آؤ!بیت المقدس کی سیرکریں!

نگارش:ابوعالیہ نازقاسمی،مدھوبنیؔ۔استاذجامعہ اکل کوا

 فضائل بیت المقدس:

                قرآن کریم میںبیت المقدس یایروشلم وغیرہ کے الفاظ کی صراحت کے ساتھ توکہیں بھی ذکرنہیں ہے ۔ پھر بھی بیت المقدس کی فضیلت واہمیت کواجاگرکرنے کے لیے صرف اتنی بات ہی کافی ہے ،کہ خودرب ذوالجلال والاکرام نے قرآن کریم میںاس کاذکربرکت وقدسیت جیسے الفاظ سے فرماکرالیٰ یوم النشورمحفوظ فرما دیا ہے ۔ ذیل میں چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

                {سُبْحٰنَ الَّذِیْ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًامِّنَ الْمَسْجِدِالْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِالْاَقْصَاالَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ آیٰتِنَا}الاسراء:۱

                ترجمہ: پاک ہے وہ ذات ؛جوایک رات اپنے بندے کومسجدالحرام سے مسجداقصیٰ (بیت المقدس) تک ،جس کے گرداگردہم نے برکتیںرکھی ہیں؛لے گیا۔تاکہ ہم اُسے اپنی قدرت کی نشانیاں دکھائیں ۔

                {وَاَوْرَثْنَاالْقَوْمَ الَّذِیْنَ کَانُوایَسْتَضْعِفُونَ مَشَارِقَ الاَرْضِ وَمَغَارِبَہَا الَّتِی بٰرَکْنَا فِیْہَا} الاعراف: ۱۳۷

                ترجمہ:اورجولوگ کم زورسمجھے جاتے تھے،ان کوزمین شام کے مشرق ومغرب کا؛جس میںہم نے برکت دی تھی،وارث کردیا۔ 

                {یٰقَوْمِ ادْخُلُواالَارْضَ الْمُقَدَّسَۃَ}المائدۃ:۲۱

                ترجمہ:توبھائیو!تم ارض مقدس ( ملک شام) میں ،جسے خدانے تمہارے لیے لکھ رکھاہے ،چل داخل ہو۔

                {وَنَجَّیْنٰہُ وَلُوْطًا اِلَی الاَرْضِ الَّتِی بٰرکْنَافِیْہَا لِلْعٰلَمِیْنَ}الانبیاء:۷۱

                ترجمہ:اورابراہیم اورلوط کواُس سرزمین کی طرف بچانکالا،جس میںہم نے اہل عالم کے لیے برکت رکھی تھی۔

                {وَلِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ عَاصِفَۃً تَجْرِی بِاَمْرِہٖ اِلَی الْاَرْضِ الَّتِی بٰرکَنْا فِیْہَا}الانبیاء:۸۱

                ترجمہ:اورہم نے تیزہواسلیمان کے تابع کردی تھی۔جواُن کے حکم سے اُس ملک میں چلتی تھی جس میںہم نے برکت دی تھی۔

                اہل سباکی خوش حالی اوران کی فارغ البالی کاتذکرہ کرتے ہوئے ارشادرحمانی ہے{وَجَعَلْنَا بَیْنَہُمْ وَبَیْنَ الْقُرَی الَّتِی بٰرکْنَا فِیْہَا قُرًی ظَاہِرَۃً}سبا:۱۸

                ترجمہ: اورہم نے ان کے اورشام میںان کی بستیوںکے درمیان،جن میںہم نے برکت دی تھی ایک دوسرے کے متصل دیہات بنائے تھے،جوسامنے نظرآتے تھے۔

اب حدیث پاک سے موتی چنیں:

                حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرورعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:’’لاتشد الرحال الاالیٰ ثلاثۃ مساجد: مسجدی ھٰذا؛والمسجدالحرام؛ والمسجدالاقصیٰ‘‘ ۔(یعنی شرعی طور پر) صرف تین ہی مسجدیںایسی ہیں،جن کی زیارت کی غرض سے سفرکیاجاسکتاہے ۔ میری یہ مسجد(مسجد نبوی مراد ہے) مسجدحرام اورمسجداقصیٰ۔ (مسلم :ج ۱/ص ۴۴۷)

                حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے حضوراقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا تذکرہ کیا،کہ کون سی مسجدزیادہ فضیلت کی حامل ہے ؟مسجدرسول صلی اللہ علیہ وسلم یابیت المقدس کی مسجداقصیٰ ؟تو رسالت کی زبان ،فیض ترجمان نے فرمایا:’’الصلاۃ فی المسجدالحرام بمأۃ ألف صلاۃ،والصلاۃ فی مسجدی بألف صلاۃ ، والصلاۃ فی بیت المقدس بخمس مأۃ صلاۃ‘‘یعنی مسجدحرام میںایک نمازکا ثواب ایک لاکھ کے برابرہے ،مسجدنبوی میںنمازکاثواب ایک ہزارنماز کے برابرہے ،جب کہ مسجداقصیٰ میںنمازکا ثواب پانچ سونمازکے برابرہے ۔

(فلسطین کسی صلاح الدین کے انتظارمیں:ص۹۸/بحوالہ:المعجم الکبیرللطبرانی)

                اِن مذکورہ آیات وآثارکے علاوہ بھی ذخیرۂ احادیث میںروایتیںموجودہیں،لیکن راقم السطورطوالتِ مضمون کے خوف سے اِنہیںچندپراکتفاکرتاہے ۔

بیت المقدس کومسجداقصیٰ کہنے کی وجہ:

                عربی لغت کے اعتبارسے مسجداقصیٰ کامطلب ہے ’’دورکی عبادت گاہ‘‘علامہ محمودآلوسیؒ(م:۱۲۷ھ) فرماتے ہیں:{ انہ سمی بہ لانہ ابعدالمساجدالتی تزارمن المسجدالحرام وبینہما نحومن اربعین لیلۃ:وقیل لیس وراء ہ موضع عبادۃ فہوابعدمواضعہا}(روح المعانی ج:۸/ص:۹)

                امام فخرالدین الرازیؒ(و:۲۵؍ رمضان المبارک۵۴۴ھ بروز: جمعہ /م:۶۰۶ھ) لکھتے ہیں:{مِنَ الْمَسْجِدِالْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِالْاَقْصَا} میں ’’المسجد الاقصیٰ‘‘سے مرادبیت المقدس ہے اوراس میںکسی کااختلاف بھی نہیںہے ۔(التفسیرالکبیر: ج۱۰/ ص ۱۱۷ )

                علامہ بدرالدین الزرکشیؒ(و:۷۴۵ھ بہ مقام قاہرہ/م: ۷۹۴ھ بہ مقام مصر) تحریرفرماتے ہیں کہ: بیت المقدس کومسجداقصیٰ کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ مسجدحرام(بیت اللہ) سے مسافت کے اعتبارسے بہت دورہے ۔ اس میں عبادت کاثواب بھی دوگناہے۔بعض نے کہاہے کہ اُس زمانے میںاِس کے علاوہ اتنی دورکوئی اورعبادت کی جگہ نہیںتھی ۔بعض نے کہاہے کہ یہ اقذاراورخبائث سے دورہے۔

بیت المقدس کے دیگرنام:

                بیت المقدس کاایک نام ’’شہرقدس ‘‘بھی ہے ۔اس کے علاوہ(۱)بیت القدس (۲)یروشلم بزبان عبرانی بمعنی دارالامان(۳)جیبوس(۴)ایلیا(۵)البلاط۔یعنی درباریاشاہی محل(۶)بابوش(۷)سنہری شہر ـGoldenCity (۸) یوری سیلم (۹)صہیون(۱۰)بیت السلم وغیرہ۔اس طرح امام زرکشیؒ نے اپنی مایہ ناز کتاب ’’اعلام الساجد باحکام المساجد‘‘ میں کل ۱۷؍ نام ذکرکیے ہیں۔

تعمیرمسجداقصیٰ:

                حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی تعمیرکے ۴۰؍ سال بعدسرزمینِ فلسطین میں مسجد اقصیٰ تعمیر کی ۔ اس طرح اگر دیکھاجائے ،تومسجداقصیٰ تاریخ عالم کی دوسری اور{اِنَّ اَوَّلَ بَیَْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکاًوَّہُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ} کے بعد عبادت خداوندی کی خاطراللہ کی زمین پربنائی جانے والی پہلی مسجدہے ۔مسجد اقصیٰ بیت المقدس کی سب سے بڑی مسجدہے ۔دنیاکے نقشے پرکوئی بھی مسجداِس سے زیادہ طویل وعریض نہیں ہے۔ البتہ ممکن یہ ہے کہ اس سے زیادہ وسیع اندلس کی ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ ہو۔کیوںکہ روایات کے مطابق اِس کی چھت اقصیٰ سے بڑی ہے ۔پھربھی صحنِ اقصیٰ(احاطۂ حرم) مسجدقرطبہ کے صحن سے بڑاہے ۔

                تاریخ کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ:

                ٭مسجداقصیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے معراج ہے 

                ٭یہی مسلمانوںکاقبلۂ اول ہے ۔

                ٭بیت المقدس وہ مبارک مقام ہے ،جہاںہزاروںانبیاکے قدم مبارک مس ہوئے۔

                ٭یہی وہ جگہ ہے ،جہاںحضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے کلام کیا۔

                ٭اسی جگہ مسلمانوںکوجنوںپرحکومت دی گئی۔

                ٭یہی وہ مبارک مقام ہے ،جہاںحضرت زکریاعلیہ السلام کوفرزنددلبندکی خوش خبری دی گئی۔

                ٭اسی سرزمین پرحضرت داؤدعلیہ السلام کے لیے پہاڑوںکومسخرکیاگیا۔

                ٭حضرت ابراہیم اورحضرت اسحاق علیہماالسلام کی جائے وفات بھی اسی جگہ ہے ۔

                ٭یہی وہ مقام مقدس ہے ،جہاںحضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی۔

                ٭اورمیدان حشربھی یہیںسے برپاہوگا۔اس لیے حدیث کی کتابوںمیںمکہ مکرمہ زادہااللہ شرفاً وعظماً کو ’’مبدأالارض‘‘اور اِس سرزمین بیت المقدس کو’’ارض المحشر‘‘ بھی کہا گیا ہے ۔

شرفِ عظیم:

                تاریخ عالم میںیہی وہ اکلوتی مسجدہے،جس کے شرف وعظمت کوروئے زمین کاکوئی حصہ نہیںپا سکتا۔ اس بارے میںطارق محمد السویدان لکھتے ہیں:پہلا شرف: ’’ہواول القبلتین‘‘یعنی قبلۂ اول ہے ۔ دوسرا شرف:’’ثانی المسجدین‘‘ یعنی روئے زمین پر تاریخ کائنات کی دوسری مسجد ہے۔ تیسرا شرف: ’’ثالث الحرمین‘‘ یعنی حرم مقدس ہے ۔(فلسطین : ص۱۴۷)

کئی باراجڑااورآبادہوا:

                بیت المقدس اَن گنت زیارت گاہوںوالادنیاکاسب سے قدیم ترین؛ایسا شہرہے ،جس پر۳۳؍ سے زائدصدیاںگزرچکی ہیں،جیساکہ ’’برناٹیکاانسائیکلوپیڈیا‘‘میںلکھاہے۔

                یہ دنیاکاواحدشہرہے،جویہودیوں، عیسائیوں اورمسلمانوںکے لیے یکساںطورپرمقدس اورمحترم ہے۔ انسانی یادمیںدنیاکاکوئی مقام بیت المقدس سے قدیم اب تک معلوم نہیںہوسکا۔اِس نے نہ جانے کتنی بار زمانے کی گردشوںاورحالات کے اتارچڑھاؤ کواپنی آنکھوں سے دیکھا؟یہ مقدس شہرکئی باراجڑااورآبادہوا،کئی مرتبہ زلزلوںکی مارسے کھنڈرمیںتبدیل ہوا۔٭۲۰؍ مرتبہ محصور اور ۱۸؍ بارازسرنوتعمیرہوا۔٭۲؍ بارمکمل طورپربربادی کے گھاٹ اترا۔٭ہادریان اورشاہ بابل بخت نصر۵۸۷ ؍ ق م کے عہد میں اس کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ بیت المقدس پرتبدیلیٔ مذہب کے بھی ۶؍ ادوارگذرے ہیں ۔ ایک زمانہ ایسا بھی آیاہے کہ اس پرہل چلاکرزمین کے برابر ہموارکردیاگیا۔اِس شہرقدیم کی تاریخ میں بہ مشکل ہی ۲۰؍ سال ایسے ملیںگے،جن کے دوران شہرکے باشندوں کو امن وسکون اوراطمینان کاسانس لینانصیب ہواہو۔ یوں ہوتے ہوتے تاریخ اسلام کا ایک الم ناک ترین دن ۷؍ جون۱۹۶۷ء مطابق ۲۸؍صفرالمظفر۱۳۸۷ھ بروزبدھ بھی آن پہنچا، جس میںیہودبے بہبود نے ہزاروں مسلمانوں کو شہیدکرکے بیت المقدس پر غاصبانہ قبضہ جمالیا۔

تاریخ بیت المقدس کاسرسری جائزہ:

                ٭۶۳؍ق م پومپیائی نے آکرہیکل تباہ کیا٭۶۳؍ق م تا۶۳۷؍ فلسطین پررومی اقتدار ٭۱۶۵؍ ق م ہیکل کی بحالی ٭۱۶۸؍ ق م انطوخیوس نے ہیکل تباہ کیا٭۵۲۰؍ق م تعمیرہیکل زردبابل بن سالتی٭۵۳۲؍ تا ۵۳۸؍ ق م فلسطین فارس کے زیراقتداررہا٭۹۷۰؍ ق م حضرت سلیمان بن داؤدعلیہ السلام نے ہیکل تعمیر کیا ٭ ۴ء میںولادت حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہوئی اور۱۶؍ اپریل ۳۰ء کوبیت المقدس ہی میںصلیب پرچڑھانے کی ناپاک کوشش کی گئی٭۷۰ء میںطیطس رومی نے یروشلم کوتباہ وبربادکردیا٭۱۳۵ء میںرومیوںنے معبد کو گرا کر ہل چلا دیا ٭ ۵۳۲ء حضرت مریم کے گرجاکی تعمیرہوئی٭۶۱۴ء میںخسرونے بیت المقدس پرقبضہ کیا ٭ ۹؍ مارچ ۶۲۰ء مطابق ۲۷؍ رجب ۱۱؍ نبوی بروز جمعرات کو واقعۂ معراج پیش آیا٭ ۲۰؍ اگست۶۳۶ء میںخلیفۂ ثانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فتح کاجھنڈالہرایا اور مسجد عمر کی بنیاد رکھی ٭۶۹۱ء میں عبدالملک نے قبۃ الصخرۃ تعمیرکروایا ٭ ۶۳۷ء تا ۱۰۹۹ء اسلامی شہر رہا ٭۸۳۱ء میںمامون رشیدبن ہارون رشیدنے قبۃ الصخرۃ کی مرمت کروایا ٭ ۱۰۹۹ء میںپہلی صلیبی جنگ ہوئی٭۸۸؍ سال بعد۲۷؍رجب المرجب۵۸۳ھ مطابق۲؍ اکتوبر۱۱۸۷ء بروزجمعہ کو  صلاح الدین ایوبیؒ(و:۱۱۳۷ء مطابق ۵۳۲ھ/ م: ۳؍ مارچ۱۱۹۳ء مطابق ۵۸۹ھ بروز: منگل،بہ مقام:تکریت ) نے فتح کیا اورمسجداقصیٰ کے ساتھ مسجد صخر ہ کوبھی نجاستوں سے پاک کیا ٭ ۱۲۱۲ء میںبچوںکی صلیبی جنگ ہوئی ٭۱۵۳۷ء تا۱۵۴۲ء بیت المقدس میں تعمیرات سلیمان اعظم کا سلسلہ جاری رہا٭ ۱۸۷۲ء میںصہیونیت کی پہلی چنگاری ایک روسی یہودی ’’کرسٹو کر‘‘ نے روشن کی٭۱۸۹۷ء میں باسل کے مقام پر پہلی صہیونی کانفرنس منعقد ہوئی٭۲؍ نومبر۱۹۱۷ء تک یہ قبضہ مسلمانوںکے پاس رہا ٭ ۱۹۱۷ء میں یروشلم پر فرنگیوںنے قبضہ کیا ٭ ۱۹۴۸ء میں بیت المقدس ایک بارپھرسے اسلامی شہر بنا٭۱۹۶۷ ء مطابق ۱۳۸۷ھ میں یہودیوں کا تصرف ہو گیا جو تادم تحریر موجودہے٭۱۹۶۹ء میںایک آسٹریلوی یہودی نے مسجداقصیٰ کونذر آتش کرنے کی ناپاک کوشش کی۔

مسجداقصیٰ کارقبہ :

                 مذکورہ مسجدکاکل رقبہ(۱۴۰۰۰)مربع میٹرہے،جوفصیل بندشہرقدس کاچھٹاحصہ ہے ۔یہ غیرمربوط گوشوں پرمشتمل ہے ۔مغربی گوشے کی لمبائی۴۹۱؍ میٹر،مشرقی گوشے۴۶۲؍ میٹر،شمالی گوشے۳۱۰؍میٹراورجنوبی گوشے کی لمبائی ۲۸۱؍ میٹرہے ۔اس رقبے میںجب سے مسجدبنی ہے ،اس وقت سے اب تک کوئی کمی بیشی واقع نہیںہوئی ۔ جب کہ مسجدحرام اورمسجدنبوی صلی اللہ علیہ وسلم میںباربارتوسیع ہوتی رہی ہے ۔

(فلسطین کسی صلاح الدین کے انتظارمیں:ص۱۱۸،۱۱۹)

مساحت وابواب: 

                مسجداقصی شمالاً جنوباً ۲۳۰؍ فٹ لمبی اورعرض شرقاً غرباً ۱۷۰؍ فٹ ہے ۔مسجدکے گردمضبوط فصیل ہے ، جن میں داخل ہونے کے لیے کل ۱۴؍ دروازے ہیں۔اُن میںسے ۱۰؍ دروازے آج بھی زیراستعمال ہیں،جب کہ۴؍ دروازوںکوسلطان صلاح الدین ایوبی ؒنے حفاظتی نکتہ نظرسے بندکروادیا تھا۔

موجودہ صورت حال:

                یہ ہے کہ مسجداقصیٰ کاانتظام اردنی وزارت اوقاف وامورمقدسات اسلامیہ کے ماتحت ہے ،لیکن مسجد اقصیٰ پر۱۹۶۷ ء مطابق ۱۳۸۷ھ سے یہودیوںکاقبضہ ہے ۔صیہونی حکومت غیراعلانیہ طورپریہودی دعویٰ کی     تائید کرتی اوراس راہ میںآنے والے کانٹوںکوایک ایک کرکے چننے میںلگی ہوئی ہے ۔یہودیوںکاایک بے بنیاد عقیدہ یہ ہے کہ مسجداقصیٰ’’ہیکل سلیمانی‘‘کے ملبے پرواقع ہے ،شہرقدس کے بغیرریاست اسرائیل اورہیکل کے بغیر شہرقدس بے معنی ہے ۔انہدام مسجداقصیٰ یہودیوںکاسب سے بڑاہدف ہے ،جس کے لیے انہوںنے کئی طرح کی کارروائیاںکرلی ہیںاورباقی ماندہ پروگراموںکوبرپاکرنے کے لیے سنجیدگی سے درپے ہیں۔

                مسجداقصیٰ کی مغربی دیوارکے ایک حصہ کوعلاحدہ کرکے ’’دیوارگریہ‘‘کانام دے کرمسلمانوںکواُس کے نزدیک جانے سے بھی روک رکھا ہے ۔کئی بارجلانے،گرانے اوربم سے اڑانے کی کھلے عام کارروائی کرچکے ہیں۔اس کے علاوہ مسجد کے نیچے سرنگیں کھودڈالی ہیںاوربہانے بہانے سے کھدائی کاکام کرتے ہی رہتے ہیں۔اس وجہ سے مسجداقصیٰ کے کچھ حصوںمیں دراڑیں بھی پڑگئی ہیں۔نمازکے لیے مسجدمیںمسلمانوںکاآزادانہ آمدورفت بھی نہیںہے ۔مسجدکی دیکھ بھال اور مرمت پربھی پابندی ہے ۔

                قارئین کرام: دعاکریںکہ اللہ رب العزت ؛جس نے ہلاکت نمرودکے لیے مچھراور ابرہہ کے لشکرکی تباہی کے لیے ابابیل کوبھیجا تھا، وہ ایک بارپھر اپنی قدرت سے بیت المقدس کی بازیابی کے لیے کسی صلاح الدین ایوبی کوبھیج دے ۔