میں اُس بلندی سے ہُبوط ہوتا ہے۔(۲۹)

(۲۹) (المفاتیح الدعویة في سورة الکہف)

(۶)        ابتدا وانتہائے سورہ میں ربط:

ابتدائے سورت و اختتامِ سورت میں تصحیحِ عقیدہ کا بیان ہے(در صورتِ اعلانِ وحدت، انکارِ شرک، اِثباتِ وحی، وإثباتِ رسالت)۔یعنی سورت کا آغاز ؛ توحید، رسالت اور تذکیرِ آخرت سے ہواتھا، اور سورت کو انہی تین مضامین پر ختم بھی کیا گیا۔ (۳۰)

(۳۰) (معارف القرآن کاندھلوی، المفاتیح الدعویة)

(۷)        آیاتِ سورہٴ کہف کی تقسیمِ وضعی/موضوعی:

تقسیمِ وضعی یا موضوعی کے اعتبار سے سورہٴ کہف ایک مقدمہ اور چھ اقسام پر مشتمل ہے۔

مقدمہ:    ۱- تا-۸/ کل ۸/ آیتوں میں مقدمہ، اور مقدمہ میں ابتدا بالحمد، وصفِ قرآن، إنزالِ قرآن ، خاص بندہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر شفقت وعنایتِ باری تعالیٰ ، زینتِ حیاتِ دنیوی کی حکمت اور اس کا انجام بیان کیا گیا۔

قسمِ اول:  ۹- تا-۳۱/ کل ۲۳/ آیتوں میں فتنہٴ دین وایمان؛ یعنی قصہٴ اصحابِ کہف، اس قصہ میں اعجاز ودلیلِ قدرتِ خداوندی ، اور دعوتی وتربیتی پہلوٴوں کو بیان کیا گیا ہے۔

قسمِ ثانی: ۳۲-تا- ۴۹/ کل ۱۸/ آیتوں میں فتنہٴ مال ودولت واولادکی وضاحت؛ یعنی دوشخصوں کی مثال ، جن میں سے ایک شخص کے ساتھ زینتِ حیاتِ دنیوی کا اِغواودھوکہ، اور انجامِ بد؛ عقوبت وعذاب کا تذکرہ۔ اور دوسرے شخص کے ساتھ عدمِ رغبتِ حیاتِ دنیوی، زہد وقناعت؛ دنیوی ر ام ورامش (چمک دمک)سے اعراض، اور حسنِ انجام ؛ نصرتِ خداوندی کا تذکرہ ہے۔ اور اخیر میں دنیوی زندگی اور اس کی رونق؛ مال ودولت اور اولاد، اہل وعیال کے انجام کا ذکر ہے۔

قسمِ ثالث: ۵۰- تا- ۵۹/ کل ۱۰/ آیتوں میں فتنہٴ ابلیس لعین؛ یعنی اِغوائے شیطانی، شیطان سے عدمِ موالات کا تذکرہ ، اور اس کا انجام مذکور ہے کہ شیطان جس کا ولی ہوتا ہے اسے آیاتِ قرآن، اطاعتِ خداوندی سے اعراض پر آمادہ کرتا ہے، گناہوں کی دلدل میں پھنساتا ہے، حتی کہ اُسے جہنم کے گڑھے میں ڈھکیل کر ہی دَ م لیتا ہے۔

قسمِ رابع: ۶۰-تا- ۸۲/ کل ۲۳/ آیتوں میں فتنہٴ علم؛ یعنی قصہٴ موسیٰ وخضر علیہما السلام کا تذکرہ، اور اس کے ضمن میں رزقِ معنوی من جانب اللہ، اسی طرح تادیب، توجیہ، عبرت ونصیحت، تحصیلِ علوم میں تربیتی پہلو، اور دنیوی زندگی کے تفصیلی قضیوں کو اُجاگر کیا گیا ہے۔

قسمِ خامس: ۸۳- تا-۹۸/ کل ۱۶/ آیتوں میں فتنہٴ مُلک وسلطنت؛ یعنی قصہٴ ذو القرنین، اور اس کے ضمن میں رزقِ مادّی ومعنوی من جانب اللہ، اسی طرح تادیب، توجیہ، عبرت ونصیحت کے پہلوٴوں کو اُجاگرکیا گیا ہے۔

قسمِ سادس: ۹۹- تا-۱۱۰/ … کل ۱۲/ آیتوں میں استہزائے کافرین مع رُسل وآیاتِ خداوندی، اس استہزا پر عقابِ خداوندی، اس کے بالمقابل موٴمنین صالحین کی فضیلت اور بروزِ قیامت ان کے علوِ درجات کا تذکرہ، اور جناتِ فردوس میں داخلے کا وعدہ ہے۔

(۸) سورہٴ کہف کے مشہورموضوعات :

            ترسیخ وتصحیحِ اُصولِ عقیدہ، ارکانِ ایمان، معالجہٴ شرک،قصصِ قرآنی بغرضِ تأیید موٴمنین۔

 سورہٴ کہف کے چار مشہور قصے:     سورہٴ کہف چار قصوں پر مشتمل ہے، جو اس کے سنگِ میل یا ستون کہے جاسکتے ہیں، دوسرے الفاظ میں یہ وہ محور ہیں، جن کے گرد اس کی ساری تعلیم وموعظت اور دانش وحکمت گردش کررہی ہے۔وہ چار قصے یہ ہیں:

            (۱)اصحابِ کہف کا قصہ ۔(آیت:۹- تا-۲۶)

            (۲) صاحب الجنتین (دو باغ والے) کا قصہ۔( آیت: ۳۲- تا ۴۴)

            (۳)حضرت موسیٰ وخضر علیہما السلام کا قصہ۔ (آیت:۶۰-تا- ۸۲)

            (۴)ذو القرنین کا قصہ۔ (آیت:۸۳- تا-۹۷)

            یہ قصے اپنے اسلوبِ بیان اور سیاق وسباق کے لحاظ سے جدا ہیں، مقصد اور رُوح کے لحاظ سے ایک ہیں۔ اور اس روح نے ان کو معنوی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ مربوط اور ایک لڑی میں منسلک کردیا ہے۔(۳۱)

(۳۱) (معرکہٴ ایمان ومادّیت)

سورہٴ کہف ایمان ومادیت کی کشمکش کی کہانی: 

سورہٴ کہف دو نظریات، دو عقیدوں اور دوقسم کی نفسیات کی کشمکش کی کہانی ہے، ایک مادیت اور مادی چیزوں پر عقیدہ۔ دوسرے ایمان بالغیب اور ایمان باللہ، اس میں ان عقائد، اعمال واخلاق اور نتائج وآثار کی تشریح کی گئی ہے، جو ان دونوں قسم کی نفسیات یانظریات کے نتیجے میں ظاہر ہوتے ہیں، اور اس اول الذکر نظریہ کو اختیار کرنے کے خلاف آگاہی دی گئی ہے، جو صرف مادہ اور اس کے مظاہر پر یقین رکھتا ہے، اور خدا اور غیبی قوتوں کا منکر ہے۔(۳۲)

(۳۲) (معرکہٴ ایمان ومادّیت)

(۹)ضرب الأمثال:  سورہٴ کہف میں کل تین امثلہٴ واقعیہ بیان کی گئیں،اور ا ن میں یہ بتلایا گیا کہ اِحقاقِ حق کے لیے کثرتِ مال، کثرتِ جاہ وسلطنت کا ہونا ضروری نہیں ہے، اس کے بغیر بھی حق، حق ہی ہوتا ہے۔

            مثالِ اول: ﴿واضرب لہم مثلا رجلین جعلنا لأحدہما جنتین من أعناب وحففناہما بنخل وجعلنا بینہما زرعا﴾ ۔ (الآیة :۳۲ – ۴۴)

            مثالِ ثانی: ﴿واضرب لھم مثل الحیاة الدنیا کماء أنزلنا من السماء ماء فاختلط بہ نبات الارض فأصبح ھشیما تذروہ الریاح وکان اللّہ علی کل شيء مقتدرا﴾ ۔ (الآیة : ۴۵)

            مثالِ ثالث: ﴿وإذ قلنا للملائکة اسجدوا لاٰدم فسجدوا إلا ابلیس کان من الجن ففسق عن أمر ربہ أفتتخذونہ وذریتہ من دوني وہم لکم عدو بئس للظالمین بدلا﴾ ۔ (الآیة :۴۹)

(۱۰)بعض مشاہد قیامت کا بیان :نفخِ صور، جمعِ ناس، حشر ونشر، عرض جہنم علی الکفار، تسییرِ جبال،وضعِ کتاب(اعمال نامہ) واحوالِ مجرمین،انجام کافرین وخاسرین، حبطِ اعمالِ کافرین، جنات الفردوس برائے موٴمنین وصالحین۔

(۱۱)      سورہٴ کہف کے اِجمالی اَغراض ومقاصد:

            وصف کتابِ کریم،… مخلوقاتِ ارضی برائے زینت وابتلائے انسان،… ملکوتِ سماوات وارض میں غور وفکر از قصہٴ اصحابِ کہف، … وصفِ کہف واصحابِ کہف، … مدتِ لبثِ اصحابِ کہف در کہف،… عددِ اصحابِ کہف،… أمرِ جلوسِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مع فقرائے موٴمنین،… ذکرِملاقاتِ وبال ونکال برائے کفار بروزِ قیامت،… ضربِ امثال برائے توضیحِ حالِ فقرائے موٴمنین واَغنیائے مشرکین، … ضربِ مثل برائے حیاتِ دنیا، … عرضِ صُحف ونامہٴ اَعمال در آخرت وخوفِ مجرمین، … عداوتِ ابلیس مع آدم وبنو آدم، قصصِ موسیٰ وخضرعلیہما السلام،… قصص ذو القرنین، … سدّ یاجوج وماجوج، … کیفیت وصنعتِ سدّ ذو القرنین، … وصفِ اعمالِ مشرکین، … ذکرِ انعاماتِ ربانی برائے موٴمنین در جنت، … إخبار در لا متناہی علومِ الٰہی ۔

(۱۲)      دروسِ مستفادہ از سورہٴ کہف:           احساسِ نعمت براِ نزالِ قرآن ،… اسلوبِ قرآن در اِنذار وتبشیر،… حکمتِ تزیینِ حیاتِ دنیا؛ برائے اختبار وآزمائشِ انسان،… زہد در دنیاواجتنابِ خطواتِ شیطان،… آداب مع اللہ، مع اب، مع انبیاء ومع اولیاء،… ولایت کفار وموٴمنین،… أول فتنہٴ بنی اسرائیل از نساء،… حرکتِ اشیاء وقرارِ اشیاء در قبضہٴ خداوندی،… رضا بر قضاءِ الٰہی،… احتراز واجتناب از قنوط ویأس (نااُمیدی وناکامی)،… اعتماد ویقین بر خدا،… شکر بر توفیقِ خداوندی… کلمہٴ تحصین برائے حفاظتِ نعمتِ باری تعالیٰ: ﴿ما شاء اللّٰہ لا قوة إلا باللّٰہ﴾،وغیرہ۔ (۱۳)      محاورِ اساسیہ در سورہٴ کہف:           عصمتِ أمواجِ فتنِ متلاطمہ،…فتنہٴ ایمان (ابتلا وآزمائشِ موٴمنین)،… فتنہٴ سلطان،… فتنہٴ شباب(اصحابِ کہف)،… فتنہٴ اہل وعشیرہ (خاندان)،… فتنہٴ مال، … فتنہٴ اولاد،… فتنہٴ إبلیس لعین،… فتنہٴ علم(قصہٴ موسیٰ وخضر علیہما السلام)،… فتنہٴ یاجوج وماجوج،… فتنہٴ اَہواء (خواہشات)۔