اداریہ:
مولانا حذیفہ بن مولانا غلام محمد صاحب وستانوی
کائنات کا نظام قواور انین ِالٰہی :
اللہ رب العزت نے کائنات کے ذرہ ذ رہ کو محض اپنے فضل سے بڑی حکمت کے ساتھ و جود بخشا اور اس کے انتظام وانصرام کے لیے اصول وقوانین متعین کیے ۔ انہیں اصولوں کے مطابق وہ اس کائنات کے نظام کو چلارہا ہے۔ کائنات کی ذرہ برابر کوئی چیز اس کی قدرت اور دسترس سے باہر نہیں ۔ ظاہری وباطنی اورمادی و روحانی ؛تمام قوتوں کا مالک ِحقیقی وہی ہے۔اس کی مرضی اور حکم کے بغیر درخت کا پتہ بھی حرکت نہیں کرسکتا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے ، اسے کوئی مانے یا نہ مانے۔
کائنات کا اصل مقصد حضرت انسان :
اس حسین و جمیل اور انتہائی محکم کائنات میں اگر اللہ نے کسی کو ذمہ دار بنایا تو وہ ہے حضرتِ انسان ۔ کائنات اس کے لیے اور وہ خالق کائنات کے لیے ہے ؛ لہٰذا انسان کی عزت وذلت ، رفعت وپستی ، چین و سکون ، سعادت و شقاوت اور حکومت ومغلوبیت سب کے لیے اس نے اصول مقرر کر رکھے ہیں۔ انہیں اصولوں کو قرآن ِکریم نے جا بہ جا” سنة اللّٰہ“ سے تعبیر کیا اور سنة اللہ کے بارے میں اپنا اٹل فیصلہ بھی سنادیا : ﴿وَلَنْ َتجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰہِ تَبْدِیْلاً﴾کہ اللہ کے مقرر کردہ اصول وضوابط ؛جوعروج وزوال ،سعادت و شقاوت اور امن و بدامنی کے بارے میں متعین ہے ، اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔
اس وقت دنیا میں بسنے والے ۸۰۰/ کروڑ انسان مختلف قسم کی پریشانیوں کا شکار ہیں۔ خاص طور پر ظالم حکم رانوں اور ایک ماہ قبل تیزی سے پھیلنے والے متعدی اور مہلک مرض ” کورونا وائرس“ سے ۔دوسری جانب امت ِمسلمہ طویل عرصہ سے اپنوں اور غیروں دونوں کے ظلم کی چکی میں پس رہی ہے ۔ تو آئیے! کتاب وسنت کی روشنی میں دونوں قسم کی مشکلات سے نجات کا راستہ معلوم کرنے کی مقدوربھر کوشش کرتے ہیں۔
اللہ کی جانب سے بندوں کو گناہ کے باوجود ڈھیل:
اللہ تعالیٰ کا معاملہ اپنے بندوں کے ساتھ رحمت کا ہے۔ وہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا، بندے گناہ درگناہ کرتے رہیں وہ تب بھی انہیں ڈھیل دیتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو بندوں کے گناہ پر فوراً ہی سزا دے دے، مگر اس کا ڈھیل دینا بھی اس کی رحمت کا نتیجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
﴿وَرَبُّکَ الْغَفُوْرُ ذُو الرَّحْمَةِ لَوْ یُوٴَاخِذُہُمْ بِمَا کَسَبُوْا لَعَجَّلَ لَہُمُ الْعَذَابَ بَلْ لَّہُمْ مَّوْعِدٌ لَّنْ یَّجِدُوْا مِنْ دُوْنِہ مَوْیٴِلاً﴾(الکہف: ۵۸)
ترجمہ: ”تیرا پروردگار بہت ہی بخشش والا اور مہربانی والا ہے ۔وہ اگر ان کے اعمال کی سزا میں پکڑے تو بے شک انھیں جلدی عذاب کردے؛ بل کہ ان کے لیے ایک وعدہ کی گھڑی مقرر ہے، جس سے وہ سرکنے کی ہرگز جگہ نہیں پائیں گے۔“
یعنی اللہ تعالیٰ عذاب دینے میں جلدی نہیں کرتا؛بل کہ اپنی رحمت کے معاملے کو جاری رکھتے ہوئے ڈھیل دیتا رہتا ہے۔ ایک اور مقام پر فرمایا:
﴿وَلَوْ یُوٴَاخِذُ اللّٰہُ النَّاسَ بِمَا کَسَبُوْا مَا تَرَکَ عَلٰی ظَہْرِہَا مِنْ دَابَّةٍ وَّلٰکِنْ یُّوَخِّرُہُمْ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاِذَا جَاءَ اَجَلُہُمْ فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِعِبَادِہ بَصِیْرًا﴾(فاطر:۴۵)
ترجمہ: ”اور اگر اللہ تعالیٰ لوگوں پر ان کے اعمال کے سبب سخت گیری فرمانے لگتا تو روئے زمین پر ایک بھی جاندار کو نہ چھوڑتا ؛لیکن اللہ تعالیٰ ان کو میعادِ معین تک مہلت دے رہا ہے۔سو جب ان کی میعاد آپہنچے گی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آپ دیکھ لے گا“(فاطر:۴۵)
اللہ کی رحمت کی وجہ سے عمومی عذاب نہیں آتا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا تو اپنے پاس عرش پر ایک کتاب لکھی اور اس میں یہ بات بھی لکھی: ”اِنَّ رَحْمَتِیْ سَبَقَتْ غَضَبِیْ“(صحیح البخاری:۷۴۲۲)
”بے شک میری رحمت میرے غصے پر سبقت لے گئی۔“ یعنی اللہ کی رحمت اس کے غصے اور عذاب پر غالب ہے؛ اسی بات کو قرآن میں یوں بیان کیا گیا ہے۔
﴿اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِأَنْفُسِہِمْ﴾(الرعد:۱۱)
ترجمہ: ”بے شک اللہ تعالیٰ نہیں بدلتا اس (نعمت) کو جوکسی قوم کے پاس ہے؛ یہاں تک وہ خود بدل لیں اس کو جو اُن کے دلوں میں ہے۔“
یعنی ان کے دلوں میں جو ایمان اور فطرت کی نعمت ہے جب تک وہ اسے نہیں بدلتے، اللہ تعالیٰ انہیں عذاب میں گرفتار نہیں کرتا۔ یہ تمام نصوص اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے ساتھ سب سے پہلا جو معاملہ ہے وہ رحمت کا ہے۔
جب گناہ بہت زیادہ ہونے لگتے ہیں تو اللہ کو غصہ آتا ہے :
اب سوال یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اتناہی رحمان و رحیم ہے تو پھر اس کا عذاب کیوں آتا ہے؟رحمت کے باجود ہم کچھ لو گوں کو عذاب میں مبتلا دیکھتے ہیں؟ اللہ کی پکڑ کب اور کیوں آتی ہے؟
ارشادباری تعالیٰ ہے:
﴿فَلَمَّآ اٰسَفُوْنَا انْتَقَمْنَا مِنْہُمْ فَاَغْرَقْنٰہُمْ اَجْمَعِیْنَ﴾ (الزخرف :۵۵)
”پھر جب انہوں نے ہمیں غصہ دلایا تو ہم نے ان سے انتقام لیا اور سب کو ڈبو دیا۔“
غور و فکر کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو غصہ کب آتا ہے؟
اللہ کی ناراضگی کے اسباب :
رحمت کر نے کے بجائے،وہ غصب سے دو چار کیوں کرتا ہے؟قرآن و حدیث کے مطالعہ کے بعد چند ایسی صورتیں سامنے آتی ہیں،جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی پکڑ آتی ہے۔
ارشاد ہوتا ہے : ﴿ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ﴾ خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا ہے ۔﴿بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ ﴾انسانوں کے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے ۔اور اس میں اللہ کی حکمت یہ ہے کہ ﴿لِیُذِیْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا ﴾تاکہ ان کو ان کے بعض کاموں کا بدلہ چکھائے ۔ یعنی لوگوں کی بد اعمالیوں کی یا تو انہیں سزا دی جائے ۔ یاکم از کم تنبیہ کی جائے۔﴿لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ ﴾ تاکہ وہ واپس لوٹ آئیں، یعنی اپنی بد اعمالیوں سے باز آجائیں۔
امام بیضاوی فرماتے ہیں کہ اس فساد سے مراد قحط سالی کی کثرت ،اموات اور وبائیں وغیرہ ہیں ۔ بعض مفسرین فرماتے ہیں کہ فساد سے مراد جنگیں ہیں ، جو بڑی تباہی پھیلاتی ہیں۔چناں چہ اس سورة کے نزول کے وقت قیصر و کسریٰ کے درمیان جنگ ہورہی تھی، جس کا ذکر سورہٴ ہذا کی ابتدائی آیات میں ہوچکا ہے ۔ اس وقت بحر وبر میں قتل کا بازار گرم تھا، فریقین ایک دوسرے پر بڑھ چڑھ کر حملے کررہے تھے،جس کے نتیجے میں کثرت سے موتیں واقع ہورہی تھیں، جانور ہلاک ہورہے تھے ، فصل تباہ اور مکانات منہدم ہورہے تھے ۔ موجودہ ایٹمی دور کی جنگیں تو مزید خطرناک ہیں،اب تو وسیع پیمانے پر بمباری ہوتی ہے ، توپیں گولہ باری کرتی ہیں، ٹینک آگ برساتے ہیں، کیمیائی اور ایٹمی ہتھیار استعمال ہوتے ہیں ، جس سے لاکھوں نفوس آنِ واحد میں موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں، شہر اور بستیاں کھنڈرات میں تبدیل ہوجاتی ہیں؛ فیکٹریاں تباہ اورکھیت ویران ہوجاتے ہیں ، ایسے ہی واقعات کے متعلق فرمایا کہ خشکی اور تری میں فساد برپا ہوچکا ہے۔
مصائب کی اصل وجہ انسان کی بد اعمالی:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مذکورہ تباہی وبربادی عام طوپر انسانوں کے اپنے کرتوتوں کی وجہ سے آتی ہے۔ جنگ چھڑجائے یا کوئی حادثہ ازقسم زلزلہ ، طوفان یا کوئی آفت آجائے اس میں کسی نہ کسی طور پر انسانی ہاتھوں کا دخل ہوتا ہے؛ اگر چہ اس میں مطلق انسانی دخل نہیں ہوتا ، تاہم عام طورپر یہ انسان کی بد اعمالیوں کا ہی نتیجہ ہوتا ہے۔ سورہ شوریٰ میں فرمایا :
﴿وَمَا اَصَابَکُمْ مِنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُم وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ ﴾(الشوریٰ: ۳۰)
تمہیں جو بھی مصائب پہنچتے ہیں وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی ہوتی ہے؛ اگرچہ اللہ تعالیٰ بہت سی باتوں میں در گزر بھی فرماتا ہے۔
سب سے بڑا گناہ شرک ،کفر اور الحاد:
اعمالِ بد میں سرفہرست کفر اور شرک ہے؛یہی ساری برائیوں کی جڑ، بنیاد اور یہی فساد فی الارض ہے ۔ امام ابو العالیہ؛ جو تابعین میں سے ہیں،وہ فرماتے ہیں کہ: ” مَنْ عَصَی اللّٰہَ فِی الْاَرْضِ فَقَدْ اَفْسَدَ فِی الْاَرْضِ “ یعنی جس شخص نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی ،اس نے گویا زمین میں فساد پھیلایا ۔منافقوں کے متعلق بھی سورہٴ بقرہ میں موجود ہے: ﴿لَا تُفْسِدُوْا فِی اْلاَرْضِ ﴾ زمین میں نفاق کے بیج بوکر فساد نہ برپا کرو ۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے بھی اپنی قوم سے یہی فرمایا تھا :﴿وَلَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِہَا﴾(الاعراف: ۸۵)زمین کی درستگی کے بعد اس میں فساد نہ پھیلاوٴ۔ وہ لوگ تجارت میں خرابی کرتے تھے ، لین دین میں ڈنڈیاں مارتے اور لوگوں کے حقوق غصب کرتے تھے۔ راستوں میں ڈاکے ڈالتے تھے اور اللہ کے نبی کو تبلیغ سے روکتے تھے ، یہ سب فساد فی الارض کی تعریف میں آتا ہے۔
معصیت ہی فساد کا سبب ہے :
جس شخص نے زمین میں معصیت کا ارتکاب کیا، وہ بھی فساد فی الارض کا مرتکب شمار ہوگا۔کیوں کہ ”صَلَاحُ الْاَرْضِ بِالطَّاعَة“ِ زمین کی درستگی اطاعت کے ذریعہ ہوتی ہے اور نافرمانی باعث فساد ہوتی ہے؛اسی لیے بزرگان ِدین کا مقولہ ہے :
”اَللّٰہُمَّ انْقُلْنِیْ مِنْ ذُلِّ الْمَعْصِیَةِ اِلٰی عِزِّ الطَّاعَةِ“۔
اے اللہ ! ہمیں معصیت کی ذلت سے نکال کر اطاعت کی عزت تک پہنچا۔
شریعت الٰہی سے روگردانی خسارہ کا باعث ہے :
امام بیضاوی فرماتے ہیں کہ ” اخلال بالشرائع“ یعنی قوانین ِالٰہیہ کی خلاف ورزی ہی فساد فی الارض ہے۔ اس کے برخلاف حضور علیہ السلام نے اصلاح فی الارض کے ضمن میں فرمایا :
” لَحَدٌّ یُّقَامُ فِی الْاَرْضِ خَیْرٌ اِلٰی اَہْلِہَا مِنْ اَنْ یُّمْطَرُوْا اَرْبَعِیْنَ صَبَاحًا “۔
(ابن کثیر:۳/۴۳۵)
یعنی زمین پر اللہ کی ایک حد جاری کردینا اہل علاقہ کے لیے چالیس دن کی اس مسلسل بارش سے زیادہ بہتر ہے ،جو فصلوں کے لیے مفید ہو۔ امام ابو حنیفہ بھی فرماتے ہیں”الحدود زواجر“حدود کا اجراء باعث تنبیہ ہوتا ہے ؛کسی ایک مجرم پر حد جاری ہوتی ہے تو دوسروں کو تنبیہ ہوتی ہے اور وہ برائی سے باز آجاتے ہیں۔
فاجر کی موت سے دنیا کو راحت نصیب ہوتی ہے :
بخاری ، مسلم اور موٴطا مالک میں یہ حدیث موجود ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا :” اِنَّ الْفَاجِرَ اِذَا مَاتَ یَسْتَرِیْحُ مِنْہُ الْعِبَادُ وَالْبِلَادُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ “جب کوئی فاسق و فاجر آدمی مر جاتا ہے تو بندے ، شہر ، درخت اور جانور اس سے راحت پاتے ہیں ۔کیوں کہ اس گناہ گار آدمی کے گناہوں کا ان اشیا پر منفی اثر ہوتا ہے ، جس کی وجہ سے رزق میں کمی آتی ہے۔ جب فرعون غرق ہوا تو اللہ نے فرمایا:﴿ فَمَا بَکَتْ عَلَیْہِمُ السَّمَاءُ وَالْاَرْضُ﴾ (الدخان:۲۹)ان پر نہ زمین روئی اور نہ آسمان ، بل کہ ان پر یہ محاورہ صادق آیا : ” خس کم و جہاں پاک۔ “ دیگر ظالم قوموں کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔
﴿فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ (الانعام: ۴۵)
اللہ نے ظالم قوم کی جڑ ہی اکھاڑ کر رکھ دی اورسب تعریف اللہ کے لیے ہے ،جس نے زمین کو ان ظالموں سے پاک کردیا۔بہرحال جب کوئی فاسق ، فاجر اور ناہنجار آدمی مرجاتا ہے تو زمین کی چیزیں اللہ کا شکر ادا کرتی ہیں کہ اس بدبخت کی نحوست سے ہی بچ گئیں۔
اہل ایمان کی موت پر آسمان وزمین روتے ہیں:
اس کے برخلاف اگر کوئی اہل ِایمان اورنیک آدمی اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے توآسمان کے وہ دروازے روتے ہیں،جہاں سے اس شخص کے اعمال اوپر جایا کرتے تھے اور وہ دروازے بھی روتے ہیں ،جہاں سے اس کی روزی کا حکم آتا تھا۔
عدل کا اثر غلوں اور پھلوں پر اچھا ہوتا ہے:
امام ابن کثیر نے ابن زیاد کی گورنری کے زمانے کا واقعہ بیان کیا ہے کہ کسی شخص کو ایک تھیلی ملی ،جس میں کھجور کی گٹھلی جتنے موٹے موٹے گندم کے دانے تھے۔ اس تھیلی پر لکھا تھا کہ یہ اس زمانے کی پیداوار ہے جب زمین پرعدل و انصاف کا دور دورہ تھا ۔ گویا عدل وانصاف کی اتنی برکت تھی کہ اللہ تعالیٰ وافر غلہ پیدا کرتا تھا؛اسی طرح صحیح حدیث میں آتا ہے کہ مسیح علیہ السلام کے دوبارہ نزول پر کفر وشرک مٹ جائے گا ، دنیا میں نیکی اور اطاعت کا دور دورہ ہوگا، اس وقت زمین اپنی تمام برکات کو اگل دے گی اور انارکا ایک دانہ سیکڑوں آدمیوں کی خوراک کے لیے کافی ہوگا؛اس وقت فتنہ وفساد ختم ہوجائے گا اورلوگ امن وسکون اوراتفاق واتحاد کی زندگی بسر کریں گے۔
دنیا میں مصائب اور اللہ کی حکمتیں :
مصائب وآلام دو وجوہ سے آتے ہیں ۔ یا تو ان کے ذریعے نافرمان افراد اورقوموں کی ہلاکت مقصود ہوتی ہے یا پھر انہیں تنبیہ کرنا مطلوب ہوتا ہے؛تاکہ وہ نافرمانی سے باز آکر اطاعت کا راستہ اختیار کرلیں ۔ قرآن ِپاک میں ان دونوں اسباب کا ذکر موجود ہے۔ دیکھیے! مصائب تو انبیا پربھی آتے ہیں ؛حالاں کہ وہ تو گناہ سے پاک ہوتے ہیں ۔ ان کو مصائب کے ذریعے ابتلا میں ڈالا جاتا ہے، تا کہ ان کے درجات بلند ہوں، ان کو تہذیب حاصل ہواور ان کے نفوس پاک ہوجائیں ۔ عام انسانوں کو بھی تکالیف آتی ہیں توان کے بھی مختلف اسباب ہوتے ہیں ۔ بدکار آدمیوں کو سزا دینا یا تنبیہ کرنا مقصود ہوتاہے ،مگر نیک آدمیوں کے لیے تکالیف ان کے ثواب میں اضافہ اور بلندیٴ درجات کے لیے آتی ہیں۔ امام شاہ ولی اللہ اس کی مثال اس طرح بیان کرتے ہیں: کہ کسی بیمار آدمی کو کڑوی دوائی پلاکر سمجھادیا جاتا ہے کہ اس سے تمہیں تکلیف دینا مقصود نہیں، بل کہ اس کا نتیجہ تمہارے حق میں اچھا ہوگا یا اگر کسی شخص کے جسم کا کوئی حصہ بالکل ناکارہ ہوجائے اور اس کے اثرات جسم کے دوسرے حصوں میں بھی پھیلنے کا خطرہ ہوتو ڈاکٹر اس مفلوجہ حصہٴ جسم کو کاٹ کر پھینکنے میں ہی مصلحت دیکھتے ہیں ؛ کیوں کہ اس کا کٹ جانا ہی آدمی کے حق میں بہتر ہوتاہے۔
انسان کو اس کے اعمال کا بدلہ ملنا ضروری ہے :
شاہ صاحب کی حکمت میں یہ بات مسلَّم ہے کہ انسانوں کو ان کے اعمال کا بدلہ ملنا ضروری ہے۔ بعض اوقات بدلے کا کچھ حصہ دنیامیں بھی مل جاتا ہے ، مگر اس کا زیادہ حصہ آخرت میں ہی ملے گا۔
اعمال کی جزا و سزا کی چار وجوہات:
شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ انسان کی فطرت کا تقاضا ہے کہ ا سے اس کے عمل کی جزا یا سزا ضرور ملنی چاہیے اور اس کی آپ نے چار وجوہات بیان کی ہیں ۔
۱… پہلی وجہ یہ ہے کہ انسان کی فطرت ملَکیت اور بہیمیت کی کشمکش کانام ہے ، جو ہمیشہ جاری رہتی ہے ۔ فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ بہیمیت مغلوب ہوکر ملکیت غالب آجائے ۔ اب اگر اس کے برخلاف ہوگا تو وہ فطرت کے خلاف ہوگا اوراس لیے انسان کو سزا ملنی چاہیے۔
۲… شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ ملاء اعلیٰ کے فرشتوں کی دعائیں اوربددعائیں بھی انسانی جزا وسزا کا سبب بنتی ہیں۔ جب کوئی شخص نیک عمل انجام دیتا ہے توملاء اعلیٰ کے فرشتوں سے شعائیں نکلتی ہیں، جو اس شخص پربھی پڑتی ہیں اوراوپر بھی جاتی ہیں اور پھر ان کا انسان کے حق میں اچھا نتیجہ نکلتا ہے ۔ اسی طرح جب کوئی آدمی برے فعل کا ارتکاب کرتا ہے تو فرشتوں سے شعائیں نکلتی ہیں۔ یہ شعائیں بھی متعلقہ شخص پر پڑتی ہیں اور اوپر کی طرف بھی جاتی ہیں۔ اس طرح گویافرشتوں کی دعائیں اوربددعائیں بھی جزا یا سزا کا سبب بنتی ہیں ۔
۳… فرماتے ہیں کہ جزا و سزا کی تیسری وجہ یہ ہے کہ اللہ کے مقرر کردہ شرائع کا تقاضا ہے کہ انسان ان کی پابندی کریں۔ اب اگر وہ ان قوانین کی پابندی کرتے ہیں تو جزا؛ ورنہ سز اکے حق دار بننا چاہئیں۔
۴… اور چوتھی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انبیا کو مبعوث فرماکر حلال وحرام اور جائزو ناجائز کو واضح کردیا ہے۔ اب جو شخص اچھا کام کرے گا وہ اچھے بدلے کا حق دار ہے اور جو حرام اور ناجائز کو اختیار کرے گا ، معصیت کا ارتکاب کرے گا، اسے سزا ملنی ہی چاہیے ۔ یہ چار چیزیں جزائے عمل کا سبب ہیں۔
اللہ کی جانب سے اعمالِ سیئہ پر آنی والی دنیوی سزائیں:
نبی ٴاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”:یَامَعْشَرَ الْمُہَاجِرِینَ، خَمْسٌ إِذَا ابْتُلِیتُمْ بِہِنَّ،وَأَعُوذُ بِاللَّہِ أَنْ تُدْرِکُوہُنَّ،لَمْ تَظْہَرِ الْفَاحِشَةُ فِی قَوْمٍ قَطُّ،حَتَّی یُعْلِنُوا، بِہَا إِلَّا فَشَا فِیہِمُ الطَّاعُونُ وَالْأَوْجَاعُ، الَّتِی لَمْ تَکُنْ مَضَتْ فِی أَسْلَافِہِمُ الَّذِینَ مَضَوْا،وَلَمْ یَنْقُصُوا الْمِکْیَالَ وَالْمِیزَانَ، إِلَّا أُخِذُوا بِالسِّنِینَ، وَشِدَّةِ الْمَئُونَةِ، وَجَوْرِ السُّلْطَانِ عَلَیْہِمْ، وَلَمْ یَمْنَعُوا زَکَاةَ أَمْوَالِہِمْ إِلَّا مُنِعُوا الْمَطْرَ مِنَ السَّمَاءِ، وَلَوْلَا الْبَہَائِمُ لَمْ یُمْطَرُوا وَلَمْ یَنْقُضُوا عَہْدَ اللَّہِ،وَعَہْدَ رَسُولِہِ إِلَّا سَلَّطَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ عَدُوًّا مِنْ غَیْرِہِمْ، فَأَخَذُوا بَعْضَ مَا فِی أَیْدِیہِمْ وَمَا لَمْ تَحْکُمْ أَئِمَّتُہُمْ بِکِتَابِ اللَّہِ،وَیَتَخَیَّرُوا مِمَّا أَنْزَلَ اللَّہُ إِلَّا جَعَلَ اللَّہُ بَأْسَہُمْ بَیْنَہُمْ. “
(سنن ابن ماجہ رقم: ۴۰۱۹، معجم الأوسط للطبرانی رقم: ۴۶۷۱، مستدرک الحاکم رقم: ۸۷۲۳)
” اے مہاجرین کی جماعت! پانچ خصلتیں ایسی ہیں اگرتم ان میں ملوث ہوگئے (تو انتہائی خطرناک ہوگا) اور میں ان میں پڑنے سے اللہ کی پناہ پکڑتا ہوں۔ جب بھی کسی قوم میں اعلانیہ فحاشی ہونے لگتی ہے ، توان میں طاعون اور ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں، جن کا تصور بھی گزشتہ زمانوں میں نہیں تھااور جب بھی لوگ ناپ تول میں کمی بیشی کرنے لگتے ہیں تو قحط سالی ، محتاجگی اور بادشاہ کے ظلم سے انہیں دوچار کردیا جاتا ہے اورجب جب لوگ زکوٰة دینے سے بھاگتے ہیں، تو ان سے بارش روک لی جاتی ہے۔ اگر چوپایے نہ ہوتے تو بارش نہ ہوتی اور جب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدے سے لوگ پھر جاتے ہیں تو ان کے علاوہ میں سے دشمن ان پر مسلط کردیاجاتا ہے تو اس سے سب کچھ لے لیا جاتا ہے، جواُن کے پاس ہوتا ہے۔ اور جب بھی لوگ (ان کے ائمہ) اللہ کے منزل من اللہ کے فیصلے سے راضی نہیں ہوں گے، ان کو اپنا فیصل تسلیم نہیں کریں گے اور اللہ کے نازل کردہ شریعت سے راضی نہیں ہوں گے تو ان میں آپس میں ہی لڑائی شروع ہوجائے گی۔(آپسی خانہ جنگی پیدا ہوجائے گی)۔
ایسی بلائیں اور امراض ؛اس وقت اللہ کریم انسانی زندگی میں نازل کرتا ہے ،جب انسانی معاشرہ میں فحش کاریاں ، بے حیائیاں ، بدمعاشیاں، معصیتیں اور خامیاں خرابیاں اپنے اوج ستم اور عروجِ کمال پر ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
﴿وَمَا اَصَابَکُمْ مِنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ﴾(الشوری:۳۰)
”تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہیں اور وہ تو بہت سی باتوں سے در گزر فرمادیتا ہے ۔“
بہر حال موجودہ بد ترین حالات کے ذمہ دار زمین پر بسنے والے انسان اور ان کی بد اعمالیاں ہیں، یہ مذکورہ آیت سے معلوم ہوتاہے۔ احادیث ِمبارکہ میں اس کی مزید وضاحت موجود ہے کہ کون سے گناہ کی کثرت کس طرح کے عذاب کا باعث ہوئی۔
حدیث ِمذکورہ سے معلوم ہوا کہ پانچ طرح کے گناہ پانچ بڑی بڑی مصیبتوں کا سبب ہوئے ہیں، جو مندرجہ ذیل ہیں:
۱- بے حیائی اورفحاشی کی کثرت۔
۱- ہلاکت خیز بیماریوں کی کثرت کا ذریعہ۔
۲- ناپ تول میں کمی یعنی تجارت میں دھوکہ کا عام ہونا ۔
۲- کثرتِ مصائب، بھوک مری اور ظالم حکم رانوں کے مسلط ہونے کا ذریعہ ۔
۳- زکوٰة نہ دینا، مال جمع کرنا ۔
۳- بارش کی قلت کا سبب۔
۴- اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کیے ہوئے عہد کی پامالی ۔
۴- دشمن کے مسلط ہونے کا باعث ہوئی ،جو انسانوں سے سب کچھ چھین لیتے ہیں۔
۵- حکم رانوں کا کتاب اللہ اور سنت ِرسول اللہ سے روگردانی کرنا۔
۵- آپس میں شدتِ اختلاف کا باعث ہوتا ہے۔
اگر بہ نظر ِغائر ہم اپنے ارد گرد کے احوال کا مشاہدہ کرتے ہیں، تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظروں کے سامنے یہ سب کچھ ہورہا ہو۔ اس طرح آپ نے بیان کیا اور یہ ہمارے ایمان میں تقویت کا باعث ہونا چاہیے اور ہمیں اپنی غلطیوں کی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے۔
حدیث میں بیان کردہ عذاب اور اس کا نقشہ
” کرونا “ اور ”کینسر “ وغیرہ>………<بے حیائی۔
تجارت میں دھوکہ>……………<ظالم حکم راں اور بھوک مری۔
زکوٰة نہ دینا اور بخل>…………<موسم میں تبدیلیاں اور بارش کی قلت۔
عہد خداوندی کی پامالی……………<دشمن کا تسلط ۔
کتاب اللہ سے اعراض>…………<آپسی اختلاف ۔
اللہ ہمیں ہدایت دے اور صحیح سمجھ عطا فرمائے۔
مسلمانوں کا عروج وزوال کتاب و سنت کی روشنی میں :
عام مصیبت کے بعد اب مسلمانوں پر خصوصی طور پر آئی تنزلی اور اس کے اسباب کا جائزہ لیتے ہیں :
(۱) …فقیہ بے مثل مفتی اعظم پاکستان اور خلیفہٴ خاص حضرت تھانوی‘ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب نور اللہ مرقدہ نے حیاة المسلمین کے شروع میں ”تسہیل مقدمہ “ کے عنوان سے حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی تعلیمات کی روشنی میں مسلمانوں کے عروج و زوال کے اسباب پر بڑی قیمتی باتیں قلمبند کی ہیں، جس کا اقتباس قدرے حذف و ترمیم کے ساتھ پیش خدمت ہے۔
مسلمانوں کا ہزار سالہ عروج :
یک من وخیل آرزودل بچہ مدعا دہم
تن ہمہ داغ داغ شد پنبہ کجا کجا نہم
تاریخ ِاسلام کے ایک ہزار سال کس آب و تاب ، شان وشوکت اورعروج و اقبال کے ساتھ گزرے ، اپنوں سے زیادہ بیگانوں کی زبانیں طوعاً یا کرہاً اس کے محیر العقول کارناموں کی معترف ہیں۔ اس میں بہت طویل زمانہ ایسا بھی گزرا کہ تقریباً پورا عالم صرف کلمہ” لاالٰہ الا اللّٰہ“ کے ماننے والوں کے زیرنگیں تھا،کوئی قابل ِذکر سلطنت وریاست نہ تھی ، جو مسلمانوں کی باج گزار نہ ہو۔
اس ایک ہزار سالہ دور میں درمیانی خلفشار اور باہمی افتراق کے فتنے ضرور ہوئے ، مگر اسلام اور مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے اقتدار پر مجموعی اور عمومی طور پر کوئی خاص اثر نہیں ہوا۔ فتنے آئے اور بادل کی طرح چھٹ گئے بقول اقبال مرحوم
رکتا نہ تھا کسی سے سیل ِرواں ہمارا
گیارہویں صدی سے مسلمانوں کے زوال کا آغاز :
لیکن تقریباً گیارہویں صدی ہجری اور سترہویں صدی عیسوی مسلمانوں کے مسلسل اور عمومی انحطاط اور اقوام یورپ کے خروج وعروج کا زمانہ ہے۔
اس وقت سے مسلمانوں پر مسلسل فتنوں کا طوفان اور تمام شعبہ ہائے زندگی ،علمی ، عملی اخلاقی، معاشرتی ، سیاسی اوراقتصادی حالات میں عالم گیر انحطاط اس تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے کہ ان موجودہ حالات کو اگر پچاس برس پہلے زمانے کے ساتھ موازنہ کرنے لگیں تو یہ محسوس ہوگا کہ وہ کوئی اور قوم تھی اور یہ کوئی دوسری قوم ہے
مے خانہ نے رنگ و روپ بدلا ایسا
میکش ؛ میکش رہا نہ ساقی ساقی
صالحین ومصلحین سے اس امت کا کوئی دور الحمدللہ خالی نہیں رہا۔ اور ان شاء اللہ آئندہ بھی خالی نہیں رہے گا ، مگر کثرت وقلت اور درجات و مراتب کا فرق اسی رفتارِ انحطاط کی طرح ان میں بھی بڑھا۔ اس جماعت میں قلت بھی آئی اور ضعف بھی ، لیکن حسب ِوعدہٴ حدیث یہ جماعت ہر جگہ اور ہر زمانہ میں مسلمانوں کے امراض کی تشخیص اور علاج کی تجویز اور اصلاح کی تدبیر میں اپنا منصبی فرض ادا کرتی ہی رہی اور سیف وقلم کے دونوں معرکوں میں انہیں حضرات کی قیادت ورہبری کار گر ثابت ہوئی۔ان ہی میں سے گزشتہ صدی میں حضرت تھانوی نور اللہ مرقدہ گذرے ہیں۔ آپ امت کی ابتر حالات پر بہت زیادہ کڑھتے تھے ، آپ نے مسلمانوں کی تنزلی کے بعض بنیادی اسباب بیان کیے ہیں، جسے مفتی صاحب نور اللہ مرقدہ نے بڑے سلیس انداز میں بیان کیا ہے ۔
حکیم الامت مجدد ملت حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مسلمانوں میں تین ایسی بنیادی چیزیں ہیں، جو مسلمانوں کی تنزلی کا سبب ہیں۔(۱) …جہالت (۲)…افلاس (۳)…غفلت اور تشویش ۔
ان تین چیزوں کو دور کیاگیا تو آلام و مصائب دور ہوسکتے ہیں۔اگرہم غور کریں تو واقعتا سمجھ میں آئے گا کہ ہماری تنزلی کے تین بنیادی اسباب ہیں۔
(۱)…جہالت : اس میں کوئی شک نہیں کہ امت ِمسلمہ ہراعتبار سے جہالت کا شکار ہے ۔ خاص طور پر دینی تعلیم میں جہالت نا قابل ِبیان ہے اور دنیوی تعلیم؛ جس کو آج کا مسلمان سب کچھ تصور کرتا ہے ، اس میں بھی اس کی حالت بہتر نہیں۔اگر تعلیم کے اعتبار سے دنیوی تعلیم ہی کو مان لیے تب بھی،ابتر حالت ہے۔ اگراس دنیوی تعلیم کے ساتھ دین نہیں تو ترقی نہیں کرسکتا، جس کی تفصیلات عنقریب آرہی ہے۔
(۲)…افلاس : اگرچہ مسلمانوں کے ایک مختصر طبقے کے پاس مال کی فراوانی ہے ، مگر بڑا طبقہ افلاس کا شکار ہے اور جن کے پاس مال کی فراوانی ہے ، ان کے پاس عام طور پر دین نہیں ۔ لہٰذا وہ طبقہ مسلمانوں کے کسی کام کا نہیں؛ ، بل کہ نقصان دہ ہے ۔
(۳)…غفلت: یہ تو امت ِمسلمہ کا عصر حاضر کا سب سے بڑا مرض ہے۔مسلمانوں کے ہر طبقہ میں غفلت نے تو گویا ڈیرے ڈال رکھے ہیں ، جس طرح کی غفلت امت میں آج ہے ،شاید اس سے پہلے کبھی امت میں اتنی نہیں رہی ہوگی۔ اور غضب تو یہ ہے کہ اسے اپنی غفلت کا احساس بھی بالکل نہیں ہے ۔ اللہ ہی رحم فرمائے۔
بہر حال مایوس نہیں ہونا چاہیے ۔ اللہ کا نام لے کر کھڑا ہوجانا چاہیے۔اور ہرمسلمان کو جہالت ، افلاس اور غفلت کو دور کرکے عروج کی تدابیر اختیار کرنی چاہیے۔ اللہ ضرور کام یابی سے ہم کنار کرے گا۔ان شاء اللہ!
حضرت ہی نے عروج کی چند بنیادی تدابیر بتلائی ہیں ۔
(۱)…مسلمانوں کی عزت کی زندگی موقوف ہے صرف اور صرف اللہ کی فرماں برداری پر ۔ مجذوب رحمہ اللہ نے کیا خوب کہا ہے
تمہاری قوم کی تو ہے بنا دین وایماں پر
تمہاری زندگی موقوف ہے تعمیل قرآں پر
تمہاری فتحیابی منحصر ہے فضل یزداں پر
نہ قوت پر نہ کثرت پر نہ شوکت پر نہ ساماں پر
معلوم ہوا کہ مسلمانوں کی ترقی اور عروج میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا سب سے بڑا دخل ہے؛ لہٰذا وہ غیروں کی نقالی اور مشابہت اختیار کرکے ترقی اور عروج حاصل نہیں کرسکتا۔حضرت تھانوی فرماتے ہیں:
دنیا میں راحت کی زندگی اللہ کے فرماں برداروں کو نصیب ہوتی ہے:
حقیقی زندگی اور راحت؛ دنیا میں بھی صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرماں برداروں کا حصہ ہے ۔ نافرمان دنیا میں بھی حقیقی زندکی اور حقیقی راحت سے محروم ہیں۔
ارشاد ہے : ﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہ حَیٰوةً طَیِّبَةً وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾(النحل: ۹۷)
ترجمہ: ”جس شخص نے بھی مومن ہونے کی حالت میں نیک عمل کیا ہوگا، چاہے وہ مرد ہو یا عورت، ہم اسے پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے۔ اور ایسے لوگوں کو ان کے بہترین اعمال کے مطابق ان کا اجر ضرور عطا کریں گے۔“
محققین ائمہ تفسیر حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہم نے اس آیت میں حیات کی تفسیر حیاتِ دنیوی ہی سے کی ہے۔ اور فرمایا ہے کہ حیات ِطیبہ سے وہ زندگی مراد ہے، جس میں سکون و اطمینان حاصل ہو۔ (روح المعانی)
قناعت کے ساتھ راحت نصیب ہوتی ہے :
اور یہ زندگی صرف ان لوگوں کو حاصل ہوسکتی ہے ، جن کو قناعت کی دولت نصیب ہو اور جو کچھ حق تعالیٰ نے ان کی قسمت میں لکھ دیا ہے ، اس پر راضی ہوں ، حرص و طمع سے آزاد ہوں اور ظاہر ہے کہ یہ حیات صرف اہل ایمان اور مطیعان حق کو ہی میسر ہوسکتی ہے۔
اللہ کے نافرمانوں کی زندگی ہزار اسباب راحت کے باوجود تنگ اور بے لذت ہوتی ہے :
خدا کے نافرمان اور باغی کو یہ زندگی حاصل نہیں ہوسکتی ؛ بل کہ اس کی زندگی ہزار اسباب ِراحت اور ہر قسم کی نعمت ودولت کے موجود ہوتے ہوئے بھی تنگ اور بے لذت ہوتی ہے۔ وہ اپنی حرص وطمع کی وجہ سے کسی حد پر مطمئن نہیں ہوتا ،ہر وقت دولت بڑھانے کی فکر میں سر گرداں رہتا ہے۔ اور جب کوئی امر ذہنی منصوبے کے خلاف سامنے آتا ہے تو تقدیر ِالٰہی پر رضا مند نہ ہونے کے سبب اتنا پریشان ہوجاتا ہے کہ بسااوقات خود کشی کی نوبت آجاتی ہے؛ جیسے آج کل کے سرمایہ داروں کے بہت سے وقائع اس پر شاہد ہیں۔ اسی مضمون کو آیت ذیل میں بہ صراحت بیان فرمایا گیا ہے :
﴿وَمَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہ مَعِیْشَةً ضَنْکًا وَّنَحْشُرُہ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اَعْمٰی﴾(طٰہ:۱۲۴)
ترجمہ: ”اور جو میری نصیحت سے منہ موڑے گا تو اس کو بڑی تنگ زندگی ملے گی، اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا کر کے اٹھائیں گے۔“
نصیحت سے اعراض کرنے والوں کے لیے جس تنگ زندگی کی وعید اس آیت میں ہے ، بعض ائمہ تفسیر نے اس کی مراد برزخ اور قبر کی زندگی قرار دی ہے اور بعض نے یہی دنیا کی زندگی ۔محققین ائمہٴ تفسیر حضرت عطا اور سعید بن جبیر وغیرہ سے یہی منقول ہے۔ (روح المعانی)
اورصحیح یہ ہے کہ دونوں میں کوئی تعارض ومنافات نہیں ، اس کی زندگی دنیا میں بھی تنگ رہے گی اور قبر میں بھی ۔ (بیان القرآن)
نیز اہل جہنم کے متعلق ایک اور آیت میں مذکور ہے:
﴿ثُمَّ لَا یَمُوْتُ فِیْہَا وَلَا یَحْیٰ ﴾(الاعلیٰ : ۱۳)
ترجمہ: ”نہ اس (دوزخ)میں مر ہی جاوے گا اور نہ (آرام کی زندگی)جیے گا۔ “
راحت کے بغیر زندگی زندگی نہیں ہوتی ، بل کہ موت ہوتی ہے :
اس کا حاصل یہ ہے کہ جس حیات میں راحت اور حلاوت نہ ہو وہ زندگی اگر چہ صورت اور ظاہر کے اعتبار سے موت نہیں ، مگر معنی اور حقیقت کے اعتبار سے زندگی کہلانے کی بھی مستحق نہیں اور تجربہ شاہد ہے کہ خدا کے باغی اور نافرمان کو زندگی کی حلاوت کبھی میسر نہیں ہوسکتی۔ اول تو وہ اپنی حرص وطمع کے سبب کسی حد پر قناعت نہیں کرتا، ہمیشہ دولت بڑھانے کی فکر میں سرگرداں وپریشان رہتا ہے ۔پھر یہ بھی ظاہر ہے کہ کسی بڑے سے بڑے انسان کی ہر تمنا اور ہر مقصد پورا نہیں ہوتا۔ خدا تعالیٰ کے فرماں بردار اہل ایمان کو تو ایسے وقت تقدیر ِالٰہی پر رضا اور خلاف ِمراد چیزیں پیش آنے پر آخرت کے ثواب سے تسلی ہوجاتی ہے اور نافرمان باغی ان دونوں سے محروم ہونے کے سبب پریشان ہی پریشان رہتا ہے؛غرض مدعا حاصل ہوا تو اس کی فکر میں سرگرداں نہ ہوا تو اس کے غم میں حیران وپریشان ۔ دونوں حالتوں میں اس کو سکون ِقلب اوراطمینان؛ جو راحت وحیات کی روح ہے حاصل نہیں ہوتی
اگر دنیا نہ باشد درد مندیم
وگرباشد بہ مہرش پائے بندیم
حقیقی زندگی اللہ کے فرماں برداروں کی ہوتی ہے :
ان تینوں آیات کے مجموعہ سے یہ بات پوری طرح واضح ہوگئی کہ حقیقی زندگی جو آرام واطمینان اور سکون وسرور کا نام ہے وہ دنیا میں بھی صرف حق تعالیٰ کے فرماں برداروں کا حق اور حصہ ہے ۔ کافر وفاجر اس سے دنیا میں بھی محروم ہے ۔ گوظاہری دولت اور سامان ِراحت اس کے پاس کتنا ہی دکھائی دے؛ مگر سامان ِراحت سے راحت حاصل ہونا ضروری نہیں۔
(۲)…مسلمانوں ترقی اور عروج کے لیے دوسری اہم ترین شئ اتباع ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔
مسلمانوں اور غیر مسلموں کی دنیوی فلاح کے طریقے الگ الگ ہیں:
غیر مسلم اقوام جس طریق ِعمل کو اختیار کرکے دنیا میں ظاہری ارتقا اور فلاح وبہبود ،عزت ودولت حاصل کرلیتی ہیں، یہ ضروری نہیں کہ مسلمان بھی اس طریق کو اختیار کرکے دنیوی زندگی کی صلاح وفلاح حاصل کرلیں؛ بل کہ ممکن ہے کہ وہ طریق ان کے حق میں غیر مفید یا مضر ثابت ہو۔
کبھی کبھی اللہ کافروں پر دولت کے دروازے استدراج کے طور پر کھول دیتا ہے:
ہندو اگر سود خوری سے اور انگریز چالاکی و مکاری سے دنیا میں عزت ودولت کا کوئی حصہ جمع کرلیں ،تو لازم نہیں کہ مسلمان بھی ان کی نقل اتار کر یہ چیزیں حاصل کرسکیں۔کیوں کہ دوست ودشمن کے ساتھ یکساں معاملہ نہیں کیا جاتا۔ دشمن کو ڈھیل دی جاتی ہے ، جس کو اصطلاح ِشرع میں استدراج کہتے ہیں اوردوست پرفوری تنبیہ کی جاتی ہے۔ قرآن ِکریم میں جا بجا اس کی تصریحات موجود ہیں کہ سرکشوں اورباغیوں کے لیے دنیا میں دولت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جس میں وہ مست ومغرور ہوکر گمراہی میں پڑجاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے حق میں ارشاد ہے :
﴿فَتَحْنَا عَلَیْہِمْ اَبْوَابَ کُلِّ شَئٍْ﴾ (الانعام: ۴۴)
”ہم نے ان پر ہر شئ کے دروازے کھول دیے“۔
یہ ظاہری دولت وفراغت حقیقت میں خدا کا قہر وغضب ہوتا ہے، جس کو یہ احمق اپنی فلاح و بہبود سمجھتا ہے۔
اور اہل ِایمان اگر کسی عملی خرابی اور گناہ میں مبتلا ہوں تو ان کو دنیا ہی میں یہ سزا دی جاتی ہے کہ وہ دولت وعزت سے محروم کردیے جاتے ہیں۔ اس لیے حلال وحرام اور جائز و ناجائز سے بالکل بے فکر ہوکر سود ، رشوت، شراب ، قمار، فواحش اور لہو ولعب میں مبتلا رہ کر غیر مسلم اقوام تو دنیوی فلاح و ترقی سے محروم نہیں ہوتیں، مگر مسلمان ان کی نقالی کریں اور ان محرمات اورخلاف ِشرع چیزوں کا ارتکاب کرتے ہوئے دنیا میں صلاح وفلاح کی امید رکھیں تو یہ ان کا خیال ِخام اور خواب خرگوش ہے جو کبھی شرمندہٴ تعبیر نہ ہوگا۔
چودہ سو سالہ تاریخ گواہ ہے کہ تعلیماتِ نبویہ کی پیروی آخرت کی کام یابی کے ساتھ دنیوی عروج کا اہم ذریعہ ہے :
اسلام کے ساڑھے تیرہ سو سال کا تجربہ ومشاہدہ گواہ ہے کہ قوم ِمسلم نے جب کبھی تعلیمات ِنبویہ اور سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا اسوہ بنایا اوراس پر عامل ہوئی تو آخرت کے درجات جو اصل مقاصد ہیں وہ تو ان کو حاصل ہوئے ہی ہیں۔ دنیوی اور ظاہری دولت و عزت بھی ان کے قدموں پر آگری اور کھلی آنکھوں اس وعدہ کا مشاہدہ کرنے لگے۔
”یَاْتِیْہِ الدُّنْیَا وَہِیَ رَاغِمَةٌ “
”اللہ سے ڈرنے والی کے پاس دنیا ذلیل ہوکر آتی ہے۔“
اورجس وقت بھی انہوں نے اس اسوہٴ حسنہ سے منہ موڑ ا ،آخرت کے عذاب کے علاوہ دنیا کی ہرصلاح وفلاح دولت وعزت نے بھی ان سے منہ موڑ لیا
چوں از وگشتی ہمہ چیز از تو گشت
مسلمانوں کی ہر فلاح اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں منحصر ہے :
فلاحِ آخرت: مذکورہ بالا تصریحات سے ثابت ہوگیا کہ آخرت کی صلاح وفلاح اور آرام و عیش کی زندگی تو مطلقاً نبی ٴکریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے اتباع میں منحصر ہے۔ ان سے جاہل یا غافل رہ کر کوئی انسان کتنی ہی محنت وجاں فشانی اور زہد و ریاضت اختیار کرے وہ راستہ کے غلط ہونے کے سبب بالکل بے کار بل کہ مضر ہوگی
محال ست سعدی کہ راہ صفا
تواں یافت جز درپئے مصطفا
کیوں کہ حسب ِتصریح قرآن کریم مطلق سعی ومحنت اور عبادت وریاضت کی صورت رضائے حق اور آخرت کی کام یابی حاصل کرنے کے لیے کافی نہیں، بل کہ خاص وہ سعی اور محنت درکار ہے ، جس کی تعلیم خود حق سبحانہ وتعالیٰ نے بذریعہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمائی ہے۔
﴿وَسَعٰی لَہَا سَعْیَہَا وَہُوَ مُوٴْمِنٌ ﴾(بنی اسرائیل:۱۹)
آخرت کے لیے ایسی سعی کرے جو اس کے لیے مناسب ہے اور وہ مومن بھی ہو ۔
آخرت کے ساتھ دنیوی زندگی کی کام یابی بھی اتباع رسول میں ہی منحصر ہے۔
اسوہٴ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل متبعین کے لیے، جس طرح آخرت کی دائمی زندگی میں فلاح وصلاح اور ہر طرح کی راحت کا وعدہ ہے؛ اسی طرح دنیا میں بھی حقیقی راحت وسکون صرف انہیں کا حصہ ہے اور جنت میں جانے سے پہلے دنیا ہی میں ایک طرح کی جنت ان کو دے دی جاتی ہے کہ قناعت اور تقدیر ِالٰہی پر رضا کے سبب وہ کسی حال میں پریشان ومشوش نہیں ہوتے۔ دنیا کے مصائب وآفات اور پریشانیوں کی صورتیں ان پر ضرور آتی ہیں اور بسا اوقات دوسروں سے زیادہ آتی ہیں؛ لیکن ان کے قلوب اس وقت بھی اپنی جگہ مطمئن اور مسرور ہوتے ہیں۔ زمانہ کے بڑے سے بڑے حوادث ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے،وہ مرنے میں بھی جیتے ہیں اور بگڑنے میں بھی بنتے ہیں
نہ کچھ شوخی چلی باد صبا
بگڑنے میں بھی زلف اس کی بنا کی
راحت وعیش جس کا تعلق قلب کے سکون واطمینان سے ہے، بلا شبہ سارے عالم سے زیادہ انہیں حضرات کو حاصل ہے ؛یہی وہ نشہ ہے جس کے سرور سے وہ شاہانہ ساز و سامان کو ذر ا نظر میں نہیں لاتے
زانگہ کہ یافتم خبر ملک نیم شب
من ملک نیم روز بدانگے نمے خرم
ان کی بے سرو سامانی کے باوجود سازو سامان ان کی راحت کو نہیں پاسکتے
خوش فرش بوریا و گدائی وخواب من
کیں عیش نیست درخوار اورنگ ِخسروی
ان کا رشتہٴ نیاز ایک ایسی بارگاہ ِعالی سے جڑ جاتا ہے کہ وہ ان کو عالم سے بے نیاز کردیتی ہے
فقر میں بھی سر بسر کبر و غرور ونازہوں
کس کا نیاز مند ہوں سب سے جو بے نیاز ہوں
مومن کامل کی دو جنتیں؛ ایک نقد اس دنیا میں اوردوسری آخرت کی حقیقی جنت :
یہی و ونقد جنت ہے، جو اللہ والوں کو دنیا ہی میں مل جاتی ہے ، اس کو بعض ائمہٴ تفسیر نے آیت ذیل کی تفسیر میں لیا ہے :
﴿وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہ جَنَّتَانِ ﴾(الرحمن:۴۶ )
” جو شخص ڈرے اللہ سے اسی کے لیے دو جنتیں ہیں۔“
یعنی ایک جنت آخرت میں اور ایک اسی دنیا میں ۔ اور بعض روایات ِحدیث میں جو دنیا کو موٴمن کے لیے (سجن) یعنی قید خانہ فرمایا ہے یہ جنت اس کے منافی نہیں ۔ ظاہری اسباب و سامان اور صورت کے اعتبار سے دنیا ان کے لیے قید خانہ ہے ، لیکن باطنی راحت و سکون کے اعتبار سے یہ قید خانہ بھی ان کے لیے جنت ہی ہے۔
﴿لَہُ بَابٌ بَاطِنُہ فِیْہِ الرَّحْمَةُ وَ ظَاہِرُہ مِنْ قِبَلِہ الْعَذَابُ ﴾(الحدید: ۱۳)
”اس کا ایک دروازہ ہے کہ اس کے اندر تو رحمت ہی رحمت ہے اور باہر کی جانب عذاب ہے“۔
الغرض دنیا کی ظاہری زندگی میں بھی حقیقی راحت وسکون صرف انہیں حضرات کا حصہ ہے جو وحیِ الٰہی اور تعلیمات ِنبوی کے پیروہیں؛البتہ اس دنیوی زندگی میں اتنا فرق ضرورہے کہ تعلیمات ِنبویہ سے اعراض کرنے والے اگربالکل کافر اور خدا کے باغی ہیں ، ان کو استدراج (ڈھیل) کے طور پر دنیاوی اور ظاہری سامان راحت ، عزت ودولت سے محروم نہیں کیا جاتا۔ اور اگروہ اہل ایمان ہیں تو فوری تنبیہ کے لیے اکثر ان کو اس زندگی میں عزت ودولت سے محروم کردیا جاتا ہے۔
مسلمانوں کے لیے دنیا کی عزت ودولت بھی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع میں منحصر ہے :
اس سے ثابت ہوا کہ مسلمانوں کے سوا دوسری قومیں خدا تعالیٰ کی مرضی و نامرضی اور حلال و حرام سے بے فکر ہوکر دنیوی ترقی کے لیے کوئی اسکیم بناویں تو دنیا کی ظاہری حیات میں اس کا کام یاب ہوجانا ممکن ہے ، گو حقیقی راحت حاصل نہ ہو ، مگر ظاہری سامان ِراحت اور عزت و دولت ان کو اختراعی نظام نازی ،کمیونزم اور سوشل ازم وغیرہ کے ذریعہ حاصل ہوجاوے تو بعید نہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام یا مخلوط نظام ِمعیشت :
غرض جن لوگوں نے متاع ِدنیا اوراس کے چند روزہ ظاہری ساز و سامان ہی کو اپنا محبوب ِحقیقی اورقبلہٴ مقصود بنا لیا ہے اور جن کی حالت قرآن نے یہ بیان کی ہے کہ :
﴿اَلَّذِیْنَ رَضُوْا بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَاطْمَأَنُّوْا بِہَا ﴾
”وہ لوگ جو صرف حیات ِدنیا پر راضی اورمطمئن ہوگئے۔“
حقیقت شناس صاحب ِبصیرت تو ان کو یہی کہیں گے کہ
آنا نکہ بجز روئے تو جائے نگر انند
کوتہ نظر انند چہ کوتہ نظر انند
لیکن بہرحال ان کا یہ مقصود برلن اور امریکہ کی منڈیوں میں، چین و جاپان کے بازاروں میں، اسٹالن اور مارکس کی چوکھٹ پر جبہ سائی کرنے میں حاصل ہوجانا ممکن ہے۔
مسلمان بے دینوں کی نقل اتارکر کبھی کام یاب نہیں ہوسکتا:
لیکن مسلمان جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھنے والا ہے، وہ بے دینوں کی نقل اتار کر کبھی کام یاب نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے دنیوی عزت ودولت کے حصول میں بھی بجز سبز گنبد میں آرام فرمانے والے تاجدار ِمدینہ سید الانبیا والمر سلین سرور ِعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ کے کہیں جائے پناہ نہیں۔ ہمارے خواجہ صاحب مرحوم نے خوب فرمایا ہے :
بنیں ہم نہ ہندی نہ روسی نہ نازی
بنالیں بس اپنے کو سچا حجازی
ہمیں پھر بہر حال لے جائیں بازی
مریں تو شہید اور ماریں تو غازی
(مجذوب)
اسوہٴ حسنہ پر عمل ازحد ضروری :
تاریخ ِاسلام کا مُجریٰ اس پر شاہد ہے کہ مسلمان قوم نے جب کبھی اسوہٴ حسنہ نبویہ سے منہ موڑا تو دنیا کی عزت ودولت نے بھی اس سے منہ موڑ لیا ، جس وقت وہ تعلیمات ِنبویہ کے حامل اور ان پر پورے عامل تھے تو ان کے عروج واقبال کا یہ عالم تھا کہ جنگل میں سر کے نیچے اینٹ رکھ کر سوجانے والے امیرالمومنین کے نام سے کسریٰ وقیصر کے محلات میں زلزلہ پڑجاتا تھا۔
قباوٴں میں پیوند پیٹوں پہ پتھر
قدم کے تلے تاج کسریٰ وقیصر
اورجب انہوں نے اس میں غفلت وکوتاہی شروع کی تو چاردانگ ِعالم میں ان کی پھیلی ہوئی سلطنت وحکومت خود بخود سمٹنا شروع ہوگئی۔نہ اندلس کے قصر حمراء وزہراء ان کو بچا سکے اور نہ مصر وقاہرہ کی قوتِ قاہرہ کام آسکی ۔ پھر جب کبھی سنبھلے تو حکومت سنبھل گئی اور بہکے تو سلطنت وحکومت میں بھی زوال آگیا۔ غرض مسلمانوں کی دنیوی مصائب وآفات ،عزت ودولت اور حکومت وغیرہ سے محرومی بھی ان کے برے اعمال کے نتائج اور تعلیمات ِقرآن و حدیث سے غفلت اور اعراض کے ثمرات ہیں۔ اگر ماضی کا تجربہ مستقبل کے لیے مشعل ِہدایت اوردرس ِعبرت ہوسکتا ہے تو مسلمانوں کے عہد ِماضی کا طویل وعریض زمانہ اور اس کی تاریخ کا ہر موقع ان کو ان کی ہرصلاح و فلاح کے لیے صرف ایک سبق دیتا ہے، جو بالکل واضح اور جلی ہے ۔ جس کو امام ِمدینہ حضرت مالک بن انس رضی اللہ عنہ کے الفاظ میں اس طرح بیان کیا جاتا ہے :
” لَنْ یُصْلِحَ آخِرَہٰذِہِ الْاُمَّةِ اِلَّا مَا صَلُحَ بِہ اَوَّلُہَا “
”اس امت کے آخری دور کی اصلاح کوئی چیز بجز اس طریق ِکار کے نہیں کرسکتی ، جس کے ذریعہ اس امت کے دور ِاول کی اصلاح ہوئی تھی۔ “
اور یہ ظاہر ہے کہ وہ طریق ِکار جس نے عرب کے بدووٴں کو تہذیب ِانسانی کا معلم وحشیوں کو سیاست مندوں کا مجدد ، گمراہوں کو دنیا کا رہبر ، بداخلاقوں کو خوش اخلاقی کا پیکر ، مریضوں کو مسیحا بنادیا وہ کیا تھا ؟ صرف قرآنی نظام اور سیدالانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات وارشادات کا اتباع ۔
خدارا ! اپنے تعلق کو اللہ تعالیٰ سے مضبوط کیجیے اور اتباع رسول اختیار کیجیے!
آج کل مسلمان ہر طرف سے اعدا کے نرغہ اور طرح طرح کی مصائب سے پریشان ہوکر قسم قسم کی تدبیریں اس بلا سے نکلنے کے لیے استعمال کررہے ہیں، لیکن افسوس کہ ان تدبیروں میں بار بار ناکامی ونامرادی کے باوجود وہ نہیں آتے ، تو صرف اس تدبیر کی طرف نہیں آتے جو ان کی سب کام یابیوں کی کفیل اورتجربہ سے صحیح ویقینی ثابت ہوچکی ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے تعلق کو صحیح اور مضبوط کرنااور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بتلائی ہوئی تدبیروں پر عمل کرنا ۔ ولنعم ما قیل
نہ ہر گز ان پہ غالب کسب مال وجاہ سے ہوگے
نہ جب تک حملہ آور ان پر دینی راہ سے ہوگے
نہ ہرگز کامراں سعی گہ و بے گاہ سے ہوگے
نہ جب تک مل کے سب وابستہ حبل اللہ سے ہوگے
ظاہری تدابیر بھی ضرور اختیار کریں، مگر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے ساتھ:
اس کا مطلب یہ نہیں کہ رفع مصائب کے لیے اپنی قوت اور دشمنوں سے حفاظت کی ظاہری تدبیریں بے کار وفضول ہیں ، کیوں کہ تعلیمات قرآن وحدیث میں خود ان مادی تدبیروں کا بھی اہتمام موجود ہے ؛ بل کہ مقصد یہ ہے کہ ان مادی تدبیروں میں تو تمہارے دشمن تم سے کہیں زیادہ اور آگے ہیں اور جب تک تم سامان جمع کرکے ان کے درجہ تک پہنچوگے وہ اس سے بہت آگے پہنچ لیں گے۔ اس لیے صرف ان ظاہری تدابیر اور مادی قوت کی فراہمی سے مسلمان کسی وقت بھی ان سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتے۔
مسلمانوں کی سربلندی کا راز تعلق مع اللہ :
مسلمانوں کی وہ مخصوص قوت ؛جس کا کسی دوسری قوم کے پاس جو اب نہیں ۔ ان کا وہ میگزین جس کے سامنے ساری دنیا کی طاقتیں سرنگو ں ہیں اور جس نے ان کے قلت عدد اور قلت سامان کے باوجود تاریخ ِاسلام کے ہر دور میں ان کو دوسروں پر ہمیشہ فتح مند اور سربلند کیا۔ وہ صرف ان کا تعلق مع اللہ اور وہ روحانی رشتہ ہے جو اُن کو ساری قوتوں کے خالق ومالک کے ساتھ حاصل ہے ، جس کے لازمی نتیجہ میں امداد غیبی ، نصرت ِالٰہی ، فرشتوں کی امداد دوسری قوموں پر رعب وغیرہ ہرقدم پر ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔
مگریہ ظاہر ہے کہ یہ رشتہ وتعلق صرف اطاعت اور فرماں برداری سے حاصل ہوسکتا ہے ، نافرمانی کے ساتھ باقی نہیں رہتا۔
تعلق مع اللہ کے مضبوط ہونے کی صورت میں ماضی میں اللہ نے جو مدد کی اس کی چند مثالیں:
غزوہ ٴبدرمیں نصرت الٰہی اور اس کی وجہ :غزوہٴ بدر میں جو فرشتوں کا لشکر مسلمانوں کی امداد کے لیے اترآیا تھا، وہ میدان ِبدر کی مقامی و ہنگامی یا مجاہدین ِبدر کی شخصی خصوصیت نہیں تھی اور نہ اس زمانہ کی خصوصیت کو اس میں دخل تھا، بل کہ حسب ِتصریحِ قرآنی اس کا مدار اطاعت ِخداوندی پر اور اس میں بھی خصوصاً صبر و تقویٰ کے دوجوہروں پر تھا ، جو اس میدان کے سپاہیوں کو حاصل تھے۔ اسی مضمون کو قرآن ِحکیم نے اس آیت میں بالفاظ شرط ظاہر کیا ہے :
﴿بَلٰٓی اِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا وَیَاْتُوْکُمْ مِّنْ فَوْرِھِمْ ھٰذَا یُمْدِدْکُمْ رَبُّکُمْ بِخَمْسَةِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰئِکَةِ مُسَوِّمِیْنَ﴾ (آل عمران: ۱۲۵)
ہاں! بل کہ اگر تم صبر اور تقوی اختیار کرو اور وہ لوگ اپنے اسی ریلے میں اچانک تم تک پہنچ جائیں تو تمہارا پروردگار پانچ ہزار فرشتے تمہاری مدد کو بھیج دے گا، جنہوں نے اپنی پہچان نمایاں کی ہوئی ہوگی۔ (آل عمران: ۱۲۵)
مسلمان اگر آج بھی حق تعالیٰ کے ساتھ اپنا تعلقِ اطاعت اسی طرح مستحکم کرلیں اور صبر وتقویٰ کے اوصاف پیدا کرلیں تو اس کے فرشتے آج بھی زندہ و موجودہ اورنصرت مسلمین کے لیے تیار ہیں۔
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اترسکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
اسی مضمون کو قرآن کریم کی دوسری آیت میں بالفاظ ذیل ارشاد فرمایا ہے :
﴿وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لَایَضُرُّکُمْ کَیْدُھُمْ شَیْئاً﴾ (آل عمران آیت: ۱۲۰)
بے شک اگر تم صبر و تقوی اختیار کولو تو تمہیں دشمن کا کید کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا۔
مسلمانوں کے تعلق مع اللہ پر نصرت کے موقوف ہونے پر دور ِاول کے ظالم حکم ران کو بھی یقین تھا:
یہ مسئلہ کہ مسلمانوں کی فتح ونصرت کا سب سے بڑا سبب ان کا تعلق مع اللہ اور نصرت ِخداوندی ہے، صرف نظری اور فکری نہیں ۔بار بار کے پیہم تجربوں نے اس کو ایسا بدیہی کر دیا تھا کہ جو مسلمان کسی سبب سے عملی کوتاہیوں میں مبتلا بھی تھے وہ بھی علمی اور فکری درجہ میں اس پر یقین رکھتے تھے کہ ہماری فلاح وکام یابی صرف اطاعت ِخداوندی اور تعلیمات ِقرآن کے ساتھ وابستہ ہے ۔اسلامی فرماں رواوٴں میں سب سے مجرم اور ظالم حجاج بن یوسف ثقفی مشہور ہے ۔اس کا ایک فرمان نمونہ کے لیے دیکھیے۔
ظالم امت حجاج بن یوسف کا ایک خط محمد بن قاسم گورنر سندھ کے نام !
محمد بن قاسم فاتح سندھ نے جب دریائے سندھ کو عبور کرلیا اور راجہ داہر کی زبردست ہاتھیوں کی فوج سے مقابلہ ٹھن گیا ۔تو حجاج بن یوسف ثقفی(جو عراق کے وائسرائے کی حیثیت رکھتا تھا )کا خط محمد بن قاسم کے نام بہ مضمون ذیل پہنچا:
”پنج وقتہ نماز پڑھنے میں سستی نہ ہو،تکبیر و قراء ت، قیام و قعود اور رکوع و سجود میں خدا تعالیٰ کے رو برو تضرع و زاری کیا کرو۔زبان پر ہر وقت ذکر ِالٰہی جاری رکھو،کسی شخص کو شوکت و قوت خدا تعالیٰ کی مہربانی کے بغیر میسر نہیں ہو سکتی۔اگر تم خدا تعالیٰ کے فضل وکرم پر بھروسہ رکھوگے تو یقینا مظفر و منصور ہوگے۔“
(آئینہ حقیقت نما :صفحہ ۱۰۵/مصنفہ مولانا اکبر شاہ خاں نجیب آبادی)
پھر راجہ داہر کے مارے جانے کا حال محمد بن قاسم نے حجاج بن یوسف کو لکھا ،تو قاصد حجاج کی طرف سے یہ خط لے کر آیا :
”تمہارا اہتمام و انتظام اور ہر ایک کام شرع کے موافق ہے، مگر ہر خاص و عام کو امان دینے اور دوست و دشمن میں تمیز نہ کرنے سے ایسا نہ ہو کہ کام بگڑ جائے ۔جولوگ بزرگ اور ذی وقعت ہوں ان کو ضرور امان دو؛ لیکن شریر اور بد معاشوں کو دیکھ بھال کر آزاد کیا کرو ۔اپنے عہد و پیمان کا ہمیشہ لحاظ رکھواور امن پسند رعایا کی استمالت کرو“۔ (آئینہ حقیقت نما)
یہ کسی حجرہ نشین ملا کی تلقین یا کسی خانقاہ کی تعلیم نہیں ،بل کہ ایک رعب ودبدبے والے اوربا اختیار امیر (وائسرائے)کا فرمان ہے ۔اور امیر بھی وہ کوئی خلفائے راشدین اورصلحاو متقین میں سے نہیں ،بل کہ تاریخ کا سب سے زیادہ بد نام امیر ہے، مگر خدا ترسی سے نہ سہی؛ دنیا طلبی اور حکومت و سلطنت کی خواہش ہی کے سبب سہی؛ اتنی بات پر وہ بھی کامل یقین رکھتا اور اپنے ما تحت حکام کو اس کا فرمان بھیجتا ہے کہ یہ ہماری عبادات نماز ، روزہ اور دیگراحکام قرآنیہ کی اطاعت ہی ہمارے فتح وظفر کی روح ہے۔ اورہماری ہر کام یابی دنیوی کارازبھی اس میں مضمر ہے۔
حضرت فاروق اعظم اور اپنے حکام کو شریعت کی پیروی کی نصیحت:
قریب قریب اسی مضمون کا ایک فرمان حضرت فاروق اعظم نے اپنے عہد خلافت کے تمام مسلم حکام کے نام جاری فرمایا تھا ،جس کو امام مالک علیہ الرحمہ نے موٴطا میں بالفاظ ِذیل روایت کیا ہے ۔
”اِنَّ اَھَمَّ اَمْرِکُمْ عِنْدِیْ الصَّلٰوةُ،مَنْ حَفِظَہَاوَحَافَظَ عَلَیْہَا حَفِظَ دِیْنَہُ، وَمَنْ ضَیَّعَھَا فَھُوَ ِلمَا سِوَاھَا اَضْیَعُ “۔
میرے نزدیک تمہارے سب کاموں میں سب سے زیادہ اہم کام نماز ہے، جس نے اس کو ضائع کردیا وہ دوسرے کام کو اور بھی زیادہ ضائع کرے گا۔
یہ حکم بھی کوئی درسگاہی اور خانقاہی تلقین نہیں، جس کو کوئی روشن خیال یہ کہہ کر نظر انداز کر دے کہ یہ سیاست سے نا آشنا خلوت نشینوں کے خیالات ہیں ؛ بل کہ امت ِاسلامیہ کے سب سے بڑے موجد سیاست امیر المومنین کا عالی فرمان ہے، جو طلبا اور عوام کو نہیں ، بل کہ حکام وامرا کو بھیجا جاتا ہے کہ وہ خود اس پر عامل ہوں اور دوسروں سے بھی عمل کرائیں۔
فاتح مصرحضرت عمرو بن عاص کو فاروق اعظم کا تاخیر ِفتح پر توبہ کافرمان:
فاتح مصر عبد اللہ بن عمر بن عاص رضی اللہ عنہ کو مصر جیسے عظیم الشان شہر کا محاصرہ کیے ہوئے صرف ایک مہینہ گزرا تھا کہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو اتنی تاخیر بھی اسلامی فتوحات کے دستور پر ناگوار ہوئی اورتاخیر فتح کے مرض کی تشخیص اور اس کے علاج کی تجویز یہ فرمائی:
” کہ معلوم ہوتا ہے کہ تمہارے دل میں مصر و قاہرہ کے اموال ِعظیمہ کی طمع آگئی اوراخلاص ِعمل میں کمی آگئی ، یہی سبب ؛فتح کی تاخیرکا ہورہا ہے ۔ جمعہ کے روز نماز ِجمعہ کے بعد اپنے ان خیالات سے توبہ اور نصرت ِالٰہی کے لیے دعا کرکے یکبارگی حملہ کردو۔ “
عمر بن عاص رضی اللہ عنہ نے حکم کی تعمیل کی تو اسی روز میدان ہاتھ میں اورمصر کا تخت زیر قدم تھا۔
مسلمانوں کی ترقی اور عروج کا اکسیر ِاعظم اتباع شریعت ہے نہ کہ مغربی روشن خیالی:
یہ واقعات ہیں جن سے تاریخ اسلام کے صفحات لبریز ہیں ۔ کہاں تک نقل کیا جائے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ آج کے مسلمان اپنی کام یابی وفلاح کی دوا کبھی جرمن اور سٹالن کے کارخانوں میں اورکبھی برطانیہ وامریکہ کے ایوانوں میں تلاش کرتے ہیں، لیکن جو اکسیر اعظم ان کے گھر میں موجود اور جس کا استعمال سہل اور ان کے مزاج ملی کے بالکل موافق اوربار بار کے تجربہ سے ان کا اثر یقینی ہے اسی کی طرف توجہ نہیں کی جاتی
یک سبد پرناں ترا برفرق سر
توہمی جوئی لب ناں در بدر
الغرض ! اب تو بار بار کے تجربوں نے ثابت کردیا کہ نئی روشن خیالی کے ناخنِ تدبیر اس گتھی کو سلجھانے میں ناکام اور مغربی سیاست کا راستہ مسلمان قوم کے لیے یقینا ناموافق ثابت ہوا۔
اب تو یقین ہوجانا چاہیے کہ ان کی فلاح غیروں کی نقالی اور انہیں کی اصطلاح پر ” آگے بڑھنے “ میں نہیں ، بل کہ اب سے ساڑھے تیرہ سو برس پہلے کی طرف لوٹ جانے اور صرف اس سیاست کو اختیار کرنے میں ہے، جو قرآنی بنیادوں اور اسلامی اخلاق و معاملات اور صبر وتقویٰ پر قائم ہو، جس میں صدیق وفاروق کی سیاست کا رنگ ہو، جس کی بلندی و برتری کو آج بھی دنیا کا ہر دانش مند ماننے کے لیے مجبور ہے۔
خود مسٹر گاندھی نے اس کا اقرار واعلان کیا کہ صرف صدیق وفاروق ہی کی سیاست قابل سیاست ہے۔
خدا کرے کہ مسلمان جب اس پر توجہ دیں اور مسلمانوں کی قومی فلاح کے لیے ظاہری تدابیر کے ساتھ اس روحانی تدابیر یعنی تعلق مع اللہ کو مضبوط کرنے میں پوری سعی کرنے لگیں تو فلاح وکام یابی ان کے ساتھ ہو۔ وما ذلک علی اللہ بعزیز ۔
(ماخوذ از تسہیل مقدمہ حیاة المسلمین:)
اعمال ِشرکیہ کو قومی صلاح و فلاح میں دخل وتاثیر:
قرآن وحدیث کی تصریحات اور تاریخی تجربہ ومشاہدہ سے مذکورہ بالا تحریر میں یہ امر واضح ہوچکا ہے کہ مسلمان قوم کا ایک خاص مزاج ہے کہ اس کی دنیوی ترقی و بہبود بھی اطاعت ِخداوندی اور اتباع ِاحکام شرعیہ میں منحصر ہے ،اس کو چھوڑ کر وہ کتنا ہی سامان جمع کرلیں اور کتنی ہی تدبیریں کام میں لائیں اس کی کام یابی ناممکن ہے۔
لیکن عقلی طور پر یہ سوال ہو سکتا ہے کہ اعمال شرعیہ بالخصوص عبادات ، نماز ، روزہ ، حج اور زکوٰة وغیرہ کو قومی فلاح و ترقی میں کیا دخل ہے اور ان چیزوں سے کسی قوم کا گرنا یا ابھرنا کیسے ممکن ہے ؟
ظاہری و روحانی کی مثال موٴثر بالکیفیہ اور موٴثر بالخاصہ کے مانند ہے :
سو ظاہری معالجات اور ادویہ کی ایک مثال سے اس کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے ۔ اطبا کی تصریحات کے موافق دواوٴں کی دو قسمیں ہیں : ایک موٴثر بالکیفیة اوردوسرے موٴثر بالخاصہ ۔ دوسری قسم کی وہ دوائیں ہیں، جو تجربہ سے کسی مرض کے ازالہ میں موٴثر ومفید ثابت ہوئی ہوں، لیکن یہ کسی کو معلوم نہیں ہوسکا کہ ان کی تاثیر کا سبب کیا ہے؟
مثلاً دانہٴ فرنگ (جواہرات میں سے ایک قسم کا پتھر ہے ) کا منہ میں یا ہاتھ میں رکھنا درد گردہ کے لیے مسکن ومفید ہے ۔ عود صلیب بچوں کے گلے میں لٹکانا ام الصبیان کے لیے مفید ہے۔ یہ کسی کو معلوم نہیں کہ ان چیزوں اور ان امراض میں باہمی تعلق کیا ہے ؟ اور کیوں یہ دوائیں ان امراض کے ازالہ میں موٴثر ہیں۔ اسی طرح اور بہت سی دوائیں ہیں ،جن کو خاص کیفیت ؛حرارت و برودت کے سبب نہیں، بل کہ محض بالخاصہ موٴثر مانا گیا اورتجربہ کیا گیا ہے۔
اورموٴثر بالکیفیة کے یہ معنی ہیں کہ ایک دوا اپنی کیفیت اور اپنے مزاج کے اعتبار سے گرم خشک ہے تو وہ طبعی طورپر ایسے امراض کے ازالہ میں موٴثر ہوگی ، جو سردی اوررطوبت سے پیدا ہوئے ہیں یا کسی دوا کا مزاج سرد اور خشک ہے توان امراض کے لیے مفید ہوگی ، جو اس کی ضد یعنی گرمی اوررطوبت سے پیدا ہوں،ان کی تاثیر بالکیفیة کہلاتی ہے۔
پھر موٴثر بالکیفیة کی بھی دو قسمیں ہیں : ایک موٴثر بلا واسطہ ۔ دوسرے موٴثر بواسطہ۔ اول کی مثال جیسے ایک مرض خالص سردی سے پیدا ہو تو اس کا علاج ایسی دوا سے کیاجائے، جو خالص گرم ہے ۔اور دوسری صورت یعنی موٴثر بواسطہ کی مثال یہ ہے کہ کسی خاص خلط (مادہ) کے سبب سے گرمی خشکی پیدا ہوئی۔ دوا سے اس مادہ کا ازالہ کیا گیا ، اس کے ازالہ میں بواسطہ موٴثر ہوئی۔
احکام ِشرعیہ کو مسلمانوں کی دینی ودنیوی صلاح و فلاح میں خاص دخل ہے :
ٹھیک اسی طرح احکام ِشرعیہ کو ایک مطب روحانی سمجھئے۔ پھر اس میں صلاح وفلاح انسانی کے لیے بالخاصہ موٴثر یا مفید ہونا تو تمام احکام شرعیہ کے لیے نصوص سے ثابت ہے اور حکمائے امت اور اطبائے ملت کو اپنے ذوق ِنورانی اور ادراک ِوجدانی سے مکشوف ہوا ہے کہ تمام احکام ِشرعیہ کو مسلمانوں کی دینی اور دنیوی صلاح و فلاح اور ہر ترقی میں دخل ِخاص اور تاثیر ِعجیب ہے گو وجہ اور کیفیت تاثیر معلوم نہ ہو ۔
بعض اعمالِ انسانی صلاح و فلاح کے لے مفید بالکیفیة ہوتے ہیں :
اور بہت سے اعمال وہ بھی ہیں، جو انسانی صلاح و فلاح کے لیے مفید بالکیفیة ہیں ۔یعنی ان کی تاثیر کی کیفیت اور سبب ذرا غور سے معلوم ہو سکتا ہے۔
پھر ان میں سے بعض بلا واسطہ موٴثر قریب ہیں اور بعض بواسطہ یا بوسائط موٴثر ہیں ۔
مثلاً احکام شرعیہ میں سے صدق القول ،امانت داری ،عہد اور وعدہ کی پابندی ،خوش خلقی ،شیریں کلامی اورانسانی ہمدردی وغیرہ وہ اعمال ہیں جو انسان کو ہر دلعزیز اور محبوب بنانے میں بلاواسطہ موٴثر ہیں ۔پھر اس کے واسطہ سے معاشی ترقیات میں اور اس کے واسطہ سے مجموعہٴ قوم کی خوش حالی میں موٴثر ہیں ۔
اسی طرح بقدر وسعت و قدرت اپنی حفاظت اور مدافعت کا سامان جمع کرنا دشمنوں کے شر سے محفوظ و مامون رہنے میں بلا واسطہ موٴثر ہے اور اس کے واسطے سے قومی وقار اور رفاہیت میں موٴثر ہے ۔اسی طرح معاصی (برے اعمال)کوئی بواسطہ اور کوئی بلاواسطہ اور کوئی بالخاصہ مسلمانوں کے لیے دنیا میں مصائب و آفات اور عزت و دولت سے محرومی کے اسباب ہیں ،جو بارہا کے تجربہ اور مشاہدہ سے ثابت ہیں۔
”حضرت تھانوی کی دو کتابوں کو مسلمانوں میں خوب عام کرنے کی ضرورت:
۱- جزاء الاعمال ۲-حیوٰة المسلمین “۔۱
حاشیہ:(۱) حضرت کی اس کتاب کا انگریزی بھی ہوا،جسے آپ گوگل پر سرچ کرکے بہ آسانی ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔جزاء الاعمال بھی نیٹ پر انگریزی اور اردو میں دست یاب ہے ۔
تعلیم یافتہ افراد کے لیے الانتباہات اور اس کا انگریزیAnswer To Modernism نہایت مفید ہے۔
اس مضمون کو حضرت حکیم الامت قدس سرہ نے اپنے ایک مستقل رسالہ ”جزاء الاعمال“ میں بھی مفصل بیان فرمایا ہے ۔ملت ِاسلامیہ کی پوری فلاح و ترقی تو پورے احکام ِالہٰیہ کی مکمل پابندی پر موقوف ہے؛․لیکن اس وقت کچھ تو مسلمانوں کی عالمگیر غفلت اور کچھ فضا کی نا مساعدت کے سبب دفعةً پورے احکام کی مکمل پابندی کسی قدر دشوار ہونے کے سبب سیدی حضرت حکیم الامت قدس سرہ نے ”حیوة المسلمین “میں اعمال کی قسم دوم جو موٴثر بالکیفیة ہیں، پھر ان کی بھی قسم دوم یعنی موٴثر بالواسطہ میں سے ایسے مخصوص اعمال کا انتخاب فرمایا ہے، جن کی علمی تحصیل اور عملی تعمیل بہت آسان ہے اور جن کو اختیار کر لینے سے مسلمانوں کے موجودہ مصائب کا ازالہ اور بقیہ اعمال کی اصلاح کی توقع قریب ہو جاتی ہے ۔
ضرورت ہے کہ مسلمان ان (ارواح واعمال )کی خود پابندی کرنے اور اپنے احباب و اعزاء اور عام مسلمانوں میں ان کی اشاعت اور ان پر عمل کی ترغیب میں پورے اہتمام سے کوشش کریں۔
مسلمانوں کے اکثر افراد بھی اگر ان اعمال میں سے اکثر کے پابند ہوگئے تو وہ دن دور نہیں کہ مسلمان گرداب مصائب سے نکل کر عافیت وعزت اور راحت وطمانینت کی زندگی حاصل کریں گے۔ واللہ الموفق والمعین!
مسلمانوں کا دور عروج کب شروع ہوگا؟
خلاصہ یہ کہ مسلمانوں کے سب سے اہم اور بنیادی کام یہ ہے کہ اپنی دینی جہالت کو دور کریں ۔ غفلت سے باز آجائیں اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو لازم پکڑلیں اور اعمال ِصالحہ کے خوگر ہوجائیں؛ بس ان کی ترقی کا دور فوراً شروع ہوجائے گا، افلاس اور ذلت ختم ہوجائے گی اور پہلے جیسی شوکت لوٹ آئے گی ان شاء اللہ ۔روحانی تدابیر کے ساتھ ساتھ مندرجہ ذیل امور پر امت کا طبقہٴ خواص توجہ دینے لگے اوراس طرح عوام و خواص دونوں اپنی ذمہ داری کو نبھانے لگے ، تب پھر انہیں عروج سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ان شاء اللہ!
ایک بات پھر دہراتا ہوں کہ پہلے مذکورہ روحانی اسباب پر توجہ دینے کی کوشش کریں اس کے بعد ظاہری مندرجہ ذیل اسباب اختیار کرنے کی مکمل سعی کریں۔
عصری اسلوب میں اسلامی عقائد کی تفہیم:
(۱)…عصری اسلوب میں نسل ِنو کو اسلامی عقائد سمجھانا وقت کی سب سے اہم ترین ضرورت ہے ۔ الحمدللہ بندے نے اس پر کام شروع کیا ہے ۔ قارئین سے دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ عصری اسلوب میں عقائد کو اس طرح لکھنے کی توفیق عطا فرمائے، جس سے مادیت زدہ اذہان اسلام کو اچھی طرح سمجھ سکے اور مطمئن ہوجائے۔
آپسی اختلاف کو دور کرنا:
(۲)…دشمنانِ اسلام اور اعدائے انسانیت سب سے زیادہ فائدہ مسلمانوں کے آپسی اختلافات سے اٹھارہے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ امت اتحاد واتفاق کی جانب جتنا ہوسکے جلد آجائے۔ بندہ اس سے قبل تفصیل کے ساتھ اس پر ” شاہراہ علم “ کے متعدد اداریوں میں لکھ چکا ہے۔
فکر ِآخرت کو زندہ کرنا:
(۳)…فکرِ آخرت کو مسلمانوں میں زندہ کرنے کی سخت ضرورت ہے ۔ اس لیے کہ دنیا سے بے پناہ محبت اور آخرت فراموشی ہی دراصل ہماری ایمانی کم زوری کی بنیادی وجہ ہے ۔ سب سے زیادہ قرآن ِکریم نے مناظرِ قیامت کو ذکر کیا ہے ، خاص طور پر نماز میں پڑھی جانے والی سورتوں میں اسے سمجھنے کی فکر کی جائے ۔ اس بار خصوصی شمارہ قصار مفصل کی تفسیر ہی پر لانا تھا ، مگر حالات ِحاضرہ کے بدتر ہونے کی وجہ سے اسے موٴخر کردیا ہے۔ ان شاء اللہ بہت جلدی یہ کام کیا جائے گا۔
نسل ِنو کی اسلامی تربیت:
(۴)…اسلامی تربیت :ایک اہم ترین کام ،جس سے امت غافل ہے ۔وہ اپنے بچوں کی اسلامی تربیت نہیں کررہے ہیں، جس کا بد ترین انجام فکری ارتدادکی صورت میں ہمارے معاشرے میں عام ہوچکا ہے ؛ بل کہ اب تو دینی ارتداد بھی شروع ہوچکا ہے ۔ ایک عرصہ سے ہندستان میں مسلمان لڑکیوں میں ارتداد کی وبا عام ہوچلی ہے ۔ ہمارے ایک دوست نے بڑی افسوس ناک بات بتائی ، جو اسی فیلڈ میں کام کرتے ہیں کہ ان لڑکیوں کہ مرتد ہونے میں اہم رول ان کی ماوٴں کا ہے ۔کتنے افسوس کا مقام ہے!! یہ تربیت کے فقدان کا نتیجہ ہے ۔ تفصیلی مضمون شمارے میں موجود ”عروج اسلام میں بچوں کی تربیت کا اہم کردار“اور”تربیت اولاد میں ماں کا کردار“ کے تحت مطالعہ فرمائیں۔
تعلیمی وتحقیقی میدان سے دوری:
(۵)…مسلمانوں میں تعلیمی وتحقیقی میدان سے دوری بھی زوال کے اسباب میں سے ہے۔ اوّلاً تو جدید سائنس اور ٹیکنا لوجی کے میدان میں ہمارا رول کم ہے اور جو ہیں وہ بھی صرف نام کے مسلمان ہیں ۔ عالمِ اسلام کے پاس تمام تر وسائل ترقی کے باوجود زوال ہے ،اس لیے کہ ہمارے حکم راں عیاشی کا شکار ہیں اور عوام غفلت کی شکار ۔
معاشرے میں علما کا کردار قابل ِذکر نہیں ؛جب تک حکم رانوں کی عیاشی اور عوام کی غفلت ختم نہیں ہوگی اور علما کا کردار بہتر نہ ہوگا۔علما خود آفاقی اور ساتھ ہی اسلامی متصلب سوچ کے حامل نہ ہوں گے ،تب تک عالم ِاسلام کی حالت نہیں بدلے گی ۔ اللہ خیر مقدر فرمائے۔
(۶)…مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آئیڈیل اور اپنے لیے اسوہ بنائیں :
آج کے مسلمان کا بڑ مسئلہ اپنے آئیڈیل کے انتخاب کا ہے ۔ اپنے سب سے بہتر آئیڈیل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر مسلمانوں نے فلم ایکٹر ز ، کھلاڑیوں اور اوباش قسم کے لوگوں کو اپنا آئیڈیل بنالیا ہے ؛ جب کہ قرآن کا اعلان ہے : ﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ﴾تمہارے لیے بہترین نمونہ تمہارے رسول ہیں۔ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سادہ سنتوں کو چھوڑ کر فیشن زدہ زندگی کو اختیار کرلیا ہے، جو اسراف و فضول خرچی اور تکلفات کا مجموعہ ہے ۔
(۷)…مسلمانوں کا عقیدہٴ ولا و براء سے ناواقف ہونا بھی تنزلی کا اہم سبب ہے۔
اس پر بھی تفصیلی مضمون”عقیدہٴ ولاوبرا سے روگردانی اور اس کو اچھی طرح جاننے کی ضرورت“ کے عنوان سے اسی شمارے میں آپ مطالعہ کر سکتے ہیں ؛یہاں صرف عصر ِحاضر میں اس عقیدے کو نہ جاننے سے ہونے والے نقصانات کو ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
عصر حاضر میں عقیدةالولاء وا لبراء کو نہ سمجھنے کے ہلاکت خیز نقصانات:
شیخ سلیمان بن صالح الخراشی اسلامی دنیا میں پائے جانے والے حالیہ ”جدت پسند“ رجحانات کی بابت لکھتے ہیں:
اندیشہ ہے کہ اِس خوفناک راستے پر چل کھڑے ہونے والے سبھی طبقے رفتہ رفتہ اپنے اسلامی ثوابت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ کوئی کفار کو خوش کرنے کے لیے، کوئی ”قدامت پسندوں“کی ضد میں آکر، کوئی ناموری کمانے کے لیے، کوئی شہرت اور کیمروں کی تاب نہ لاتے ہوئے اور کوئی کسی اور سبب سے۔ یہ لوگ اسلامی مقدسات کی اس دیوار کو، جو اِن کے راستے میں حائل اور اِن کی ھواء یعنی نفسانی خواہشات اور مادی غیر اسلامی افکار ونظریات کے لیے رکاوٹ ہے، ایک ایک اینٹ کرکے گراتے چلے جائیں گے۔
اِس راستے کا پہلا قدم بالعموم ”غیر اسلامی مذاہب کے ساتھ رواداری“ کے نام پر اٹھایا جاتا ہے۔ ”رواداری“ بس ایک ڈھیلے ڈھالے انداز میں؛ اسی کی دعوت اور اسی کی تاکید! پھر اگلے قدم پر کافروں اور مسلمانوں کو ”بھائی بھائی“ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ اس سے اگلے قدم پر” ولاء “اور” براء “ایسے اسلامی اصولوں میں تشکیک پیدا کر ادی جاتی ہے۔ اس سے اگلے قدم پر یہودونصاریٰ اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ”کافر“ ہونے میں تشکیک پیدا کرائی جاتی ہے۔ آخر میں سیدھا سیدھا ”انسانیت“ کے مذہب کا پرچار شروع ہوجاتا ہے؛ یہاں تک کہ کسی کسی کے ہاں اس کفر کا آخری اسٹیشن آ جاتا ہے، یعنی ”وحدتِ ادیان۔“… العیاذ باللہ!
ایک اور عالم شیخ عبد العزیز الجلیل لکھتے ہیں:
بعض اسلامی طبقوں کے ہاتھوں اس وقت ”ہیومن ازم“ کی جو ترویج عمل میں آرہی ہے اور جوکہ انسانوں کے مابین ”عقیدہ“ کے پیدا کردہ فاصلوں کو منہدم کردینے سے عبارت ہے… یہ گمراہ کن دعوت عالم اسلام میں مندرجہ ذیل اہداف کو یقینی بنانے کا ذریعہ بن رہی ہے۔
عقیدہٴ توحید کا تیاپانچہ۔ کیوں کہ توحید جس بنیاد پر کھڑی ہوتی ہے وہ ہے اہل ِتوحید کے ساتھ مل کر ایک جتھا اور قوت بننا (الولاء) اور اہل شرک سے براء ت اور بیزاری اختیار کرنا (البراء)۔ اس کا خودبخود یہ نتیجہ ہوگا کہ خدا کے ساتھ ”کفر“ ہوجانا کوئی بڑی بات نہ رہے۔ خدا کے ساتھ کفر اور شرک کرنے والا شخص طبیعت کو بہت زیادہ کھٹکنے والا نہ رہے؛ یہاں تک کہ ہوتے ہوتے ایک مسلم موحد اور ایک کافر ملحد آدمی کی نظر میں ایک برابر ہوجائیں۔
اِس ”ہیومن ازم“ کی بنیاد پر تمام مسلم ممالک کے تعلیمی نصابوں اور ابلاغی پالیسیوں پر ایک نظرثانی۔ ان نصابوں اور میڈیا پالیسیوں سے ہر اُس چیز کو نکال باہر کیا جائے گا ،جو کافر کے ساتھ مسلمان کی کسی تاریخی عداوت کو زندہ کرے یا خدا کے کلمہ کو بلند کرنے کے لیے کافر کے خلاف کسی مجاہدہ یا کسی کشمکش کا داعیہ بنے؛ بل کہ بہت سے مسلمان ملکوں میں ایسا بالفعل ہوچکا ہے اور اس عمل کے بہت سے مراحل سر کرلیے گئے ہیں۔فلاحول ولاقوة االا باللہ العلی العظیم ۔
پھر آہستہ آہستہ ”دین بدلنے“ کی آزادی کے مطالبے شروع ہوجائیں گے۔ ’آزادیِ فکر‘، ’آزادیِ رائے‘ خودبخود ”آزادیِ تبدیلیِ دین“ میں ڈھل جائے گی اور ”انسان“ کے اِس ”حق“ کے لیے اٹھنے والی آوازیں آسمان کو پہنچنے لگیں گی۔ صرف یہودی، نصرانی یا ہندو ہونے ہی کی نہیں ،ملحد اور دہریہ ہونے کی آزادی طلب کی جائے گی۔ طرح طرح سے دین کا ٹھٹھا اور مذاق اڑانے کی گنجائش نکالی جائے گی۔ مسلم نوجوان کے سامنے ایک طرف فحاشی، برہنہ پن اور شہوات کی آندھیاں نفسیات دانی کی مہارتوں کو کام میں لاتے ہوے اعلیٰ ترین ”سائنٹفک بنیادوں‘ ‘پر چلائی جائیں گی اور پھر اس باؤلاپن کو انتہا پر پہنچا کر لبرل اور سیکولر شبہات اٹھاتے ہوئے ہمارے نوجوانوں کو سیدھا سیدھا الحاد کی دعوت دی جائے گی۔ چناں چہ ایک طرف یہ نسل الحاد میں لت پت ہوگی تو دوسری طرف ننگے پن کی غلاظتوں میں۔
”آزادی“ اور ”انسان پرستی“ کی انہی آندھیوں کو اٹھانے کے دوران اُن ٹھیٹ فکر جماعتوں کو گردن زدنی بھی بنادیا جائے گا جو ”اصولِ سلف“ کی بات کریں، جو ”توحید“ کی بنیاد پر ”ولاء اور براء“ کی بات کریں۔ ”میڈیا مہارتوں“ کو کام میں لاتے ہوئے ان راسخ العقیدہ لوگوں کے ایسے ایسے القاب نشر کیے جائیں گے، ان کے ایسے ایسے خاکے بنائے جائیں گے کہ یہ ساری ”انسانیت“ کے دشمن نظر آئیں۔ دوسری طرف ”انسانیت کے ان دشمنوں“ کو مارنے کے لیے جو بارود بردار منصوبے عمل میں ہوں گے ان کے لیے ہر طرف سے تالیاں بجوائی جارہی ہوں گی۔غرض اس ”اتباعِ سلف“ کے راستے کے خلاف اندھا اعلانِ جنگ ہوگا (خواہ وہ کتنے ہی پرامن کیوں نہ ہوں)، کسی کو اس سے ڈرا کر ہٹایا جائے تو کسی کو ورغلا کر، کسی کو جیلوں میں ٹھونس کر اور کسی کو واقعتاً راستے سے ہٹا کر۔
(کرونا کے اس ہلاکت خیز دور میں یہ سب آج کل ہم ہندستان کی گودی میڈیا کے ذریعہ دیکھ رہے ہیں؛ کیسے جماعت کے خلاف فضا بناکر اسلام اور مسلمانوں پر فرقہ پرستانہ حملے ہورہے ہیں ؛مگر ہم مسلمان ہیں ہمیں گھبرانے کی بالکل ضرورت نہیں ۔ عزت اور ذلت کا حقیقی مالک اللہ ہے ، لہٰذا اسی کی طرف رجوع کریں ان شاء اللہ حالات اللہ تعالیٰ ضرور بالضرور بدل دیں گے۔)
غفلت کو دور کرنا ضروری:
(۸)… مسلمان ایمان کی کم زوری کی وجہ سے خوف وہراس ، مایوسی ، ناامیدی اور غفلت وسستی کا شکار ہے۔ اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ ہم ایمانی تقاضوں کو پورا کریں۔ کتاب و سنت کی طرف رجوع کریں اور اللہ سے رحمت کی امید رکھیں۔ نیز یقین رکھیں کہ ذلت و عزت اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے …غفلت سے باز آجائیں … سستی کو ختم کریں ؛ پھر دیکھیں اللہ کی مدد کے کرشمے ۔ ہمیں تو اللہ تعالیٰ کا شکر ماننا چاہیے کہ اس نے ہمیں ایمان جیسی عظیم نعمت سے نوازا اور کفر وشرک سے دور رکھا ہے الحمدللہ !
امت کے کاموں کی ذمے داری صاحب ِاہلیت کو دینے کی ضرورت:
(۹)…ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ” اذا وسد الامر الی غیر اہلہ فانتظر الساعة “ جب امت کے اجتماعی کام نااہلوں کے سپرد کردیے جائیں گے، تو ایسے حالات میں تم قیامت کا انتظار کرو۔
آج ہم مالداری ، رشتہ داری اور تعلقات کی بنیادپر لوگوں کو ذمہ داریاں سپرد کردیتے ہیں ، جب کہ وہ اہل نہیں ہوتے ، جس سے امت کو بہت نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
لہٰذا ہرکام کا ذمہ دار اس کو بنانا چاہیے جو ہر اعتبار سے اس کا اہل ہو ۔ عالمِ اسلام میں حکم رانوں کا یہی حال ہے ۔ایسے نا اہل حکم ران ہیں، جن میں نہ دین ہے نہ علم ، نہ ہی قیادت کی صلاحیت ۔ پھر وہ دشمنوں کے اشاروں پر ناچتے ہیں اور امت کا بڑا نقصان کرتے ہیں۔
تعلیم کو توحید کا رنگ دینے کی سخت ضرورت:
(۱۰)…تعلیمی میدان میں ایک بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ وہ یہ کہ مادیت کے اصول پر مبنی جو نصاب ِتعلیم ونظام ِتعلیم پوری دنیا میں رائج ہے، عالم اسلام کو اس سے ہٹ کر سنجیدگی کے ساتھ ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک توحیدی رنگ میں رنگا ہوا نظام ِتعلیم اور نصاب ِتعلیم تیار کرکے عملی طور پر اسے رائج کرنا چاہیے۔ انفرادی طور پر مفکرین نے اس کی بہت کوششیں کی ہیں ، مگر کسی مضبوط اسلامی حکومت کا اس کی پشت پناہی نہ ملنے سے وہ کام یاب نہیں ہوسکے۔ الحمدللہ اب امت میں ایسے علما بھی کافی پائے جاتے ہیں، جو دینی و عصری دونوں علوم میں رسوخ رکھتے ہیں ، انہیں ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے اور اس کام کو پہلی فرصت میں انجام دیا جانا چاہیے۔اس سے عالم ِاسلام کو بھی دینی اعتبار سے فائدہ ہوگا اور دنیا کو بھی؛ کیوں کہ اسلامی تعلیمات کے اصول اتنے پاکیزہ ہیں کہ نقصان کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ اس کو موجودہ وبا کے دور ہی میں محسوس کرسکتے ہیں ، بل کہ سائنس دانوں نے بھی اس کا اعتراف کیا مثلاً ” کورونا “ نے بہت ساری اسلامی تعلیمات کو اختیار کرنے کی تلقین کی ہے ۔
(۱لف)- ایسے جانوروں کو کھانا جو انسانی صحت کے لیے مضر ہیں ، اسلام نے انہیں حرام قرار دیا ہے ۔ مثلاً: چمگاڈر، کاکروچ اور خنزیر وغیرہ؛اسی لیے کہا جارہا ہے کہ اب حلال کا مطالبہ اور بڑھ جائے گا۔
(ب)- اسلامی طریقہٴ ذبح مفید ہے ، اس سے نقصان دہ عنصر خون صحیح طریقہ سے بہہ جاتا ہے۔
(ج)- کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونا ، دنیا میں لاکھوں لوگ صرف اس سے مرجاتے ہیں کہ وہ کھانے سے پہلے ہاتھ نہیں دھوتے۔اسی لیے Hand Wash day منایا جاتا ہے۔
(د)- تھوڑی تھوڑی دیر میں وضو کرنا بھی صحت کے لیے مفید ہے ، جو جراثیم فضا سے بدن پر چمٹتے رہتے ہیں ، وہ وضو کرنے سے ختم ہوجاتے ہیں۔
(ھ)- استنجا میں پانی اور ٹیشو دونوں کا استعمال مسنون ہے ۔آج سائنس اس کا اعتراف کررہی ہے۔
(و)- جہاں متعدی بیماری ہو وہاں سے آنے جانے کو بندکرنا ، جس کو آج Lock Downاور الحجر الصحیQuarantine کہتے ہیں۔ نبی ٴکریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تعلیم دی اور دورفاروقی میں صحابہ نے اس پر عمل کیا۔
(ز)- متعدی مرض کے شکار سے الگ رہنا یعنی ایک میٹر کی دوری بنائے رکھنا بھی نبی ٴکریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں سے ہے۔ دو ذراع کا فاصلہ بنائے رکھنے کا حکم ہے یعنی ایک میٹر تقریباً۔
(ح)- متعدی مرض کے شکار شخص کو الگ جگہ رکھنا یہ بھی تعلیمات نبویہ میں سے ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیمار اونٹ کو صحیح سالم اونٹ سے دور رکھنے کو کہا، جس کوآپ آج آئی سولیشن کہتے ہیں۔
(ط)- متعدی مرض کے شکار سے ملاقات سے بازر ہنا؛ جیسا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے جذام کے مریض سے دوری بنائے رکھی اور دور ہی سے بیعت کی اور کہا جذام زدہ سے شیر کی طرح بھاگو ۔ آج بھی یہی کہا جارہا ہے کہ ملاقات وغیرہ سے اجتناب کیا جائے ۔
(ی)- ” کورونا “ وبا جو لمس یعنی چھونے سے ایک دوسرے کو منتقل ہوتی ہے۔ قرآن سامری کے واقعہ میں اس کی طرف اشارہ کرتاہے:
” فاذہب فإن لک فی الحیاة ان تقول لا مساس“ ۔
سامری کو جو چھوتا تھا وہ بھی بیمار ہوجاتا تھا۔ گویا بیکٹیریا کے ذریعہ مرض منتقل ہوتا تھا ۔
اب اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلامی سائنس انسانی معاشرے کے لیے کس قدر مفید ہے ۔ ایسی بے شمار تعلیمات ہیں ، جن کے ذریعہ معاشرہ کوروحانی وجسمانی اور انفرادی واجتماعی بیماریوں سے بچا یاجاسکتا ہے ۔ موجودہ سائنس مادہ پرستی اور سرمایہ دارانہ فکر کی حامل ہے؛ جہاں صرف اور صرف انسان کے مادی فوائد کو پیش ِنظر رکھا جاتا ہے ؛جب کہ اسلام میں روحانی وظاہری تمام پہلووٴں کا جائزہ لے کر کسی بھی چیز کو جائز اور ناجائز قرار دیا گیاہے۔
علما ، سائنس داں اور وزرا کی عالمی اتحاد کی ضرورت:
(۱۱)…ایک عالمی اتحاد متحرک مسلم فام کی سخت ضرورت ہے ، جس میں مسلمانوں کے ہر طبقہ کے چنندہ شخصیات ہوں اور اجتماعی طور پر مسلمانوں کے مسائل پر سنجیدگی کے ساتھ غور وخوض کریں ، جو کسی حکومت کے پریشر میں نہ ہوں۔ اس لیے کہ ایسے بہت سارے فام ہیں ، مگر وہ صرف نام کے ہیں، کسی کام کے نہیں ۔خاص طور پر مسلمانوں کا فارم مندرجہ ذیل طبقات کے ماہرین پر مشتمل ہونا چاہیے:
۱- راسخین فی العلم؛ چنندہ علما ئے دین کا انتخاب بہت سوچ سمجھ کر کیا جائے ، جو علم میں رسوخ رکھتے ہوں، مخلص ہوں، تجربہ کار ہوں ، بے باک ہوں، دور اندیشی کے حامل ہوں ، دنیا کا چکر کاٹے ہوئے ہوں، اعتدال کے حامل ہوں، نہ بہت سخت اور نہ نرم ۔
۲- مسلمان سائنس داں جو دینی تعلیم سے بھی واقف ہوں ، جن کی فکر اسلامی ہو، مخلص ہو ں امت کے لیے فکر مند اور اس کا درد رکھتے ہوں، تجربہ کار ہوں ، اپنے فن کے ماہر ہوں ، ریسرچ کا مزاج رکھتے ہوں ، ان کو اسلامی سائنس اور مسلمانوں کی سائنسی خدمات سے واقفیت ہویا واقف کیا جا سکے۔سائنس کے ہرفیلڈ سے منتخب ہوں۔ مثلاً: علمِ طب ، علمِ ادویہ، علم ِکیمیا ، فزکس ، بیالوجی ، انجینئرنگ اورقانون وغیرہ۔
۳- مسلمان سیاست داں ؛جو اسلامی سیاست سے واقف ہوں ۔ ان کی فکر اسلامی ہو ، ماڈرن ڈیموکریسی سے واقف ہوں ، تجربہ کار ہوں ، کسی کے دباوٴ میں نہ آتے ہوں، مطالعہ کا ذوق رکھتے ہوں ، امت کے درد کے حامل ہوں ، مادی اور مغربی فکر سے متاثر نہ ہوں اور دین دار ہوں ۔
غرض یہ کہ ایک فعال اور متحرک ادارے کے قیام کی ضرورت ہے، جو بنیادی طور پر ہر طبقہ سے تعلق رکھتا ہو اور دین دار ہو اور عالم ِاسلام کے مسائل کو کتاب وسنت کی روشنی میں بے لوث ہو کر حل کرے ۔ کسی کے بھی دباوٴ میں نہ آئے ؛ اس لیے کہ اسلام کامل و مکمل دین ہے ، جو زندگی کے ہر شعبہ میں انسانی معاشرے کی بالکل صحیح رہ نمائی کرتا ہے اور عالم اسلام کو اپنے پاوٴں پر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کھڑا کرنے کی مکمل قدرت رکھتا ہے ۔
پہلی بارعالمِ اسلام کی تنزلی کے سوسال:
حضرت حکیم الاسلام قاری طیب صاحب رحمہ اللہ نے فرمایا : سائنس جتنا آگے بڑھے گا ، اسلام کے قریب ہوتا چلا جائے گا۔ اور واقعتا آج صورت ِحال ایسی ہی ہے ، مگر ہم غفلت کے شکار ہیں ۔
۱۳۴۲ھ سے اب ہم اپنی پستی اور تنزلی کے آئندہ سال سوسال پورے کرنے جارہے ہیں ۔
اسلامی تاریخ میں کبھی ایسی بد ترین اور اتنی طویل تنزلی اور پستی کا امت مسلمہ شکار نہیں ہوئی ۔ جب تک اجتماعی طور پر دینی شعور کے ساتھ کوشش نہیں کی جائے گی ، نہ دنیا مشکلات سے نکل سکتی ہے اور نہ انسانیت ہوس پرستوں سے خلاصی حاصل کرسکتی ہے۔
امت کیا کرے ؟
غرض یہ کہ(۱) …امت کتاب سنت سے رجوع کرے ۔(۲)…علمی میدان میں اپنا لوہا منوائے ۔ (۳) …جرأت اور ہمت کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کرے ۔(۴)… غفلت و سستی کو ختم کرے۔ (۵)…نسل نو کی صحیح تربیت کی فکر کرے ۔(۶)… اخلاق فاضلہ کو اختیار کرے۔(۷)… سیرت رسول ، سیرت صحابہ وسلف و صالحین کا اور اسلامی تاریخ کا غائرانہ مطالعہ کرے ۔(۸)… دعا واذکار مسنونہ کا اہتمام کرے۔(۹)… گناہوں سے سچی پکی توبہ کرے۔(۱۰)… جدید تہذیب سے چھٹکارا حاصل کرے ۔ (۱۱)…اخلاص وللہیت کے ساتھ اعلائے کلمة اللہ کے لیے تیار ہوجائے۔(۱۲)… اپنے مقصد تخلیق عبادت کو زندگی میں جگہ دے،وسیع تر مفہوم کے ساتھ اسے اختیار کریں ۔(۱۳)… دنیا کی محبت کے دلدل سے نکل کر آخرت اور اللہ کی رضا کو ہمیشہ ہر کام میں پیش ِنظر رکھنے لگیں تو کامل یقین ہے کہ تنزلی ،پستی اور بے وقعتی کے یہ بادل ضرور چھٹتے جائیں گے اور یہ دنیا امن کا سراپا مجسم بن جائے گی۔ ان شاء اللہ !
اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق ومغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
اللہ ہم سب کو امت کی نشاةِ ثانیہ کے لیے قبول فرمائے … اخلاص کے ساتھ امت میں بیداری مہم پر سوچنے اور عمل پیرا ہونے کی توفیق نصیب فرمائے…قدم قدم پر اللہ ہماری دست گیری فرمائے … دشمنوں کی سازش سے ہماری حفاظت فرمائے اور اعلائے کلمة اللہ کی خاطر ہم سب کو متحد ہونے کی توفیق سے نوازے … ہم مسلمانوں میں دینی شعور بیدار فرمائے … تعلیم ومطالعہ ، تحقیق ، ریسرچ کا ذوق اللہ تعالیٰ ہمیں نصیب فرمائے … کتاب و سنت سے وابستگی عطا فرمائے ۔ جرأت و ہمت ، حکمت اور دور اندیشی کے ساتھ امت کو اپنی تمام ترصلاحیت بروئے کار لانے کی توفیق سے نوازے … اپنی رضا کی خاطر اللہ ہمیں ہر طرح کی قربانی کے لیے قبول فرمائے اور ”رایة الاسلام“ کو سربلندی نصیب فرمائے ۔ آمین یارب العالمین ۔
میں آخر میں تمام اہل ِقلم اساتذہٴ جامعہ کا ممنون ہوں ،جنہوں نے سلگتے موضوعات پر قلم اٹھایا اور مفتی ہلال الدین اور مولانا محمد سبحان کا بھی جوکہ بندہ کی مصروفیت کے باوجود پیچھے لگ کر اداریہ لکھوانے کی کوشش کرتے رہے اور اس طرح یہ اداریہ تحریر ہوسکا۔ فجزا ہم اللہ خیراً فی الدارین وتقبل اللہ عنا جمیعا۔